حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم گزشتہ ایک سو پانچ سال سے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ جماعت پر مختلف دور آئے لیکن جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی ترقی کی منزل پر نہایت تیزی سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایک ملک میں دشمن ظلم و بربریت سے سختیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، ظلم و بربریت کرتا ہے تو دوسرے ملک میں اللہ تعالیٰ کامیابی کے حیرت انگیز راستے کھول دیتا ہے اور یہی نہیں بلکہ جس ملک میں تنگیاں پیدا کی جاتی ہیں، وہاں بھی افرادِ جماعت کے ایمانوں کو مضبوط فرماتا چلا جاتا ہے۔ اور پھر جب مَیں اپنی ذات میں یہ دیکھتا ہوں میری تمام تر کمزوریوں کے باوجود کہ کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو ترقی کی شاہراہوں پر دوڑاتا چلا جا رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان میں اور ترقی ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین مزید کامل ہوتا ہے کہ یقینا خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے جو جماعت کو آگے سے آگے لے جاتا چلا جا رہا ہے اور جس کو بھی خدا تعالیٰ خلیفہ بنائے گا، قطع نظر اس کے کہ اُس کی حالت کیا ہے اپنی تائیدات سے اُسے نوازتا چلا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
خلافتِ خامسہ کے قائم ہونے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی اس فعلی شہادت کا بھی اظہار فرما دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور آپ کے غلامِ صادق کی یہ بات کہ خلافت اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے دور میں دائمی ہے، یقینا اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے اور آئندہ بھی یہ نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاری رہے گا، ان شاء اللہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خلافت سے فیض پانے والوں کی بعض نشانیاں بتائی ہیں۔ جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام باتوں کا نقشہ بھی کھینچ دیا ہے جو خلافت سے فیض پانے والوں کے لئے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مومنوں کو فیصلوں کے لئے اللہ اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔ یہی ہیں جو کامیابیاں دیکھنے والے ہیں۔ پس یہاں صرف عبادتوں اور خالص دین کی باتوں کا ذکر نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ قرآنِ کریم کا دعویٰ ہے کہ اس میں جہاں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی تفصیل ہے، وہاں حقوق العباد کی بھی تفصیل ہے، معاشرتی نظام کی بھی تفصیل ہے، حکومتی نظام کی بھی تفصیل ہے۔ قرآنِ کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ پس یہاں اُن لوگوں کے لئے بھی تنبیہ ہے جو اپنے دنیاوی معاملات اور جھگڑے، باوجود جماعت کے نظام کے جہاں جماعتی نظام میں یہ کوشش ہوتی ہے کہ شریعت اور قانون کو سامنے رکھ کر سلجھائے جائیں، نظامِ جماعت کے سامنے (لانے سے) انکار کرتے ہیں اور ملکی عدالت میں لے جاتے ہیں۔ خاص طور پر جو عائلی اور گھریلو میاں بیوی کے مسائل ہیں۔ اسی طرح بعض اور دوسرے معاملات بھی ہیں اور ایسے لوگوں کی بدنیتی کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ پہلے انکار کرتے ہیں کہ جماعت میں معاملہ لایا جائے۔ اور جب عدالت میں اُن کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے یا وہ کچھ نہ ملے جو وہ چاہتے ہیں تو پھر جماعت کے پاس آ جاتے ہیں۔ یہی باتیں ہیں جو کسی کی کمزوریٔ ایمان کا اظہار کر رہی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن وہی ہیں جو اپنے معاملات خدا اور اُس کے رسول کے فیصلوں کے مطابق طے کرتے ہیں اور نظامِ جماعت کوشش بھی کرتا ہے اور اُس کو چاہئے بھی کہ اُن کے فیصلے خدا اور اُس کے رسول کے فیصلوں کے مطابق ہوں۔ یہاں میں نظامِ جماعت کے اُس حصہ کو بھی تنبیہ کرنا چاہتا ہوں جو بعض اوقات گہرائی میں جا کر قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ نہیں کر رہے ہوتے۔ وہ بھی گنہگار ہوتے ہیں اور نظامِ جماعت اور خلافت سے کسی کو دور کرنے کی وجہ بھی بن رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت کا ایک کام انصاف کے ساتھ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا بھی رکھا ہے۔ آجکل جماعت میں اتنی وسعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو چکی ہے، جماعت اتنی وسعت اختیار کر چکی ہے کہ خلیفۂ وقت کا ہر جگہ پہنچنا اور ہر معاملے کو براہِ راست ہاتھ میں لینا ممکن نہیں ہے۔ اور جوں جوں جماعت کی ان شاء اللہ ترقی ہوتی جائے گی اس میں مزید مشکل پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ تو جو کارکن اور عہدیدار مقرر کئے گئے ہیں۔ اگر وہ خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اور تقویٰ سے کام لیتے ہوئے فیصلہ نہیں کریں گے، اپنے کام سرانجام نہیں دیں گے تو وہ خلیفۂ وقت کو بھی بدنام کر رہے ہوں گے۔ اور خدا تعالیٰ کے آگے خود بھی گنہگار بن رہے ہوں گے اور خلیفۂ وقت کو بھی گنہگار بنا رہے ہوں گے۔
پس خاص طور پر قاضی صاحبان اور ان عہدیداران اور امراء کو جن کے سپرد فیصلوں کی ذمہ داری بھی ہے، اُن کو انصاف پر قائم رہتے ہوئے خلافت کی مضبوطی کا باعث بننے کی بھی کوشش کرنی چاہئے اور مضبوطی کا باعث بنیں، ورنہ وہی لوگ ہیں جو بظاہر عہدیدار ہیں اور خلافت کے نظام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پس جہاں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کو کامیاب فرمایا ہے جو خالصۃً اللہ تعالیٰ کے ہو کر اُس کا تقویٰ اختیار کر کے کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں، نظامِ جماعت اور نظامِ خلافت کی مکمل اطاعت کر کے اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہونے والے ہیں، وہاں مَیں اُن تمام عہدیداروں اور جن کے سپرد بھی فیصلہ(کرنے کا کام) ہے، اُن میں قاضی صاحبان بھی شامل ہیں، اُن کو بھی کہتا ہوں کہ آپ بھی خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکم کے موافق کام کریں۔ ایسی بات نہ کریں جو آپ کو انصاف سے دُور لے جانے والی ہو، جو تقویٰ سے ہٹی ہوئی ہو۔ خلیفۂ وقت کی نمائندگی کا صحیح حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر نہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ضرور پکڑے جائیں گے اور جو دنیاوی کارروائی ہو گی وہ تو ہو گی، خدا تعالیٰ کی سزا کے بھی مورد بن سکتے ہیں۔ پس ہر عہدیدار کے لئے یہ بہت خوف کا مقام ہے۔ عہدیدار بننا صرف عہدیدار بننا نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ ہے، اُس کے رسول پر ایمان کا دعویٰ ہے، مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کا دعویٰ ہے، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا دعویٰ ہے تو پھر اللہ اور اُس کے رسول کے ہر حکم پر عمل کرو۔ زمانے کے امام نے جو تمہیں کہا ہے اُس پر عمل کرو۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے جو ہدایات دی جاتی ہیں اُن پر عمل کرو، ورنہ تمہارا قَسمیں کھانا اور بلند بانگ دعوے کرنا کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے بے معنی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کا حال جانتا ہے، اُسے پتہ ہے، اُس کے علم میں ہے کہ تم کہہ کیا رہے ہو اور کر کیا رہے ہو۔ ہم ہر اجتماع پر یہ عہد تو کرتے ہیں کہ خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اُس کی پابندی کرنی ضروری سمجھیں گے لیکن بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی پابندی نہیں کرتے بلکہ قرآنِ کریم کے جو احکامات ہیں اُن کی بھی تعمیل کرنے کی، پابندی کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جو کم از کم معیار ہیں اُن کو بھی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اللہ تعالیٰ سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت کے بارے میں جو توقعات ہیں اُس میں پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خلافت احمدیہ سے سچا اور وفا کا تعلق قائم فرمائے۔ اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ خلافت کے انعام سے ہمیشہ سب فیضیاب ہوتے رہیں۔
(خطبہ جمعہ 24؍مئی 2013ء)