• 19 مئی, 2024

پہلے حجاب پھر کتاب

پہلے حجاب پھر کتاب
اصل اسلامی پردہ کو اپنانے اور رواج دینے کی ضرورت

روزنامہ الفضل آن لائن لنڈن کے مستقل قاری، کالم نویس و تبصرہ نگار جناب محمد عمر تمارپوری ۔کوآرڈینیٹر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے گزشتہ دنوں خاکسار کے نام اپنے ایک مکتوب میں ریاست کرناٹک جنوبی ہند کے منڈیا کی ایک دلیر اور بہادر برقعہ پوش، باپردہ طالبہ علم ’’مسکان‘‘ کا واقعہ بھجوا کر لکھا ہے کہ آج کل انڈیا اور بین الاقوامی میڈیا میں مسکان کا پردے اور برقعے میں رہ کر ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند کرنے کے بعد باپردہ خواتین و طالبات کا ’’پہلے حجاب پھر کتاب‘‘ کے سلو گن کے ساتھ بازاروں میں آگئی ہیں لہذا آپ نے پردہ پر اداریہ (ایڈیٹوریئل) لکھنے کی درخواست کی ہے۔ جو موصوف نے اپنے غیر از جماعت کولیگز کی طرف سے بھجوائی ہے۔

یہاں یہ بات واضح کرنی ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ کے خلفاء کرام کی ہر حالت میں پُرامن رہنے کی تعلیمات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کسی قسم کے احتجاج پر نہ تو یقین رکھتی ہے اور نہ ہی اس کی اجازت دیتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں صرف اللہ تعالیٰ کے حضور ہی ہر معاملہ پیش کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ادارہ الفضل آن لائن کی کسی ملک کے ذاتی یا سیاسی امور میں دخل اندازی یا تبصرہ کرنے کی پالیسی بھی نہیں ہے اس لیے اس کا ذکر کیے بغیر کہ اس واقعہ کے کیا سیاسی اثرات وہاں کی سیاست پر ظاہر ہوں گے۔ خاکسار یہاں صرف اور صرف حجاب اور پردہ پر اسلامی تعلیمات بیان کرے گا، یعنی اسلام نے عورت کو اس لحاظ سے کس طرح تحفظ فراہم کیا ہے اور عورت کے تقدس اور عزت میں کیا اضافہ ہوا ہے، پردے کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کیا ہے؟ وغیرہ۔

خاکسار نے اس موضوع پر غور کا آغاز ہی کیا تھا کہ لفظ کتاب کو سامنے رکھ کر میرا ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ مسلمانوں کوعطا ہونے والی عالمگیر کتاب ’’القرآن الحکیم‘‘ (جس کو اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کی ابتداء میں ذٰلِکَ الکِتٰبُ لَا رَیبَ فِیہِ کہہ کر پکارا ہے) اور اس حوالے سے یہ الفاظ یوں ہونے چاہئیں ’’پہلے کتاب پھر حجاب‘‘۔ یعنی پہلے قرآن کریم میں مذکور پردہ کے بیان میں اس کی اہمیت اور اس کے لوازمات کو سمجھیں کہ حجاب میں رہتے ہوئے اسلام کی کون کون سی تعلیم پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ان تمام امور کو مد نظر رکھ کر حجاب کا استعمال کریں۔ کیونکہ پردہ میں غض بصر، شرم و حیاءاور قلب و ذہن کی پاکیزگی کی شرائط بیان ہوئی ہیں جوظاہری حجاب کے بغیر بھی کی جانی ضروری ہیں۔

جہاں تک زیر نظر موضوع ’’پہلے حجاب پھر کتاب‘‘ کا تعلق ہے تو یہاں کتاب سے تدریس اور کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھائی لکھائی مراد ہے۔ اور یہ لوگو (Logo) دنیا بھر کی مسلمان طالبات کا ہونا بھی چاہیے۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستان میں ایک وقت تک جب احمدی بچی کسی کالج یا یونیورسٹی میں کوایجوکیشن (co-education) کے لیے داخلہ لینے کی خواہش رکھتی تو اُسے نظام جماعت سے اس شرط کے ساتھ اجازت لینی ہوتی تھی اوروہ حلف کی صورت میں یہ لکھ کر دیتی تھی کہ باپردہ یعنی حجاب میں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کرے گی، اس کا کئی لحاظ سے احمدی طالبات کو فائدہ پہنچتا چلا آرہا ہے۔ اسی لئے آج بھی جماعت نے یہی طریق جاری رکھا ہوا ہے۔

قرآن کریم میں بیان فرمودہ اسلامی پردہ ایک مسلمان عورت کی شان، اس کی حفاظت اور تکریم ہے۔ گذشتہ دنوں ناروے سے ہماری ایک بہن روزنامہ الفضل کی مستقل قاری مسز نبیلہ فوزی رفیق نے الفضل میں اشاعت کے لئے ایک نوٹ بھجوایا تھا جو 23 فروری 2022ء کی اشاعت میں شامل ہوا ہے۔ اس میں وہ لکھتی ہیں کہ ایک مرتبہ مکرم مولانا عطاء المجیب راشد امام مسجد بیت الفضل لندن، بھارت کے دورہ پر تھے۔ جہاں امام صاحب سے ایک خاتون نے سوال کیا کہ اسلام میں عورت اپنے آپ کو لپیٹ کر کیوں رکھتی ہے؟ امام صاحب نے اس خاتون سے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس 50 روپے کا نوٹ ہے؟ خاتون کے اثبات کے جواب میں امام صاحب نے اس خاتون سے نوٹ دکھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔جس پر خاتون نے اپنا پرس کھولا جس میں بچوں کی چیزیں اور میک اپ کی اشیاء موجود تھیں۔ پرس کے اندرچھوٹی جیب کی زپ (zip) کو کھول کر خاتون نے ایک چھوٹا سا بٹوا نما پرس نکالا۔ اس کو کھول کر خاتون نے 50 روپے کا نوٹ ان کو دکھادیا۔ امام صاحب اس خاتون کو مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ آپ کے پرس میں بہت سی اشیاء بکھری پڑی ہیں۔ اس نوٹ کو آپ نے تہہ در تہہ نہاں خانے میں چھپا کر رکھا ہے، معلوم ہے کیوں؟ کیونکہ یہ قیمتی ہے، اس کی حفاظت کے لئے آپ نے ایسا کیاہے۔

ابھی امام صاحب نے یہاں تک ہی بیان کیا تھا کہ خاتون خود ہی گویا ہوئی کہ مجھے سمجھ آ گئی ہے۔ مکرم امام صاحب نے مزید سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے دین اسلام میں مسلمان عورت بھی ایک شرم و حیاء اور نزاکت کی وجہ سے قیمتی وجود ہے۔ جسے اپنے آپ کو دنیا کی آلودگیوں سے بچا کرحجاب میں رکھنے کا حکم ہے۔

مندرجہ بالا واقعہ جس کو خاکسار نے اپنے انداز اور الفاظ میں تحریر کیا ہے۔ جب پڑھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ تو فوراً میرا ذہن دنیا بھر میں پھیلی ایسی اشیاء کی طرف مائل ہوا جو کسی نا کسی غلاف میں لپٹی ہوئی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے حفاظت کا سامان مہیا کر رہا ہے۔ میرے ذہن میں دنیا میں موجودتازہ بتازہ پھلوں، سبزیوں اور ڈرائی فروٹس کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ایک ایک کر کے ظاہر ہونے لگیں کہ قریباً تمام ہی پھل اور سبزیاں چھلکوں یعنی غلاف میں لپٹی ہوتی ہیں۔ جو ایک طرف غلاف کے وجہ سے خوبصورت بھی لگ رہی ہوتی ہیں تو دوسری طرف اس کے اندر کے گُودے اور مغز کی حفاظت بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ورنہ اگر پھلوں کے اوپر چھلکے اور غلاف نہ ہوتے تو نہ تو یہ دھوپ کی حدّت یا موسم کی شدّت برداشت کرتے اور نہ چرند پرند اور جانوروں و دیگر حوادث سے محفوظ رہتےاور نہ ہی مختلف قسم کی آلودگیوں سے صاف رہ سکتے۔ اب مکئی کے سٹے کو ہی دیکھیں جس کی شکل و صورت صنفِ نازک سے ملتی جلتی ہے۔ اس کے اندر موجود دانےتہہ در تہہ پردوں میں چھپے ہوتے ہیں۔ سٹے کی حفاظت پر مامور چھلکا مکئی کے دانوں کی جہاں حفاظت کر رہا ہوتا ہے وہاں خوبصورت نظر آنے کے سامان بھی بہم پہنچا رہا ہوتا ہے۔

پس عورت کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے خاوند کی کھیتی قرار دیا ہے۔ جس کی حفاظت ضروری ہے۔ اور اُسے حجاب یا پردہ کرنے کا حکم ہے تا دوسرے انسان نما وحشیوں سے محفوظ بھی رہے اور اپنے گھر میں خوبصورت بھی لگے۔ حجاب اور پردہ کے حق میں رونما ہونے والے مندرجہ بالا زیر نظر واقعہ میں اس مسلمان طالبہ مسکان اور اس کی ساتھی اور اس کے ساتھ متفق طالبات کو اسلامی تعلیمات کو بلند کرنے کی جرأت پرسیلوٹ کرنے کو دل کرتا ہے بلکہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو بھی سلام! جس نے اس موقع پر اس بہادر طالبہ اور اس کی ساتھیوں کا ساتھ دیاِ۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان بالخصوص احمدی مسلمان طالبات و خواتین حجاب کو ہر حال میں اپنائیں اور حرزجان بنائیں۔ راستے کی تمام رکاوٹوں کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی اور پیارو محبت سے عبور کرتی ہوئی اپنی ترقیات کی منازل طے کرتی چلی جائیں۔ کیونکہ اس مسکان کو دیکھ کر بعض ہندو خواتین نے بھی حجاب کرنا شروع کر دیا ہے۔ حجاب کے خلاف ایک ہوا بعض مغربی ممالک میں بھی چل نکلی ہے کہ کالجوں، یونیورسٹیوں میں حجاب کو غیر قانونی اور غیر ضروری قرار دیا جائے۔ جبکہ ان یورپین ممالک کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ یہاں ہر انسان کو اپنی اپنی تہذیب، اپنی اپنی روایات اور اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہے۔ ہماری احمدی مسلمان خواتین ان ممالک میں پردے اور حجاب کو رواج دئیے رکھیں گی تو وہ وقت بھی جلد آئے گا کہ ہماری باپردہ خواتین کو دیکھ کر دوسری خواتین بھی اپنے آپ کو پردہ میں رکھنے کی طرف مائل ہوں گی۔ کیونکہ میں نے یورپ میں مشاہدہ کیا ہے کہ پارکوں و پبلک جگہوں اور سیر گاہوں میں ہماری باپردہ خواتین کو دیکھ کریہاں کے مقامی معاشرے میں بسنے والی بعض دوسری خواتین اپنے آپ کو یا اپنے لباس کو سنبھالنا شروع کر دیتی ہیں۔ یہ ایک پہلا step ہے جو دوسروں پر اثر انداز ہونے کا ہے، یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہے کہ یہ بارش کے وہ پہلے قطرے ہیں جو آئندہ ایک موسلادھار بارش میں بدلیں گے اور یہاں کے علاقوں کو سیراب کردیں گے، ان شاء اللّٰہ۔

آئیے! اب کچھ ارشادات سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو ہمارے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی خواتین کو مخاطب ہو کر فرمائے ہیں:

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ، لجنہ اماءاللہ بھارت کے سالانہ اجتماع 2019ء میں بھجوائے گئے پیغام میں فرماتے ہیں:
’’آپ احمدی ہیں اور احمدی کا کردار ایسا ہونا چاہئے جو ایک نرالا اور انوکھا کردار ہو۔ پتہ لگے کہ یہ احمدی بچی ہے۔

اسلام ہرمسلمان مرد اور عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی احمدی طالبات اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔ لڑکیاں صرف لڑکیوں سے دوستی کریں۔ تبلیغی رابطہ بھی صرف عورتوں سے ہونا چاہئے… پس ہر احمدی عورت کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے۔ اپنا تقدس قائم رکھنا چاہیے اوریہ احساس ہونا چاہیے کہ ہم احمدی ہیں اور دوسروں سے فرق ہے۔ یاد رکھیں کہ آج کی بچیاں کل کی مائیں ہیں۔ اگران بچیوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگیا تو احمدیت کی آئندہ نسلیں بھی محفوظ ہوتی چلی جائیں گی۔‘‘

عجیب اور اہم نکتہ

میرا یہ طریق ہے کہ میں کوئی مضمون یا اداریہ لکھتے وقت ڈکشنریز ضرور ساتھ رکھتا ہوں تاکہ بوقت ضرورت consult کی جاسکے۔ اس مضمون کو لکھتے وقت خاکسار نے جب لفظ ’’پردہ‘‘ کو لغت کے آئینہ میں دیکھا تو ایک بہت عجیب اور اہم نکتہ بھی سامنے آیا۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض اہم اور ساخت کے لحاظ سے نازک اعضاء کی حفاظت کے لیے ان کو جھلیوں میں لپیٹ رکھا ہے۔ جیسے کان کے اندر کی جھلی جو کان کے پردہ میں موجود ہوتی ہے۔ آنکھ کے آئی بال (Eye Ball) کی حفاظت کے لئے پُتلی یا جھلّی۔ پیٹ کی جھلّی (اگرقربانی کی عید پر بکروں کو ذبح ہوتے دیکھیں- ان کے پیٹ یعنی اوجھڑی ایک جھلی میں لپٹی ہوئی نظر آتی ہے) عورت کے رحم کی جھلّی جو پردہ بکارت کہلاتی ہے اور کنوارپن کی نشانی ہوتی ہے۔اسی طرح دل کو بھی نہاں در نہاں خانوں میں تخلیق کر کے اس کی حفاظت کی گئی ہے، نیز جسم کے دیگر اندرونی اعضاء کو بھی مختلف غلافوں میں لپیٹ کر قدرت نے ان کی حفاظت کو یقینی بنایا ہے۔

حجاب لفظ کے تحت بھی جسم کی بعض جھلیوں کا ذکر ملتا ہے جیسے حجاب حاجز ایک ایسی جھلّی جو معدے کو تنفس کی نالی سے جدا کرتی ہے۔ اسے پردہ شکم بھی بولتے ہیں۔ یہ وہی پردہ معلوم ہوتا ہے جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ پھر دل اور گردے کے ارد گرد کی جھلّی جو ان اعضاء کو مختلف حوادث اور انسانی جسم کی تبدیلیوں سے محفوظ بناتی ہے۔

جہاں تک اسلامی پردہ کا تعلق ہے۔اس سے مراد، مرد اور عورت دونوں کو غض بصر اور اپنی شرم و حیاء کی حفاظت کرنے کی تلقین ملتی ہے اور عورتوں کو چہرے کا پردہ کرنے اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینے پر سے گزارنے کا حکم ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں:
بدنظری شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، جو شخص اس کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے میں اس کو ایک ایسی ایمانی قوت دوں گا جس کی شیرینی وہ اپنے دل میں پائے گا۔

(الترغیب و الترھیب جلد3 صفحہ153)

•حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مومن کو نہیں چاہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بےمہابا اپنی آنکھ کو ہر طرف اُٹھائے پھرے بلکہ یَغُضُّوا مِن اَبصَارِہِم (النور: 31) پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہیے اور بدنظری کے اسباب سے بچنا چاہیے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ53)

•پھر فرمایا:
’’یورپ کی طرح بےپردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں۔لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق وفجور کی جڑ ہے۔جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔ اگر اس کی آزادی اور بےپردگی سے اُن کی عِفّت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں۔ لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بےپردگی بھی ہو تو اُن کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔ بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے۔ پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بےاعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 104)

•حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’… اگر کسی حسین پر پہلی نظر پڑ جائے تو تم دوبارہ اس پر ہرگز نظر نہ ڈالو اس سے تمہارے قلب میں ایک نور پیدا ہو گا۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد3صفحہ213)

•حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ عورت کھلے مُنّہ پھرے اور مردوں سے اختلاط کرے ہاں اگر وہ گھونگھٹ نکال لے اور آنکھوں سے راستہ وغیرہ دیکھے تو یہ جائز ہے۔ لیکن مُنّہ سے کپڑا اُٹھا دینا یا مِکسڈ پارٹیوں میں جانا جبکہ اِدھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور اُدھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور اُن کا مردوں سے بےتکلّفی کے ساتھ غیر ضروری باتیں کرنا یہ ناجائز ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 304)

•پھر فرمایا:
’’پردہ چھوڑنے والا قرآن کی ہتک کرتا ہے۔ ایسے انسان سے ہمارا کیا تعلق۔ وہ ہمارا دشمن ہے اور ہم اس کے دشمن اور ہماری جماعت کے مَردوں اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے احمدی مَردوں اور ایسی احمدی عورتوں سے تعلق نہ رکھیں۔‘‘

(الفضل 27 جون 1958ء)

•حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’پردہ کا حکم عورتوں کو بُرے لوگوں کے شر سے بچانے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ان کے لیے تنگی نہیں بلکہ آسانی پیدا کرنا ہے۔ قرآن تو عورتوں کو دوسروں کے شر سے بچانا چاہتا ہے۔‘‘

(کتاب دورہ مغرب 1980ء صفحہ51)

•حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قرآن کریم نے اسی پہلو سے اس پردے کے مضمون کو کھولا ہے کہ تم اپنے آپ کو سنبھال کر رکھو، اپنی عزت کا خیال کرو، ہم نہیں چاہتے کہ تمہیں غیروں سے گزند پہنچے، ہم نہیں چاہتے کہ تم سوسائٹی میں عیش و عشرت کے کھلونے بن جاؤ، تمہاری عزت اور وقار کی خاطر ہم تمہیں پردے کی تعلیم دیتے ہیں۔

(مستورات سے خطاب 28 جولائی 1995ء)

•حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پردہ ایک اسلامی حکم بھی ہے اور ایک احمدی عورت اور نوجوان لڑکی کی شان بھی اور اس کا تقدس بھی ہے اور کیونکہ احمدی عورت کا تقدس بھی اس سے قائم ہے۔ اس کو قائم رکھنا ضروری ہے۔‘‘

(خطاب برموقع اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے 19 نومبر 2006ء)

اپنے اس آرٹیکل کو ایک ایسے واقعہ پر اختتام کرنا چاہتا ہوں جوپردہ کی اصل روح کو واضح کرتا اور ہمیں حجاب کو رواج دینے کے حوالے سے راستہ دکھاتا ہے۔ یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک نابینا صحابی حضرت ابن ام مکتومؓ دربار رسولؐ میں حاضر ہوئے-۔ جہاں دو ازواج مطہراتؓ بھی موجود تھیں۔ جن کو آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابن ام مکتومؓ سے پردہ کرنے کا حکم فرمایا۔ ایک زوجہ مطہرہ نےعرض کیا کہ حضورؐ! وہ تو نابینا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تم تو نابینا نہیں۔

(مشکوۃ المصابیح کتاب النکاح)

پس آج ہمیں پردہ کی ایسی روح کو اپنا کر آگے بڑھنا ہے جو ہمارے سامنے آنحضرت ﷺ کے اس فرمان میں موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب مرد و خواتین کو غض بصر سے کام لیتے ہوئے اسلامی پردہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

مڈغاسکر میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا نفوذ اور ترقی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مارچ 2022