• 17 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ) (قسط 22)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ)
قسط 22

امتحان کے وقت جماعت کو
استقامت کی بہت دعا کرنی چاہئے

یہ وقت جماعت کے امتحان کا ہے دیکھیں کون ساتھ دیتا ہے اور کون پہلو تہی کرتا ہے۔ اس لئے ہمارے بھائیوں کو استقامت کی بہت دعا کرنی چاہئے اور انفاق فی سبیل اللہ کے لئے وسیع حوصلہ ہوکر مال وزر سے ہر طرح سے امداد کے لئے تیار ہونا چاہئے ایسے ہی وقت ترقی درجات کے ہوتے ہیں۔ ان کو ہاتھ سے نہ گنوانا چاہئے۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 73-74)

صدقہ اور دعا سے بلا ٹل جاتی ہے

صدقہ اور دعا سے بلا ٹل جاتی ہے۔بعد ادائیگی جمعہ گردونواح کے لوگوں نے بیعت کی اور حضرت اقدس نے ان کے لئے ایک مختصر تقریر نماز روزہ کی پابندی اور ہر ایک ظلم وغیرہ سے بچنے پر فرمائی… انبیاء کی وصیت یاد دلائی کہ صدقہ اور دعا سے بلا ٹل جاتی ہے۔ اگر پیسہ پاس نہ ہو تو ایک بوکا (ڈول) پانی کا کسی کو بھر دو یہ بھی صدقہ ہے۔ اپنے مال اور بدن سے کسی کی خدمت کردینی یہ بھی صدقہ ہے۔

صدقات اور دعا اور ان کی تاثیر

لوگ اس نعمت سے بیخبر ہیں کہ صدقات۔دعا اور خیرات سے ردّ بلا ہوتا ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو انسان زندہ ہی مر جاتا۔ مصائب اور مشکلات کے وقت کوئی امید اس کےلئے تسلی بخش نہ ہوتی۔ مگر نہیں اسی نے لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ (اٰل عمران: 10) فرمایا ہے۔ لا یخلف الوعید نہیں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے وعید معلق ہوتے ہیں جو دعا اور صدقات سے بدل جاتے ہیں۔ اس کی بے انتہا نظیریں موجود ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کی فطرت میں مصیبت اور بلا کے وقت دعا اور صدقات کی طرف رجوع کرنے کا جوش ہی نہ ہوتا۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 81-82)

دعا خشک لکڑی کو سرسبز اور مردہ کو زندہ کر سکتی ہے

جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں ان کو سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں۔ دعا ایسی چیز ہے کہ خشک لکڑی کو بھی سر سبز کر سکتی ہے اور مردہ کو زندہ کر سکتی ہے۔ اس میں بڑی تاثیریں ہیں۔ جہانتک قضا و قدر کے سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کوئی کیسا ہی معصیت میں غرق ہو دعا اس کو بچا لے گی۔ اللہ تعالیٰ اس کی دستگیری کرے گا اور وہ خود محسوس کر لیگا کہ میں اب اور ہوں۔ دیکھو جو شخص مسموم ہے کیا وہ اپنا علاج آپ کرسکتا ہے۔اس کا علاج تو دوسرا ہی کرے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تطہیر کے لئے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور مامور کی دعائیں تطہیر کا بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہیں۔

اسم اعظم

دعا کرنا اور کرانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ دعا کے لئے جب درد سے دل بھر جاتا ہے اور سارے حجابوں کو توڑ دیتا ہے اس وقت سمجھنا چاہئے کہ دعا قبول ہوگئی۔ یہ اسم اعظم ہے۔ اس کے سامنے کوئی اَن ہونی چیز نہیں ہے۔ ایک خبیث کے لئے جب دعا کے ایسے اسباب میسر آجائیں تو یقیناً وہ صالح ہوجاوے اور بغیر دعا کے وہ اپنی توبہ پر بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ بیمار اور محجوب اپنی دستگیری آپ نہیں کرسکتا۔ سنت اللہ کے موافق یہی ہوتا ہے کہ جب دعائیں انتہا تک پہنچتی ہیں تو ایک شعلہ نور کا اس کے دل پر گرتا ہے جو اس کی خباثتوں کو جلا کر تاریکی دور کردیتا ہے اور اندر ایک روشنی پیدا کردیتا ہے۔ یہ طریق استجابت دعا کا رکھتا ہے۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 121-122)

دعا مومن کا ہتھیار ہے

نشانات جو ظاہر ہوتے ہیں یہ اسی طرح ظاہر ہوتے ہیں جیسے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک رات تک تو ماں خیال کرتی ہے کہ میں مر جاؤں گی اور وہ دردزِہ کی تکلیف سے قریب المرگ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح پر نبیوں کے نشان بھی مصیبت کے وقت ظاہر ہوتے ہیں۔نشان کی جڑ دعا ہی ہے یہ اسم اعظم ہے اور دنیا کا تختہ پلٹ سکتی ہے۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے اور ضرور ہے کہ پہلے ابتہال اور اضطراب کی حالت پیدا ہو۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 274-275)

دعا اور توکل

ساری عقدہ کشائیاں دعا کے ساتھ ہوجاتی ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں بھی اگر کسی کو خیر خواہی ہے تو کیا ہے۔ صرف ایک دعا کا آلہ ہی ہے جو خدا نے ہمیں دیا ہے کیا دوست کے لئے اور کیا دشمن کے لئے۔ ہم سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ نہیں کرسکتے۔ ہمارے بس میں ایک ذرہ بھر بھی نہیں ہےمگر جو خدا ہمیں اپنے فضل سے عطا کردے۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ171)

بہترین دعا

بہترین دعا وہ ہوتی ہے جو جامع ہو تمام خیروں کی اور مانع ہو تمام مضرات کی۔ اس لئے اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ کی دعا میں آدمؑ سے لیکر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم تک کے کل منعم علیہم لوگوں کے انعامات کے حصول کی دعا ہے اور غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ (الفاتحہ:7) میں ہر قسم کی مضرتوں سے بچنے کی دعا ہے۔چونکہ مغضوب سے مراد یہود اور ضالین سے مراد نصاریٰ بالاتفاق ہیں تو اس دعا کی تعلیم کا منشا صاف ہے کہ یہود نے جیسے بیجا عداوت کی تھی۔ مسیح موعود کے زمانہ میں مولوی لوگ بھی ویسا ہی کریں گے اور حدیثیں اس کی تائید کرتی ہیں یہانتک کہ وہ یہودیوں کے قدم بہ قدم چلیں گے۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 429-430)

مخلوق کی بھلائی کا دروازہ – دعا

جس قدر نیک اخلاق ہیں تھوڑی سی کمی بیشی سے وہ بداخلاقی میں بدل جاتے ہیں۔اللہ جلشانہٗ نے جو دروازہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لئے کھولا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا۔ جب کوئی شخص بکا وزاری سے اس دروازہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ مولائے کریم اس کو پاکیزگی و طہارت کی چادر پہنادیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اس پر اس قدر کردیتا ہے کہ بیجا کاموں اور ناکارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 438)

انسان اور خالق کا تعلق دوستانہ ہے

خدا تعالیٰ نے تو انسان سے نہایت تنزل کے رنگ میں دوستانہ برتاؤ کیا ہے۔ دوستانہ تعلق کیا ہوتا ہے یہی کہ کبھی ایک دوست دوسرے دوست کی بات مان لیتا ہے اور کبھی دوسرے سے اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ بھی ایسا ہی کرتا ہے چنانچہ اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن:61) اور وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ:187) الآیۃ سےمعلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان کی بات کو مان لیتا ہے اور اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے اور دوسری فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ (البقرہ:187) اور وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ (البقرہ:157) آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔

مقررہ قانون

بعض لوگ اللہ تعالیٰ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہماری دعا قبول نہیں کرتا۔ یا اولیاء لوگوں پر طعن کرتے ہیں کہ ان کی فلاں دعا قبول نہیں ہوئی۔ اصل میں وہ نادان اس قانون الٰہی سے ناآشنا محض ہوتے ہیں۔ جس انسان کو خدا سے ایسا معاملہ پڑا ہوگا وہ خوب اس قاعدہ سے آگاہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے مان لینے کے اور منوانے کے دو نمونے پیش کئے ہیں۔ انہی کومان لینا ایمان ہے۔تم ایسے نہ بنو کہ ایک ہی پہلو پر زور دو ایسا نہ ہو کہ تم خدا کی مخالفت کرکے اس کے مقررہ قانون کو توڑنے کی کوشش کرنیوالے بنو۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ199 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

اجتماع مجلس انصار اللہ مونٹسیراڈو کاؤنٹی لائبیریا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2022