• 2 مئی, 2024

سانحہ 28مئی 2010ء۔ تاثرات

28مئی 2010ء کو لاہور پاکستان میں جماعت احمدیہ کی دو بڑی مساجد پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور آن کی آن میں 86 معصوم اور نہتے احمدیوں کو جو مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کر رہے تھے پر حملہ کر کے شہید کر دیا گیا اور ایک سو سے زائد بری طرح زخمی ہوئے۔احمدیوں پر جبکہ وہ نماز کی ادائیگی کر رہے تھے اور درود شریف سے اپنی زبانوں کو تر کئے ہوئے تھے گرنیڈ برسا کر خون کی ہولی کھیلی گئی۔اس مرتبہ یہ مخالفین شر پسند عناصر کا جماعت پر سب سے بڑا حملہ تھا لیکن اللہ کے فضل سے جماعت نے پہلے بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا ہے اور نہ آئندہ چھوڑے گی۔

یہ شہادت تیرے دیکھتے دیکھتے پھل پھول لائے گی پھول پھل جائے گی

ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمزوری اور خامی تو ہوتی ہے۔ لیکن یہ جستجو رہی کہ آخر وہ کون سی خوبیاں تھیں، وہ کون سی ادائیں تھیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں اور وہ کون سی راہیں تھیں جن پر چل کر وہ اللہ تعالیٰ سے شہادت کا انعام پا گئے اور منعم الیہ گروہ میں شامل ہوئے۔ یہ جاننے کے لئےشہادت سے قبل شہداء کی زندگی کے حالات کے بارہ میں بار بار سنا اور پڑھا۔ ان شہداء میں ایک قدر جومشترک پائی وہ یہ تھی کہ بلامبالغہ ان میں سے ہر ایک پنجوقتہ نماز باجماعت کا عادی تھا۔نمازوں میں رونا، اللہ کے حضور گڑگڑانا حتی الوسع نماز تہجد کی ادائیگی۔جمعہ کی نماز میں باقاعدگی کا تو وہ اللہ کےحضور اللہ تعالیٰ کا سرٹیفکیٹ لے کر حاضر ہوئے کیونکہ ان کی شہادت جمعہ کے روز جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے دوران ہوئی۔تلاوت کلام پاک اور درود و استغفار میں مصروف رہنا اور اپنی اولاد اور اہل و عیال کو بھی اس کی پابندی کی تلقین کرنا۔ دوسری مشترکہ خوبی ان میں عاجزی تھی اور تیسرے نظام جماعت کی اطاعت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ خلافت سے فدائیت کا تعلق تھا۔ اپنے بچوں اور اہل خانہ کوبھی حضور انور کی خدمت میں دعائیہ خطوط لکھنے کی تقین کرتے۔ جماعتی خدمات میں پیش پیش، ان میں سے تقریبًا ہر کوئی کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کی خدمت سرانجام دے رہا تھا۔ اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی صحیح تصویر پیش کرنے والا تھا۔ دیگرعبادات روزے و نوافل وغیرہ کا خاص خیال رکھتے۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جو کئی دفعہ اعتکاف بیٹھ چکے تھے۔ مثلاً عمیر احمد ملک صاحب کی والدہ نے باتوں باتوں میں بتایا کہ وہ بچپن میں ہی تین دفعہ اعتکاف کر چکے تھے۔ میاں محمد سعید درد صاحب کے گھر گئے تو ان کی بیٹی نے بتایا جب وہ جدہ میں تھے تو پانچ چھ مرتبہ حج اور متعدد بار عمرہ کیا تھا۔ ان تمام شہداء میں کئی اور قدریں جومشترک تھیں ان میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر صابر و شاکر رہنا، سچ بولنا، والدین کی خدمت، اہل و عیال سے پیار اور خدمت انسانیت نمایاں تھیں۔ کامران ارشد صاحب شہید کی والدہ نے بتایا کہ قرآن پاک کی تلاوت کے بغیر گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ ان کی اہلیہ نے بتایا کہ نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتے۔ عید کا روز ہو یا گھر میں مہمان ہوں اذان کی آواز سنتے ہی نماز باجماعت کے لئے مسجد روانہ ہو جاتے۔

مکرم طاہر ملک امیر جماعت احمدیہ ضلع لاہور نے امارت کے فرائض سنبھالتے ہی 28 مئی کے شہداء کی دیکھ بھال کے لئے شہداء سیل قائم فرمایا۔ جس نے مکرم امیر صاحب کی رہنمائی میں مورخہ 30مئی 2010ء سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ خاکسار کو تا حال شہداء سیل لاہور میں محترم امیر صاحب لاہور کی معاونت کی سعادت نصیب ہو رہی ہے محترم مرزا غلام احمد صاحب مرحوم بھی اس وقت وہیں تھے۔ سب سے پہلا کام یہ کیا گیا کہ ہر شہید کے گھر پہنچ کر ان کو حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا سلام ان تک پہنچانا اور ان کی خیریت دریافت کرنا افراد خانہ کو تسلی دینا اور ہر فیملی کے عمومی مسائل کو سن کر ان کا حتی الوسع تدارک کرنا تھا۔ خاکسار کو اس سلسلہ میں محترم میاں صاحب کے ساتھ گھر گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس میں ان شہداء کے گھربھی شامل ہیں جن کا تعلق لاہور سے باہر تھا مثلاً محترم مبارک اعوان شہید کا تعلق قصور سے تھا۔ حضرت میاں صاحب ہر ایک شہید کے گھر پہنچے۔ہر گھر کوصبر وتحمل و برداشت کی تصویر بنا، اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور اپنے عزیزوں کی شہادت پر نازاں اور فخر کرتے پایا۔ سب سےاہم بات یہ تھی کہ بجائے ہم ان کو تسلی دیتے الٹا وہ ہمیں تسلی دیتے۔مکرم ولید احمد شہید اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے اور واقف زندگی تھے۔لاہور کے سانحہ میں میرے خیال میں یہ سب سے کم عمر نوجوان تھا۔ ان کے والد صاحب کا کہنا تھا کہ یہ شہادت ان کے لئے ایک سعادت ہے۔ان کے والد بھی شہید ہوئے، ان کے سسر بھی شہید ہوئے۔اور اب ان کا اکلوتا بیٹا بھی شہید ہوا ہے۔ اور اس پر انہیں فخر ہے۔ حضور انور کے فون سے شہداء کی فیملیز کو بہت حوصلہ اور ہمت ملی تھی۔ صدقے جاؤں پیارے آقا کے، اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی حوصلہ عطا فرمایا۔ اپنا غم چھپائے،ہر گھر میں ٹیلیفون کے ذریعہ رابطہ کر کے، ایک ایک فرد خانہ سے حضور انور نے خودحال دریافت فرمایا اور تسلی دی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کےاس فون کا ذکر ہر گھر میں بہت فخر سے کیا جاتا۔

مکرم خلیل سولنگی کی اہلیہ نے بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انہیں فون پر فرمایا کہ شہید تو میرے ذاتی دوستوں میں سے تھے اور ان کی شہادت نہ صرف جماعت بلکہ حضور کے لئے بھی ایک نقصان تھی۔ اس ضمن میں یہاں عرض کر دوں کہ سولنگی صاحب مورخہ 8مئی 2010ء کو خاکسار سے ملنے آئے اور چائے کی پیالی کی پُرزورفرمائش کی۔ تقریبا دو گھنٹے بیٹھے رہے۔ اصل میں تو وہ امریکہ شفٹ ہو گئے تھے۔ بتایا کہ حضور سے ملاقات کے لئے لندن آیا تھا ۔ پاکستان کی بہت یاد آئی ۔سوچا پاکستان دوستوں سے مل آؤں۔ جمعہ کی رات امریکہ واپسی تھی۔ کیا معلوم تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کے لئے منتخب کر لیا تھا اور اسی لئے پاکستان کا سفر اختیار کیا۔ہمیں بھی کیا علم تھا کہ ہم ایک شہید کی میزبانی کر رہے ہیں۔ بہرحال ان کی شہادت کا ذکر خاکسار نے اپنے 28مئی 2010ء ایک خط میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے کیا تھا۔ اس سال جلسہ سالانہ پر لندن جلسہ سالانہ یو کے میں شرکت کی توفیق ملی۔ تو دوران ملاقات حضور انور نے استفسار فرمایا کہ تم سولنگی صاحب کو کیسے جانتےہو۔ اور پھر فرمایا کہ میں تو خدام الاحمدیہ سے ہی ان کو جانتا ہوں۔ مجھے تو مشورہ بھی دے دیا کرتے تھے۔ آپ ہمیشہ کسی قسم کی قربانی میں کبھی بھی پیچھے نہ رہے تھے۔ اور آج جب جانی قربانی کا وقت آیا تو بھی پیچھے نہ رہے۔ ان کے بیٹے کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات پر ہمیشہ فخر رہے گا کہ وہ شہید کی اولاد ہیں۔ ایک شہید طالب علم عزیزم مکرم عبدالرحمان کی والدہ نے کہا کہ شہادت کے بعد حضور انور نے فون کے ذریعہ بہت تسلیاں دی تھیں۔ عبدالرحمان تو ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ان کی تو زندگی ہی اجڑ گئی تھی۔ حضور انور کے فون نے تو نئی زندگی دے دی تھی۔ اس فون کے بعد اتنا حوصلہ پیدا ہوا کہ سوچتی رہ گئی کہ میرا تو صرف ایک بیٹا تھا کاش سات بیٹے ہوتے اور میں سب کو احمدیت پر قربان کر دیتی۔ مکرم منور احمد خان کی اہلیہ نے بتایا کہ جب ان کی حضور سے ٹیلیفون پر بات ہوئی تو بہت حوصلہ ملا۔ ایسا لگا کہ مردہ جسم میں جان سی پڑ گئی ہے۔ مکرم اعجاز الحق شہید کے بیٹے مکرم امتیاز الحق کا کہنا تھا کہ حضور انور سے بات کر کے بہت اچھا لگا۔ آپ سے فون کے بعد ایک نیا حوصلہ ملا اورہم سب اس سعادت پر نازاں اپنےتمام غم بھول گئے۔مکرم انصارالحق شہید کی اہلیہ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو رتبہ انہیں دیا وہ اس پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ حضور انور نے ٹیلیفون پر جس طرح تسلیاں دیں اس سے انہیں بہت حوصلہ ملا۔ مکرم محمد رشید ہاشمی شہید کی ایک بیٹی نے بتایا کہ ان کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ اس باپ کی بیٹی ہیں جن کو شہادت کا عظیم درجہ ملا ہے۔ مکرم سردار افتخار الغنی کی بیٹی نے کہا کہ اے دشمنو جتنا بھی زور لگانا ہے لگا لو، تمہاری ان کوششوں کے نتیجے میں ہمارے حوصلوں کو مزید مضبوط پاؤ گے۔

حضرت میاں صاحب صبح نکلتے، نہ کھانے کی پرواہ ،نہ آرام کا خیال، ایسے لگتا تھاکہ حضرت میاں صاحب پر ایک جنون سوار ہے کہ کسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا محبت بھرا سلام جلد از جلد شہداء کے گھروں تک پہنچ جائے۔ کسی بھی گھر سے پانی کا گلاس تک بھی نہ پیا۔ پیٹرول پمپس پر ضروریات سے فارغ ہوتے۔ چاہے شہر سے باہر ہی کیوں نہ گئے۔ دن بھی شدید گرمی کے تھے۔ تھوڑا بہت کھانا گاڑیوں کے اندر ہی کھا لیتے۔ لجنہ اماء اللہ نے بھی اس سلسلہ میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ یہ معلوم کر کے کہ قافلہ کہاں سے کس وقت گزرے گا لجنہ وہاں موجود ہوتی اور تقریبا چلتی گاڑیوں میں کھانے کے پیکٹس پھینکتی تھیں۔ محترم میاں صاحب سے ان دنوں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے نظارے دیکھنے کو ملے۔ عہدیداران کی عزت کس طرح کروائی جاتی ہے ، محترم میاں صاحب کو اس کا بھی ہر دم خیال رہتا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک انتہائی اہم واقعہ ہیش خدمت ہے۔ ایک صبح محترم میاں صاحب نے بلایااور فرمایا کہ محترم امیر صاحب قصور کو اطلاع کردیں کہ آج محترم مبارک صاحب کے گھر ملنے کے لئے پہنچ رہے ہیں ان کو اطلاع کروا دیں۔ چنانچہ حسب ہدایت محترم امیر صاحب قصور کو اطلاع کر کے پروگرام طے کر لیا گیا۔ قصور پہنچنے پر محترم میاں صاحب نے گاڑی باہر ہی رکوائی اور محترم امیر صاحب کو اطلاع کرنے کو کہا۔ جب خاکسار نے محترم امیر صاحب کو اطلاع دی کہ ہم قصور پہنچ چکے ہیں اور گاڑیاں باہر کھڑی ہیں محترم میاں صاحب نے یاد فرمایا ہے، آپ پہنچیں تا کہ قافلہ ان کی رہنمائی میں محترم ماسٹر مبارک صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہو۔ دراصل محترم میاں صاحب جہاں بھی جاتے وہاں کے صدر جماعت یا امیر صاحب کو اطلاع ہوتی تھی اور صدر جماعت یا امیر صاحب کی رہنمائی میں ہی شہداء کے گھر جایا جاتا تھا۔ یہاں پر بھی یہی طریق کار اپنایا گیا تھا۔ بہرحال جب محترم امیر صاحب کو اطلاع دی گئی تو وہ شاید کہیں مصروف تھے انہوں نے فرمایا کہ ہم ماسٹر صاحب شہید کے گھر پہنچیں، وہ بھی وہیں پہنچ رہے ہیں۔ شدید گرمی کے دن تھے اور ہم سڑک پر انتظار کر رہے تھے۔ محترم میاں صاحب نے بڑی سختی سے فرمایا کہ امیر صاحب سے کہیں کہ ہم یہیں انتظار کر رہے ہیں فوراً پہنچیں اور جب تک وہ پہنچ نہیں گئے قافلہ وہیں کھڑا رہا۔ اور جب محترم امیر صاحب تشریف لائے تو انتہائی تپاک سے انہیں ملے اور حرف زبان پر کسی قسم کی شکایت نہ لائے۔

خاکسار کا تو ان شہداء کی فیملیز کے ہر گھر کے ساتھ بہت گہرا تعلق اور ایک نہ معلوم رشتہ قائم ہو چکا تھا۔بعض فیمیلیز کے ساتھ تو ان کی شہادت سے بھی پہلے کا تعلق تھا۔مکرم چوہدری امتیاز احمد شہید ہمارے ابا مرحوم چوہدری نذیر احمد صاحب سیالکوٹی کے ایک قریبی دوست مکرم چوہدری نثار احمد کے بیٹے تھے۔ اس حوالے سے بھی اور بطور زعیم اعلیٰ انصار اللہ ڈیفنس بھی ان سے تعلق مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ مکرم چوہدری امتیاز احمد شہید اپنے والد صاحب کو ساتھ لے کر فجر کی نماز باقاعدگی سے روزانہ اور بعض دفعہ بچوں کو لےکر عشاء کی نماز بھی نماز سنٹر پر ادا کرتے۔ اور گھر پر بھی جیسے ہی نماز کا وقت ہوتا نماز با جماعت کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ حد درجہ کے مہما ن نواز تھے۔ بڑوں سے انتہائی ادب اور عزت سے پیش آتے۔ اپنے گھر والوں سے بہت پیار اور محبت کا سلوک تھا۔جوائنٹ فیملی سسٹم تھا۔ بہن بھائیوں اور اپنے والدین کی بہت خدمت کرنے والے تھے۔ آپ کی اہلیہ نے بھی یہ صدمہ انتہائی حوصلہ سے برداشت کیا۔جب بھی ملاقات ہوئی یہی سنا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت بڑا رتبہ دیا ہے۔ اور بڑی ہمت اور حوصلہ سے بچوں کی نگہداشت اورشہید کی خواہش کے مطابق ان کی تربیت میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔

خاکسار کو بیرون ممالک سے تعزیت کے لئےآنے والےوفود کے ساتھ بھی شہداء کے گھروں میں جانے کا موقع ملا۔ اور ہر دفعہ کسی نہ کسی گھر میں ایسی بات سننے کو ملتی جس سے شہداء کی فیملیز کے حوصلہ اور عزم کا پتہ چلتا ۔مکرم محمد اشرف بھلر صاحب شہید کی بیٹی نے بتایا کہ انہیں اپنے والد کی شہادت پر فخر ہے۔ ا ن کی شہادت کی وجہ سے حضور انور سے فون پر بات کرنے کی سعادت نصیب ہو گئی۔ بیرون ممالک تک سے وفود ملنے آئے ہیں۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ ہمیں کوئی جانتا ہی نہیں ہے۔ یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اس سے ہمیں دلی سکون ملا ہے۔ ایسے لگتا تھا کہ شاید ان میں سے بعض افراد کو پہلے ہی علم تھا کہ آج اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ مکرم منصور بیگ شہید کی والدہ نے بتایا کہ جمعہ کے روز بیٹے کا چہرہ غیر معمولی طور چمک رہا تھا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ UK کے موقع پر فرمایا۔

پاکستان میں آئے دن کی شہادتیں اور نقصانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جو عہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے اس پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں ۔28مئی 2010ء کو لاہور کی احمدیہ مساجد پر حملہ کے دوران شہداء اور زخمیوں اور پسماندگان کے صبر اور استقامت،اخلاص ووفا اور جذبہ شوق شہادت وقربانی کے دلگداز واقعات کا ایمان افروز تذکرہ کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ واقعات ہمیں مایوس اور خوفزدہ کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ ہمارے ایمانوں کو طاقت بخشنے کے لئے ہیں۔انہیں لوگوں کے عَہدوں اور قربانیوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے اپنے عَہدوں کا نئے سرے سے ہمیں اعادہ کرنا چاہئے۔ پاکستان سے اگر وفاؤں کے خط آرہے ہیں تویہ جذباتی باتیں نہیں ہیں یا عارضی چیزیں نہیں ہیں۔ ان کے عمل سے ہی پتہ لگ رہا ہے کہ یہ ان کے دلوں کی آواز ہے۔ پاکستان کے احمدیوں کے اپنے عہدوں کو پورا کرنے اور ہر قسم کی قربانیاں دیتے چلے جانے کا عزم اور قابل قدر جذبات پر خراج تحسین۔

حضورانورنے فرمایا: شہیدوں کی شہادت اور قربانی کرنے والوں کی قربانیاں یاد رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے اس لئے کہ جس اعلیٰ مقصد کے لئے انہوں نے یہ قربانیاں دی ہیں اس اعلیٰ مقصد کو ہم نے بھی قائم رکھنا ہے۔آگے بڑھنے والی قوموں کی علامت یہ ہے کہ وہ کبھی قربانی کرنے والوں کو بھولا نہیں کرتیں۔

حضور انور نے اجتماع کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ

28مئی کے واقعات پر وہاں جولوگ دونوں مسجدوں سے بچ گئے تھے ان کے خطوط بھی مجھے آئے تھے وہ میں دیکھ رہا تھا توعجیب جذبہ نظر آتا ہے۔ میں نے سوچا کہ بعض یہاں آپ کے سامنے بیان کر دوں اور آپ کو بھی ان میں شامل کرلوں تاکہ ان قربانی کرنے والوں کے بارہ میں آپ کو بھی پتہ لگے اور آپ کو بھی ان کے لئے دعاکی تحریک ہوجائے۔

حضور نے فرمایا ایک خط میں لاہور کے انصاراللہ کے ہمارے ایک عہدیدار مجید احمد بشیر ہیں وہ لکھتے ہیں کہ نماز جمعہ کے لئے اس دن بیت النور میں تھا۔ کہتے ہیں۔

حضور اس طرح نہتے لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں، بم پھینکے گئے، گولیاں کس طرح دائیں بائیں سے گزرتی رہیں اس کا بیان ناممکن ہے۔ جب حملہ شروع ہوا تومولانا شاد صاحب نے قرآن مجید کی آیت

وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا

(سورۃ النور:56)

کی تفسیر بیان کی۔ اس دوران تفسیر بیان کررہے تھے اس واقعہ کے بعد ہمارا ایمان اور بھی تازہ ہوا کہ ان شاء اللہ ضروربالضرور خوف کو اللہ تعالیٰ امن میں بدلے گا اور ان سے ضرور بدلہ لے گا جنہوں نے احمدیوں کو نماز جمعہ کی ادئیگی سے روکا۔ پھر لکھتے ہیں موت کو سامنے دیکھ کر ایک دعاتھی جو زبان پر جاری رہی کہ اے قادر خدا ! یہ تیرے پیارے مسیح کو ماننے والے ہیں، کمزور ہیں اور صرف تجھ پرہی یقین رکھتے ہیں۔کیا تو ان کو ختم کردے گا؟ہرگز نہیں۔ تو تمام احمدیوں کی خود حفاظت فرما۔ کس طرح لوگ گرمی میں محبوس رہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احباب نے ایک دوسرے کی مدد کی۔ ٹوپیوں میں پانی ڈال کر زخمیوں کوپلایا۔ چھوٹے چھوٹے بچے خوفزدہ اور بوڑھے گرمی سے بے حال ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ پھر لکھتے ہیں کاش میں بھی شہید ہوکر امرہوجاتا یہ دن تونہ دیکھنا پڑتا۔ دل کٹ رہے ہیں دماغ ماؤف ہیں۔ کیا قصور تھا ان نہتے اور معصوم احمدیوں کا؟ یہی نہ کہ وہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت میں اس مسیح کو ماننے والے ہیں اور اطاعت گزار ہیں۔ اتنے امن پسند اور اطاعت گزار لوگ ہیں کہ باوجود حملے کے جب مربی صاحب اعلان کرتے ہیں کہ سب بیٹھ جائیں، بیٹھے رہیں اور دعاؤں پر زور دیں، درود شریف پڑھیں۔

اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ

پڑھیں تو تمام لوگ اس جگہ بیٹھ جاتے ہیں اور گولیاں کھاتے رہے اپنے سینوں پر لیتے رہے۔ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ چپکائے ہوئے ان کو بچانے کی کوشش کرتے رہے اور ڈیڑھ گھنٹے تک بغیرکسی وقفے کے مسلسل دہشت گری چلتی رہی۔حضور ایدہ اللہ نے فرمایا تویہ نظارے ہیں۔ کیا یہ ایمان میں کمزوری والوں میں نظر آسکتے ہیں؟‘‘

( الفضل انٹرنیشنل 22؍اکتوبر 2010ء تا 28اکتوبر 2010ء)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 4جون بروزجمعۃ المبارک مسجد بیت الفتوح لندن میں خطبہ جمعہ میں 28مئی 2010ء کو لاہور میں دو احمدیہ مساجد پر دہشت گردوں کے حملہ اور اس کے نتیجہ میں بیسیوں احمدیوں کی شہادت کے اندوہناک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے دنیا بھر کے احمدیوں اور شہداء اور ان کے پسماندگان کے ردّعمل کا بہت ہی دلگداز ذکر فرمایا۔

حضور نے شہداء اور زخمیوں کے صبر ورضا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ صبر ورضا کے پیکر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بے چین، دین کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے، گھنٹوں اپنے زخموں اور ان میں سے بہتے ہوئے خون کو دیکھتے رہے لیکن زبان پر حرفِ شکایت لانے کی بجائے دعاؤں اور درود سے اپنی اس حالت کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے ذریعہ بناتے رہے۔

حضور نے شہداءکی جرأت وبہادری کے واقعات کا ذکرکرتے ہوئے بتایاکہ کس طرح ایک نوجوان نے دشمن کے ہینڈ گرینیڈ کو اپنے ہاتھ پر روک لیا اس لئے کہ واپس لوٹا دوں لیکن اتنی دیر میں وہ گرینیڈ پھٹ گیا اور اس نے جان دے کر دوسروں کی جان بچالی۔ ایک بزرگ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر نوجوانوں اور بچوں کو بچالیا حملہ آور کی طرف ایک دم دوڑے اور ساری گولیاں اپنے سینے پرلے لیں۔

حضور نے فرمایا کہ یہ فرشتوں کا اترنا اور تسکین دینا جہاں ان زخمیوں پر ہمیں نظر آتاہے وہاں پیچھے رہنے والے بھی اللہ تعالیٰ کے اس خاص فضل کی وجہ سے تسکین پارہے ہیں۔ ایسے ایسے عجیب نظارے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے ہوئے ہیں۔

حضور نے فرمایا کہ لاہور کے لوگوں کے بارہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں اور لاہور میں ہمارے پاک محبّ ہیں۔ پس یہ آپ لوگوں کا اعزاز ہے جسے آپ لوگوں نے قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کو صبر اوردعا سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ پس خوش قسمت ہیں آپ جن کے شہر کے نام کے ساتھ خوشخبریاں وہاں کے رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک مسیح علیہ السلام کے ذریعے دی ہیں۔

حضور انور نے فرمایاکہ دشمن توسمجھتا تھا کہ اس عمل سے احمدیوں کو کمزور کردے گا۔ جماعت کی طاقت کو توڑدے گا۔ شہروں کے رہنے والے شاید اتنا ایمان نہیں رکھتے ۔لیکن انہیں کیا پتہ ہے کہ یہ شہروں کے رہنے والے وہ لوگ ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایمان کی حرارت بھردی ہے جو دین کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لئے ہر دم تیار ہیں۔ بے شک دنیا کے دھندوں میں بھی لگے ہوئے ہیں لیکن دنیا کے دھندے صرف مقصود نہیں ہیں۔ جب بھی دین کے لئے بلایا جاتا ہے تو لبیک کہتے ہوئے آتے ہیں۔ یہ درندگی کے بجائے انسانیت کے علمبردار ہیں۔

حضورانور نے فرمایا کہ ہمارا مولیٰ تو ہمارا اللہ ہے اور اس پر ہم توکل کرتے ہیں۔ وہی ہمارا معین ومددگار ہے اور ان شاءاللہ تعالیٰ وہ ہمیشہ ہماری مدد کرتا رہے گا اور اپنی حفاظت کے حصار میں ہمیں رکھے گا۔ ان لوگوں سے آئندہ بھی کسی قسم کی خیر کی کوئی امید نہیں اور نہ کبھی ہم رکھیں گے۔ اس لئے احمدیوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور دعاؤں کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

حضورانور نے فرمایا کہ

اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ کی دعا بہت پڑھیں۔

رَبِّ کُلَّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ کی دعا ضرور پڑھیں۔

اس کے علاوہ بھی بہت دعائیں کریں۔ ثباتِ قدم کے لئے دعائیں کریں۔ ان لوگوں کو کیفرِکردار تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑائیں، روئیں۔ ان دومساجد میں جو ہمارے زخمی ہوئے ہیں ان کے لئے بھی دعائیں کریں ۔

حضور نے شہداء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ ان جانے والے ہیروں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے چمکدار ستاروں کی صورت میں آسمانِ اسلام اور احمدیت پر سجا دیا جس نے نئی کہکشائیں ترتیب دے دی ہیں اور ان کہکشاؤں نے ہمارے لئے نئے راستے متعین کردئیے۔پس ہمارا کوئی بھی دشمن کبھی بھی اپنی مذموم اور قبیح کو شش میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ ان سب شہیدوں کے درجات بلند سے بلند کرتا چلاجائے اور ہم بھی ہمیشہ استقامت کے ساتھ دین کی خاطر قربانیاں دیتے چلے جانے والوں میں سے ہوں۔

(الفضل انٹرنیشنل 11جون تا 17جون 2010ء)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان تمام شہداء کے درجات کو بلند سےبلند تر کرتا چلا جائے۔اور ان سب کے پیچھے رہ جانے والے لواحقین کو صبر اور حوصلے سے یہ صدمہ برداشت کرے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہر قدم پر ان کی حفاظت اور مدد فرمائے۔ آمین

(پروفیسرمجید احمد بشیر)

پچھلا پڑھیں

آج کی دعا

اگلا پڑھیں

شہدائے لاہور کی عظیم الشان قربانی کا ذکر اور لواحقین کا صبر