ممکنہ تیسری عالمی جنگ
قسط 8
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی ایک پیش خبری کوبیان کرتے ہوئے فرمایا:پھر حضرت مسیح موعودؑ نے ایک تیسری جنگ کی بھی خبر دی ہے جو پہلی دونوں جنگوں سے زیادہ تباہ کن ہوگی دونوں مخالف گروہ ایسے اچانک طور پر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے کہ ہر شخص دم بخود رہ جائے گا آسمان سے موت اور تباہی کی بارش ہوگی اور خوفناک شعلے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے نئی تہذیب کا قصر عظیم زمین پر آرہے گادونوں متحارب گروہ یعنی روس اور اس کے ساتھی اور امریکہ اور اس کے دوست ہر دو تباہ ہو جائیں گے ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی ان کی تہذیت اور ثقافت برباد اور ان کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔بچ رہنے والے حیرت اور استعجاب سے دم بخود اور ششدر رہ جائیں گے۔روس کے باشندے نسبتاََ جلد اس تباہی سے نجات پائیں گے اور بڑی وضاحت سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اس ملک کی آبادی پھر جلد ہی بڑھ جائے گی اور وہ اپنے خالق کی طرف رجوع کریں گے اور ان میں کثرت سے اسلام پھیلے گا اور وہ قوم جو زمین سے خدا کا نام اور آسمان سے اس کا وجود مٹانے کی شیخیاں بھگار رہی ہے وہی قوم اپنی گمراہی کو جان لے گی اور حلقہ بگوش اسلام ہو کر اللہ تعالی کی توحید پر پختگی سے قائم ہو جائے گی۔شاید آپ اسے ایک افسانہ سمجھیں لیکن وہ جو اس تیسری عالمگیر تباہی سے بچ نکلیں گے اور زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں اور اس قادر و توانا کی باتیں ہمیشہ پوری ہی ہوتی ہیں کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔
(خطبات ناصر جلد اول صفحہ932 )
اسی ضمن میں حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓنے جو سورۃ الکہف کی ایک آیت کی تفسیر کے ذیل میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ یہ سب پیشگوئیاں اس دن پوری ہوں گی جس دن بڑے بڑے لوگ جنگوں کے لئے نکل کھڑے ہوں گے اور تو ساری زمین کو یعنی سب اہلِ زمین کو دیکھے گا کہ جنگ کےلئے ایک دوسرے کے مقابل پر کھڑے ہو جائیں گے اور ایسی جنگ ہو گی کہ گویا ان میں سے ایک بھی نہ بچے گا۔ اس واقعہ کی طرف انجیل میں بھی اشارہ ہے۔(متی باب 24 آیت7) حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں کہ آ خری زمانہ میں ہر قوم قوم پر اور بادشاہت بادشاہت پر چڑھائی کرے گی۔
(سورۃ الکہف آیت 43تفسیر کبیر جلد 4صفحہ 457)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ٹوکیو میں اپنے خطاب میں فرمایا:
اردو مفہوم:آج حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے الفاظ بالکل سچ ثابت ہوگئے ہیں۔ اگرچہ ایک تیسری عالمی جنگ کا اعلان باقاعدہ طور پر نہیں کیا گیامگر ایک عالمی جنگ وقوع پذیر ہو چکی ہے۔ دنیا بھر میں مرد عورتیں اور بچے قتل کئے جا رہے ہیں، اذیتیں دی جا رہی ہیں اور کلیجہ چیر دینے والے مظالم کئے جا رہے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے جماعت احمدیہ مسلمہ نے ہمیشہ ہر قسم کے ظلم و جبرو استبداد کے خلاف آواز بلند کی ہے قطع نظر اس کے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہو۔
(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 193)
ذیل میں ڈاکٹر اسرا احمدصاحب کی ایک تقریر جو یو ٹیوب پر موجود ہے اسی موضوع پرہے، کہا:
وہ نظام عدلِ اجتماعی جس میں حریّت ہو اور عام آدمی بھی خلیفہٴ وقت کو کھڑے ہو کر سوال کر سکتا تھا کہ آپ کا کرتہ ایک چادر سے کیسے بن گیا؟ اور جب حضرت عمرؓ نے حق مہر سے متعلق قانون بنایا تو ایک بڑھیا نے آ کر حضرت عمرؓ سے کہا کہ خدا تو کہتا ہے کہ اگر تم پہاڑ کے برابر بھی سونا بیوی کو دے چکے ہو تو واپس مت لو، عُمر تمہیں کیا حق ہے کہ ہمارے مہر پر پابندی لگاؤ؟ تو حضرت عمرؓ نے قانون واپس لے لیا اور فرمایا آج ایک بڑھیا نے عمر کو دین سکھایا۔ حضرت سعد بن وقاص جو فاتح ایران تھے ان کے بارے میں اطلاع ملی کہ گھر کے آگے ڈیوڑھی بنا لی اور دربان کھڑا کردیا ہے تو حضرت عمرؓ نے حضرت بلا لؓ کو رقعہ دےکر بھیجا اور حکم دیا کہ جاتے ہی پہلے ڈیوڑھی کو آگ لگا دینا اور پھر میرا رقعہ دینا جس میں لکھا تھا کہ اے سعد لوگوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنم دیا تھا تم نے ان کو اپنا غلام کب سے بنا لیا؟ اور اپنا یہ حال تھا کہ بیت المقدس کی کنجیاں لینے جا رہے ہیں، آجکل کے مکالمہ کے مطابق آفیشل وزٹ ہے، مگر ایک اونٹنی اور ایک غلام ہے سات سو (700) میل کا سفر ہے اور باری باری سوار ہو کر طے کیا۔ اس نظامِ عدلِ اجتماعی کی دنیا آج منتظر ہے اور نوع انسانی نے جتنے تجربے کر لئے جتنی چھلانگیں لگا لِیں، ملوکیت ختم کی تو آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا جمہوری نظام آیا، نا م نہاد مگر وہ سرمایہ دارانہ نظام بن کر پہلے سے بڑی لعنت بن گئی۔ پہلے جاگیر دار مسلط تھا اب کارخانہ دار مسلط ہو گیا۔ اس سے نکلنے کے لئے کامونزم کی طرف گئے ایک پارٹی ڈکٹیٹر بن کر بیٹھ گئی۔ یعنی ایک غلامی سے نجات پاتاہے دوسری میں پھنس جاتا ہے کیوں کہ وہ نظام عدلِ اجتماعی جو محمد عربیﷺ کو دے کر بھیجا گیا تھا اس کے غلام سوئے ہوئے ہیں۔اُن کو اندازہ ہی نہیں کہ نسخہ تو ہمارے پاس تھا ہم نے عمل کرنا تھا اور دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا پاکستان کو بنایا ہی اسی لئے گیا تھا۔۔۔ جب آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ یہاں ہندوستان سے فوجیں چلیں گی تو کچھ عجب نہیں کہ یہ کیسے ہوگا لیکن ہو گا، بہر حال اس کا فیصلہ ہے۔ اگر اب ہم جاگ جائیں قومِ یونسؑ کی طرح توبہ کر لیں تو بغیر عذاب کے کوڑے کے رحمتِ خداوندی ہم پر سایہ کرے گی۔ اگر ہم نہ جاگے تو وہ عذاب کا کوڑا آئے گا، میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ قریب ہے یا بعید، لیکن یہ کہ اس کے بعد بھی یہیں سے بول بالا ہوگا۔ اگر ہمارے ذریعہ سے نہیں تو ان کے ذریعہ جو ہمیں شکست دےکر اسلام قبول کرلیں گے لیکن کیوں نہ پہلے ہی راستہ پر چلنے کی کوشش کریں۔ سورۃ محمدﷺ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم پیٹھ دکھاؤ گے تو اس مشن کو جو تمہارے حوالے کیا ہے تمہیں ہٹائیں گے اور کسی اور کو لے آئیں گے۔ اب آپ نوٹ کریں کہ یہ بات تیرھویں صدی میں ہو چکی ہے جب 1258ء میں جب سقوط بغداد ہوا ہے عربوں کے ہاتھ سے عالم اسلام کی قیادت چھین لی گئی اور ترکان تیموری ہندوستان میں، ترکان صفوی ایران میں، ترکان سلجوقی مشرق وسطیٰ میں اور ترکان عثمانی کی حکومت ایشیا سے لےکر یورپ کے ایک بہت بڑے علاقہ پر قائم ہوگئی تھی۔ اس صدی میں عجیب عجیب معجزے اور عجوبے ہوئے ہیں۔عظیم سلطنت عثمانیہ جو تین براعظموں پر محیط تھی اس کا نام و نشان ختم GREAT USSR کا نام و نشان ختم اب بس ایک ملک کی حیثیت سے روس باقی ہے۔
20۔تیسری جنگ عظیم کے بعد غلبۂ اسلام کا دور
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’دیکھو! وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی مقبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اورمغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گااور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہوگا یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ182)
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’ یورپین اقوام کو جنگ کا عذاب گھیر لے گا اور گویا جنگ ان کے گھروں کے گرد خیمے لگا لے گی اور جس قدر وہ امن کے لئے کوشش کریں گے اور امن امن کہہ کے چلائیں گے۔ اسی قدر پگھلتا ہوا لوہا اور تانبا ان کے مونہوں پر ڈالا جائے گا۔ یعنی امن کی پکار تو ہو گی لیکن نتیجہ توپوں کے گولے اور بم ہی نکلے گا اور ان کے ملک رہائش کے قابل نہ رہیں گے۔ بلکہ برا ٹھکانہ بن جائیں گے۔۔۔ یہ قومیں امن کی خاطر دوسری قوموں کے ساتھ دوستیاں کریں گی لیکن ان دوستیوں کا نتیجہ جنگ ہی نکلے گا نہ کہ صلح۔‘‘
(تفسیرکبیر جلد 4صفحہ 445)
پھر سورۃ التطفیف کی آیت 12کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’ جب حضرت مسیحؑ نے اپنی قوم کے لئے مائدہ مانگا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں دے تو دوں گا مگر اس نعمت کا انکار نہایت خطرناک نتائج پیدا کرنے والا ہوگا۔ چونکہ تم نےیہ دعا کی ہے کہ تمہاری قوم کو دنیا میں ترقیات نصیب ہوں اس لئے میں انہیں ترقیات تو دوں گا اور بہت بڑی ترقیات دوں گا لیکن اگر میری نعمتوں کا انہوں نے انکار کیا، دین سے نفرت کی،خداتعالیٰ سے بُعد اختیار کیااور اللہ تعالیٰ کے احکام سے منہ موڑلیا تو فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَمیں عیسائی قوم کو وہ عذاب دوں گا۔ جو آج تک کبھی کسی قوم کو نہیں دیا گیا۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 306)
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’یہاں تین دفعہ کلّا کفر کے ذکر کے بعد آتا ہے اور ایک دفعہ کلّا مومنوں کے ذکر سے پہلے ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ معلوم ہوتاہے کہ تین جھٹکے عیسائیت کی تباہی کے لئے لگیں گے اور چوتھا جھٹکا اسلام کے قیام کا موجب ہو گا۔بظاہر جہاں تک عقل کام دیتی ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم جو 1918ء میں ختم ہوئی پہلا جھٹکا تھا۔ جو عیسائیت کولگا اب دوسری جنگ جو شروع ہے یہ دوسرا جھٹکا ہے۔ اس کے بعدایک تیسری جنگ عظیم ہو گی جو مغرب کی تباہی کے لئے تیسرا اور آخری جھٹکا ہو گا۔اس کے بعد ایک چوتھا جھٹکا لگے گا جس کے بعد اسلام اپنے عروج کو پہنچ جائے گا اور مغربی اقوام بالکل ذلیل ہو جائیں گی کیونکہ چوتھے کلّا کے بعدہی یہ ذکر آتا ہے کہ اِنَّہُمۡ عَنۡ رَّبِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ فرماتا ہے یہ لوگ اس دن اپنے رب سے محجوب ہوں گے۔ اس آیت میں رب کا لفظ لا کر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ربوبیت کا رشتہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جیسے ماں اور بچہ میں ہوتا ہے۔بچے کو ماں پالتی ہے دودھ پلاتی ہے اس کی غور وپرداخت کرتی ہے۔
(تفسیر کبیر جلد 8صفحہ 307)
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے فرمایا:
’’جس طرح گزشتہ جنگ میں جرمنی تباہ ہوا، اٹلی برباد ہوا، فرانس ختم ہوا۔ اسی طرح اب جنگ ہوئی تو روس اور امریکہ ختم ہو جا ئیں گے۔‘‘
( تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 347)
غلبہ اسلام کی پیشگوئی
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:
‘‘تیسری عالمگیر تباہی کی انتہا اسلام کے عالمگیر غلبہ اور اقتدار کی ابتداء ہو گی اور اس کے بعدبڑی سرعت کے ساتھ اسلام ساری دنیا میں پھیلنا شروع ہو گا اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کرلیں گے اور یہ جان لیں گے کہ صرف اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے اور یہ کہ انسان کی نجات صرف محمد رسول اللہﷺ کے پیغام کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے۔
(خطبات ناصر جلد اول صفحہ 933 )
ڈاکٹر اسرار احمد بیان کرتے ہیں:(بحوالہ یو ٹیوب)
حضورﷺ کی آخری زمانہ کی بابت یہ نوید ہے کہ اس زمانہ میں ثُمّ تکون خلافۃ علیٰ منہاج النبوۃ یعنی ایک دور آئے گا جب خلافت منہاج نبوت کے مقام پر قائم ہوجائے گی اور یہ نوید حضرت محمد رسول اللہﷺ کی طرف سے ہے جن کے بارے میں یاد رکھیں کہ و ھو صادق مصدوق وہ سچے ہیں اُن کی صداقت کا اللہ گواہ ہے اس لئے وہ دور آکر رہے گا اس میں کسی بندہ مومن کے لئے کسی بھی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ابھی اگلی حدیث سنیئے اب جب یہ دور آئے گا تو عالمی ہوگا نیوورلڈآرڈر نہیں ہو گا جسٹ ورلڈ آرڈرہو گا اور گلوبل ہو گا۔ دو احادیث کا تذکرہ کردوں مسلم شریف میں حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے، ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے میرے لئے پوری زمین کو لپیٹ دیا یہاں تک کہ میں نے اس کے سارے مشرق دیکھ لئے اور سارے مغرب دیکھ لئے اور سن لو مجھ سے کہ میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو کر رہے گی جو مجھے زمین کو لپیٹ کر دکھائے گئے۔
دوسری حدیث سنیئے یہ مسلم احمد بن حنبل میں حضرت مفتاد بن اسود سے روایت ہے ترجمہ:روئے زمین پر نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر رہے گا نہ کوئی اونٹ کے بالوں کے بنے کمبلوں کا خیمہ رہے گا کہ جس میں اللہ تعالیٰ کلمہء اسلام کو داخل نہ کر دے اور یہ داخلہ دو طریق سے ہو گا یا کسی صاحب عزت کے اعزاز کے ساتھ یا کسی مغلوب کی مغلوبیت کے ساتھ یعنی یا تو اللہ تعالیٰ ان کا اعزاز فرمائے گا اور وہ کلمہ پڑھ کر اسلام کے خود قائل ہو جائیں گے یا پھر وہ اسلام قبول نہیں کرے گا تو چھوٹے ہو کر رہنا پڑے گا جزیہ دینا ہوگا اور اسلام کی بالادستی قبول کرنی ہو گی۔
اسی طر ح اسلام کے احیاء کے لئے کچھ نوید بھی موجود ہیں۔ حدیث نبویہ میں آنحضرتﷺ نے فرمایا مجھے ہند کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ پھر ایک اور حدیث ہے جس میں فرمایا کہ مشرق سے فوجیں نکلیں گی جو مہدیؑ کی حکومت کو قائم کریں گی اور دوسری آسمانی مدد ہو گی جو نزولِ عیسیٰ ابنِ مریم سے ملے گی۔
اور اس کے بعد یہود کا قلع قمع ہو گا اور ان کا یہ جو گریٹر اسرائیل کا خواب ہے یہ چکنا چور ہو جائے گا اورگریٹر گریوویارڈ ان کے لئے ثابت ہوگا۔ اس کے بارے میں دو احادیث موجود ہیں ایک ترمذی شریف میں خراسان(اس زمانہ میں خراسان کا علاقہ وہ آجکل کا افغانستان کا علاقہ ہے) کے جہاد کے حوالہ سے ہے۔ ایک اور بڑی ضروری بات شائد آپ نے کبھی نوٹ کی ہو کہ اسلام کے پہلے ایک ہزار سال تک سارے مجدد عالمِ عرب میں پیدا ہوتے رہے۔ جیسے ہی دوسرا ہزار سال (الف ثانی)شروع ہوا تو الف ثانی کا مجدد شیخ احمد سر ہندی، بارہویں صدی کا مجدد امام الہندشاہ ولی اللہ دہلوی اور تیرہویں صدی کے مجدد سید احمد بریلوی۔۔۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے کام یہاں کیوں ہوئے؟ اسی طرح بیشمار اسلامی ملک آزاد ہوئے کوئی قومیت کی بناء پر اور کوئی کسی عصبیت پر کوئی کسی عصبیت پر۔۔۔ ایک پاکستان ہے جو مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن بنانے کے لئے قائم ہوا، پاکستان اس لئے نہیں بنایا تھا کہ ہمارے پاس ٹاٹا اور برلا نہیں تھے یا یہ کہ مسجدیں تعمیر ہوں وہ تو بہت عالی شان مساجد امریکہ میں بن رہی ہیں۔۔۔ سارا ماضی سامنے رکھیئے اور حضورﷺ کی پیش گوئیوں کا مستقبل سامنے رکھیئے دونوں سے ثابت ہوتا ہے اس خطۂ ارضی سے کچھ ہونا ضرور ہے۔
محترم ڈاکٹر اسراراحمد صاحب نے اپنی زندگی کا زیادہ عرصہ تادمِ واپسی اسی تبلیغ میں گزاراکہ اسلام اور مسلمانوں کی بقا خلافت کے سایہ میں ہی ممکن ہے، مگر افسوس کہ خود اس نعمت کو دیکھ کر بھی پہچان نہ سکے۔
21۔ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کے دو ہنستے بستے شہروں پر ایٹم بم گرائے اور اس کی تفصیل بیان ہو چکی ہے۔ خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسی صلاحیتیں دی ہوئی ہیں کہ وہ دنیا کے گرم ترین علاقوں میں بھی رہائش پذیر ہے اور دنیا کے منجمد اور یخ بستہ علاقوں میں بھی موجود ہے۔ متذکرہ بالا تباہی کے باوجود جاپان کی حکومت اور عوام نے ساری توجہ اپنی بحالی اور فزوں تر ترقی پر اس طرح سے دی کہ 2021ء میں ایک ہندی زبان میں جاری شدہ ویڈیو میں جاپان کی بابت کہا گیا ہے وہ اس وقت 2021ء میں نہیں بلکہ 2050ء میں رہ رہا ہے یعنی اس نے اتنی ترقی کی ہے دیگر اقوام کے مقابل پر اور اس کے لئے مثال کے طور پر مندرجہ ذیل آٹھ مستعمل سہولتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
- جاپا ن نے ایسا لباس تیار کر لیا ہے جوآپ کی خواہش پر اپنا رنگ تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کو سمارٹ ڈریس کہا گیا ہے۔
- میٹنگ روم یا آفس کی کرسیاں آپ کے تالی بجانے پر خود واپس اپنی جگہ پر میز کے ساتھ آلگتی ہیں۔ اس کو سمارٹ انٹیل جنس کہا گیا ہے۔ مانو ریل ٹریک۔ یہ ایک ایسا ریل ٹریک ہے جس پر ایک سے زیادہ گاڑیاں گزر سکتی ہیں اور وہ ضرورت کے مطابق ریل ٹریک تبدیل کرتا رہتا ہے۔
- ایسی ریل جو ٹریک کے نیچے چلتی ہے جیسے تفریحی مقامات پر ہنڈولے چلتے ہیں۔
- حادثات سے بچنے کے لئے ریل کے دروازے خودکار سسٹم کے تحت کھلتے بند ہوتے ہیں تا کوئی چلتی ریل پر نہ سوار ہو نہ اتر سکے۔
- لفٹ کے اندر لیٹرین کا اہتمام۔
- انتہائی تیز رفتار ریل۔ یہ ریل 581 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے۔
- بلڈنگ کے چھٹے اور ساتویں فلور میں سے گزرتی ہوئی ہائی وے۔
- پلیٹ فارم پر لگے خود کار گیٹ جو مسافروں کو ریل پر سوار ہونے اور اترنے میں بداحتیاطی سے روکتے ہیں۔
- پلاسٹک کی خالی بوتل کوRecycle machineمیں ڈالنے والا نہ صرف کچرا سمیٹ رہا ہوتا ہے بلکہ اس کویہ مشین اس خدمت کے عوض ایک خاص رقم کا ٹوکن دیتی ہے۔
(یو ٹیوبرTHE INTRESTING FACTS)
22۔دنیا میں امن کیسے قائم کیا جا سکتا ہے
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں:
’’قیام امن کے لئے اللہ تعالیٰ نے دو عظیم الشان گر بیان کئے ہیں۔ اول یہ کہ توحید کامل کے قیام کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔۔۔دوسرا نکتہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کے ذریعہ یہ نازل فرمایا ہے کہ مالم ینزل بہ علیکم سلطانا یعنی دنیا میں امن تبھی برباد ہوتا ہے جب انسان فطرتی مذہب کو چھوڑ کر رسم و رواج کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ ‘‘
(انوار العلوم جلد 15 آنحضرتﷺ اور امن عالم صفحہ 14-15)
آپ کے منظوم کلام میں ایک نظم میں نونہالانِ جماعت کو بیش از بیش قیمت نصائح فرمائی ہیں اور کوئی شعبہ زندگی یا کوئی زندگی کا موڑ اس میں نظرانداز نہیں ہوا ایک شعر میں فرمایا۔
امن کے ساتھ رہو فتنوں میں حصہ مت لو
تم کبھی باعثِ پریشانیٴ حکام نہ ہو
حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے فرمایا:؎
’’ قم فانذر کہ کھڑے ہو جاؤ اور ثابت قدمی کے ساتھ قریہ قریہ اور ملک ملک میں پھیل جاؤ اور اقوام عالم کو یہ بتاؤ کہ اگر خدا کے مسیح کی آواز پر انہوں نے لبیک نہ کہا تو خدا کا قہر ان پر نازل ہو گا۔ دنیا بظاہر امن میں ہے۔ دنیا والے اس وہم میں مبتلا ہیں کہ ہم اپنی کوششوں سے دنیا میں امن قائم کردیں گے۔ لیکن خد اتعالیٰ فرماتا ہے دنیا میں کوئی یو۔این۔او یا کوئی دوسری کانفرنسز جو امن کے قیام کے لئے بنائی گئی ہیں ہر گز نتیجہ خیز نہیں ہوں گی۔ کیونکہ آسمان اس سے متفق نہیں اور خدا تعالیٰ کی نظر سے انسان گر چکا ہے۔
پس ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم دنیا والوں کو یہ بتائیں کہ اگر تم اپنے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے زندگی، امن اور سلامتی چاہتے ہو تو خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہو اور اس کے مسیح پر ایمان لاؤ۔ خدا کی شریعت کو رد مت کرو۔ محمد رسول اللہﷺ سے ہنسی اور ٹھٹھے مت کرو۔ اس کے جوئے کے نیچے اپنی گردنیں رکھ دو۔ تب تم امن سے اپنی زندگیاں گزار سکتے ہو اور تمہاری نسلیں سلامتی کے ساتھ اس دنیا میں رہ سکتی ہیں ورنہ نہیں۔ ‘‘
(خطبات ناصر، جلد اول صفحہ 39)
29۔حاصل مطالعہ
آنحضرتﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کا وہ چھوٹے سے چھوٹانیک عمل بہت پسند ہے جس پر وہ تمام عمر کاربند رہتا ہے۔جبکہ انسان کسی مرصع، مسجی ٰاور متکلف بیان کا منتظر ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم پر غلاف چڑھانا، مزاروں پر چادریں چڑھانا، بتوں کے گلے میں اور جسم کو سونے کے زیورات سے سجانا، خانہ کعبہ پر سونے کی تاروں اور قیمتی کپڑوں کا غلاف چڑھانا، مزاروں اور مندروں کو دودھ سے غسل دینا اور سادہ عبادت کو متکلف اور پیچ در پیچ ترویج دینا سب اس بات کا ثبوت ہیں۔دین پر عمل کی راہ میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پنڈت، پروہت، پادری، ربی، مجاور اور ملاں حائل ہوتے چلے گئے اور کچھ کے لئے دین کو مشکل بنایا اور کچھ کو دین سے متنفرہی کردیا۔ مسجد میں بیٹھے ملاں کے بارے میں اقبال نے کہاتھا کہ یہ اتنا۔۔۔۔ کیوں ہے، برصغیر میں جہاں سینیما گھروں میں لاٹھی چارج سے قطار بنوائی جا رہی ہوتی ہے وہیں مسجد کے کھلے دروازوں کے باوجود ہال و دالان خالی پڑے ہوتے ہیں۔
میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم اور بنادو
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھادو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
جبکہ دین ایک بہت آسان طریق تھا اور ہونا چاہئے، نبی اکرمﷺ کو فرمایا گیاکہ لوگوں کو خوشخبری دو، آپﷺ سے ایک بدو نے سوال کیا کہ کوئی ایسی بات بتا دیں کہ پھر کسی سے مزید معلومات کی ضرورت ہی نہ رہے، فرمایا قل امنت با اللّٰہ ثم استقم یعنی تو کہہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پرقائم ہو جا، پھر ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہؓ سے فرمایاجاؤ گلیوں میں اعلان کردو کہ جس نے کہا لا الہ الا اللّٰہ تو اس پر جنت واجب ہوگئی یعنی جس نے قول و فعل دونوں کے ساتھ خداتعالیٰ کے علاوہ تمام معبودان باطلہ سے منہ موڑ لیا تو اس پر جنت واجب ہو گئی۔
پھر آپﷺ کی حدیث مبارکہ ہے انما الاعمال با لنیات یعنی تم کوئی بھی عمل کرتے ہو اس کے پھل یعنی ثواب یا گناہ کا دارومدار اس پر ہے کہ تمہاری نیت کیا تھی۔ اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا دنیا کی ساری برائیاں مجھ میں پائی جاتی ہیں آپ نے فرمایا وعدہ کرو آج سے جھوٹ نہیں بولو گے۔
اس موضوع پر لکھتے ہوئے عاجز کو اس بات کاشدت سے احساس ہوا کہ ہمارے امن اورترقی و خوشحالی کی ضمانت اسی بات میں مضمر ہے کہ دنیا اللہ تعالیٰ کے نورِ ہدایت کو قبول کر لے اور نہ صرف اپنے خالق ومالک کی مسخر ہو جائے بلکہ اس کی مخلوق کے حقوق کو نظر انداز نہ کریں بظاہر یہ ایک بہت سادہ سی بات ہے اور بہت آسان لگتی ہے مگر عملاًاس کا ظہوراور وجود خا ل خال ہی نظر آتا ہے کیا افراد کے روز مرہ میں اور کیا اقوام کے حال اور ماضی میں اور اس کا سبب ہے ہوس، معاف نہ کرنا سزا میں بے اعتدالی، تکبر اور ناعاقبت اندیشی یعنی آخرت کو بھلا دینا۔ پس جو ہم کر سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ ہم اپنے خاندان اپنے معاشرہ اورجوبا اختیار ہیں وہ ملکی سطح پر جو اُن سے بن پڑتا ہے وہ کرتے چلے جائیں۔ وما توفیق الا با اللّٰہ
(سید انور احمد شاہ۔بُرکینا فاسو)