• 11 جولائی, 2025

مکرم ملک مبارک احمد آف دوالمیال

کیا آپ گمان کر سکتے ہیں کہ ضلع چکوال (سابقہ ضلع جہلم) کوہستان نمک کے پہاڑوں میں اعوانوں کی بستی، قادیان سے سینکڑوں میل مسافت پر 70 سے زائد صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کا گاؤں دوالمیال، جس کے صحابہ نے 1929ء میں احمدیہ دارالذکر دوالمیال میں مینارۃ المسیح کی طرز کا مینار صرف حضرت مسیح موعودؑ سے عشق کی مثال قائم کرتے ہوئے تعمیرکر دکھایا۔ان صحابہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی دعاؤں کے سنگ اپنے ہاتھوں سے مزدوری کر کے ناممکن کو ممکن کر دکھاتے ہوئے اس کو دو سال کی شب و روزمحنت سے پایہِ تکمیل تک پہنچایا اورعلاقہ بھر میں احمدیت کی بنا ڈالی۔ حضرت عبدالصمد ؓ نے جب حضرت مسیح موعودؑ، مولوی کرم دین بھیں کے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لائے تھے اس وقت بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے تھے۔ یہ ان کا احمدیت سے والہانہ عشق کا ثبوت تھا کہ ان کے پوتے نے جب پرائمری پاس کی تو اس دس گیارہ سال کے بچے کو حصولِ علم کی خاطرقادیان بھیج دیا۔ تا کہ وہ احمدیت کی تعلیم کے زیور سے منور ہو کر آئے اور اس پہاڑی علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ کا بیڑا اٹھائے۔

اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ یہ ایک ننھا منا سا بچہ ملک مبارک احمدحضرت مصلح موعودؓ کی دعاؤں کی بدولت اور اپنی دن رات محنت سے احمدیت کے نور سے منور ہو کر آسمانِ احمدیت میں ایک روشن ستارہ بن کر چمکے گااور اپنے آباؤ اجداد کی طرح دوالمیال کا نام روشن کرے گا۔ جو تحصیلِ علم کے بعد ایک جید عالم،عربی دان، اور ہر دلعزیز پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ ہو گا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی پہلی دعا کے مصداق شہرت کی منازل طے کرتا ہوا حضرت مصلح موعودؓ کے سفرِ یورپ میں ان کا ہمسفر ہونے کی سعادت حاصل کرے گا۔ دمشق اور حلب کے رسائل میں اس کے عربی مضامین کی اشاعت سے اس کی عربی دانی کے چرچے ہوں گے۔ شام کی یونیورسٹیوں اور الازہر یونیورسٹی سے تعلیم کی پیاس بجھاکر عربی کے رسالہ ’’البشریٰ‘‘ کا مدیر بن کرسلسلہ احمدیہ کی خدمت میں اپنا تن من لٹا دے گا۔سلسلہ احمدیہ کی کتب کے عربی تراجم سے حضرت مصلح موعودؓ کی آنکھ کا تارا بن جائے گا۔ ’’المہدی الحقانی‘‘ اور’’حیاتِ احمد‘‘ جیسی گراں قدر کتب عربی میں تالیف کر کے احمدیت کی تعلیم کو بلادِعرب میں پہنچانے میں اپنا منفرد کردار اد کرے گا۔ اس کے شاگرد دنیا کے کونے کونے میں پھیل کراحمدیت کے نور کو پھلائیں گے۔

خاندان اور تعلیم

حضرت مولوی مبارک احمد ؓ نے دوالمیال میں 1922ء میں ایسے احمدی گھر میں جنم لیا۔جس میں آپ کے دادا حضرت عبدالصمدؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ، آپ کے نانا حضرت میراں بخشؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ،والدہ حفصہ بی بی ؓ صحابیہ حضرت مسیح موعودؑ، آپ کے والد قاضی عبدالرحمٰن جن کو دوسرے امیر جماعتِ احمدیہ دوالمیال کی حیثیت سے طویل عرصہ سلسلہ کی خدمت کا موقع نصیب ہوا اس خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ آپ نے گورنمنٹ پرائمری سکول دوالمیال سے جماعت چہارم تک تعلیم حاصل کی۔ پھر آپ اور آپ کے چچا زاد بھائی مکرم ملک محمد شفیع کو آپ کے والد مکرم قاضی عبدالرحمٰن لے کر عازمِ قادیان ہوئے۔

قادیان پہنچنے پر سب سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓسے ملاقات کی۔ آپ کے والدنے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے دعاکی درخواست کی ۔ اسی دعا کی بدولت مکرم ملک مبارک احمد عروج کی منازل طے کرتے رہے۔ مکرم ملک مبارک احمد نے مدرسہ احمدیہ قادیان سے تعلیم مکمل کی اور پھر جامعہ احمدیہ قادیان سے شاہد کی ڈگری اور 1943ء میں مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کی یوں 21 سال کی عمر میں آپ نےاپنے آپ کو وقفِ زندگی کرنے والوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ آپ کی شادی 1945ء میں مکرمہ ذکیہ بیگم دختر حضرت حافظ غلام رسول وزیر آبادیؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو2 بیٹوں مکرم ملک مظفر احمد، ملک منور احمد اور6 بیٹیوں، مکرمہ امۃ الہادی،مکرمہ امۃالنصیر، مکرمہ امۃ الکافی،مکرمہ امۃ الباسط، مکرمہ امۃ الرحمٰن اور مکرمہ حمامۃالبشریٰ سے نوازا تھا۔ اللہ کے فضل سے ان کی سب اولادیں سلسلہ کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔

خدماتِ سلسلہ احمدیہ

آپ37 سال تک سلسلہ احمدیہ کی شب وروز خدمت میں مصروفِ عمل رہے، 1948ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں بطور استاد تعینات اور 1982ء میں ریٹائر ہوئے۔ریٹائر ہونے کے بعد بھی دمِ آخر تک کسی نہ کسی رنگ میں احمدیت کی خدمت کرتے رہے۔ دسمبر1985ء تا دسمبر 1986ء قائم مقام پرنسپل جامعہ احمدیہ کی حیثیت سے فرائض سر انجام دینے کا موقع ملا۔ 5 اپریل 1965ء ممبر مجلس افتاء کی حیثیت سے نامزدگی اور پھر تا حیات نامزدگی ہونے پر اس خدمت کو سر انجام دیا۔ممبر سٹینڈنگ کمیٹی صد سالہ منصوبہ کی حیثیت سے بھی خدمت کا موقع ملا۔

(الفضل 11 نومبر2016ء)

علمی و ادبی خدمات

’’المہدی الحقانی‘‘ یہ کتاب 1977ء میں شائع ہوئی، اس کتاب کو آپ نے مفتی محمود کی کتاب کے جواب میں تحریر کیا۔ ’حیاتِ احمد‘ یہ کتاب سیرت حضرت مسیح موعودؑ پر لکھی گئی۔

1959ء تا 1961ء جامعہ احمدیہ ربوہ سے شائع ہونے والا عربی رسالہ ’’البشریٰ‘‘ کے مدیر رہے۔ مئی 1959ء میں جب پہلا شمارہ شائع ہوا تو اس کو حضرت مصلح موعودؓ، حضرت مرزا بشیر احمدؓ اور چوہدری سر ظفراللہ خان سے بہت پذیرائی ملی اور اس کے معیار کو بہت سراہا گیا۔ دارالاقامہ کے سپریٹنڈنٹ کے فرائض سر انجام دینے کا بھی موقع ملا۔

مکرم ملک مبارک احمد نے حضرت مسیح موعودؑ کی عربی تصنیف ’’سیرتِ ابدال‘‘ کو بھی پڑھایا جس کے متعلق مکرم محمد دین ناز بیان کرتے ہیں۔ محترم صاحبزادہ مرزا انیس احمد کی تحریک پر حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ‘‘سیرتِ ابدال‘‘ کا ترجمہ کیا۔ اساتذہ اور طلباء جامعہ احمدیہ و دیگر دلچسپی لینے والے احباب کو خصوصی کلاس کی شکل میں لمبا عرصہ، بعد از نماز عصر پڑھاتے رہے۔ہر لفظ کو لغوی اعتبار سے حل کر کے آسان لفظوں میں سمجھاتے تھے۔اس کلاس میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد (خلیفۃ المسیح الرابعؒ) نے بھی چند یوم شمولیت اختیار فرمائی۔

آپ نے ہماری تعلیم، دعوۃ الامیر، سیرِ روحانی، سیرتِ طیبہ، مسئلہِ قادیانیت کا جواب المودودی فی المیزان اور تفسیرِ کبیر سورہ فاتحہ اور سورہ مریم کا عربی ترجمہ کر کے جماعتِ احمدیہ کی خدمت سر انجام دی۔

بچپن کا ایک واقعہ

ملک مبارک احمد کی دختر مکرمہ امۃ الکافی نے آپ کے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایاکہ وقف کے بارے میں ہماری دادی ذکر کرتی ہیں کہ ایک دفعہ قادیان میں جلسہ سالانہ کے موقع پر عورتوں کی ملاقات حضرت اماں جان سے ہونی تھی، میں بھی مبارک احمد کو جو دو سال کے تھے لے کر گئی۔ ملاقات کے بعد جب میں مبارک احمد کو اٹھانے کے لئے جھکی تو مبارک احمد نے کہا ’’میں ایتھے‘‘ یعنی میں نے یہیں رہنا ہے جانا نہیں۔ اس پر حضرت اماں جان نے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا بیٹا ابھی نہیں جب بڑے ہو جاؤ گے تو یہیں آنا حضرت اماں جان کے منہ سے نکلی ہوئی یہ بات اس طرح پوری ہوئی کہ آپ کے خاندان میں بلکہ دوالمیال بھر میں سے سب سے پہلے صرف ابا جان کو ہی یہ موقع نصیب ہوا کہ وہ قادیان میں جا کر تعلیم حاصل کریں اور پھر زندگی وقف کر کے خدمتِ دین کریں۔ آپ ابھی دس سال کے ہی تھے کہ آپ کے والدمکرم قاضی عبدالرحمٰن آپ کو قادیان لے گئے اور مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل کروا دیا۔آپ نے وہاں ہوسٹل میں رہ کر میٹرک کیا اور اسی دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وقفِ زندگی کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے خود ہی اپنی زندگی وقف کر دی اور جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔۔

مکرم ملک مبارک احمد کے زخمی ہونے کا واقعہ

آپ کے ہمعصر آپ کے ہم جماعت ملک محمد شفیع ساکن جو مکرم ملک مبارک احمد کے ساتھ قادیان مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ واقعہ بتایا کہ ہم دونوں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہو گئے ۔ ہم دونوں دیہاتی تھے پہلی دفعہ گھر سے نکلے تھے، بہت دور پہاڑی علاقہ سے گئے ہوئے تھے۔ ہم اپنے گاؤں دوالمیال میں کنوؤں میں سے پانی نکالنے کے لئے ایک ڈول کو رسی سے باندھ کر، پھینک کر ہاتھ سے رسی کو کھینچتے تھے، وہاں قادیان میں مدرسہ احمدیہ بورڈنگ میں پانی نکالنے کے لئے کنویں کے اوپر چرخی (گھرنی) لگی ہوئی تھی۔ جو ہم دونوں کے لئے بالکل نئی تھی۔ باقی سب لڑکے تو ماہر تھے وہ بڑی جلدی جلدی گھرنی کو گھماتے تھے اور ڈول نکال لیتے تھے۔ ہم دونوں دیکھتے رہے ۔جب ملک مبارک احمد کی باری آئی تو چونکہ ہمیں اس کو چلانے کا طریقہ معلوم نہ تھا۔جب اس کو جلدی سے ملک مبارک احمد نے چھوڑا تو پکڑنے والی ہتھی (جس کو پکڑ کرگھرنی کو چلاتے تھے) ان کی پیشانی پر لگی اورپیشانی پر زخم آگیا۔ہم دونوں بہت گھبرائے، جب ان کا خون بہت زیادہ بہنے لگا تو ہماری پریشانی بہت بڑھ گئی۔اس وقت شیخ عبدالرحمٰن مدرسہ احمدیہ قادیان کی ہیڈ ماسٹر تھے۔ باقی دوستوں کی مدد سے کچھ ہمت کر کے انہیں میں نور ہسپتال قادیان لے گیااورمرہم پٹی کروائی۔ یہ ہمارا پہلا خیر مقدم تھا، تکلیفوں اور دکھوں میں انسان کے اندر کے جذبات و احساسات کو تقویت کا روپ ملتا ہے اور خوداعتمادی بڑھ جاتی ہے۔ جس طرح سونا آگ میں پڑ کر ُکندن بن جاتا ہے۔ ہم نے ہمت نہ ہاری اور مدرسہ کے ماحول میں اپنے آپ کو ڈھال لیا اور دل لگا کر اپنے مقصد کے حصول کے لئے کمر باندھ لی اورتعلیم جاری رکھی ۔ لیکن افسوس کہ مکرم ملک محمد شفیع بوجہ ٹائیفائید اپنی تعلیم قادیان میں مکمل نہ کر سکے اور واپس دوالمیال آ گئے اور تعلیم کا سلسلہ اپنے گاؤں میں ہی مکمل کیا۔

پابندیِ نماز کے متعلق واقعہ

آپ پنجوقتہ نماز کے خود بھی پابند تھے اور اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ پنجوقتہ نماز ادا کرنے کی ہمیشہ نہ صرف تلقین کیا کرتے تھے بلکہ روزانہ سب سے اس کی باز پرس ہوا کرتی تھی۔ مکرم ملک مظفر احمد پسر ملک مبارک احمد ایک واقعہ اس سلسلے میں بیان کرتے ہیں کہ ابا جی وفات کے بعد میری خواب میں آئے تو میں سائیکل پر کہیں جا رہا تھا تو ابا جی نے مجھے کہا کہ کیامظفر تم نے نماز پڑھ لی ہے ۔ پس ان کی موت کے بعد بھی انہیں نماز کی فکر تھی۔

وفات اورتجہیز و تکفین

مکرم ملک مبارک احمد 23 ستمبر 1988ء کو 66 سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ خدا کے فضل سے موصی تھے آپ کا وصیت نمبر 14281 اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؓ نے مکرم ملک مبارک احمد کی وفات کے موقع پر آپ کی سلسلہ احمدیہ کی گراں قدر خدمات کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔ ’’مرحوم بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ عربی ادب پر پورا عبور تھا۔ تراجم اور مضامین ان کی یاد ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ سلسلہ کے لئے نہایت مفید وجود تھے۔ ان کی خدمات قابلِ تحسین ہیں۔‘‘

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکرم ملک مبارک احمد کو جنتِ فردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

یہ دوالمیال کی خوش نصیبی ہے اور دوالمیال کو فخر ہے کہ اتنا بڑا عالم دوالمیال کی سرزمین نے پیدا کیا ۔ دعا ہے کہ دوالمیال آئندہ بھی ایسے گراں قدر لوگ پیدا کر کے دین کی خدمت میں آگے آگے رہے آمین۔ ملک مبارک احمد نہایت نفیس اور صفائی پسند تھے ہمیشہ صاف ستھر ا لباس زیبِ تن رکھا۔

ملک منور احمد پسر ملک مبارک احمد نے اس واقعہ کو بیان فرمایا کہ آپ کی وفات کے بعد جب آپ کو غسل دینے کا وقت آیا ۔ تو ایک مزدور جس کے ہاتھ سخت میلے اور صاف نہ تھے اس کو بلایا گیاغسل دینے کے لئے۔ میری جب اس کے میلے ہاتھوں پر نظر پڑی تو میں نے اسے اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ تمہاری غسل دینے کی مزدوری کتنی طے ہوئی ہے ۔ میں نے اس کی مزدوری دے کر واپس کر دیا۔اس وقت مکرم محمددین ناز اور مکرم میر محمود احمد بھی وہاں موجود تھے، تو میں نے انہیں کہا کہ میرے والد صاحب نے ساری عمر صاف رہنے کی کوشش کی اور سب کو صاف ستھرا رہنے کی تلقین کرتے رہے تو اب میں نہیں چاہتا تھا کہ ان گندے ہاتھوں سے انہیں غسل دیا جائے۔ اس کے بعدمیں نے خود اپنے والد صاحب کو اپنے ہاتھوں سے غسل دینے کا فریضہ ادا کیا۔

خلافت سے اطاعت و محبت

مکرم ملک مبارک احمد میں خلافت سے گہری محبت اور اطاعت کا منفرد جذبہ تھا۔ خلیفہ وقت کے تمام احکامات پر سر تسلیم خم کرتے اوران کو بغیر تاخیر کے بجا لانے میں فخر محسوس کرتے۔آپ کے صاحبزادے مکرم ملک مظفر احمد نے آپ کے متعلق بتایا۔ایک دفعہ میں نے کہا کہ ابا جان آپ جامعہ کے قائم مقام پرنسپل بن گئے ہیں تو نہایت انکساری سے جواب دیا کہ ہاں مجھے یہ ذمہ داری ملی ہے میں تو وقفِ زندگی ہوں۔اگر حضور کی طرف سے ارشاد ہو کہ کل صبح میں فضلِ عمر ہسپتال میں خاک روب کا کام شروع کر دوں تو میں اس حالت میں بغیر کسی چون و چراں کام شروع کر دوں گا۔ یہ ان کی مثالی اطاعت کا جذبہ تھا ۔

آپ کی خدمات۔اہلِ خانہ، دانشوروں اور علماء کی نظر میں

ملک بشارت احمد برادر ملک مبارک احمد ایک خط میں مکرم ملک صاحب کے بارہ میں لکھتے ہیں ملک صاحب مرحوم نے باپ اور ماں کی طرف سے ایک نہایت نیک خاندان میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی۔انہوں نے اس نیکی کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اپنی نیکی اور حسنِ اخلاق اور حسنِ معاشرت کی وجہ سے بہت بڑھایا ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے خاندان کے سب چھوٹے بڑوں پر اپنے فضل کا سایہ رکھے اور ہمیں آباؤ اجداد کے نیک اعمال کا وارث بنائے آمین۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 2نومبر 2000ء)

مکرم یعقوب احمد کھاریاں نے اپنے استادِ گرامی مکرم ملک مبارک احمد کو ان الفاظ میں ہدیہ ِتبریک پیش کیا ہے۔ملک صاحب موصوف کا جسمانی تعلق اگرچہ جہلم کی سنگلاخ زمین کے گاؤں دوالمیال سے تھا۔ مگر ان کا مزا ج نہایت ملائم اور شفقت سے پُرتھا۔خاکسار نے ان کوکبھی غصے کی حالت میں نہیں دیکھا تھا۔جب دیکھا و ہ سراپا ِ شفقت و رحمت ہی نظر آئے۔طبیعت میں انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔آہ ! وہ قیمتی وجود جو فی الحقیقت استادِ معانی اور دریا ئے فصاحت تھا۔وہ آج کہاں مل سکتا ہے۔ اللہ ان کو جوارِ رحمت میں جنتِ فردوس میں اتارے اورا ن کے علمی ورثے کو زندہ رکھنے والی توفیقِ عطا فرمائے۔ان کے عزیزان و پسماندگان کوصبرِ جمیل سے اس کوہِ غم کو برداشت کرنے کی طاقت دے ۔آمین

(الفضل 29 نومبر 1988ء)

پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی نے اپنے ایک مضمون ’’جماعتِ احمدیہ کی تاریخ کے اہم مقامات‘‘ میں دوالمیال اور ملک مبارک احمد کے بارے میں یوں تحریر فرمایا ’احمدیت کے تعلق میں دوالمیال بھی بڑا اہم گاؤں ہے۔ یہاں کی جماعت تو پُرانی اور مخلص ہے۔ مکرم ملک مبارک احمد ایڈیٹر البشریٰ جیسا عربی دان عالم اس خاک سے اٹھا……یہ جو جہلم سے اوپر کا علاقہ ہے ما رشل علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ احمدی جرنیلوں میں سے جنرل نذیر احمد ملک اسی علاقہ (دوالمیال) سے تھے۔

(الفضل 3۔اکتوبر1996ء)

ملک مبارک احمد کی خلافت سے گہری وابستگی تھی

آپ کے داماد مکرم عبدالحلیم مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں۔ جماعتی کاموں کو مقدم رکھنا اور دیگر کاموں کوثانوی حیثیت دینا ملک مبارک احمد کا خاص وصف تھا۔ خلیفۃ المسیح کی آواز پر لبیک کہنااور دوسرے تمام کاموں کو چھوڑ دینا یہ بھی آپ کا طُرہ امتیاز تھا۔

آپ کے شاگرد مکرم ملک جمیل الرحمٰن رفیق نے اپنے استادِ محترم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو ئے ارشاد فرمایا۔ہمیں ملک مبارک احمد سے انشاء اور عربی کا کچھ حصہ پڑھنے کا موقع ملا ،ہم کو وہ نہایت شفقت سے پڑھاتے تھے۔

آپ کے شاگرد مکرم راجہ منیر احمد نے آپ کے بارہ میں اپنے تاثرات میں بتایاکہ مکرم ملک مبارک احمد کا تمام طلباء سے شفقت و محبت کا سلوک تھا۔عربی زبان پر مکمل عبور اور عربی ادب کا گہرا مطالعہ تھا۔آپ سے تفسیر الکشاف کا کچھ حصہ پڑھنے کی سعادت ملی۔خاکسار کے ساتھ بوجہ ایک ہی علاقہ سے تعلق ہونے کی وجہ سے نہایت ہی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔

آپ کے ایک اور شاگرد مکرم خوشی محمد شاکر نے اپنے استادِ گرامی کے بارے میں بتایا کہ میرے نزدیک مکرم مبارک احمد ان عظیم ہستیوں میں سے تھے جن کاشمار نیک ، صالح، بے ضرر، بے لوث خدمت کرنے والوں میں ہوتا ہے ۔آپ ہنستے ہوئے کلاس میں آتے تھے اور ہنستے ہوئے ہی کلاس سے جاتے تھے۔

مکرم ظفراللہ خان طاہروائس پرنسپل جامعہ احمدیہ نے بتایا۔محترم ملک مبارک احمد ہمارے عربی کے استاد تھے۔آپ عربی کے بلند پایا عالم تھے۔جب بھی آپ سے رہنمائی کی درخواست کی آپ نے بڑی محنت سے رہنمائی کی۔ آپ کو محنت کی بہت عادت تھی ،گھنٹوں مطالعہ میں مصروف رہتے تھے۔

آپ کے تلمیذ مکرم حنیف محمود نے بتایا ’’بعض اساتذہ اپنے کردار، شخصیت اور علم و فضل کی وجہ سے دوسرے اساتذہ سے الگ مقام رکھتے ہیں اور طلباء سے شفقت سے پیش آنے کی وجہ سے طلباء کے دلوں میں جگہ بناتے ہیں انہیں میں مکرم و محترم پروفیسر ملک مبارک احمدصاحب کا نام آتا ہے۔‘‘

بچوں کی تربیت اورحسنِ سلوک

بچوں کی تربیت اورحسنِ سلوک کے سلسلہ میں آپ کے شاگردمکرم نوید سعید نے بیان کیا ۔ ’’ملک مبارک احمد حضور کی اطاعت میں برکت سمجھتے تھے۔ بچوں اور اہلِ خانہ کی تربیت اس رنگ میں کی کہ ان کا ہر بچہ خدمتِ دین میں مصروفِ عمل ہے اور خلافت سی ہمہ وقت منسلک ہے‘‘

مکرم محمد دین ناز جو ملک مبارک احمد صاحب کی ہمسائیگی میں کئی سال رہے وہ بیان کرتے ہیں۔ ’’ملک مبارک احمد کا اہلِ خانہ اور بچوں کے ساتھ سلوک معیاری تھا۔ آپ ان کی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے۔‘‘

آپ کی بیٹی مکرمہ حمامۃ البشریٰ اہلیہ مکرم عبدالحلیم بیان کرتی ہیں۔ ’’ہم 8 بہن بھائیوں کی بڑے اچھے طریق سے ہمارے والد محترم نے تربیت کی۔ انتہائی کسمپُرسی کی حالت میں گزارا کرنا اور خوش رہنا انہوں نے ہی ہمیں سکھایا۔‘‘

آپ کی صاحبزادی امۃ الہادی اہلیہ عبدالرشید نے بتایا ’’آپ کا لہجہ بہت منفرد تھا۔تمام بچوں سے بہت مشفقانہ سلوک کرتے تھے۔ نمازوں کی طرف بہت زیادہ زور دیا کرتے تھے۔ میرے بچوں سے نہایت محبت و شفقت کا سلوک تھا‘‘

آپ کی دُختر مکرمہ امۃ الباسط (کینیڈا) اپنے والد صاحب کے عمدہ حسنِ سلوک کے بارے میں بیان کرتی ہیں۔ ’’آپ ہماری پڑھائی میں بہت ممد ومددگار رہے۔جب میرا داخلہ زرعی یونیورسٹی لاہور میں ہوا تو مجھے یاد ہے جب میں پہلی دفعہ ہوسٹل میں رہنے کے لئے جانے لگی تو ابا جان بڑی دعاؤں کے ساتھ مجھے خود چھوڑنے گئے اور بہت نصیحتیں بھی کیں۔‘‘

مکرم ملک منور احمد پسر ملک مبارک احمد نے بتایا۔ ’’ابا جان بہت نفاست پسند تھے۔ خود بھی صاف کپڑے پہنتے اور ہمیں بھی صاف کپڑے پہننے کی تلقین کرتے۔ ان کی دعائیں آج بھی مجھ پرسایہ فگن ہیں۔ مجھے ان کے اصول زندگی میں کامیابی کی جانب گامزن لئے پھرتے ہیں۔‘‘

عربی کے جید عالم

آپ کی صاحبزادی مکرمہ حمامۃ البشریٰ بیان کرتی ہیں۔ ‘‘ابا جان کوعربی زبان سیکھنے میں بہت دلچسپی تھی اور دل میں یہ خواہش تھی کہ کاش مجھے کسی عرب ملک میں جاکر عربی سیکھنے کا موقع ملے۔ ابا جان کی اس خواہش کو اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں پورا کیا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے خود ہی میرے ابا جی کا نام عربی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے تجویز فرمایا ۔ پارٹیشن کے بعد 1951ء میں ابا جان کوعربی کی اعلیٰ تعلیم کے لئے دمشق( شام) بھجوا دیا گیا۔الازہر یونیورسٹی میں 3سال کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد واپس تشریف لائے اور جامعہ احمدیہ میں عربی زبان کے صرف و نحو کے پروفیسر مقرر ہوئے۔‘‘

(الفضل 6۔اگست 2014ء)

مکرم ملک مظفر احمد صاحبزادہ ملک مبارک احمد نے اپنے بیان میں بتایا۔ ’’پروفیسر چوہدری سلطان اکبر بیان کرتے ہیں کہ تعلیم الاسلام کالج میں پنجاب یونیورسٹی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے آنا تھا۔ تو پروفیسر صاحب نے ملک مبارک احمد کوکہا کہ سپاس نامہ لکھ کر دیں۔ جب انہوں نے سپاس نامہ پڑھا تو ابا جی کو بلایا اور بہت تعریف کی اور کہا کہ میں پنجاب کے سارے کالجزمیں گیا ہوں مگر ایسا سپاس نامہ میں نے کہیں نہیں پڑھا۔‘‘

آپ نے مزید بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے 1980ء کی مجلسِ شوریٰ میں ابا جی کا ذکر فرمایا تھا۔اس کے اصل راوی مولانا قریشی محمد انور ہیں کہ عرب ممالک سے خطوط آتے تھے تو حضور ان کو ملک مبارک احمد کے پاس بھجواتے تھے اور انہیں ان خطوط کا جواب لکھنے کا ارشاد فرماتے تو ابا جی کو یہ سعادت بھی حاصل ہے۔ اس خط و کتابت کے دوران ایک عرب سردار نے حضور کو لکھاکہ آپ کے پاس اتنے اچھے عرب عربی لکھنے والے موجود ہیں تو حضور نے بتایا یہ تو عجمی ہے عربی نہیں تو ان کو بہت تعجب ہوا۔

مکرم پروفیسر راجہ نصراللہ خان بیان کرتے ہیں۔ ’’کالج کے زمانے کی بات ہے کہ تعلیم الاسلام میں تعطیلات گرما ہوئیں اور میں اپنے آبائی گاؤں ڈلوال چلا گیا۔ اس دوران نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے دوالمیال حاضر ہوا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد محترم قاضی عبدالرحمٰن امیر جماعت احمدیہ دوالمیال معمول کے مطابق خاکسار کو اپنے گھر آرام کے لئے لے گئے۔ان دنوں ان کے صاحبزادے محترم ملک مبارک احمد استاد جامعہ احمدیہ ربوہ بھی دوالمیال میں قیام فرما تھے۔مکرم قاضی عبدالرحمٰن بڑے اکرام کے ساتھ مولوی کہہ کے پکارتے تھے۔ ان میں بچپن ہی سے یہ خصوصیت تھی کہ اپنے بھائیوں میں سب سے زیادہ دینی تعلیم کی طرف توجہ اور شوق تھا۔اکثر احباب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملک مبارک احمدنے عربی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور جامعہ احمدیہ میں عربی استاد مقرر ہوئے ۔حضرت مصلح موعودؓ جب 1955ء میں بغرضِ علاج یورپ تشریف لے گئے تو ملک مبارک احمد کو بھی ان کی معیت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے عربی زبان میں بھی مہارت حاصل کی اور ترجمہ کے میدان میں بھی آپ کو جماعت کی گرانقدر خدمات کی توفیق ملی۔‘‘

(الفضل 15نومبر2007ء)

مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی مکرم ملک مبارک احمد کو بحیثیت عربی عالم، عربی پر عبور حاصل کرنے کر بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہیں۔ ’’عربی میں ایم اے کی کلاسیں شروع ہوئیں تو ملک مبارک احمد جامعہ احمدیہ سے وزٹنگ پروفیسر کے طور پر تشریف لائے وہ کالج کے واحد وزٹنگ پروفیسر تھے۔ سارے ملک میں ان جیسا عربی کا عالم کوئی نہ تھا۔ ہم نے علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالعزیز میمن کا بہت ذکر سنا تھا۔ ہمارے ملک مبارک احمد ان سے کسی طرح کم نہ تھے۔‘‘

(الفضل 17جنوری 2013ء)

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکرم ملک مبارک احمد کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


(ریاض احمد ملک)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 28 ۔اپریل 2020ء