• 27 اپریل, 2024

مڈغاسکر میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا نفوذ اور ترقی

’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘
مڈغاسکر میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا نفوذ اور ترقی

ملک کا تعارف

ملک مڈغاسکر (قومیت مالاگاسی) بحرہ ہند میں، بر اعظم افریقہ کے مشرق میں، ایک ملک ہے جو کہ مختلف جزائر پر مشتمل ہے۔ اس ملک کا سب سے بڑا جزیرہ، جو کہ Mainland (مین لینڈ) کہلاتا ہے، دنیا کا چوتھا بڑا جزیرہ ہے۔ اس کے علاوہ اس ملک کے دیگر جزائر کا نامNosy Be (نوسی بے) اورSaint Marie (سینٹ ماری) ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق، ابتداعاً، دنیا میں موجود تمام زمینی یا خشکی کے علاقے ایک جزیرہ پر مشتمل تھے جس کے گرد ہر طرف سمندر تھا۔ گویا یہ دنیا ایک بڑے جزیرہ، جس کو Gondwana (گوندوانا) کہا جاتا ہے، اور ایک ہی سمندر پر مشتمل تھی۔ پھر قریباً 185 ملین سال قبل یہ گوندوانا نامی جزیرہ مشرقی اور مغربی گوندوانا میں تقسیم ہوا۔ مشرقی گوندوانا میں آج کی تاریخ کا مڈغاسکر، Antarctica (این ٹارک ٹکا)، آسٹریلیا اور ہندوستان شامل تھے۔ پھر قریباً 125 ملین سال قبل اس مشرقی گوندوانا سے انڈو-مڈغاسکر کا زمینی ٹکڑا علیحدہ ہوا۔ اور قریباً 88 ملین سال قبل مڈغاسکر کا زمینی ٹکڑا ہندوستان سے علیحدہ ہوا اور وقت کے ساتھ مزید جنوب کی طرف ہٹتا ہوا آج کے مقام پر پہنچا۔ بظاہر یہ ایک ایسی تفصیل ہے جس کا آج کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں تاہم مڈغاسکر میں جو حشرات، نباتات اور جانوروں کی ایسی کثیر التعداد اقسام پائی جاتی ہیں کہ جو باقی دنیا میں نہیں یا ناپید ہو چکی ہیں اس کی وجہ یہی زمینی تقسیم ہے۔ اور اسی لئے یہ ملک بر اعظم افریقہ کا حصہ ہے اگرچہ یہاں کے باشندے خود کو افریقہ کی قوم کہلائے جانے کی بجائے اس بات کو زیادہ پسند کرتے ہیں کہ ان کو بحرہ ہند کی ایک قوم کہا جائے۔

مڈغاسکر کا جغرافیہ

مڈغاسکر Mainland (مین لینڈ) کی اگر بات کریں تو یہ براعظم افریقہ سے 250 میل کے فاصلہ پر مشرق کی جانب ہے۔ اس کا کل رقبہ 226,658 مربع میل ہے (کل زمینی رقبہ 224,533 مربع میل ہے اور پانی سے ڈھکا کل رقبہ 2,124 مربع میل ہے)۔ اس ملک کی لمبائی 995 میل جبکہ اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی 360 میل ہے۔ نیز اس کے ساحل کی لمبائی 3,000 میل ہے۔ اس جزیرہ کے وسط میں شمالاً جنوباً پہاڑی سلسلہ ہے جو کہ اس کے مشرقی حصہ اور مغربی حصہ کو علیحدہ کرتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ شمال کی جانب Tsaratanàna (چاراتنانا) کا پہاڑی سلسلہ ہے جہاں اس ملک کا بلند ترین مقام بھی ہے جوکہ سطح سمندر سے 9,468 فٹ کی بلندی پر ہے۔ وسط میںAnkaratra (انکارَٹْرا) کا پہاڑی سلسلہ ہے جس پر اس ملک کے وہ شہر ہیں جو کہ پہاڑی علاقہ پر آباد ہیں، جن کی اونچائی سطح سمندر سے 2,450 فٹ اور 4,400 فٹ کے درمیان ہے۔ اس میں اس ملک کا دارالحکومت Antananarivo (انتَ نانا ریوُ) اور اس کے جنوب میں آباد شہر آجاتے ہیں۔ مزید جنوب کی جانب Andringitra (انڈرِنْ گٹرا) کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ ان پہاڑی سلسلوں سے نیچے کی طرف آئیں تو ہر طرف میدانی ساحلی علاقہ جات ہیں۔ اس ملک کی مشرقی جانب ان پہاڑیوں کی ڈھلوان زیادہ ہےجبکہ مغربی جانب ان پہاڑیوں کی ڈھلوان کم ہے۔

مڈغاسکر کا موسم

اس ملک کے میدانی ساحلی علاقوں کا موسم گرم اور استوائی ہے۔ اس کے مشرقی ساحل کی جانب بارش زیادہ ہوتی ہے یہانتکہ Maroantsetra (مارو۔ اَن۔ چیٹرا) کے علاقہ میں سال میں 160 انچ بارش کا معمول ہے۔ اس کا سبب بحرہ ہند سے آنے والی نم ہوائیں ہیں۔ اس وجہ سے یہاں طوفان بھی آتے رہتے ہیں۔ یہاں کا درجہ حرارت گرمیوں میں 35 اور سردیوں میں 22 ڈگری کے درمیان رہتا ہے۔ نیز اس ملک کے زیادہ تر جنگلات اور سر سبز علاقے اسی مشرقی حصہ میں موجود ہیں۔ اس ملک کے مغربی ساحل کی جانب شمالی حصہ میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں اور جیسے جیسے آپ جنوب کی طرف آئیں بارشوں کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس ملک کے جنوبی ساحل کے علاقہ میں سال بھر میں محض 2 انچ بارش ہوتی ہے۔ اور اسی لئے اس علاقہ میں ہر چند سال کے بعد خشک سالی اور قحط سالی کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے مغربی ساحل کے علاقہ بالخصوص جنوب کی جانب، مشرقی ساحلی علاقوں کی نسبت زیادہ گرم ہوتے ہیں۔ نیز یہاں زیادہ تر علاقے سوکھے اور بنجر ہیں۔

تاہم اس ملک کے وسط اور وسط سے جنوب کی جانب جو پہاڑی علاقوں پر آبادیاں ہیں وہاں کا موسم متوسط ہوتا ہے۔ یہاں 2 موسم پائے جاتے ہیں۔ بارانی گرم موسم جوکہ نومبر سے وسط مارچ تک رہتا ہے اور خشک سرد موسم جو کہ وسط مارچ سے اکتوبر تک رہتا ہے۔ موسم گرما میں یہاں کا درجہ حرارت 20 اور 35 ڈگری کے درمیان رہتا ہے۔ اور سردی کے موسم میں یہاں کا درجہ حرارت 5 سے 22 ڈگری کے درمیان رہتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ہماری زمین کو خط استوا کے ذریعہ دو برابر حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس دنیا کا 68 فیصد زمینی حصہ خط استوا کے شمال کی جانب ہے جہاں جون، جولائی اور اگست میں گرم موسم اور دسمبر و جنوری میں سرد موسم ہوتا ہے۔ تاہم خط استوا سے جنوب کی جانب جہاں اس دنیا کا 32 فیصد زمینی حصہ ہے، جس میں یہ ملک مڈغاسکر بھی شامل ہے، یہاں اس کے برعکس جون، جولائی اور اگست میں سرد موسم ہوتا ہے اور دسمبر و جنوری میں گرم اور بارانی موسم ہوتا ہے۔ اس ملک کا سیراب شدہ زمینی حصہ محض 4,193 مربع میل ہے جو کہ اس کے کل زمینی رقبہ کا 2 فیصد سے بھی کم حصہ بنتا ہے۔

اس ملک کے قدرتی وسائل میں گریفائٹ، کرومائیٹ، کوئلہ، باکسائٹ، نمک، کوارٹس، قیمتی پتھر جیسے سفیر وغیرہ، ابرک، Vanila (ونیلا) نیز سمندری مچھلیاں شامل ہیں۔ اس ملک کی کچھ اور سوغات میں Baobab (باؤ۔ باب) نامی درخت ہے جسے Reniala (رے نی آلا) کہا جاتا ہے جس کے معنی جنگل کی ماں کے ہیں۔ اس درخت کی 8 اقسام ہیں جن میں سے 6 اقسام صرف مڈغاسکر میں ہی پائی جاتی ہیں۔ اس درخت کی بعض اقسام ایسی ہیں کہ ان کی لمبائی 30 میٹر تک ہوتی ہے اور ان کے تنے 9 میٹر چوڑے ہوتے ہیں تو بعض اقسام کی لمبائی 5 میٹر اور ان کے تنے کی چوڑائی 2 سے 3 میٹر بھی ہوتی ہے۔ اس درخت کے موٹے موٹے تنوں میں پانی کا زخیرہ ہوتا ہے جس وجہ سے اس کو bottle tree (بوتل نما درخت) بھی کہا جاتا ہے یہانتکہ جن اقسام کے درخت بہت بڑے ہوتے ہیں ان میں 120 ہزار لیٹر تک پانی کا زخیرہ ہو سکتا ہے۔ یہ درخت خشک علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا پھل اور پتے بھی کھائے جاتے ہیں اور مختلف اہم غذائی معدنیات اپنے اندر رکھتے ہیں۔ نیز ان کے بیج سے تیل نکالا جاتا ہے۔

یہاں ایک اور درخت Ravinala ہے جس کو Traveller’s Palm Tree (یعنی مسافروں کا کھجور کا درخت)سے موصوف کیا جاتا ہے۔ اس درخت کا تعلق نباتات کے اسی خاندان سے ہے جس سے کیلے اور کھجور کے درختوں کا تعلق ہے۔ یہ بالعموم 15 سے 20 میٹر اونچا ہوتا ہے اور اس کی شاخیں ایک ہی طول و عرض میں نکلتی ہیں جس سے یہ گویا مورکے کھلے ہوئے پروں کی مانند شکل اختیار کئے ہوتا ہے۔ اس کو مسافروں کا کھجور کا درخت اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں بہت سے فوائد زخیرہ شدہ ہوتے ہیں۔ اس کی شاخوں میں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے جس سے مسافر اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں۔ اس کے پتے بھی کھائے جاتے ہیں اور اس کے بیج سے تیل تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے بیج کو دودھ میں ملا کر دیا جائے تو بچوں کے بڑھتے جسم کے لئے مفید ہوتا ہے۔ نیز اس سے مقامی لوگ دستکاری کر کے مختلف اشیاء بھی بناتے ہیں اور اس کے پتوں میں کھانے کو لپیٹ کر قدرے لمبے وقت کے لئے محفوظ بھی رکھا جاتا ہے۔

نیز یہاں ایک بندر کی ایک خاص قسم بھی پائی جاتی ہے جسے Lemur (لی مر) کہا جاتا ہے۔ ان کا منہ نوکیلا، بڑی بڑی آنکھیں اور موٹی دُم ہوتی ہے۔

مڈغاسکر کا قومی پرچم، نصب العین اور قومی ترانہ

مڈغاسکر کا قومی پرچم 21 اکتوبر 1958ء کو اختیار کیا گیا۔ اس پرچم میں اوپر سے نیچے کی جانب ایک پٹی سفید رنگ کی ہوتی ہے اور دائیں سے بائیں جانے دو پٹیاں لال اور سبز رنگ کی ہوتی ہیں۔ ان رنگوں کا انتخاب اس لئے کیا گیا تھا کیونکہ انیسویں صدی میں یہاں کی Hova (ہو۔ وا) سلطنت کے پرچم کے رنگ سفید اور لال تھے۔ اور سبز رنگ اُن آبادیوں کے لئے شامل کیا گیا جوکہ ساحلی علاقوں میں آباد ہیں۔ یہاں ان کی سفید حصہ سے مراد پاکیزگی ہے، لال حصہ سے مراد خود مختاری ہے اور سبز حصہ سے مراد امید ہے۔

نیز ان کا تین لفظی نصب العین Tanindrazana, Fahafahana, Fandrosoana ہے۔ ان میں سے Tanindrazana (تانِن ڈرا۔ زَنَ) سے مراد آباؤ اجداد کی سرزمین سے محبت ہے۔ Fahafahana (فاہا۔ فاھَنَ) سے مراد آزادی ہے۔ اور Fandrosoana (فان۔ ڈرو۔ سو۔ اَنَ) سے مراد ترقی ہے۔

مڈغاسکر کے قومی ترانہ “Ry Tanindrazanay malala ô!” (ری۔ تانِن۔ ڈرازَنائی۔ ملالَ اُو۔ ) کو ان کی قومی اسمبلی نے، ان کو باقاعدہ آزادی ملنے سے 14 ماہ قبل 27 اپریل 1959ء کو سرکاری طور پر اختیار کیا۔ اور اس ملک کو باقاعدہ طور پر آزادی بمؤرخہ 26 جون 1960ء ملی۔ اس ترانہ کو Pasteur Rahajason (پاسترغ راہاجاسوں) (پیدائش 1897 اور وفات 1971)نے تحریر کیا جوکہ مڈغاسکر کے ایک مشہور مصنف اور ایک عیسائی پادری تھے۔ اس قومی ترانہ کے مندرجات کا مرکزی خیال سرزمین سے محبت کے ساتھ ساتھ اس کے لئے خدا کا شکر اور قوم میں اتحاد اور وفاداری کے لئے نیز اپنے وطن کے لئے دعاہے۔

مڈغاسکر میں مروجہ مذاہب، رسوم و رواج

ایک اور اہم بات اس ملک میں پائے جانے والے مذاہب ہیں۔ اس ملک میں موٹے طور پر تین مذاہب کو ماننے والے ہیں۔ اس ملک کی 55 فیصد آبادی یہاں کے روایتی مذہب کو مانتی ہے۔ 40 فیصد آبادی عیسائی ہے اور باقی کے 5 فیصد مسلمان، ہندو و دیگر ادیان کو ماننے والے ہیں۔

یہاں کے روایتی مذہب کا مرکزی عقیدہ اور ثقافت کی بنا اس نقطہ پر ہے کہ گویا زندہ لوگوں کا اپنے فوت شدہ بزرگوں اور رشتہ داروں سے ایک تعلق ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر ایک سب سے بڑی ہستی یعنی خدا پر یہ لوگ ایمان رکھتے ہیں جسے یہ Andriananahary (اَن۔ ڈریا۔ نَنَ۔ ہاری)(یعنی پیدا کرنے والا) کہتے ہیں یا Andriamanitra (اَن۔ ڈریا۔ مانِٹرا) (یعنی خوش مہک آقا) کہتے ہیں۔ تاہم ان کا عقیدہ ہے کہ فوت شدہ لوگ خدا اور انسانوں کے درمیان شفیع ہیں اور وہ یہ طاقت رکھتے ہیں کہ زندہ لوگوں کے نصیب بدل سکیں۔ چنانچہ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اِن فوت شدگان کو ناراض کر دیا تو سخت مصائب آ سکتے ہیں۔ اور یہ کہ ہر نیک بختی بھی انہی کی خوش نودی سے ملتی ہے۔ چنانچہ یہ لوگ اپنے بچوں کے ناموں میں آباؤ اجداد کے اسماء کے مختلف حصے شامل کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کے اسماء بہت لمبے ہوتے ہیں اور اسی لئے دنیا بھر میں جس ملک کے کسی صدر کا نام سب سے لمبا تھا تو وہ ملک مڈغاسکر ہے جس کے صدر Hery Rajaonarimampianina (حے ری۔ رَجاؤ۔ ناری۔ مَمپِیانِ نَ) سال 2014ء تا 2018ء صدر رہے۔

نیز یہ لوگ فوت شدگان کے مقبرے بہت شوق سے اور بہت خرچ کر کے بناتے ہیں۔ عموماً مقبرے بنانے میں خرچ اس سے زیادہ کرتے ہیں کہ جتنا زندہ لوگوں کے گھروں کی تعمیر کے لئے کیا جاتا ہو۔ تاہم ان میں مختلف اقوام پائی جاتی ہیں اور ان اقوام میں مقبرے قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ Merina ( مے رینا) قوم جو مقبرے بناتی ہے وہ اینٹ اور پتھر کے کمرے نما ہوتے ہیں جن کا ایک حصہ زمین کی سطح سے نیچے ہوتا ہے۔ ان میں ململ کے کپڑے میں لپٹی ناش کو رکھنے کے لئے مختلف شیلف بنے ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ اپنے قوت شدگان کی ناش کو ایک مقررہ عرصہ کے بعد نکال کر اس کا کپڑا تبدیل بھی کرتے ہیں جس رسم کو Famadihana (فَمَدِی ھَنَ) کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر تمام خاندان اکٹھا ہوتا ہے اور دعوت کی جاتی ہے۔ اگر کوئی اپنے آباء کی یہ رسم نہ کرے تو سارا خاندان اس سے علیحدہ اور اس کا مخالف ہوجاتا ہے۔ بالعموم یہ رسم وسطی اور جنوب کی طرف پہاڑی علاقوں میں رہنے والی اقوام جیسے Merina (مے رینا) اور Betsileo (بے تسی لے اُو) میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور قوم Mahafaly (ماہافالی) کہلاتی ہے۔ یہ قوم اس ملک کے جنوب مغرب میں رہتی ہے اور یہ قوم اپنے مقبرے پتھر سے بھر کر بناتے ہیں جن کے اوپر مختلف لکڑی سے بنے کھمبے لگاتے ہیں جن پر مختلف شکلیں بنی ہوں یا مختلف مجسمے ہوں جیسے جہاز وغیرہ۔

نیز یہ لوگ مختلف اقسام کی ارواح پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک زندہ شخص کی روح کے لئے Fanahy (فناہی) کا لفظ ہے جس سے مراد اس کا کردار اور اسلوب ہیں۔ پھر فوت شدہ لوگوں کی روح کو Ambiroa (اَمبی رُو) کہتے ہیں جس کے متعلق یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کے پاس موجود رہتے ہیں اور ان کے گھر، گھریلو اشیاء اور ان کی آبائی وادیوں میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں اور اپنے آباء کی اسی روح سے زندہ لوگ تعلق رکھنے کا دعوی کرتے ہیں۔ روح کی ایک اور قسم ان کے مطابق Lolo (لولو) کہلاتی ہے۔ یہ قریب ماضی میں فوت ہوئے ایسے لوگوں کی ارواح کو کہتے ہیں جوکہ اپنے گھر اور خاندان کی یاد میں بھٹکتی ہیں اور مچھر یا تتلی کی شکل میں آتی ہیں تاہم یہ لوگوں کی ڈراتی یا ستاتی نہیں ہیں۔ روح کی چوتھی قسم Angatra (اَن گاٹرا) کہلاتی ہے جو کہ نا معلوم فوت شدگان کی بھٹکتی ہوئی روحیں ہوتی ہیں اور وہ زندہ انسانوں کو رات میں آکر ڈراتی بھی ہیں۔ تاہم ان تمام عقائد میں زندگی بعد الموت اور جزا سزا یا جنت دوزخ کا خیال مرکزی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ سارا زور صرف اس بات پر ہے کہ ان فوت شدگان کا زندہ لوگوں سے ایک تعلق ہوتا ہے اور وہ ان زندہ لوگوں کا نصیب بناتے یا بگاڑتے ہیں۔

پھر ان کے ہاں غیب کا علم رکھنے والے عالم جوتشیوں کا بھی تصور پایا جاتا ہے جن کو یہ Ombiasy (اُم بیاسی) یا Mpanandro (پنان ڈرو) کہتے ہیں۔ ان جوتشیوں سے پوچھے بنا یہ لوگ اپنا کوئی اہم کام نہیں کرتے۔ چاہے کھیتی باڑی کے متعلق کوئی فیصلہ ہو یا شادی بیاہ کے فیصلے ہوں یا پھر ایک نئے گھر کی تعمیر شروع کرنی ہو، پہاڑی علاقوں کی اقوام ان جوتشیوں کی اجازت کے بنا اور ان سے صحیح وقت پوچھے بنا یہ سارے کام نہیں کرتے بالخصوص Merina (مے رینا) قوم کا طریق ایسا ہے۔ چاہے ایک Merina (مے رینا) شخص کتنا ہی پڑھ لکھ جائے وہ اس طریق کے مطابق ہی زندگی گزارتا ہے۔ ان کے اس عقیدہ کی بنیاد نصیب کے عقیدہ پر ہے مگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چاند، سورج اور ستارے ہمارا نصیب مقرر کرتے ہیں اور ان کے مطابق ہی تمام فیصلے کرنے میں بھلائی ہے۔ چنانچہ ان کے یہ جوتشی ان کو اس کے مطابق ہدایات دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے مطابق جگہ، مقام یا سمت کا بھی ایک اثر ہوتا ہے۔ یعنی ان کے مطابق مشرق، مغرب سے بالا تر ہے اور شمال، جنوب سے بالا تر ہے۔ یعنی شمال مشرق کی سمت سب سے اعلیٰ ہے۔ چنانچہ ایسا عقیدہ رکھنے والے اپنے گھر شمالاً جنوباً بناتے ہیں اور شمال مشرقی حصہ کو عبادت کے لئے مختص کرتے ہیں، مہمانوں کے لئے شمال کا حصہ مختص کرتے ہیں اور اپنے جانور یا مرغیاں جنوب مغربی حصہ میں رکھتے ہیں۔

نیز ان کے رسوم و رواج میں بعض باتیں سختی سے ممنوعہ ہوتی ہیں اور Fady (فادی) کہلاتی ہیں۔ جیسے کہ کچھ کھانے کی اشیاء منع ہیں مثلاً Merina (مے رینا) قوم بکرا نہیں کھاتی۔ اسی طرح ایک اجنبی کی مہمان نوازی نہ کرنا بھی نامناسب عمل ہے اور اس کا اس مہمان نوازی سے انکار کرنا بھی نا مناسب عمل متصور ہوتا ہے۔ اسی طرح چاول کی فصل پر دانے کے پھوٹنے کے وقت اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھنا بھی غیر مناسب عمل سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جیسے دروازے پر بیٹھنے سے آنے والے کی راہ میں رکاوٹ ڈلتی ہے ویسے ہی اِس طریق سے پیدائش کا عمل متاثر ہوتا ہے اور اس سے چاول کے دانے صحیح طرح نہیں پھوٹتے۔ پھر ان رسوم اور رواج میں مزید اضافہ نظر آتا ہے جب ان روایتی عقائد اور نظریات کے ساتھ ساتھ یہ لوگ باہر سے آنے والے ادیان یعنی عیسائیت، اسلام یا ہندومت کو ماننے لگ جائیں۔

اگرچہ آج یہ لوگ بظاہر تمام ادیان کے ماننے والے امن سے رہتے ہیں تاہم انیسویں صدی عیسوی میں جب Ranavalona I (راناوالونا۔ اول) ملکہ بنی تو اس نے عیسائی مشنریوں کو ملک بدر کیا اور بہت سے عیسائیوں کو قتل بھی کیا۔ اس ملکہ کی وفات کے بعد جب Ranavalona II (راناوالونا۔ دوم) ملکہ بنی اور شاہی خاندان Protestant ( پروٹیسٹنٹ) عیسائی ہوگیا تو اس وقت روایتی مذہب کے مقدس مقامات سے مجسمے اور تلسم توڑے گئے۔ اگرچہ آج ایک بڑی تعداد بالخصوص پہاڑی علاقوں میں رہنے والے عیسائی ہوگئے ہیں تاہم ان کے روایتی رسوم پھر بھی ویسی ہی ہیں۔ یعنی اگرچہ عیسائیت میں بکرا کھانا منع نہیں مگر وہ عیسائی (یا پھر مسلمان بھی ہوجائیں) تو بھی بکرا نہیں کھائیں گے۔ یا یہ کہ عیسائی ہوجانے کے باوجود وہ اپنے مردوں کو گرجہ گھروں میں عبادات کے بعد اپنی پہلے طرز پر کمروں میں بند کریں گے اور مقررہ وقفہ کے بعد ان کی رسم Famadihana بھی کریں گے۔ یہانتکہ بعض عیسائی مالاگاسی لوگ آپ کو یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ ہمارے فوت شدہ آباؤ اجداد بھی عیسائی ہوچکے ہیں۔ اور اب وہ عیسائی ہوکر ہمارے اور خدا کے درمیان شفیع بھی ہیں۔ تاہم آج کے دور میں اسلام کے خلاف جس قدر پراپگینڈا میڈیا نے کیا ہے اس کے سبب یہاں کے اکثر علاقوں کی اقوام مسلمانوں کے متعلق میڈیا کی دکھائی ہوئی تصویر کے مطابق ہی تصور رکھتی ہیں اور ابتداءاً، اگر کسی ایسے شخص سے ملیں تو وہ لٹریچر وغیرہ پکڑنے سے انکار کرتا اور دور رہنے کی کوشش ہی کرتا ہے۔

اسی طرح کسی کی وفات پر کوئی قوم کچھ روز نعش کو گھر پر رکھتی ہے اور لواحقین آنے والےمہمانوں کی دعوت کرتے ہیں اور ایسے مواقع پر شراب نوشی از حد کی جاتی ہے۔ تو بعض اقوام چالیس روز تک بھی نعش کو گھر پر رکھ کر دعوتیں کرنے کا رواج رکھتی ہیں۔ ان دعوتوں سے ان کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ فوت ہونے والا شخص آباؤ اجداد سے جا ملا ہے اور اب وہ بھی ترقی پا کر شفیع کا درجہ پا گیا ہے۔ چنانچہ یہ اُن کے نزدیک افسوس کی بجائے خوشی کی بات ہے۔ نیز بعض علاقوں میں ایسے رواج بھی ہیں کہ اگر کسی مرد کو وہاں کے اعلیٰ خاندان میں شادی کرنا ہو تو اسے اپنا اعلیٰ نر ہونا ثابت کرنا ہوتا ہے جس کے لئے اسے کسی گھر پر چوری یا ڈاکا ڈالنا ہوتا ہے۔ الغرض یہ قوم مختلف رسوم و رواج کے طوق ڈالے ہوئے ہے اور اگرچہ وہ عیسائی یا مسلمان ہو بھی جائیں، پھر بھی ان رسوم سے نہیں ہٹتے اور یہی کہتے ہیں کہ یہ سب اس لئے کرنا لازمی ہے کیونکہ یہ سب ہمارے آباؤ اجداد کرتے تھے۔

نیز بحیثیت قوم ان میں غیر ملکیوں کے بر خلاف ایک غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدیوں سے کہ جب فرنچ حکمرانوں نے ان پر حکومت کی، یا پھر ان کی آزادی کے بعد بھی ہندوستان سے اور فرانس سے اور بعض دیگر ممالک سے غیر ملکی یہاں آکر آباد ہوتے اور کاروبار کرتے گئے تو انہوں نے اس قوم کی غربت اور ناخواندگی کا فائدہ اٹھایا اور اس قوم کی فلاح و بہبود اور ترقی کی بجائے ان کو دبایا ہے۔ چنانچہ غیر ملکی یہاں آکر کاروبار کرتے ہیں یا کارخانے کھولتے ہیں کیونکہ یہاں مزدوری وغیرہ کم دینی پڑتی ہے اور اس طرح وہ اپنی پیداوار کومزید سستے میں تیار کرکے بہتر منافع پر عالمی مارکیٹ میں فروخت کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ان لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کے لئے ان میں یہ اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ احمدیہ مسلم جماعت اس قوم کو ایسا دین سکھانے کی کوشش کر رہی ہے جس کو صحیح سے اپنا کر یہ اپنی روحانی، اخلاقی، تعلیمی، سماجی اور اقتصادی غرض ہر قسم کی ترقی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

جماعت احمدیہ مسلمہ کا مڈغاسکر میں نفوذ

مڈغاسکر میں باقاعدہ جماعت کے نفوذ اور رجسٹریشن سے چند سال قبل جماعت احمدیہ ماریشس سے مختلف داعیان الیٰ اللہ اور مبلغین یہاں مڈغاسکر میں اس کے شمالی علاقہ Diego Suarez (جی اے گو سوا ریز) میں آکر وقف عارضی کرتے رہے ہیں اور یہاں تبلیغ کرتے رہے ہیں۔ ان احباب میں مکرم عبد الغفور نوبی صاحب اور مکرم حنیف جواہیر صاحب سر فہرست ہیں۔ نیز مکرم منور احمد بھنّو صاحب نے 1995ء کے بعد سے مڈغاسکر آنا شروع کیا۔

پہلے مبلغ برائے جماعت احمدیہ مڈغاسکر کا تقرر

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مکرم صدیق احمد منور صاحب مبلغ سلسلہ کو مڈغاسکر کے پہلے مبلغ کے طور پر جون 1996ء میں مقرر کیا۔ مکرم صدیق احمد منور صاحب مبلغ سلسلہ ملک کے شمالی علاقہ Diego Suarez (جی اے گو سوا ریز) آئے اور بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے انہوں نے ملک کے دارالحکومت Antananarivo (انتَ نانا ریوٗ) منتقل ہو کر وہاں مشن کا آغاز کیا۔ Diego Suarez (جی اے گو سوا ریز) سے ہی ان کے ساتھ ایک لوکل ممبر جماعت مکرم داؤد عبد اللہ صاحب خدمت میں پیش پیش تھے۔ مکرم داؤد عبد اللہ صاحب کا تعلق Comoros Island (کوموروس کے جزیرہ) سے تھا اور یہ بھی مکرم صدیق احمد منور صاحب کے ہمراہ دارالحکومت Antananarivo (انتَ نانا ریوٗ) آگئے اور خدمت جاری رکھی۔ یہاں دارالحکومت میں اِن دونوں نے تبلیغ کا کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ کچھ احباب بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے۔

مڈغاسکر میں رجسٹریشن

مکرم صدیق احمد منور صاحب مبلغ سلسلہ نے دارالحکومت پہنچ کر آغاز ہی سے جماعت کو حکومتی سطح پر رجسٹر کروانے کی کوشش شروع کر دی اور بالآخر اپریل 1998ء میں جماعت احمدیہ باقاعدہ طور پر مڈغاسکر میں رجسٹر ہو گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس اطلاع پر مکرم صدیق احمد منور صاحب مبلغ سلسلہ کو خوشنودی سے بھرا خط تحریر فرمایا اور بہت مسرت کا اظہار فرمایا۔ اس سلسلہ میں مکرم منور احمد بھنّوں صاحب آف ماریشس نے بہت اہم رول ادا کیا اور ان کے حکومت میں رابطوں کے ذریعہ بفضل تعالیٰ جماعت کی رجسٹریشن کا عمل مکمل ہوا۔ جماعت کی رجسٹریشن ہونے کے بعد ایک سکول کے قیام کی کوشش کی گئی اور اسی سال بفضل تعالیٰ احمدیہ سکول کی بھی رجسٹریشن ہو گئی اور اس طرح اسی سال ایک کرائے کی عمارت میں پرائمری سکول کا آغاز ہوا۔ یہ فرنچ میڈیم سکول تھا اور سکول کے آغاز پر حکومتی افسران نے بہت خوشی کا اظہار کیا کہ جماعت کی رجسٹریشن کے وقت جو باتیں جماعت نے ان کو بتائی تھیں کہ جماعت ہم وطنوں کی خیر خواہی چاہتی ہے اور اس کی کوشش کرتی ہے واقعتاً جماعت نے اس کے مطابق یہ اقدام کیا ہے۔ نیز دارالحکومت میں جماعت کا مرکز قائم کرنے کی غرض سے دسمبر 1999ء میں ایک وسیع پلاٹ بھی خریدا گیا جس کا رقبہ 6,575 مربع میٹر ہے۔ ان تمام امور میں لوکل ممبر جماعت مکرم داؤد عبد اللہ صاحب نے بھی جانفشانی کے ساتھ خدمت کی توفیق پائی۔

اس دور میں ملک کے مغربی ساحلی علاقہ Morondava (مورُن ڈاوا) میں ایک صاحب عربی النسل مکرم عیسی رحمون صاحب بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے۔ نیز مکرم عیسی رحمون صاحب نے جماعت احمدیہ کے متعلق ایک عربی نظم بھی لکھی جو کہ ماہنامہ رسالہ التقوی میں چھپ چکی ہے۔

اسی طرح اس دور میں مڈغاسکر کے دارالحکومت سے شمال کی جانب تھوڑے ہی فاصلہ پر Anjozorobe (ان جو زو رو بے) کے علاقہ میں بھی تبلیغ کی گئی جو کہ ایک خالص عیسائی علاقہ ہے۔ وہاں سے ایک عمر رسیدہ عیسائی پادری Mr Wilfred (مسٹر وِل فریڈ) نے بیعت کا شرف حاصل کیا۔ نیز مڈغاسکر کے دارالحکومت سے مغرب کی جانب Tsiromandidy (تسی رو من دی دی) کے علاقہ میں بھی تبلیغ کی گئی اور یہاں ایک صاحب Sabotsy (سبوتسی) نے بیعت کا شرف حاصل کیا اور مکرم صدیق احمد منور صاحب مبلغ سلسلہ نے ان کا نام Yousuf Sabotsy صاحب رکھا۔

پہلا جلسہ سالانہ اور قرآن کریم کے مالاگاسی ترجمہ کے کام کا آغاز

جماعت احمدیہ مڈغاسکر کا پہلا جلسہ سالانہ 1997ء میں ہوا، جس میں ماریشس جماعت سے ایک وفد نے بھی شمولیت اختیار کی۔ نیز مکرم صدیق احمد منور صاحب مبلغ سلسلہ کے دور ہی میں قرآن کریم کے مالاگاسی ترجمہ کا کام شروع ہوگیا تھا۔ انہوں نے اس کام کے لئے University of Antananarivo کے 2 پروفیسروں کی مدد حاصل کی جو کہ قرآن کریم کے انگریزی اور فرنچ تراجم کا مطالعہ کر کے مالاگاسی ترجمہ تیار کرتے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام Ramatoa Ramavonirina Oliva Rahantamalala صاحبہ تھا اور دوسر ے Andriamatoa Razafimamonjy Georges Eugène Fanja صاحب تھے۔ اس دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مکرم عطاء القیوم صاحب جمن آف ماریشس کو بھی مکرم صدیق احمد منور صاحب کے ساتھ کام میں مدد کرنے کے لئے مڈغاسکر بھیج دیا تھا۔ تاہم 2000ء میں بیماری کے سبب مکرم صدیق احمد منور صاحب کو حسب ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ پاکستان واپس جانا پڑا۔ اور اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مکرم عطاء القیوم جمن صاحب کو مڈغاسکر میں مشن کی نگرانی کی ذمہ داری دی۔ اس دور میں دارالحکومت سے شمال کی جانب Mahajanga (ماہاجنگا) اور Marovoay (مارو۔ وائی) کے علاقوں میں بھی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا۔ نیز قرآن کریم کے مالاگاسی ترجمہ کا کام بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ ترجمہ پر کام کرنے والے یونیورسٹی کے پروفیسرز حصہ بہ حصہ ترجمہ تیار کر کے دیتے جس کی پروف ریڈنگ مکرم عطاء القیوم جمن صاحب لوکل معلمین کے ساتھ مل کر کرتے۔

مڈغاسکر کے جنوب مشرقی علاقوں میں جماعتوں کا قیام

2001ء میں مکرم مشہود احمد طور صاحب مبلغ سلسلہ ماریشس 3 ماہ کے دورہ پر مڈغاسکر آئے۔ انہوں نے پہلے شمال مغرب میں قائم جماعت Mahajanga (ماہاجنگا) کا دورہ کیا اور پھر جنوب مشرقی علاقہ Manakara (مانا کارا) اور اس کے پاس پہاڑیوں پر آباد مختلف گاؤں کا دورہ کیا۔

اسی تبلیغی وفد کا ذکر کرتے ہوئے، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں:
’’مڈغاسکر کے ہمارے تبلیغی وفود نے بہت تکلیف اُٹھا کر کام کیا ہے۔ وہاں کے مبلغ مشہود احمد صاحب طور لکھتے ہیں: مڈغاسکر کے ضلع Manakara (ماناکارا) کے ایک تبلیغی دورہ کے دوران ہمیں چالیس کلومیٹر ایریا (رقبہ) میں ہمیں بیس گاؤں میں پیغام حق پہنچانے کی توفیق ملی۔ برسات کا موسم تھا۔ یہاں کا علاقہ مٹی کی پہاڑیوں پر مشتمل ہے۔ سب گاؤں پہاڑیوں کے اوپر ہیں۔ ہم روزانہ بارش میں ننگے پاؤں، کیونکہ کیچڑ کی وجہ سے جوتا پہننا نا ممکن تھا، آٹھ کلو میٹر اور کبھی چار کلومیٹر سفر کر کے پیغام حق پہنچاتے رہے۔ اور اللہ کے فضل سے اس ضلع میں 1,260 افراد نے احمدیت قبول کی اور 17 دیہات میں احمدیت کا پودا لگا۔ اپنی تبلیغی مہمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مڈغاسکر میں دورانِ تبلیغ ہم نے مٹی کی ایک اونچی پہاڑی پر واقعہ گاؤں انڈرانو تسارا، Andranotsara (انڈرانو تسارا)، میں جانے کے لئے ایک پگڈنڈی کا رستہ اختیار کیا۔ پگڈنڈی کے درمیان میں نالی ہونے کی وجہ سے چلنے کےلئے پاؤں کو جما کر رکھنا نا ممکن تھا۔ اس نالی کے کنارے پر دونوں طرف پاؤں ٹکاتے ہوئے اور ننگے پاؤں کیچڑ میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے بالآخر ہم اُس گاؤں تک پہنچ گئے۔ اور وہاں گاؤں کے رئیس کا گھر پوچھ کر سیدھے اس کے گھر پہنچے اور اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ اُس رئیس نے کہا ٹھہرو، جو لوگ اِس وقت گاؤں میں موجود ہیں میں اُن سب کو بلاتا ہوں۔ چنانچہ پچاس کے قریب مرد و زَن اکٹھے ہوگئے۔ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مقصد اور جماعت کا تعارف کروایا۔ دوران تبلیغ ایک ساٹھ سالہ بزرگ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے، جب آپ لوگ اوپر کی طرف چڑھ رہے تھے تو میرے دل میں خیال گزرا کہ اتنی مشکل میں اور شام کے قریب جو لوگ آرہے ہیں، جس مقصد کے لئے بھی آرہے ہیں، ضرور سچے ہیں، یہ جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ اَب آپ نےحضرت امام مہدی علیہ السلام کا ذکر کیا ہے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ آپ سچے لوگ ہیں۔ چنانچہ اُن تمام لوگوں نے اُسی وقت بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد رئیس کے والد صاحب فرمانے لگے، اور میرا ہاتھ پکڑ کے کہنے لگے کہ اِس سے قبل ہم سمجھ رہے تھے کہ اسلام یہاں سے اُٹھ گیا ہے۔ مگر آپ کے آنے سے ایسا لگ رہا ہے کہ اسلام دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ اَب آتے رہیں اور ہمیں اسلام سکھاتے رہیں‘‘

(دوسرے روز کی تقریر، جلسہ سالانہ جرمنی سال 2001ء بمؤرخہ 24 تا 26 اگست 2001ء)

نیز مڈغاسکر کے اس جنوب مشرقی علاقہ Manakara (ماناکارا) کے قریب جن 17 گاؤں میں جماعت احمدیہ کا پودا لگا تھا وہاں کی 5 جماعتوں نے مساجد کی تعمیر کے لئے زمین کے قطعے بھی ہدیہ کئے تھے۔ اس دورہ کے بعد مکرم مشہود احمد طور صاحب مبلغ سلسلہ کا تقرر بطور مبلغ سلسلہ مڈغاسکر ہوا تاہم اُن کو Pakinson’s Disease (پارکنسن کی بیماری) کی تکلیف ہو گئی اور وہ پھر مڈغاسکر نہیں آسکے۔

بعد ازاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مکرم امیر صاحب ماریشس نے مکرم مظفر احمد سدھن صاحب مبلغ سلسلہ ماریشس کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مڈغاسکر آکر اُن 5 گاؤں کا دورہ کریں جہاں ممبران جماعت نے مساجد کے لئے قطعات ہدیہ کئے ہیں اوروہاں مساجد کی ممکنہ تعمیر کا جائزہ لے کر رپورٹ دیں۔ چنانچہ اس سلسلہ کی پہلی مسجد Manakara (ماناکارا) کے علاقہ کی جماعت Vohibazimba (وُہی با زِمبا) میں 2002ء میں تعمیر ہوئی جو کہ لکڑی سے تعمیر ہوئی تھی۔

قرآن کریم کے مالاگاسی ترجمہ کا افتتاح

قرآن کریم کے ترجمہ پر جیسا کے ذکر آچکا ہے مکرم صدیق احمد منور صاحب مبلغ سلسلہ کے دور سے ہی کام شروع ہو چکا تھا۔ یہ ترجمہ مختلف مراحل سے گزر کے 2008ء میں مکمل ہوا اور جلسہ صدسالہ جشن تشکر 2008ء کے موقع پر بمؤرخہ 31 مئی 2008ء اس کا افتتاح کیا گیا۔ اس موقع پر حاضر سرکاری و غیر سرکاری مہمانان کو قرآن کریم کے مالاگاسی ترجمہ کی کاپیاں تحفتاً دی گئیں۔ نیز مڈغاسکر کے صدر مملکت اور وزیر اعظم کو بھی اس کی ایک ایک کاپی بھجوائی گئی۔ اس موقع پر قرآن کریم کے اِس پہلے مالاگاسی ترجمہ کی خوشخبری اخبارات میں بھی شائع کی گئی۔ بعد ازاں غیر احمدی مسلمانوں نے جماعت احمدیہ مسلمہ کا شائع کردہ مالاگاسی ترجمہ لے کر اپنے اپنے تراجم بھی شائع کئے۔ تاہم مالاگاسی زبان میں ترجمہ کی تیاری کی توفیق جماعت احمدیہ مسلمہ کو ہی ملی تھی۔

مڈغاسکر میں جماعت احمدیہ کے سکول کی اَپ گریڈیشن

پہلے ذکر آچکا ہے کہ 1998ء میں جماعت احمدیہ کے سکول کی رجسٹریشن بھی ہوئی اور ایک کرائے کے مکان میں پرائمری سکول سے آغاز کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 1999ء میں دارالحکومت میں جو زمین کا رقبہ خریدا گیا تھا اس کے ایک حصہ میں سکول کی عمارت کی تعمیر کی گئی جو کہ 2008ء میں مکمل ہوئی۔ اور 2008ء میں جلسہ صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر، بمؤرخہ 30 مئی 2008ء اس عمارت کا بھی افتتاح ہوا اور جماعت کا سکول جو کہ اب پرائمری کے ساتھ ساتھ سیکنڈری کلاسز پر بھی مشتمل تھا اس نئی عمارت میں منتقل ہوا۔ اس موقع پر مکرم و محترم امیر صاحب جماعت احمدیہ ماریشس کی سربراہی میں ماریشس سے آیا ہوا ایک وفد بھی شامل ہوا اور کچھ سرکاری مہمانان نے بھی شرکت کی جن میں دارالحکومت کی میئر کی جانب سے ان کی نمائندہ اول خاتون بھی شامل تھیں جنہوں نے مکرم و محترم امیر صاحب جماعت احمدیہ ماریشس کے ہمراہ سکول کی اس نئی عمارت کا باقاعدہ افتتاح کیا۔

بعد ازاں 2017ء میں اس سکول کی عمارت میں دوسری منزل کی توسیع کی گئی اور بمؤرخہ 22 مارچ 2018ء کو حکومت کی طرف سے سکول میں کالج کی سطح کی کلاسیں شروع کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔ اس طرح اب اللہ کے فضل کے ساتھ یہ ایک کالج کا درجہ پا چکا ہے۔

جلسہ ہائے سالانہ و دیگر جلسہ جات
جماعت احمدیہ مڈغاسکر

جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ جماعت احمدیہ مڈغاسکر کا پہلا جلسہ سالانہ 1997ء میں منعقد ہوا۔ اور چند سال تک تواتر کے ساتھ جلسہ ہائے سالانہ کا انعقاد ہوتا رہا۔ تاہم پھر اس میں چند سالوں کا وقفہ آیا جس کے بعد جماعت احمدیہ مڈغاسکر کا گیارہواں جلسہ سالانہ 2015ء میں منعقد ہوا اور کورونا کی وبا سے پہلے، 2019ء تک جماعت احمدیہ مڈغاسکر 15 جلسہ ہائے سالانہ منعقد کر چکی تھی۔

اسی طرح دیگر جلسے، جیسے جلسہ سیرت النبی ﷺ، جلسہ یوم مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام، جلسہ یوم مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور جلسہ یوم خلافت کا انعقاد بھی شروع سے ہی گاہے بگاہے ہوتا رہا ہے۔ اور 2015ء تا 2019ء ان جلسہ جات کا انعقاد بھی مزید باقاعدگی اور تنظیم کے ساتھ ہوا۔ تاہم کورونا کی وبا کے سبب یہ تسلسل بھی وقتی طور پر رُکا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان حالات کو دور فرمائے اور جلد از جلد ہم دوبارہ جلسہ سالانہ اور دیگر جلسہ جات کی رونقیں مڈغاسکر میں بھی دیکھ سکیں۔ ان شاء اللّٰہ۔

مڈغاسکر میں مجالس شوریٰ کا قیام

جماعت احمدیہ مڈغاسکر کی پہلی مجلس مشاورت 2006ء میں منعقد ہوئی اور متواتر تین سال 2006ء تا 2008ء تسلسل کے ساتھ اس کا انعقاد کیا جاتا رہا۔

مڈغاسکر میں ذیلی تنظیموں کا قیام

2006ء میں مکرم و محترم امیر صاحب جماعت احمدیہ ماریشس دورہ کے لئے مڈغاسکر تشریف لائے اور یہاں کے مبلغ صاحب انچارج اور دیگر مقامی انتظامیہ کے ساتھ مشورہ کے بعد انہوں نے ماریشس کی ذیلی تنظیموں کی طرف سے مڈغاسکر جماعت کے صدر مجلس انصار اللہ، صدر مجلس خدام الاحمدیہ اور صدر مجلس لجنہ اماء اللہ کے مجوزہ نام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں ارسال کروائے اور اس طرح پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری کے ساتھ جماعت احمدیہ مڈغاسکر میں ذیلی تنظیموں کا قیام عمل میں آیا۔ چنانچہ اسی سال مجلس انصار اللہ مڈغاسکر کا پہلا سالانہ اجتماع Ambilobe (آم بی لو بے) کے علاقہ میں منعقد ہوا اور مجلس خدام الاحمدیہ مڈغاسکر کا پہلا سالانہ اجتماع Andranomadio, Manakara (اَنڈرانو مادیو، ماناکارا) کے علاقہ میں منعقد ہوا۔

تاہم درمیان میں کچھ عرصہ کے توقف کے بعد، اواخر 2018ء میں دوبارہ مجلس لجنہ اماء اللہ مڈغاسکر کا قیام عمل میں آیا اور دسمبر 2019ء میں دوبارہ مجلس انصار اللہ مڈغاسکر اور مجلس خدام الاحمدیہ مڈغاسکر کا قیام عمل میں آیا۔

مڈغاسکر میں مساجد اور مشن ہاؤسز کی حالیہ تعمیرات

جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ دارالحکومت میں جماعت نے 1999ء میں ایک زمین کا رقبہ خریدا تھا جس کے ایک حصہ پر جماعت کے سکول کی عمارت 2008ء میں مکمل ہوئی تھی۔ نیز یہ کہ Manakara کے علاقہ میں 5 گاؤں میں لکڑی کی مساجد کی تعمیر بھی 2001ء کے بعد ہوئی تھیں۔ تاہم 2014ء تک جماعت کی یہاں کوئی پکی مسجد اور کوئی مشن ہاؤس نہیں تھا۔ چنانچہ بمؤرخہ 14 نومبر 2014ء کو مکرم و محترم عیسی تیجو صاحب امیر صاحب ماریشس نے دارالحکومت میں جماعت کی خریدی ہوئی زمین پر پہلی پختہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت اس مسجد کا نام مسجد نور رکھا۔ اس مسجد کی تعمیر کا خرچ مجلس لجنہ اماء اللہ ماریشس نے ادا کیا۔ فجزاھم اللّٰہ احسن الجزاء

بعد ازاں بمؤرخہ 6 مارچ 2015ء اسی احاطہ میں دفتر، گیسٹ ہاؤس اور مشن ہاؤس کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

بعد ازاں، بمؤرخہ 19 فروری 2016ء مڈغاسکر کے جنوب مغربی شہر Toliara (تولیارا) میں جماعت احمدیہ مڈغاسکر کی دوسری پختہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت اس مسجد کا نام مسجد محمود رکھا۔ اس مسجد کا خرچ مکرم و محترم عیسی ٰ تیجو صاحب آف ماریشس نے اپنی فیملی کی طرف سے ادا کیا۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء۔

مڈغاسکر کی تیسری پختہ مسجد کا سنگ بنیاد، شہر Fianarantsoa (فیانارنٹ سوا) میں مؤرخہ 3 اکتوبر 2017ء کو رکھا گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مسجد کا نام مسجد مہدی رکھا۔ اس مسجد کا خرچ بھی مکرم و محترم عیسی ٰ تیجو صاحب آف ماریشس نے اپنی فیملی کی طرف سے ادا کیا۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء۔

نیز حال ہی میں، مڈغاسکر کی چوتھی پختہ مسجد کا سنگِ بنیاد، مڈغاسکر کے جنوب مغرب میں واقع ایک گاؤں Milenaka (می لے نک) میں مؤرخہ یکم جنوری 2022ء کو رکھا گیا ہے جس کا نام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت مسجد ناصر رکھا ہے۔ یہ مسجد اس وقت زیر تعمیر ہے۔ اس مسجد کا خرچ مکرم و محترم عثمان یوسف صاحب آف ماریشس اور اُن کی فیملی نے اپنے آباء و اجداد کی طرف سے ادا کیا۔ فجزاھم اللّٰہ احسن الجزاء

مالاگاسی زبان میں جماعتی لٹریچر کی تیاری

مڈغاسکر کی لوکل زبان مالاگاسی کہلاتی ہے اور اس ملک کی بھاری اکثریت، ناخواندہ ہونے کے سبب غیر ملکی زبانیں جیسے فرنچ یا انگریزی نہیں جانتی بلکہ صرف لوکل مالاگاسی زبان ہی بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ اس لئے یہاں تبلیغ اور تربیت کے لئے لوکل زبان میں لٹریچر، رسائل اور کتب کی اشد ضرورت ہے۔

چنانچہ، جیسے ذکر گزر چکا ہے کہ مؤرخہ 31 مئی 2008ء کو قرآن کریم کے مالاگاسی ترجمہ کا افتتاح کیا گیا اور اس وقت سے اس کے ذریعہ لوکل ممبران جماعت کو قرآن کریم پڑھایا بھی جا رہا ہے اور تبلیغی رابطوں میں تقسیم بھی کیا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ، 2005ء میں مڈغاسکر جماعت نے ایک جماعتی رسالہ کو رجسٹر کروایا اور قریباً تین سال یہ رسالہ نکالا گیا اور مڈغاسکر کے مختلف علاقوں میں بھیجا اور تقسیم کیا گیا۔ اس رسالہ کا نام Hafatra ho Anao (حافٹرا ھو اَناؤ) تھا (یعنی آپ کے نام ایک پیغام)۔ اس رسالہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات جمعہ کا مالاگاسی ترجمہ شائع کیا جاتا تھا۔ دیگر جماعتی خبریں اور اطلاعات بھی اس میں شامل ہوتی تھیں۔ نیز بسا اوقات بعض دیگر جماعتی مضامین بھی حسب موقع شامل ہوتے تھے۔ اس رسالہ کی تیاری اور ترجمہ ایک لوکل معلم صاحب Razafisalama Rija (رازا۔ فی سلامَ۔ ریجا) صاحب کرتے تھے۔ اس رسالہ اور اس میں خطبات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مالاگاسی تراجم شائع ہونے کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔

بعد ازاں، 2019ء میں قاعدہ یسرنا القرآن کا مالاگاسی ترجمہ تیار کر کے شائع کیا گیا۔ نیز گاہے بگاہے مختلف پمفلٹس تیار کر کے تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح بعض جماعتی کتب کے تراجم پر کام کیا جا رہا ہے۔

جماعت احمدیہ مڈغاسکر میں خدمت کی توفیق
پانے والے مبلغین سلسلہ

جن مبلغین سلسلہ نے مڈغاسکر میں خدمت بجالانے کی توفیق پائی یا ابھی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں اُن کے نام درج ذیل ہیں:

  1. مکرم و محترم صدیق احمد منور صاحب، عرصہ خدمت 1996ء تا 2000ء
  2. مکرم و محترم عطاء القیوم جمن صاحب، عرصہ خدمت 1998ء تا 2004ء
  3. مکرم و محترم مظفر احمد سدھن صاحب، مختلف ادوار میں یہاں آکر خدمت کی توفیق ملی
  4. مکرم و محترم محمد اقبال باجوہ صاحب، عرصہ خدمت 2004ء تا 2014ء
  5. مکرم و محترم مجیب احمد صاحب نیشنل صدر جماعت احمدیہ مڈغاسکر، عرصہ خدمت 2014ء تا حال
  6. مکرم و محترم جبار ندیم صاحب مشنری انچارج مڈغاسکر، عرصہ خدمت2013ءتاحال
  7. خاکسار، مدثر احمد، عرصہ خدمت 2013ء تا حال

اللہ تعالیٰ تمام مبلغین اور کارکنان کو کما حقہ خدمت بجالانے اور مقبول و باثمر خدمات کی توفیق عطا کرے اور جماعت احمدیہ مڈغاسکر کو پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی توقعات و خواہشات کی مطابق کام کرنے اور آگے بڑھنے کی توفیق عطا کرے اور وہ بابرکت دن ہمیں جلد دکھائے کہ جب پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک قدم اس ملک پر بھی پڑیں اور پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آنکھیں اس جماعت سے ٹھنڈی ہوں اور ٹھنڈی ہی رہیں۔ آمین

(مدثر احمد۔ مبلغ سلسلہ مڈغاسکر)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک مؤرخہ 25؍مارچ 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ