• 26 اپریل, 2024

سورة فاتحہ بارے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے بعض نکات معرفت

وَلَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَالۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ ﴿۸۸﴾

(الحجر:88)

’’ہم نے تجھے اے رسول! سات آیتیں سورہ فاتحہ کی عطا کی ہیں جو مجمل طور پر تمام مقاصد قرآنیہ پر مشتمل ہیں اور ان کے مقابلہ پر قرآن عظیم بھی عطا فرمایا ہے جو مفصل طور پر مقاصد دینیہ کو ظاہر کرتا ہے اور اسی جہت سے اس سورہ کا نام ام الکتاب اور سورۃ الجامع ہے۔

ام الکتاب اس جہت سے کہ جمیع مقاصد قرآنیہ سے مستخرج ہوتے ہیں اور سورۃ الجامع اس جہت سے کہ علوم قرآنیہ کے جمیع انواع پر بصورت اجمال مشتمل ہے اسی جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے سورہ فاتحہ کو پڑھا گویا اس نے سارے قرآن کو پڑھ لیا۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم بحوالہ تفسیر مسیح موعود جلد 5 صفحہ 144)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے نکات معرفت
امہات الصفات

اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی چار بنیادی صفات کا ذکر ہے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام نے امھات الصفات کہا ہے یعنی ہمارا اللہ رب العالمین ہے ہمارا اللہ رحمان ہے ہمارا اللہ رحیم ہے ہمارا اللہ مالک یوم الدین ہے اورہمیں یہ حکم ہے کہ تخلقوا باخلاق اللّٰہ

کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ۔

(افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1975ء)

(سورۃ واقعہ) کی پہلی چار آیات

اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۸﴾
فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۹﴾
لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۸۰﴾
تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۱﴾

میں سے ہر ایک آیت کا تعلق ان امہات الصفات میں سے ایک ایک صفت کے ساتھ ہے جو سورہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں۔

انہ لقرآن کریم کا تعلق مالکیت یوم الدین سے ہے فی کتاب مکنون کا تعلق رحیمیت کی صفت کے ساتھ ہے اور لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ کا تعلق رحمانیت کی صفت کے ساتھ ہے اور تنزیل من رب العالمین کا تعلق جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے تصریح فرما دی ہے ربوبیت عالم سے ہے۔

(قرآنی انوار صفحہ 3-4)

اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ﴿۵﴾

سورہ فاتحہ میں یہ ذکر ہے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفات ہیں ان صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ۔ ان صفات کے جلووں کے نتیجہ میں انسان کو بہت سی طاقتیں اور استعدادیں حاصل ہوتی ہیں اس لئے اِیَّاکَ نَعۡبُد میں ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ خدا سے یہ دعا کرو کہ اے خدا جو قوتیں اور استعدادیں تو نے دی ہیں انہیں احسن اور بہتر رنگ میں استعمال کرنے اور ان استعدادوں سے پورے طور پر فائدہ اٹھانے کی ہمیں توفیق عطا کر۔

پھر چونکہ انسان ہمیشہ کی ترقیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ یعنی اے خدا! جو کچھ تو نے دیا ہے اس سے جب ہم پورا فائدہ اٹھا لیں تو وہ ہماری آخری منزل تو نہیں اس کے بعد مزید منزلوں نے آنا ہے پس ان کے لئے جن نئی استعدادوں اور قوتوں کی ہمیں ضرورت ہو وہ ہمیں عطا کر اور اپنے صراط مستقیم پر ہمیں قائم کر دے اور اپنی رضا کی جنتوں میں ہمیں داخل کر لے ‘‘

(جلسہ سالانہ ربوہ 26؍ دسمبر1975ء مطبوعہ الفضل 21؍ فروری 1976ء)

(انجینئر محمود مجیب اصغر۔ سویڈن)

پچھلا پڑھیں

کالمار (سویڈن) میں نئے جماعتی مرکز کا قیام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 فروری 2023