حضرت میر محمد سعیدؓ ایک جید قادری مشائخ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز کشمیری مرحوم و مغفور کے واحد فرزند تھے جن کے مریدین کا حلقہ دو تین لاکھ سے کم نہ تھا۔میر صاحب نے اپنے آبائی سلسلہ پیری مریدی اور ہزاروں عقیدت مندان قدیم کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ حق پرست پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اختیارکی، گو کہ آپؓ کی بیعت سے پہلے حیدرآباد دکن میں نہایت مخلص جماعت قائم ہوچکی تھی لیکن آپؓ نے اس کی تنظیم اور تشکیل نو میں بہت اہم کردار ادا کیا، حضرت مولوی ابوالحمیدآزاد رضی اللہ عنہ حیدرآباد دکن کی تاریخ احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’…..پھر جب ہماری جماعت کے امیر حضرت مولانا مولوی میر محمد سعید صاحب دام فیوضہٗ چھ ماہ کی اقامت کے بعد دارالامان سے بلدہ حیدرآباد تشریف لائے تو جناب ممدوح نے افراد جماعت کو جمع کرکے باقاعدہ نماز جماعت و عیدین کا انتظام فرمایا جو ان کے مکان واقع مستعد پورہ میں ہوا کرتی تھی، حضرت امیر کی تشریف آوری کے بعد سے تبلیغ کا سلسلہ بھی شروع ہوا …..حضرت امیر جماعت کے اس تبلیغی مساعی جمیلہ اور اس کے مبارک اثرات کو دیکھ کر بعض خفاش چشموں کی آنکھوں کو آفتاب صداقت کی تجلی نے اندھا کردیا اور ان کے سینوں میں آتش حسد و عناد کا شعلہ بلند ہونے لگا۔‘‘
(الحکم21,28 مئی 1924ء )
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ اس ضمن میں بیان کرتے ہیں۔
’’حضرت مولوی میر محمد سعید کے سلسلہ میں داخل ہونے کے بعد حیدرآباد کے عوام و خواص میں ایک ہلچل پیدا ہوگئی، حضرت میر محمد سعید صاحب ایک عالم باعمل تھے اور درس تدریس کے علاوہ وہ لوگ ان کی عملی زندگی سے متاثر تھے اور ان کا عام طور پر ادب و احترام کیا جاتا تھا لیکن ان کے سلسلہ میں داخل ہونے کی وجہ سے حیدرآباد کے علماء شیوخ کو ایک خطرہ محسوس ہونے لگا اور انھوں نے مختلف رنگوں میں مخالفت کا سلسلہ آغاز کیا۔۔۔‘‘
(حیات حسن صفحہ 27 مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ مطبوعہ طارق برقی پریس حیدرآباد دکن)
آپؓ حضور علیہ السلام کی زندگی میں متعدد مرتبہ قادیان آئے اور مہینوں حضورؑ کی صحبت پاک میں رہ کر فیض حاصل کیا۔
(حیات حسن صفحہ 28 مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ)
ایک جگہ آپؓ کی قادیان حاضری کا ذکر یوں درج ہے:
’’جناب مولوی میر محمد سعید حیدرآباد سے حضرت اقدس کی پاک صحبت سے فیض حاصل کرنے کے واسطے چھ ماہ کی رخصت لے کر آئے ہوئے ہیں، خدا تعالیٰ اُن کو اس میں کامیاب کرے۔‘‘
(الحکم 10 ستمبر 1900ء)
آپؓ ایک علمی شخصیت تھے اور عالم باعمل تھے ایک مرتبہ آپؓ قادیان میں حاضر تھے کہ حضور علیہ السلام نے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’ہم چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ ان دلائل سے باخبر ہوں تا کہ کسی محفل میں اُن کو شرمندہ نہ ہونا پڑے، میر محمد سعید صاحب حیدرآبادی اور یعقوب علی صاحب اور چند دوست ایسی کتابیں سوال و جواب کے طور تالیف کریں جو ہمارے مقاصد کو لیے ہوئے ہوں اور مدرسہ میں رائج کی جاویں۔‘‘
(ملفوظات جلداول صفحہ 387)
آپؓ کی نیکی اور تقویٰ اور دینی جوش کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو دکن جیسے دور دراز علاقے میں غیر احمدیوں سے بیعت لینے کی اجازت فرمائی تھی، خلافت اولیٰ اور ثانیہ میں بھی یہ اجازت قائم رہی۔
(اخبار فاروق 10فروری 1916ء)
حضرت اقدس علیہ السلام سے تعلق بیعت پکڑنے کے بعد آپؓ ہمیشہ اس نور کو دوسروں تک پھیلانے میں کوشاں رہے اور بہتوں تک اس پیغام حق کو پہنچایا، حضرت سیٹھ حسن یادگیرؓ آپؓ ہی کے ذریعہ داخل احمدیت ہوئے۔
(حیات حسن صفحہ 27)
حضور علیہ السلام کی وفات تک ایک معقول تعداد احباب جماعت کی حیدرآباد دکن میں پیدا ہوچکی تھی، اخبار بدر 30مئی 1912ء صفحہ4،5 پر فہرست بیعت کنندگان حیدرآباد دکن شائع ہوئی ہے جس کے آغاز میں ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں۔
’’مولوی میر محمد سعید و دیگر برادران کی توجہ اور سعی سے حیدرآباد دکن میں احمدیوں کی ایک بڑی جماعت طیار ہوگئی ہے جس کی فہرست جناب مولوی موصوف اور برادر سید فضل احمد نے ہم کو دی ہے …..‘‘
کٹک صوبہ اڈیشا (انڈیا) سے احمدیہ جماعت میں داخل ہونے والے سب سے پہلے بزرگ حضرت سید عبدالرحیم کٹکی رضی اللہ عنہ بھی آپؓ ہی کے ذریعہ احمدیت سے وابستہ ہوئے۔
(الحکم 28مئی و 7جون 1939ء)
جون 1915ء میں آپؓ نے حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓ کے درس القرآن سے مستفیض ہونے کے بعد قرآن کریم کا ایک مکمل ترجمہ مرتضائی مطبع آگرہ سے شائع کیا۔ اس ترجمہ کے آخر میں آپؓ نے ’’اَوضَحُ القُرْآن مُسَمّٰیٰ بِہ تفسیراحمدی‘‘ کے نام سے تمام تفسیری نوٹ جو حضرت خلیفہ اولؓ کے ہی بیان فرمودہ ہیں، یکجا کردیے ہیں۔اخبار الفضل نے اس ترجمہ اور تفسیری نوٹوں کا ذکریوں شائع فرمایا۔
’’مولانا میر محمد سعید صاحب میر مجلس انجمن احمدیہ نے مکمل ترجمہ قرآن شائع کیاہے جو حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ خلیفہ اولؓ کے درس سے مأخوذ ہے اور آخر میں تفسیری نوٹ دیئے ہیں جو آپؓ سے سبقًا پڑھ کر لکھے گئے ہیں یا آپؓ کے درس کے نوٹوں اور دیگر بزرگان سلسلہ کی تحریروں سے اخذ کیے گئے ہیں۔‘‘
(الفضل 19فروری 1916ء صفحہ 11)
یہ ترجمہ حال ہی میں دوبارہ شائع ہوا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کی قدرت ثانیہ کے متعلق پیشگوئی پر ایمان لاتے ہوئے اس کے ظہور کے وقت فورًا لبیّک کہنے والوں میں سے ہوئے اور تا دم آخر خلافت حقہ کے ساتھ وابستہ رہے بلکہ حضور علیہ السلام کی وفات کے وقت انتخاب خلافت سے قبل ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؓ کے دل میں حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓکے متعلق القاء ہوا۔
(بدر 2جون 1908ء صفحہ 5کالم 3)
آپؓ خلیفۃ المسیح کے انتہائی مطیع اور فرمانبردار تھے اور خلافت کا آپؓ کے دل میں بے حداحترام تھا۔ خلافت ثانیہ کے وقت بھی آپؓ اس کے اولین لبیک کہنے والوں میں سے تھے اور اس سلسلے میں مرتبۂ کشف سے مشرف تھے، آپؓ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے متعلق اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’نیازمند درگاہ بے نیاز نے آج شب میں کہ شب پنجشنبہ ہے قریب 3بجے کے جب کہ درود شریف پڑھنے سے مشرف تھا دیکھا کہ ہمارے حضور خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ ایک منارہ نورانی کے قریب کھڑے ہوئے ہیں اور بہت سے اولیاء و ائمہ و مقدس حضرات آپؓ کے ارد گرد ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ….ہیں اور مولٰنا نورالدین قدس سرّہ سیدھے ہاتھ پر حضورؑ کے کھڑے ہیں اور مجمع حاضرین سے مخاطب ہوکر بآواز بلند یہ شعر پڑھ رہے ہیں اور حضورؑ کی طرف انگشت شہادت سے بتاتے جاتے ہیں اور تمام سامعین وجد و سرور کی حالت میں ہیں۔
روئے خوب است و کمال ہنر و دامنِ پاک
لا جرم ہمت پاکانِ دو عالم با اوست
چونکہ یہ روحانی نظارہ عجیب پُر لطف و باہیبت و عظمت تھا اس لیے قلم بند کرلیا گیا اور بطور شہادت کے لکھا گیا ہے۔ اَللّٰہُم مَتِّعِ المُسْلِمیْنَ بِطُولِ حَیاتِہٖم آمین۔
(اخبار’’فاروق‘‘ 10فروری 1916ء)
آپؓ حیدرآباد جماعت کے پہلے امیر تھے، آپؓ نے اس کی تنظیم نو میں بہت محنت کی اور اہل جماعت کو اکٹھا کرکے مرکز سلسلہ کے ساتھ رابطہ رکھا اور اپنے نیک اور پاکیزہ نمونے سے عمدہ اثر قائم کیا، ایڈیٹر صاحب اخبار الحکم ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:
’’حیدرآباد دکن میں جناب سید محمد سعیدؓ کی کوشش اور سرگرمی عمدہ نتائج پیدا کر رہی ہے، سید صاحبؓ تبلیغِ حق میں بڑی دلچسپی سے حصہ لے رہے ہیں اور ڈیڑھ سو کے قریب آدمی صرف ان کی مساعی جمیلہ سے اس سلسلہ حقہ میں داخل ہو چکے ہیں۔….اُمید ہے کہ میر صاحب موصوف کی یہ کوششیں دینی ترقی کا موجب ہوں گی۔‘‘
(الحکم 31 جولائی 1899ء)
جب قادیان میں دینیات کی شاخ کھولی گئی اور یہ تحریک کی گئی کہ ہونہار طلبہ کو اس شاخ میں تعلیم کی غرض سے قادیان بھیجا جائے۔ حضرت میر محمد سعید رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس مرکزی تحریک پر عمل درآمد پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیٹر اخبار الحکم نے لکھا۔
’’گزشتہ اشاعت کے بعد جو صدا شاخ دینیات کے اجراء اور اُس میں مستعد، ذکی اور متدیّن طالب علموں کے بھیجے جانے کے متعلق ہمارے کان میں پہنچی ہے،وہ حیدرآباد دکن سے آئی ہے۔ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ مولانا میر محمد سعیدؓ جس کا نام نامی ایک سے زیادہ مرتبہ الحکم کے کالموں میں چھپا ہے حیدرآباد کی انجمن اتحاد اسلامی کی طرف سے دارالامان کی شاخ دینیات میں ایسے اصول پر جو ہم نے اس شاخ کے اجراء کے متعلق شائع کیا تھا بغرض تعلیم آئیں گے۔ مولانا سید محمد سعیدؓ حیدرآباد کے مشاہیر علماء میں سے ہیں۔ان کے چہرہ سے رشد و سعادت کے آثار نمایاں ہیں اور یہ ان کی ہی ہمتِ وسیع کا نتیجہ ہے کہ حیدرآباد میں باقاعدہ انجمن قائم کی گئی ہے، ہماری دلی آرزو یہی ہے کہ ایسے ہی لوگ اس دینیات کی شاخ میں آئیں جو بہت جلد طیار ہوکر کام کرنے لگیں۔‘‘
(الحکم 10 جون 1900ء)
خلافتِ اولیٰ میں قادیان میں مدرسہ احمدیہ اور بورڈنگ ہاؤس کی عمارتیں بنانے کی تحریک کی گئی۔اس سلسلے میں بھی میر صاحبؓ نے بڑی محنت اور لگن سے کام کیا۔چنانچہ صدر انجمن احمدیہ قادیان کی ماہوار رپورٹ بابت ماہ فروری 1913ء میں لکھا ہے۔
’’جناب مولوی محمد سعیدؓ اوّل مدرس حیدرآباد نے گرد و نواح میں دورہ کر کے چندہ عمارت کے لئے نو سو روپیہ جمع کر کے ارسال فرمایا ہے اور ابھی اور بھیجنے کی اُمید دلائی ہے۔ اگر اور احباب بھی مولوی صاحبؓ کی تقلید کریں اور ہمت بلند کر کے سفر کی تکلیف گوارہ فرماویں تو ان شاء اللہ تعالیٰ کام جلد مکمل ہو سکتا ہے۔ مولوی صاحب موصوف کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرماوے۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز قادیان مارچ 1913ء)
مرکز سلسلہ سے آنے والے مہمانان کی خدمت اور ان کی ضیافت میں کوئی کمی نہ چھوڑتے، حیدرآباد دکن کی پرانی رپورٹوں میں آپؓ کی مخلصانہ خدمات کا ذکر ملتا ہے، حضرت مفتی محمد صادقؓ نے الفضل 23جون 1915ء اور حضرت عبدالرحیم نیر ؓنے الفضل 31دسمبر 1918ء میں اپنے دورہ حیدرآباد دکن کی رپورٹوں میں آپؓ کے اخلاص کا ذکر بھی کیا ہے۔1921ء میں آپؓ حج کے لیے تشریف لے گئے اس سفر میں ادائیگی حج کے بعد آپؓ کا دوسرا ارادہ سر زمین عرب میں تبلیغ احمدیت کا تھا، روانگی سے قبل آپؓ نے احباب جماعت کے نام ایک دعائیہ پیغام اخبار الفضل میں شائع کرایا۔
(الفضل 12مئی 1921ء)
اخبار ’’بدر‘‘ 29جون 1911ء میں شائع شدہ اپنی بیٹی کی رخصتی کے موقع پر آپؓ کی نصائح بھی آپؓ کی دینداری اور تقویٰ کا ثبوت دیتی ہیں۔ آپؓ نے 20اکتوبر 1924ء کو حیدرآباد دکن میں ہی وفات پائی، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابتدائی موصیاں میں سے تھے وصیت نمبر 806 تھا۔ الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا: ‘‘ …..احباب اس بزرگِ ملت کا جنازہ غائب پڑھیں اور دعائے مغفرت کریں۔ حضرت مولوی صاحب مرحومؓ نہایت مخلص اور مسیح موعودؑ کے قدیم صحابہؓ میں سے تھے۔تبلیغِ احمدیت کا نہایت شوق اور اعلیٰ ملکہ تھا باوجود پیرانہ سالی کے ہمہ تن اس میں مصروف رہتے۔ حیدرآباد کی مخلص اور پُرجوش جماعت کا بڑا حصہ انہی کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے، خدا تعالیٰ انہیں مدارجِ عالیہ عطا فرمائے اور آغوشِ رحمت میں جگہ دے۔
(الفضل 30/اکتوبر 1924ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 26دسمبر 1924ء بروز جمعۃالمبارک بعد از نماز جمعہ اپنی حرمِ محترم حضرت صاحبزادی سیدہ امۃالحی بیگم ؓ کے جنازہ کے ساتھ آپؓ کا جنازہ غائب بھی پڑھایا۔
آپؓ کی اہلیہ محترمہ کا نام حضرت فخرالنساء بیگم تھا۔ وہ بھی آپؓ کی طرح احمدیت سے اخلاص و وفا کا رشتہ رکھنے والی خاتون تھیں۔
(الفضل یکم اگست 1936ء)
(غلام مصباح بلوچ۔کینیڈا)