• 17 مئی, 2024

مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے

گزشتہ دنوں مکرم مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ امریکہ سے فون پر گفتگو ہو رہی تھی۔ مکرم مولانا موصوف نے ایک شعر کا یہ مصرع دوران گفتگو پڑھا۔

مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے

گو مولانا موصوف نے اس مصرع کا اطلاق کسی اور حوالہ سے کیا تھا۔ مگر خاکسار کے کانوں میں یہ مصرع داخل ہوتے ہی رمضان کے حوالہ سے ایک مضمون ابھرنا شروع ہوا اور وہ نماز تہجدکے حوالہ سے ہے۔ مضمون کو آگے بڑھانے سے قبل مکمل شعر پر حاوی ہونا ضروری ہے کیونکہ پہلے مصرع کا تعلق بھی میرے اس مضمون کے ساتھ بنتا ہے جو میں اللہ کی دی ہوئی توفیق سے بیان کرنے جا رہا ہوں۔ مکمل شعر یوں ہے جو جناب ارشد شہزاد کا ہے۔

جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے

خاکسار کے ہمعصر یا زیادہ عمر والے احباب و خواتین اچھی طرح جانتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں جب سفر کے ذرائع بہت محدود اور نہ ہونے کے برابر تھے، سفر صبح سویرے شروع ہوتے تھے اور وہ ساری رات سفر کی تیاریوں میں گزار دیتے تھے۔ جامعہ احمدیہ میں ہمارےپیدل سفر کا آغاز بھی نماز فجر سے قبل ہوا تھا۔ ہم نے تینوں دن نماز فجر راستے میں دوران پیدل سفر ادا کی تھی۔ کیونکہ دور جانا ہوتا تھا اس لئے سرگی کے وقت سفر کا آغاز کرتے تھے۔ آج کے جدید دور میں بھی لمبا سفر کرنے والے صبح صبح اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔

انسان بھی ایک مسافر ہے۔ اس کی زندگی ایک سفر ہے اور انسان کی منزل مقصود بھی دُور ہے۔ اس لئے اپنی زندگی کے سفر کو کامیاب بنانے کے لئے راتوں کو اٹھ کر دعائیں کرنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ

مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دُور ہوتا ہے

جہاں تک ماہ رمضان میں رات کے نوافل کا تعلق ہے ایک مومن کو سحری سے قبل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بیدار ہو کر آٹھ نوافل ادا کرنے چاہئیں۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے دور میں نماز تہجد میں کمزوری دکھلانے والوں کے لئے نماز عشاء کے بعد با جماعت نماز تراویح کو رواج دیا جس میں حافظ قرآن یا قاری ایک دفعہ قرآن کریم کی تلاوت سناتا ہے۔ اس نماز تراویح کے باوجود ایک مومن کو صبح کے نوافل ترک نہیں کرنے چاہئیں۔ خواہ دو نفل ہی ادا کرے۔ یہ وقت قربِ الٰہی کا وقت ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ بھی نچلے آسمان پر آچکا ہوتا ہے اور اس کے فرشتے سطح زمین پر آکر صدائیں بلند کر رہے ہوتے ہیں کہ ہے کوئی اللہ سے اپنے گناہ بخشوانے والا؟ مانگے اسے دیا جائے گا بلکہ ابن ماجہ کی راویت کے مطابق اللہ تعالیٰ خود زمین پر آکر مومنوں کو مخاطب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو المزمّل کے لقب سے پکار کر ہدایت فرمائی کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر عبادت کیا کر وہ نصف رات کے برابر ہو یا نصف سے کم کیونکہ رات کا اٹھنا نفس کو پاؤں تلے مسلنے میں سب سے کامیاب نسخہ ہے اور رات کو جاگنے والوں کو سچ بولنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔

(المزمل: 1-8)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، احادیث میں یہ درج ہے کہ آپؐ نے اپنی راتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہؤا تھا۔ ایک عوام الناس، دوسرا اہل خانہ اور تیسرا اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے۔ اور لمبا عرصہ کھڑے ہو کر آپ نوافل ادا کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام میں نماز تہجد ادا کرنے والوں کو بلند ترین مقام ’’مقام محمود‘‘ عطا کرنے کی نوید سنا رکھی ہے۔ (بنی اسرائیل: 80) اور مومنوں کی سیرت اور طریق کار بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّطَمَعًا

(السجدۃ: 17)

اُن کے پہلو بستروں سے الگ ہو جاتے ہیں (جبکہ) وہ اپنے ربّ کو خوف اور طمع کی حالت میں پکار رہے ہوتے ہیں۔

اور سورۃ الذاریات میں درج ہے کہ صحابہ کم ہی سویا کرتے تھے اور سورۃ الفرقان کی آیت65 میں عباد الرحمٰن کی علامات میں لکھا ہے کہ وہ اپنے ربّ کے لئے راتیں سجدہ کرتے اور قیام کرتے گزارتے ہیں۔

جہاں تک رمضان میں راتوں کو بیدار ہونے کا تعلق ہے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ

مَنْ قَام رَمَضَان إیمانًا واحتسابًا غفرلہٗ ماتقَّدم من ذنبہٖ وماتأخر

(بخاری کتاب الایمان)

فرمایا جو شخص ماہ رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی خاطر عبادت کرتا ہے تو اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ ایک روایت میں رمضان کی راتوں کو قیام کرنے کا ذکر ملتا ہے۔

پس رمضان میں ہماری راتیں بیدار ہوں۔ ہر طرف سے رات کے تیسرے پہر اللہ تعالیٰ سے بخشش کی صدائیں بلند ہو رہی ہوں اور ہم ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جن کو خدا آسمان سے اُتر کر مخاطب ہو کر کہہ رہا ہو کہ کون ہے جو مجھے پکارے تاکہ میں اس کی دُعا قبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تا میں اسے عنایت کروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اسے بخش دوں۔

(بخاری کتاب التوحید)

کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ

اِنَّ اللّٰہ افترضَ عَلَیْکُمْ صَوْمَ رَمَضَانَ وَ سَنَنْتُ لَکُمْ قِیَامَہُ

(نسائی)

کہ اللہ نے تم پر رمضان کے روزے فرض کر دیے ہیں اور میں نے اس کی راتوں کی عبادت تمہارے لئے بطور سنت قائم کر دی ہے۔ اور سنت رسول پر عمل ہر مومن کا فرض ہے۔

جاگ اے شرمسار! آدھی رات
اپنی بگڑی سنوار آدھی رات
یہ گھڑی پھر نہ ہاتھ آئے گی
باخبر ہوشیار! آدھی رات
وہ جو بستا ہے ذرّے ذرّے میں
کبھی اس کو پکار آدھی رات
اس کے دربار عام میں جا بیٹھ
سب لبادے اتار آدھی رات

(کلام چوہدری محمد علی مضطر۔مرحوم)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

اجتماع مجلس انصار اللہ مونٹسیراڈو کاؤنٹی لائبیریا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2022