بتاؤں تمہیں کیا کہ کیا دیکھا
بستے شہروں کو بنتے صحرا دیکھا
آسماں وہی زمیں وہی مگر اک بلا
قیامت صغریٰ کا سا سما دیکھا
قرنطینہ جو ہوئی میسر سب کو
ہر بشر کو بس مانگتے دعا دیکھا
خلوت میں جلوت کا عجیب نمونہ
امن کے شہزادے کو آج تنہا دیکھا
ہزاروں میل دور مسکن ہے اس کا مگر
ہر احمدی کے دلوں میں بستا دیکھا
وہ ہم کلام تھا آج تھے دل منتظر
اپنے سب غم چھپائے مطمئن سا دیکھا
تاریخ کے واقعات بیان کر رہا تھا یوں
گویا نئے نئے نکات کا در کھلا دیکھا
مرد خدا کہتا ہے ہو جاؤ سوار کشتی نوح پر
مسیح کی تعلیم پر کرو عمل اس کو دوا دیکھا
کہتا ہے محبت سے کہ دعائیں بس دعائیں کرو
نسخہ ہے کیمیا ہر کام کو اس سے بنا دیکھا
شفقتیں محبتیں دعائیں بانٹتا ہے وہ
اپنوں غیروں کو اس پہ فدا دیکھا
خدا کی راہ وہ دکھائے جب
باندھتے ہوئے عہد وفا دیکھا
سمعنا و اطعنا میں قدسیہ نوید یہی
اس میں ہی وحدت کا ارتقا دیکھا
(نصرت قدسیہ وسیم۔ فرانسؔ)