• 11 جولائی, 2025

وبا کا دشتِ پُرخار اور مومنین کا کردار

’’انسان کو چاہئے کہ۔۔۔ خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو پھر اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو سکتی۔‘‘ حضرت مسیح موعود ؑ

ایک ناگہانی بلا نے کرہ ارض کوگھیرلیا ہے۔ فی الوقت ہر قسم کے حربے اس وباسے جلد سے جلدجان چھڑانے کے لئے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ دنیا بھر میں میڈیکل سٹاف اپنے آپ کو خطرات میں جھونک کر دن رات خدمت انسانیت میں مصروف ہے۔کتنے ہی مسیحا اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے۔ایک لاکھ سے زائد انسان موت کی وادی میں اتر چکے پر معاملہ ٹھنڈا ہوتا ہوانظر نہیں آرہا ۔عالمی سطح پر بدلتے لائف اسٹائل کے تقاضے بالکل نئے ہیں ۔دریں حالات بقائے حیات کے لئے بعض صفات و عادات کا خیال رکھنے کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے ۔چند چیدہ چیدہ امور درج ذیل ہیں۔

دعا

ہمیں یقینِ کامل ہے کہ قادر مطلق اپنی مخلوق کی دعاؤں کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔ ہم سے ہر کوئی ان دعاؤں کی قبولیت کا گواہ ہے۔ ہم جانتے ہیں اور یہی ہماری تعلیم ہےکہ ’’اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً سجھو کہ خدا تمھارا ہی ہے تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا۔ تم دشمن سے غافل ہو گے اور خدا اسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے توڑے گا۔‘‘ آج بحیثیت مجموعی انسانیت ایک ان دیکھے دشمن کےحملے کا شکار بن رہی ہے۔وہ قادر مطلق اور عزیز الحکیم خدا ہی اس مشکل سے ہمیں نجات دلا سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ147۔ جدید ایڈیشن)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ موجودہ وبا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’آخری حربہ دعا ہے اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے شر سے بچائے۔ ان تمام احمدیوں کے لیے بھی خاص طور پر دعا کریں جو کسی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 10،اپریل 2020ء)

خدمت خلق

مخلوق خدا سے ہمدردی اور خدمت کے مواقع کی تلاش ایک مومن کو ہمیشہ رہتی ہے۔ ابتلاء کے ان ایام میں خدمت انسانیت کے بہت سارے مواقع ہمارے ارد گرد ہیں۔ ہمیشہ کی طرح بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب و ملت خدمت کے لئے تیار قومِ احمد ایک بار پھر میدان عمل میں ہے۔ ہماری زندگیوں کا مقصد امام آخر الزمان کے مبارک الفاظ میں ہے یہی ہے۔

مرا مطلوب و مقصود و تمنا خدمت خلق است
ہمیں بارم ، ہمیں کارم، ہمیں رسمم ، ہمیں راہم

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔
’’میری توحالت یہ ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں،میرے کان میں ا س کی آواز پہنچ جائے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جائے۔ اگر تم کچھ بھی ا سکے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا کی کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد اول ص 305)

’’میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں میرا کوئی دشمن نہیں ہے ۔ میں بنی نوع انسان سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔‘‘

(اربعین نمبر1، روحانی خزائن جلد 17 ص344)

بلند اور وسیع حوصلہ

ان تکلیف دہ حالات میں بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنا اور اپنے اردگرد لوگوں کا مورال بلند رکھیں۔ خود بھی ثابت قدم رہیں اور دوسروں کو بھی حوصلہ دیں۔اپنے سینوں کو فراخ کریں اور حوصلےوسیع کر لیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 24 نومبر 1989ء کو ایک بصیرت افروز خطبہ میں عمومی رنگ میں ہماری توجہ اس طرف دلائی تھی ۔ شاید آج اس بات کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔

’’تیسری چیز وسعت حوصلہ ہے۔ بچپن سے ہی اپنی اولاد کو یہ سکھانا چاہئے کہ اگر تمہیں کسی نے تھوڑی سی بات کہی ہے یا تمہارا کچھ نقصان ہو گیا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں اپنا حوصلہ بلند رکھو اور حوصلے کی یہ تعلیم بھی زبان سے نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے عمل سے دی جاتی ہے۔بعض بچوں سے نقصان ہو جاتے ہیں گھر کا کوئی برتن ٹوٹ گیا سیاہی کی دوات گر گئی۔ کھانا کھاتے ہوئے پانی کا گلاس الٹ گیا اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر میں نے دیکھا ہے کہ بعض ماں باپ برافروخہ ہوکر بچوں کے اوپر برس پڑتے ہیں،ان کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔چپیڑیں مارتے ہیں۔‘‘

آج کل گھروں میں بند رہنے کی وجہ سے یہ چھوٹے چھوٹے مسائل ہر گھر کا حصہ بنتے جا رہے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ باحوصلہ، باصبر اور باہمت بن جائیں ۔ کچھ معلوم نہیں کہ کب کوئی بیمار پڑ جائے۔ ضروری ہے کہ اپنی طاقتیں بیماری سے مقابلہ کرنے کے لئے بچا رکھیں ۔

غصہ پر قابو اور صبر و تحمل

گھروں میں بند رہنے کی وجہ سے بچے بھی تنگ پڑ رہے ہیں اور بڑے بھی۔ موڈ بدلتے اور مزاج اونچ نیچ دکھاتے رہتے ہیں۔ درایں حالات زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنے غصے پر زیادہ قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے صبر اور تحمل کامظاہر کریں۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بنیادی خلق کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’ایک نیکی صبر وتحمل ہے ۔صبر کے نتیجہ میں بہت سی برائیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ صبر کی کمی کے باعث بہت سی غلط فہمیاں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہر احمدی کو صبر اختیار کرنا چاہئے۔ دل خراش باتوں کو برداشت کریں۔ اس پالیسی کے نتیجہ میں بہت جھگڑوں کا حل ہو سکتا ہے۔ فیملی تنازعات، خواہ وہ خاوند و بیوی کے درمیان ہوں یا بھائیوں کے درمیان ہوں۔ یہ سب بچگانہ تنازعات ہوتے ہیں‘‘

(مشعل راہ جلد 5 ص 140)

لڑائی جھگڑے سے پرہیز

وبا کی مصیبت کے ساتھ اس وقت دنیا کو درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ گھریلو تشدد کا آرہا ہے۔اب تک آنے والی رپورٹس ہوش ربا ہیں۔اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے ایک بیان میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث لاک ڈاؤن میں بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔عالمی سطح پر جنگ بندی کی درخواست کے ساتھ ساتھ گھریلو محاذ پر خانگی امن و امان برقرار رکھنے کی طرف توجہ دینا بھی ضروری ہو گیا ہے ۔

فرانسیسی حکومت کے مطابق، گزشتہ ایک ہفتے کے دوران وہاں گھریلو تشدد کی شرح 33 فیصد بڑھ گئی ہے۔ آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں گھریلو تشدد میں مدد سے متعلق انٹرنیٹ سرچ میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح جنوبی افریقہ میں لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے میں گھریلو تشدد کی 90 ہزار رپورٹس موصول ہوئیں۔

ان تشویشناک رپورٹس کے باوجود ہمیں بہر حال اپنا گھریلو ماحول عمدہ اور پُر امن رکھنا ہے۔

حدیث میں آتا ہے۔
ایک شخص آنحضرت ﷺ کے سامنے حضرت ابوبکرؓ کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور حضرت ابوبکرؓ چپ تھے حضور ؐ بیٹھے مسکراتے رہے۔ مگر جب اس شخص نے انتہا کردی تو حضرت ابوبکرؓ نے بھی جواباً کچھ کہہ دیا اس پر حضور ؐ ناراض ہو کر چل پڑے۔ حضرت ابوبکرؓ نے وجہ پوچھی تو آپ ؐ نے فرمایا جب تک تم خاموش تھے فرشتے تمہاری طرف سے جواب دے رہے تھے مگر جب تم نے جواب دینا شروع کیا تو فرشتے چلے گئے اور شیطان آگیا۔ میں شیطان کے ساتھ کس طرح بیٹھ سکتا تھا۔

(سنن ابی داود کتاب الادب باب الانتصار حدیث نمبر4251)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر تم دونوں کو ایک دوسرے کے عیب نظر آتے ہیں تو کئی باتیں ایسی بھی ہوں گی جو اچھی لگتی ہوں گی۔ یہ نہیں کہ صرف ایک دوسرے میں عیب ہی عیب ہیں؟ اگر ان اچھی باتوں کو سامنے رکھو اور قربانی کا پہلو اختیار کرو تو آپس میں پیار محبت اور صلح کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ آپ ﷺ کی بیویوں کی گواہی ہے کہ آپ ﷺ جیسے اعلیٰ اخلاق کےساتھ بیویوں سے حسن سلوک کرنے والا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو نصیحت فرماتے ہیں تو صرف نصیحت نہیں فرماتے بلکہ آپ ﷺ نے اپنے اُسوہ سے بھی یہ ثابت کیا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 22۔اگست 2008ء)

پھر فرمایا:
’’جب شادی ہوگئی تو شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔نیک سلوک کریں۔ایک دوسرے کو سمجھیں۔اللہ کا تقویٰ اختیار کریں‘‘

(مشعل راہ جلد 5 حصہ چہارم ص 116)

جسمانی صحت کی طرف توجہ

تمام ڈاکٹرز اور ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ اس بیماری سے لڑنے کےلئے دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی قوت مدافعت بڑھانے کی طرف توجہ دینا چاہئے ۔ اس کے لئے گھر میں ہی حسب موقع چھوٹی موٹی ورزش کو جاری رکھنا بہت ضروری ہے۔ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی ہمیں اس طرف توجہ دلاچکے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں ۔

’’پھرعموماً ڈاکٹر بھی آج کل یہی کہہ رہے ہیں کہ اپنے جسم کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے اپنے آرام کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ اس کے لیے اپنی نیند کو پورا کرنا چاہئے۔ اپنی نیند پوری کریں۔ خود بھی اور بچے بھی۔ ایک بڑے آدمی کے لیے چھ سات گھنٹے کی نیند ہے۔ بچے کے لیے آٹھ، نو گھنٹے یا دس گھنٹے کی نیند ہے۔ اس طرف توجہ دینی چاہئے…اسی طرح بچوں کو بھی عادت ڈالیں کہ جلدی سوئیں اور آٹھ نو گھنٹے کی نیند پوری کر کے جلدی اٹھیں۔پھر بازاری چیزیں کھانے سے بھی پرہیز کریں…پھر یہ بھی ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آج کل پانی بار بار پینا چاہئے۔ ضروری ہے کہ ایک گھنٹے بعد، آدھے پونے گھنٹے بعد گھنٹے بعد ایک دو گھونٹ پی لیں۔ یہ بھی بیماری سے بچنے کے لیے ایک ذریعہ ہے۔ہاتھوں کو صاف رکھنا چاہئے۔ اگر سینیٹائزر نہیں بھی ملتے تو ہاتھ دھوتے رہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 20، اپریل 2020ء)

بچوں کی نگرانی

ان دنوں بچے گھروں پر ہیں یہ ایک سنہری موقع ہے کہ ہم ان کی تربیت کی طرف توجہ کریں۔ان کی دینی،اخلاقی،معاشرتی تربیت کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔جسمانی لحاظ سے بھی صحت کا خیال رکھیں کہ ان حالات میں کورونا کے مریض کے علاوہ دیگر بیماریوں اور حادثات کو نسبتاً کم توجہ مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب بچوں کو اپنے فضل سے محفوظ رکھے۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے یکم ستمبر 2007ء کو جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پراپنے خطاب میں ایک احمدی مسلمان عورت پر عائد ہونے والی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عائلی زندگی کے حوالہ سے ارشاد فرمایا۔

’’ایک احمدی عورت کی ذمہ داری صرف دنیاوی معاملات میں اپنے گھروں کی یا اپنے بچوں کی نگرانی کرنا اور تعلیم کا خیال رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک احمدی عورت کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ احمدی عورت نے اسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنے گھر اور خاوندکے گھر کی نگرانی کرنی ہے۔ اپنی اولاد کی دنیاوی تعلیم وتربیت کا خیال بھی رکھنا ہے۔ اپنی اولاد کی اسلامی اخلاق کے مطابق تربیت بھی کرنی ہے اپنی اولاد کی روحانی تربیت بھی کرنی ہےاور ان تمام تربیتی امور کو اپنی اولاد میں رائج کرنے کے لئے، ان کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے، اپنے پاک نمونے قائم کرنے ہیں۔ اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھال کر عبادت اور دوسرے اعمالِ صالحہ بجا لانے کے نمونے اپنی اولاد کے سامنے رکھنے ہیں۔ تبھی ایک احمدی عورت اپنے خاوند کے گھر کی صحیح نگران کہلا سکتی ہے۔ تبھی ایک احمدی ماں اپنی اولاد کی تربیت کا حق ادا کر سکتی ہے ورنہ اس کے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے کبھی اولاد صحیح تربیت نہیں پاسکتی۔‘‘

(مستورات سے خطاب یکم ستمبر 2007ء)

شکرگزاری

اگر ہم ابھی تک وبا کے بد اثرات سے محفوظ ہیں تو ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر اد اکریں۔ اپنے آپ کو اپنی فیملی میں محفوظ پاتے ہوئے شکر گزاری سے اس کے حضور سجدہ ریزہوں اور دوسروں کی تکلیف کو محسوس کر کے ان کے لئے دعا کریں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’مومن کی یہی شان بتائی گئی ہے کہ یہ ایک جسم کی طرح ہے۔ جب ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ پس ہمارے کسی بھی احمدی بھائی کی تکلیف ہماری تکلیف ہے، بلکہ احمدی کا دل تو اتنا حسّاس ہے اور ہونا چاہئے کہ کسی بھی انسان کی تکلیف پر وہ تکلیف محسوس کرے۔ پس جب ہم ایک درد کے ساتھ ان ابتلاؤں سے سرخرو ہو کر نکلنے اور ان کے جلد ختم ہونے کے لئے دعا کریں گے تو یقیناً وہ مجیب الدعوات خدا ہماری دعاؤں کو سنتے ہوئے ہمارے بھائیوں کی تنگیوں اور پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ 8 فروری 2008ء)

دن بہت ہیں سخت اور خوف و خطر در پیش ہے
پر یہی ہیں دوستوں اس یار کے پانے کے دن

حضرت اقدس مسيح موعودؑ فرماتے ہيں۔
’’دنيا کے مشکلات اور تلخياں بہت ہيں۔يہ ايک دشتِ پُرخار ہے۔اس ميں سےگزرنا ہر شخص کا کام نہيں ہے۔گزرنا تو سب کو پڑتا ہے، ليکن راحت اور اطمينان کے ساتھ گزرجانايہ ہرايک شخص کو ميسر نہيں آسکتا۔ يہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو اپنی زندگی کو ايک فانی اور لاشے سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے ليے اسے وقف کرديتے ہيں اور اس سے سچا تعلق پيدا کرليتے ہيں، ورنہ انسان کےتعلقات ہی اس قسم کے ہوتے ہيں کہ کوئی نہ کوئی تلخی اس کو ديکھنی پڑتی ہے۔ بيوی اور بچّے ہوں تو کبھی کوئی بچّہ مرجاتا ہے تو صدمہ برداشت کرتا ہے۔ ليکن اگر خدا تعالیٰ سے سچّا تعلق ہو توايسے ايسے صدمات پر ايک خاص صبر عطا ہوتا ہے۔ جس سے وہ گھبراہٹ اور سوزش پيدا نہيں ہوتی جو اُن لوگوں کو ہوتي ہے جن کا خداتعالیٰ سے کوئی تعلق نہيں ہوتا۔ پس جو لوگ اللہ تعالیٰ کے منشاء کو سمجھ کر اس کی رضا کےليےاپنی زندگی وقف کرتے ہيں وہ بےشک آرام پاتے ہيں، ورنہ ناکامياں اور نامرادياں زندگی تلخ کرديتی ہيں۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 16۔ايڈيشن1988ء)

توکل رکھیں

مومن کی شان ہے کہ اپنے قدرتوں والے خدا پر توکل کرتا ہے لیکن ان حالات میں تمام تر حکومتی ہدایات کی پابندی کرتے ہوئے اپنے آپ بچانے کی تدابیر کرتے ہوئے توکل کریں۔ توکل یہ نہیں ہے کہ ہم کھلے عام پھریں احتیاط نہ کریں اور زبانی توکل کے نعرے لگاتے رہیں۔ پھوکا توکل کسی کام کا نہیں۔ہمیں تدبیر پوری طرح اختیا رکرناہے اور پھر نتائج کوخدا تعالیٰ پر چھوڑنا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’انسان کو چاہئے کہ تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دیوے اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو پھر اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو سکتی۔ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کےیہ معنے نہیں ہیں کہ انسان تدبیر کو ہاتھ سے چھوڑدے بلکہ یہ معنے ہیں کہ تدبیر پوری کر کے پھر انجام کو خداتعالیٰ پر چھوڑے اس کا نام توکل ہے اور اگر وہ تدبیر نہیں کرتا اور صرف توکل کرتا ہے تو اس کا توکل پھوکا ہوگا اور اگر نری تدبیر کر کے اس پر بھروسہ کرتا ہے۔ اور خداتعالیٰ پر توکل نہیں ہے۔ تو وہ تدبیر بھی پھوکی ۔ایک شخص اونٹ پر سوار تھا۔ آنحضرت ﷺ کو اس نے دیکھا۔تعظیم کے لئے نیچے اترا اور ارادہ کیا کہ توکل کرے اور تدبیر نہ کرے۔چنانچہ اس نے اونٹ کا گھٹنا نہ باندھا۔ جب رسول اللہ ﷺ سے مل کر آیا تو دیکھا کہ اونٹ نہیں ہے ۔واپس آکر آنحضرت ﷺ سے شکایت کی کہ میں نے تو توکل کیا تھا لیکن میرا اونٹ جاتا رہا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تو نے غلطی کی۔پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھتا، پھر توکل کرتا تو ٹھیک ہوتا۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 566)

قضا و قدر پر راضی

ہم میں سے بعض اس وبا سے براہ راست متاثر ہو کر اپنے پیاروں کی جدائی کا غم برداشت کر رہے ہیں۔ تعلق محبت کے باوجود چاہتے ہوئے بھی اپنے عزیزوں کو نارمل طریق پر الوداع نہیں کرسکتے۔ تجہیز و تکفین کے سارے مسائل بدل گئے ہیں۔زندہ بچ جانے والوں کی بہتری کے لئے یہ ضروری ہو گیا ہے۔ وائرس سے متاثرہ مریضوں اور فوت شدگان سے دور رہا جائے۔ ایسے میں ایک مومن کی شان یہی ہے کہ خدا کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صبر اور حوصلے سے صدمات برداشت کرے۔ ان شاء اللہ تکلیف کے یہ دن بھی گزر جائیں گے۔ جن کےانسانوں کے متعلق خدا تعالیٰ کی تقدیر ظاہر ہوچکی ہے اور آئندہ ہو گی ہمیں ان کے لئے دعا کرنا ہے اور راضی برضا رہنا ہے۔

میرے آنگن سے قضا لے گئی چن چن کے جو پھول
جو خدا کو ہوئے پیارے میرے پیارے ہیں وہیں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں۔
’’دعا اور اس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلاء پر ابتلاء آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلاء بھی آ جاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں۔ مگر مستقل مزاج، سعیدالفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے۔ ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سِرّیہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی۔ اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں۔ پس کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ708-707 جدید ایڈیشن)

اللہ کرے ابتلا کے یہ دن جلد سے جلد ختم ہوں اور انسانیت پر آئی یہ مشکل کی گھڑیاں اختتام کو پہنچیں ۔ ہم یہی گنگناتے ہوئے اس دشت پرخار سے پار ہو جائیں۔

ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہو


(چوہدری نعیم احمد باجوہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 28 ۔اپریل 2020ء