• 5 مئی, 2024

جھوٹ سے پرہیز

دوسری شرط بیعت
جھوٹ سے پرہیز

جلسہ سالانہ قادیان 2022ء کے اختتامی خطاب میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دوسری شرط بیعت کو بیان فرمایا۔ اس شرط بیعت کا سب سے پہلا اور بنیادی نقطہ جھوٹ سے پرہیز کے متعلق تھا۔اس کے متعلق کچھ عرض کرنے سے قبل ہم دوسری شرط بیعت کو دیکھتے ہیں۔

’’یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔‘‘

اس شرط میں نو قسم کی برائیاں بیان کی گئی ہیں کہ ہر بیعت کرنے والے کو، ہراس شخص کو جو اپنے آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتاہے ان برائیوں سے بچناہے اور جھوٹ ان تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

ہم سب سے پہلے قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارہ میں کیا فرمایا۔

وَالَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ

(الفرقان:73)

اور یہ وہ (اللہ تعالی کے نیک)بندے ہیں جو جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے۔

ایک اور موقعہ پر فرمایا:

وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۱﴾

(الاحزاب:71)

اور تم ہمیشہ صاف اور سیدھی بات کیاکرو۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۱﴾

(الاحزاب:71)

ترجمہ:اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو۔

ان سب آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو سچ اور درست بات کرنے کی ہی نصیحت فرمائی۔

احادیث مبارکہ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو دیکھیں تو سچائی کا علم ہی سب سے بلند نظر آتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

نبی صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا:’’چارخصلتیں (ایسی) ہیں جس شخص میں وہ ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور جس شخص میں اُن میں سے ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی حتّٰی کہ وہ اُسے چھوڑ دے (اور وہ یہ ہیں) جب اُس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب عہد کرے تو اُسے پورا نہ کرے اور جب جھگڑا کرے تو بدزبانی کرے۔‘‘(صحیح بخاری) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ سچائی نیکی کی طرف اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور جو انسا ن ہمیشہ سچ بولے اللہ کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتا ہے اور جھوٹ گناہ کی طرف اور گناہ جہنم کی طرف لے کرجاتاہے اور جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولے ہو اللہ کے ہاں کذّاب لکھاجاتا ہے۔

(مسلم کتاب البر و الصلتہ)

مسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے کسی چھوٹے بچے کوکہا آؤ مَیں تمہیں کچھ دیتاہوںپھر وہ اس کو دیتاکچھ نہیں تو یہ جھوٹ میں شمار ہوگا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 452 مطبوعہ بیروت)

جھوٹ بولنا چونکہ ایک بنیادی بیماری ہے اسی لئے جب ایک آدمی نے آنحضرتﷺ سے دریافت کیا کہ کوئی ایسی عادت بتائیے، جو چھوڑنے سے تما م بر ی عادتیں ختم ہو جائیں اسکے جواب میں آپؐ نے اُسے جھوٹ بولنے سے منع کیا۔ جس پر عمل کرکے رفتہ رفتہ اُسے تمام خراب عادتوں سے نجات مل گئی۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی تحریرات قرآن پاک کی تفسیر ہیں آپ نے بہت سے لطیف نکات بیان فرمائے ہیں۔ایک جگہ جھوٹ کے متعلق تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رِجس قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔ فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَاجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ ﴿ۙ۳۱﴾(الحج:31)۔ دیکھو یہاں جھوٹ کو بُت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بُت ہی ہے ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔ جیسے بُت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بھی بجز ملمّع سازی کے اَور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے تو جلدی سے دور نہیں ہوتا۔ مدّت تک ریاضت کریں تب جا کر سچ بولنے کی عادت ان کو ہو گی۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 350 ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

’’یقیناً یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔ عام طور پر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہو جاتے ہیں مگر مَیں کیونکر اس کو باور کروں؟ مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اللہ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ راستباز کو سزا دے؟ اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرأت نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اٹھ جاوے۔ راستباز تو زندہ ہی مر جاویں۔

اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ وہ سزا ان کی بعض اَور مخفی در مخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے اور کسی اَور جھوٹ کی سزا ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ کے پاس تو ان بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزا پا لیتے ہیں۔‘‘

(احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 479-480)

حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ 16؍ جون 2017ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اقتباس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’جو شخص سچائی اختیار کرے گا کبھی نہیں ہو سکتا کہ ذلیل ہو اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے اور خد اتعالیٰ کی حفاظت جیسا اور کوئی محفوظ قلعہ اور حصار نہیں‘‘ (ہے)۔

کسبِ کمال کن کہ عزیز جہاں شوی‘‘۔ (یعنی کمال حاصل کر تا کہ تو دنیا کا پیارا بن جائے۔ یہ اپنی کمزوریاں ہیں جو جھوٹ بلواتی ہیں۔ اگر نیکیوں کی طرف توجہ ہو اور انسان اس پر بڑھنے کی کوشش کرے، اللہ تعالیٰ پر توکل ہو تو پھر یہ سزائیں اس طرح نہیں ملا کرتیں۔ ) فرمایا ’’یہ نقص کے نتیجے ہیں۔‘‘

(یہ اپنی کمزوریوں کے جو نقص ہیں اس کے نتیجے ہیں کہ سزائیں ملتی ہیں )

( ملفوظات جلد 8 صفحہ 351-355 ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔

پھر وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیاوی کامیابیاں اگر حاصل کرنی ہیں تو کچھ نہ کچھ غلط بیانی اور جھوٹ بولنے کی ضرورت ہو گی اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ ان کے ان خیالات کی نفی فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’بُت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے۔ جیسا احمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکاتا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لئے جھوٹ کو بُت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بُت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی۔ جیسے ایک بُت پرست بت سے نجات چاہتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی۔‘‘ فرماتے ہیں ’’کیسی خرابی آ کر پڑی ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیوں بت پرست ہوتے ہو۔ اس نجاست کو چھوڑ دو۔ تو کہتے ہیں کیونکر چھوڑ دیں اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہو گی کہ جھوٹ پر اپنی زندگی کا مدار سمجھتے ہیں۔‘‘ فرمایا’’مگر مَیں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔‘‘

سچائی کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزیدنصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’حرام خوری اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی جیسے قَولِ زُور‘‘، (جھوٹی بات)۔ ’’اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حرام خوری اچھی چیز ہے۔ یہ سخت غلطی ہے اگر کوئی ایسا سمجھے‘‘ (تو غلط ہے)۔ فرماتے ہیں کہ ’’میرا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو اضطراراً سؤر کھالے تو یہ امر دیگر ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی زبان سے خنزیر کا فتوی دے دے تو وہ اسلام سے دُور نکل جاتا ہے‘‘۔ (اضطراری طور پر سؤر کا گوشت کھانے کی اجازت ہے۔ بھوکا مر رہا ہے تو کھا لے اور چیز ہے۔ لیکن زبان سے فتویٰ دے دینا کہ سؤر کھانا جائز ہے یہ جو ہے انسان کو اسلام سے دور کر دیتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس طرح انسان) ’’اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال ٹھہراتا ہے‘‘۔ پھر فرماتے ہیں ’’غرض اس سے معلوم ہوا کہ زبان کا زیان خطرناک ہے۔ اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو۔ پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو، نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اَناپ شناپ بولتے رہو۔‘‘

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 423 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

انسان کو اپنی زبان پر کنٹرول ہونا چاہئے۔ یہ زبان پر حکومت ہے۔ نہ یہ کہ جو زبان میں آئے انسان نے بول دیا۔ اس سے پھر جھوٹ سچ ہر بات نکلتی جاتی ہے اور پھر فتنہ اور فساد پیدا ہوتے ہیں۔ پس ہر وقت یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری زبان ہمیشہ سچائی کے اس معیار پر قائم ہو جو نہ صرف یہ ہے کہ شرک سے محفوظ رکھنے والی ہو بلکہ تقویٰ کے معیاروں کو بھی حاصل کرنے والی ہو۔

(خطبہ جمعہ 16؍جون 2017ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے کئی خطبات میں جھوٹ سے کنارہ کشی اختیار کرکے سچائی کے دامن کو تھامنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’میرے نزدیک جب تک بچپن سے سچ کی عادت نہ ڈالی جائے بڑے ہو کر سچ کی عادت ڈالنا بہت مشکل کا م ہو جاتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 24؍نومبر1989ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔

’’یہ سچائی ہی ہے جو انسانی زندگی کے کام آتی ہے۔ سچائی سے ہی دُنیا بنتی ہے اور سچائی سے ہی دین بنتا ہے سچائی سے ہی مادی ترقیات نصیب ہوتی ہیں اور سچائی ہی کے ساتھ روحانی ترقیات نصیب ہوتی ہیں۔ جھوٹ کے تو نہ یہاں قدم ٹکتے ہیں۔ نہ وہاں قدم ٹکتے ہیں اس لئے اے بچو! آپ کی دنیاوی ترقی کا راز بھی اس بات میں مضمر ہے کہ آپ سچے ہو جائیں۔ آپ کی دینی ترقی کا راز بھی اس بات میں ہے کہ آپ سچے احمدی بن جائیں اور سچ کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کریں اور جھوٹی بات کو سننا بھی برداشت نہ کریں۔ اگر کوئی بچہ مذاق میں بھی جھوٹ بولتا ہے تو اس کے جھوٹ پربھی آپ بالکل نہ ہنسیں۔ بلکہ حیرت سے دیکھیں اور اُسے کہیں کہ یہ تم کیا بات کر رہے ہو۔ یہ مذاق کا قصّہ نہیں ہے۔ مذاق کرنا ہے تو سچے مذاق کرو۔ ایک دوسرے کولطیفے سناؤ اور اس قسم کی باتیں کروجن سے حاضر جوابی کا مظاہرہ ہوتا ہو۔ جھوٹ بولنے سے مذاق کا کیاتعلق۔ یہ تو گندگی ہے۔ جہاں بھی جھوٹ دیکھیں وہاں اُس کو دبائیں اور اُس کی حوصلہ شکنی کریں۔ بلکہ اگر آپ کے ماں باپ میں یہ عادت ہے تو اُن کوبھی ادب سے کہیں کہ ابااُمّی آپ نے تو ہمیں سچائی سکھانی تھی۔ یہ آپ کیا کر رہے ہیں یا کیا کہہ رہے ہیں؟ احمدی والدین ہو کر جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ بات آپ کو سجتی نہیں۔ پس اگر سارے بچے سچ بولنے کی عادت ڈالیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ اُن کو الله تعالیٰ کی طرف سے کتنی نعمتیں اور کتنے فضل نصیب ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اُن لوگوں ہی کو ملتا ہے جو سچے ہوں۔ اگر آپ سچے بن جائیں گے تو اس بچپن کی عمر میں بھی آپ کو خدا مل جائے گا ا گر اس عمر میں جھوٹ بولنے کی عادت پڑ گئی تو بڑے ہوکر نہ خودخدا کے فضل حاصل کر سکو گے، نہ دنیا کو خدا کی طرف بلاسکو گے۔ اس لئے میں سب بچوں کو بہت تاکید کرتا ہوں کہ ہمیشہ سچ بولیں اور سچائی کو بڑی مضبوطی کے ساتھ پکڑیں۔‘‘

(مشعل راہ جلد3 صفحہ200)

ایک دوست نے ایک بہت اچھی بات شیئر کی کہ

’’Speaking the truth is the most essential part of gaining nearness to God. Without this ability, everyone is just fooling themselves.‘‘

یعنی سچ بولنا خداتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔اس صلاحیت کے بغیر اگر ہم خدا کے قرب پانے کا دعوی کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ پس پاک ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جھوٹ اور ہر قسم کے شرک سے انسان بچے۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

(عطیة العلیم۔ ہالینڈ)

پچھلا پڑھیں

کالمار (سویڈن) میں نئے جماعتی مرکز کا قیام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 فروری 2023