• 19 مئی, 2024

رمضان کا مہینہ مبارک اور دعاؤں کا مہینہ ہے

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنِّى قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِى وَلْيُؤْمِنُواْ بِى لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

(البقرہ:187)

ترجمہ: اور (اے رسول) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو جواب دے کہ میں ان کے پاس ہی ہوں جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتاہوں سو چاہئے کہ وہ دعا کرنیوالے بھی میرے حکم کو قبول کرتے ہوں شرط یہ ہے کہ وہ میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا ہدایت پائیں۔

رمضان دُعاؤں کے لئے نہایت سازگار اور موزوں ترین مہینہ ہے کیونکہ روزہ اور دعا کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔اسی تعلق کی وجہ سے قرآن کریم میں روزوں کے احکامات کے عین درمیان دعا کا مضمون بیان کیا گیا ہے۔اور فرمایا اے محمدؐ! جب تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو ان کو بتا دے کہ میں تو قریب ہوں۔جب دُعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دُعا قبول کرتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ وہ بھی میرے احکام کو قبول کریں اور مجھ پر ہی ایمان لائیں تاکہ وہ رُشد حاصل کریں۔

حدیث میں آتا ہے کہ رمضان کی ہر رات اللہ تعالیٰ منادی کرنے والے ایک فرشتہ کو عرش سے فرش پر بھیجتا ہے۔جو یہ اعلان کرتا ہے یا بَاغِیُ الْخَیْرِ ھَلُمَّ ھَلْ من داعٍ یُسْتَجَابُ لہٗ ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ یُسْتَغْفَرُ لَہٗ ھَلْ مِنْ تَائبٍ یُتَابُ علیہ ھَلْ مِنْ سائلٍ یُعْطَی سؤلہٗ

(کنزالعمال)

کہ اے خیر کے طالب! آگے بڑھو۔ کیا کوئی ہے جو دُعا کرے تا کہ اس کی دعا قبول کی جائے۔ کیا کوئی ہے جو استغفار کرے کہ اُسے بخش دیا جائے کیا کوئی ہے جو توبہ کرے تا کہ اس کی توبہ قبول کی جائے۔ کیا کوئی ہے جو سوال کرے۔ جس کو پورا کیا جائے گا۔

ایک روایت میں یُسْتِجَابُ فِیْہِ الْدُّعَاءُ کے الفاظ آتے ہیں کہ اس ماہ دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے دعاؤں کا مہینہ ہے‘‘

(الحکم 24جنوری 1901ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں۔
’’لَعَلَّہُمْ یَرْشدُوْنُ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کو رُشد سے خاص تعلق ہے اور اس کا ذریعہ خدا پر ایمان، اس کے احکام کی اتباع اور دُعا کو قرار دیا ہے اور یہی باتیں ہیں جن سے قربِ الہٰی حاصل ہوتا ہے‘‘

(مجموعہ فتاویٰ احمدیہ جلد1ص182)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں۔
’’رمضان المبارک سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرو اس میں دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں‘‘

(الفضل4 دسمبر 1968ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’جتنی زیادہ تعداد میں ایسی دعائیں کرنے والے ہماری جماعت میں پیدا ہوں گےاتنا ہی جماعت کا روحانی معیار بلند ہوگا اور ہوتا چلا جائے گا۔خلیفہ وقت کو بھی آپ کی دعاؤں سے مدد ملتی چلی جائے گی اور جب یہ دونوں مل کر ایک تیز دھارے کی شکل اختیار کریں گے تو پھر ان شاء اللہ تعالیٰ فتوحات کے دروازے بھی کھلتے چلے جائیں گے۔پس ہمارے ہتھیار یہ دعائیں ہیں جن سے ہم نے فتح پانی ہے‘‘

(خطبات مسرور جلد1 ص511)

ویسے تو رمضان کی تمام گھڑیاں ہی مبارک اور قبولیت دُعاکی گھڑیاں ہیں۔ مگر ایک گھڑی جس کی آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے نشان دہی فرمائی وہ افطار کا وقت ہے فرمایا۔ إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ

(ابن ماجہ باب فی الصّائم لاقوۃ دعوتہ)

کہ روزہ دار کے لئے اس کی افطاری کے وقت کی دُعا ایسی ہے جو ردّ نہیں کی جاتی۔ کیونکہ سارا دن بھوکا پیاسا رہ کر خدا کی خاطر ہر جائز ناجائز چیز سے رک کر جب افطار کرنے لگتا ہے تو اس کے دل پر سوزو گداز اور رقت کی ایک خاص کیفیت ہوتی ہے اور اس کی ساری توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہوجاتی ہے۔

پھر حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا۔ تین اشخاص کی دُعا کبھی ردّ نہیں کی جاتی۔ اُن میں سے ایک روزہ دار کی دعا ہے اور ان دعاؤں کے لئے آسمانوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔

حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ سَائلُ اللّٰہ ِ فِیْہِ لَا یَخْبُ (جامع الصغر) کہ اس ماہ اللہ سے مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔ مگر ضرورت اس امرکی ہے کہ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لی اور وَلْيُؤْمِنُوا بِي کی شرائط پر پورا اُترا جائے۔

اس کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک دعا سکھلائی ہے کہ
’’الہٰی !تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کرسکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا کی طاقت بخش دے گا‘‘

(ملفوظات جلد2ص563)

دُعا کرنے کے جو ڈھب اور سلیقے آنحضور ﷺ نے ہمیں سکھلائے ان میں سے ایک آنکھ کا پانی ہے۔ جو خوف خدا کی راہ میں آنسو بن کر نکلتا ہے اور جو خدا کو بہت پیارا ہے۔ آنسو تو محبت کے سفیراور قبولیت کی سند ہیں اور جس کو رونا میسر آجائے۔ اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ ایسے لوگ خدا کی گود میں پلتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔
’’عاجزی اپنا شعار بنا لو۔ روزے کی عادت ڈالو کیونکہ رونا اُسے بہت پسند ہے اگر 40 دن تک رونانہ آوے تو سمجھو دل سخت ہوگیا ہے‘‘

اور خود اپنے متعلق آپ فرماتے ہیں۔

؎ رونا ہے پیشہ ہمارا پیش رب ذوالمنن

گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا کے حضور رونے کو بطورپیشہ اپنایا اور اگر ہم میں سے ہر ایک اس مبارک اور مقدس پیشہ کو اپنا لےتو ہماری تمام مرادیں بر آ سکتی ہیں۔

حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی ؓ سے کسی نے پوچھا کہ
آپ تو بڑے عالم فاضل اعلیٰ خطیب تھے۔ اپنے وعظ میں لوگوں کو رُلایا کرتے تھے اب کیا ہوا مرزا غلام احمد کے مرید ہو کر رونا شروع کر دیا۔ تو آپؓ نے فرمایا ’’مرزا صاحب نے مجھے رونا سکھلا دیا ہے۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

؎ جس کو تیری دُھن لگی آخر وہ تجھ کو جا ملا
جس کو بے چینی ہے یہ وہ پاگیا آخر قرار
؎ عاشقی کی ہے علامت گرِیہ و دامان دشت
کیا مبارک آنکھ جو تیرے لئے ہوا اشکبار

پس یہ دن اپنے خدا کا ہو جانے،اس کو ملنے اور اُس سے اُس کو مانگنے کے دن ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔
’’اس رمضان میں اپنے خدا سے خدا کو مانگنے کی دعا کریں ۔اگر تم نے خدا سے خدا کو مانگ لیا تو تم نے سب کچھ مانگ لیا‘‘

پھر آپ نے ایک دفعہ رمضان میں ’’سید الاستغفار‘‘ کو رمضان کےتحفہ کے طور پر پیش کرکے پڑھنے کی تحریک فرمائی۔

حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں۔

؎ چہرہ دکھلا کر مجھے کر دیجئے غم سے رہا
کب تلک لمبے چلے جائیں گے یہ ترسانے کے دن

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔
’’اے احمدی!اِس رمضان کو فیصلہ کُن رمضان بنا دو۔ اس الٰہی جہاد کے لئے تیار ہوجاؤ مگر تمہارے لئے کوئی دنیا کا ہتھیار نہیں ہے۔دنیا کے تیروں کا مقابلہ تم نے دعاؤں کے تیروں سے کرنا ہے۔ یہ لڑائی فیصلہ کُن ہوگی لیکن گلیوں اور بازاروں میں نہیں، صحنوں اور میدانوں میں نہیں بلکہ مسجدوں میں اس لڑائی کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ راتوں کو اُٹھ کر اپنی عبادت کے مَیدانوں کو گرم کرو اَور اِس زور سے اپنے خدا کے حضور آہ و بکا کرو کہ آسمان پر عرش کے کنگرے بھی ہلنے لگیں۔ ’’مَتٰی نَصْرُاللّٰہ‘‘ کا شور بلند کردو۔ خدا کے حضور گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے سینے کے زخم پیش کرو، اپنے چاک گریبان اپنے ربّ کو دکھلاؤ اور کہو کہ اَے خدا!

؎قوم کے ظلم سے تنگ آکے مرے پیارے آج
شور محشر ترے کوچہ میں مچایا ہم نے

پس اس زور کا شور مچاؤ اور اس قُوّت کے ساتھ مَتٰی نَصْرُاللہ ِ کی آواز بلند کرو کہ آسمان سے فضل اور رحمت کے دروازے کُھلنے لگیں اور ہَر دروازے سے یہ آواز آئے

اَلَا اِنَّ نَصْرَاللّٰہ ِ قَرِیْبٌ
اَلَا اِنَّ نَصْرَاللّٰہ ِ قَرِیْبٌ
اَلَا اِنَّ نَصْرَاللّٰہ ِ قَرِیْبٌ

سنو سنو! کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔ اے سننے والو! سنو کہ خدا کی مدد قریب ہے۔ اے مجھے پکارنے والو! سنو کہ خدا کی مدد قریب ہے اوروہ پہنچنے والی ہے۔

(خطبات طاہر جلد 2صفحہ349)

حضرت مسیح موعودؑ جماعت کو دُعا کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’اگر تم چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں اَمن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پُر کرو۔جس گھر میں ہمیشہ دُعا ہوتی ہے خدا تعالیٰ اُسے برباد نہیں کیا کرتا‘‘

(ملفوظات جلد3 ص232)

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 28 ۔اپریل 2020ء