• 5 مئی, 2024

یہ (روزہ) معاشرے میں بے چینیوں کو دور کرنے کا باعث بنتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
بہر حال ایسے مسلمان ہیں جن کے دین کے درد اور عبادتیں بھی اور روزے بھی جو ایک عبادت ہے، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہیں ہوتے بلکہ دکھاوے کے لئے ہوتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری ہر عبادت کا مقصد تقویٰ ہونا چاہئے۔ اگر تمہاری عبادتیں صرف ظاہری اظہار ہیں تو نہ پہلوں کو دکھاوے کے روزوں سے اجر ملا، نہ اب ملے گا۔ ہاں اگر روزوں کے اظہار سے مقصد دنیا والوں کو مرعوب کرنا تھا تو پھر وہ تمہاری نیکی سے مرعوب ہو گئے اور یہ تمہارا اجر ہے جو تمہیں مل گیا۔ اللہ کے ہاں تو اس کا کوئی اجر نہیں ہو گا۔ اب اگر اللہ کے ہاں کسی نیکی کا اجر چاہتے ہو، روزوں کا اجر چاہتے ہو تو یہ تقویٰ کے بغیر نہیں ہو سکتا اور تقویٰ کے بارے میں صرف خدا تعالیٰ فیصلہ فرما سکتا ہے کہ کون تقویٰ پر چلنے والا ہے اور کون نہیں۔ پس جب ایک مومن اس نہج پر سوچے گا اور اپنا رمضان گزارنے کی کوشش کرے گا تو یہ روزے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں گے، اس کا ذریعہ بنیں گے۔ یہ روزے تزکیہ نفس کرنے والے بنیں گے۔ یہ روزے آئندہ نیکیوں کے جاری رہنے کا ذریعہ ہوں گے۔ ایسا شخص اُن لوگوں میں شامل ہو گا جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کے روزے ایمان کی حالت اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اُس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب صوم رمضان احتسابا من الایمان حدیث نمبر 38)

اور پھر خداتعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے تو میں ایسے روزہ دار کی جزا بن جاتا ہوں۔

(صحیح البخاری کتاب التوحید باب ذکر النبیﷺ و روایتہ حدیث نمبر 7538)

یعنی روزہ دار کی جزا، ایسے روزہ دار کی جزا جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے روزہ رکھے، اُس کا اجر صرف خدا تعالیٰ کو ہی پتہ ہے کہ کیا دینا ہے۔ یعنی بے شمار۔ پھر اللہ تعالیٰ تو ایسا دیالو ہے جب دیتا ہے تو بیشمار دیتا ہے۔

پس یہ وہ روزے ہیں جو ہم میں سے ہر ایک کو رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، نہ کہ وہ روزے جن کا مقصد رمضان کی ایک رَو، رمضان میں جو ایکا چلی ہوتی ہے جو تمام لوگ روزے رکھ رہے ہوتے ہیں، سحری کے لئے اُٹھ رہے ہوتے ہیں۔ اس رَو میں بہتے ہوئے روزے رکھے جائیں۔ صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا روزے کا مقصدنہ ہو بلکہ تقویٰ کی تلاش ہو۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ہو۔ وہ روزہ ہو جو ڈھال بن جائے۔ وہ روزہ ہو جو ہر شر سے بچانے والا اور ہر خیر کے راستے کھولنے والا ہو۔ وہ روزہ ہو جو صرف دن کا فاقہ نہ ہو بلکہ ذکرِ الٰہی کے ساتھ راتوں کو نوافل سے سجا ہوا ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوں کے نوافل کو بڑی اہمیت دی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کی راتوں میں اُٹھ کر نماز پڑھتا ہے اُس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب تطوع قیام رمضان من الایمان حدیث نمبر 37)

پھر روزہ صرف دینی شرور سے بچنے کیلئے اور خیر کے راستے کھولنے والا نہیں ہے بلکہ دنیاوی شر سے بچانے والا اور خیر کے راستے کھولنے والا بھی ہے۔ مثلاً ایک خیر جس کو اب ڈاکٹر بھی تسلیم کرتے ہیں، سائنسدانوں کے ایک طبقہ نے بھی ماننا شروع کر دیا ہے کہ سال میں ایک مہینے کا جو کھانے پینے کا کنٹرول ہے وہ انسانی صحت کے لئے مفید ہے۔ تو یہ خیر ہے، ایک بھلائی ہے جو اس روزے سے انسانی جسم کو حاصل ہوتی ہے۔

پس نیت اللہ تعالیٰ کی رضا ہو تو جسمانی فائدہ بھی خود بخود پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سے فوائد ہیں۔ پھر روزہ جو تقویٰ کے حصول کے لئے رکھا جائے، وہ رمضان جس میں سے تقویٰ کے حصول کے لئے گزرا جائے، معاشرے کی خوبصورتی کا باعث بھی بنتا ہے۔ ایک دوسرے کیلئے قربانی کی روح پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنے غریب بھائیوں کی ضروریات کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور یہ ہونی ضروری ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہمارے سامنے ہے اور اُس سے ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ آپ رمضان کے مہینے میں صدقہ و خیرات تیز آندھی کی طرح فرمایا کرتے تھے۔

(صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب نمبر 5 حدیث نمبر 6)

پس ایک مومن کا بھی فرض ہے کہ اس سنت پر عمل کرے۔ یقینا یہ معاشرے میں بے چینیوں کو دور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ایک مومن کے دل میں دوسرے مومن کے لئے، اپنے کمزور اور ضرورتمند بھائی کے لئے نرمی کے اور پیار کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ایک غریب مومن کے دل میں اپنے مالی لحاظ سے بہتر بھائی کے لئے جو روزے کا حق ادا کرتے ہوئے اُس کا بھی حق ادا کر رہا ہے، شکر گزاری اور پیار کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 12؍جولائی 2013ء)

پچھلا پڑھیں

اجتماع مجلس انصار اللہ مونٹسیراڈو کاؤنٹی لائبیریا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2022