• 29 اپریل, 2024

ایک حقیقی مومن اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف کام ہی نہیں کرسکتا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
وَالَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَیَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ وَیَخَافُوۡنَ سُوۡٓءَ الۡحِسَابِ (الرعد: 22) اور وہ لوگ جو اسے جوڑتے ہیں جسے جوڑنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور برے حساب سے خوف کھاتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن تعلقات کے جوڑنے کا فرمایا ہے جن کے جوڑنے کا صرف یہ حکم نہیں کہ جوڑنا ہے بلکہ قائم رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔ تعلقات جوڑے اور پھر قائم رکھے۔ یعنی ایک مومن، ایک حقیقی مومن جسے اللہ تعالیٰ نے مومنانہ فراست بخشی ہے، اس بات کا تصور ہی نہیں کر سکتا ہے کہ وہ ایسے کام کرے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہوں۔ پس جب وہ ایک حقیقی مومن ہے، اللہ تعالیٰ سے ایک دفعہ تعلق جوڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اُن تعلقوں کو جوڑتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمائے ہیں تو پھر اُن پر دوام اختیار کرتا ہے۔ فرمایا کہ ایک صاحبِ عقل اور حقیقی مومن کی نشانی یہ ہے کہ یَصِلُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ یعنی وہ اُن تعلقات کو قائم کرتے ہیں جن کے قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حصہ آیت کی وضاحت کرتے ہوئے خلاصۃً اس طرح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور محبت میں کمال حاصل کر کے اُس کے حکم اور اُس کی ہدایت کے ماتحت مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مخلوق سے رشتہ اتحاد و اخوت اور احسان جوڑتے ہیں۔ پھر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور محبت کا کمال اس لئے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وَیَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ وَیَخَافُوۡنَ سُوۡٓءَ الۡحِسَابِ کہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور بُرے حساب سے خوف رکھتے ہیں۔ اپنے ربّ کی خشیت دل میں رکھتے ہیں۔ اور خشیت لغت میں کسی اعلیٰ صفات والی چیز کے کمال و حسن کو پہچاننے کے بعد اُس کے ہاتھ سے جاتے رہنے کے خوف کو کہتے ہیں۔ کہیں میرے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ یعنی خشیت اُس وقت بولا جاتا ہے جبکہ اُس چیز کی معرفت حاصل ہو جس سے خوف کیا گیا ہے۔ نیز خوف نقصان یا ضرر کا نہ ہو بلکہ اس وجہ سے ہو کہ انسان یقین کرے کہ وہ چیز نہایت اعلیٰ اور عظمت والی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی غفلت کی وجہ سے اُس کا قرب کھو بیٹھوں اور ایک مومن کے نزدیک زمین و آسمان میں سب سے اعلیٰ اور عظمت والی چیز خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد3 صفحہ409)

پس اس کے علاوہ نہ کوئی چیز ہے اور نہ کوئی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا تھا کہ مومن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے اُس کی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، یہی ایک مومن کی نشانی ہے۔ پس یہ خشیت اور برے حساب کا خوف ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور مخلوق کے حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے دامن گیر ہوتی ہے اور ہونی چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا یہی مومن کی نشانی ہے۔ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ اُس سے ناراض ہو، اُس کو دھتکار دے۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے بلکہ ایک حقیقی مومن نہ بھی ہو، تھوڑا سا بھی ایمان ہو تو وہ یہی چاہتا ہے لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ہیں جو قرآنِ کریم پڑھتے ہیں، اُس کا ترجمہ بھی پڑھتے ہیں، خدا تعالیٰ کے خوف کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ وہ کبھی یہ پسندنہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دھتکارے جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا ہے، اُن کو حقیقی رنگ میں جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ تضاد ہے جو دنیا میں اکثر مسلمانوں کی اکثریت میں نظر آتا ہے۔ ایک خواہش اور دعویٰ کے باوجودنظر آتا ہے۔ اور احمدیوں کے بارے میں بھی ہم سو فیصدنہیں کہہ سکتے کہ وہ اس تعریف کے اندر آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مومن کی بتائی ہے۔ پس ہمیں بھی اس بارے میں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔

(خطبہ جمعہ یکم مارچ 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

مڈغاسکر میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا نفوذ اور ترقی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مارچ 2022