• 11 جولائی, 2025

خلفاء کا مقام و مرتبہ (حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات کی روشنی میں)

خلفاء کا مقام و مرتبہ
حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات کی روشنی میں

خدا تعالیٰ کے انبیاء زمین پر خدا کی ہستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے ذریعہ لوگوں کو خدا کا حقیقی عرفان اور ایمان کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ وہ زمین پر خدا کی طاقتوں اور قدرتوں کے مظہر ہوتے ہیں اور اُنکے بعد خلفاء زمین پر یہی برکات پھیلانے کا موجب بنتے ہیں۔ چنانچہ اُنکے ذریعہ خداتعالیٰ کی قدرتوں اور نصرتوں کے اظہار کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اِسی سنت کے تحت حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے بھی اپنے بعد آنے والے خلفاء کو خدا تعالیٰ کی دوسری قدرت کا مظہر قرار دیا ہے۔ جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لیے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ305)

قرآن کریم اور احادیث میں خدا تعالیٰ کے اولیاء اور مقربین کی بیشمار علامات بیان کی گئی ہیں۔ انبیاء اور خلفاء چونکہ اپنے زمانہ کے تمام صالحین اور متقین کے بھی امام ہوتے ہیں لہٰذا یہ تمام علامات بدرجہء اتم اِن میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات میں کامل مومنین کی جن علامات کا ذکر ہے اُن کا کامل ظہور انہیں انبیاء اور خلفاء کی ذات میں بدرجہء اولیٰ ہوتا ہے۔ یہاں انسان کی جسمانی اور روحانی پیدائش کے مراحل کے تذکرہ کے بعد آخری مرحلہ کواللہ تعالیٰ نے خلقِ آخر (دوسری پیدائش) کے نام سے موسوم کیا ہے۔ کسی عام انسان کے کامل مومن ہونے اور روحانی ترقیات کے اِن تمام مراحل طے کرلینے کی گواہی کوئی دوسرا نہیں دے سکتا، کیونکہ دِلوں کا حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور بموجب آیتِ قرآنی

فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ھُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی

(النجم: 33)

پس اپنے آپ کو (یونہی) پاک نہ ٹھہرایا کرو۔ وہی ہے جو سب سے زیادہ جانتا ہے کہ متقی کون ہے۔

کسی انسان کو یہ حق بھی نہیں دیا گیا کہ وہ دوسرے کے ایمان و اتقاء کا اندازہ لگاتا پھرے۔ تاہم اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور اُنکے خلفاء کا خودانتخاب کر کے اُنکے اوّل المومنین اور امام المتقین ہونے کا خود اعلان فرما دیتا ہے۔ چنانچہ وہ روحانی ترقیات کے تمام زینے طے کرتے ہوئے اُس مقامِ روحانی کو پالیتے ہیں جسے خلقِ آخر (دوسری پیدائش) کے ساتھ موسوم کیا گیا۔ اس پیدائشِ ثانی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں۔
’’یہ نئی پیدائش اُس وقت ہوتی ہے جب پہلے روحانی قالب تمام تیار ہوچکتا ہے۔ اور پھر وہ روح جو محبتِ ذاتیہ الٰہیہ کا ایک شعلہ ہے ایسے مومن کے دل پر آپڑتا ہے اور یک دفعہ طاقتِ بالا نشیمن بشریت سے بلند تر اُس کو لے جاتی ہے۔ اور یہ مرتبہ وہ ہے جس کو روحانی طور پر خَلقِ آخر کہتے ہیں۔ اس مرتبہ پر خدا تعالیٰ اپنی ذاتی محبت کا ایک افروختہ شعلہ جس کو دوسرے لفظوں میں روح کہتے ہیں مومن کے دل پر نازل کرتا ہےاور اس سے تمام تاریکیوں اور آلائشوں اور کمزوریوں کو دور کردیتا ہے۔ اور اس روح کے پھونکنے کے ساتھ ہی وہ حسن جو ادنیٰ مرتبہ پر تھاکمال کو پہنچ جاتا ہےاور ایک روحانی آب وتاب پیدا ہو جاتی ہے اور گندی زندگی کی کبودگی بکلّی دور ہو جاتی ہے اور مومن اپنے اندر محسوس کرلیتا ہے کہ ایک نئی روح اُس کے اندر داخل ہو گئی ہے جو پہلے نہیں تھی۔ اُس روح کے ملنے سے ایک عجیب سکینت اور اطمینان مومن کو حاصل ہو جاتی ہے اور محبتِ ذاتیہ ایک فوّارہ کی طرح جوش مارتی اور عبودیت کے پودہ کی آبپاشی کرتی ہے اور وہ آگ جو پہلے ایک معمولی گرمی کی حد تک تھی اس درجہ پر وہ تمام وکمال افروختہ ہو جاتی ہے اور انسانی وجود کے تمام خس وخاشاک کو جلا کرالوہیت کا قبضہ اس پر کردیتی ہے۔ اور وہ آگ تمام اعضاء پر احاطہ کرلیتی ہے۔ تب اُس لوہے کی مانند جو نہایت درجہ آگ میں تپایا جائے یہاں تک کہ سرخ ہو جائےاور آگ کے رنگ پر ہو جائے۔ اس مومن سے الوہیت کے آثار اور افعال ظاہر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ لوہا بھی اس درجہ پر آگ کے آثار اور افعال ظاہر کرتا ہے مگر یہ نہیں کہ وہ مومن خدا ہو گیا ہے بلکہ محبتِ الٰہیہ کاکچھ ایسا ہی خاصہ ہےجو اپنے رنگ میں ظاہر وجود کو لے آتی ہے اور باطن میں عبودیت اور اس کا ضعف موجود ہوتاہے۔ اس درجہ پر مومن کی روٹی خدا ہوتا ہے جس کے کھانے پر اس کی زندگی موقوف ہے اورمومن کا پانی بھی خدا ہوتاہے جس کے پینے سےوہ موت سے بچ جاتا ہے۔ اور اس کی ٹھنڈی ہوا بھی خدا ہی ہوتا ہےجس سے اس کے دل کو راحت پہنچتی ہے۔ اور اس مقام پر استعارہ کے رنگ میں یہ کہنابے جا نہ ہو گا کہ خدا اس مرتبہ کے مومن کے اندر داخل ہوتا اور اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کرتااور اس کے دل کو اپنا تخت گاہ بنا لیتا ہے۔ تب وہ اپنی روح سے نہیں بلکہ خدا کی روح سے دیکھتااورخدا کی روح سے سنتا اور خدا کی روح سے بولتا اور خدا کی روح سے چلتا اورخدا کی روح سے دشمنوں پر حملہ کرتا ہے کیونکہ وہ اس مرتبہ پر نیستی اور استہلاک کے مقام میں ہوتا ہےاور خدا کی روح اس پر اپنی محبتِ ذاتیہ کے ساتھ تجلّی فرما کرحیاتِ ثانی اس کو بخشتی ہے۔ پس اس وقت روحانی طورپر اس پر یہ آیت صادق آتی ہے۔

ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ

(ترجمہ: پھر ہم نے اسے ایک نئی خِلقت کی صورت میں پروان چڑھایا۔ پس ایک وہی اللہ برکت والا ثابت ہوا جو سب تخلیق کرنے والوں سے بہتر ہے۔‘‘)

(ضمیمہ براہینِ احمدیہ حصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ215-216)

پھر اِس نئی پیدائش کے نتیجہ میں انبیاء اور خلفاء کے وجودوں کو جو ایک نیا روحانی حُسن عطا کیا جاتا ہے اِس کا نقشہ حضرت اقدس مسیح موعودؑاِس دلنشیں انداز میں کھینچتے ہیں۔

’’یہ وہ حُسن ہے جو اپنی قوی کششوں کے ساتھ حُسنِ بشرہ سے بہت بڑھ کر ہے۔ کیونکہ حُسنِ بشرہ صرف ایک یا دو شخص کے فانی عشق کا موجب ہو گا جو جلد زوال پذیر ہو جائے گا اور اس کی کشش نہایت کمزور ہو گی۔ لیکن وہ روحانی حُسن جس کو حُسنِ معاملہ سے موسوم کیا گیا ہے وہ اپنی کششوں میں ایسا سخت اور زبردست ہے کہ ایک دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ اس کی طرف کھنچا جاتا ہے اور قبولیت دُعا کی بھی درحقیقت فلاسفی یہی ہے کہ جب ایسا رُوحانی حُسن والا انسان جس میں محبتِ الٰہیہ کی رُوح داخل ہو جاتی ہے جب کسی غیر ممکن اور نہایت مشکل امر کے لئے دُعا کرتا ہے اور اُس دُعا پر پورا پورا زور دیتا ہے تو چونکہ وہ اپنی ذات میں حُسنِ رُوحانی رکھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے امر اور اذن سے اس عالم کا ذرّہ ذرّہ اس کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ پس ایسے اسباب جمع ہو جاتے ہیں جو اس کی کامیابی کے لئے کافی ہوں۔ تجربہ اور خدا تعالیٰ کی پاک کتاب سے ثابت ہے کہ دنیا کے ہر ایک ذرّہ کو طبعاً ایسے شخص کے ساتھ ایک عشق ہوتا ہے اور اُس کی دُعائیں اُن تمام ذرّات کو ایسا اپنی طرف کھینچتی ہیں جیسا کہ آہن رُبا لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ پس غیر معمولی باتیں جن کا ذکر کسی علمِ طبعی اور فلسفہ میں نہیں اس کشش کے باعث ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اور وہ کشش طبعی ہوتی ہے۔ جب سے کہ صانع مطلق نے عالمِ اجسام کو ذرّات سے ترکیب دی ہے ہر ایک ذرّے میں وہ کشش رکھی ہے اور ہر ایک ذرّہ رُوحانی حُسن کا عاشق صادق ہے اور ایسا ہی ہر ایک سعید رُوح بھی۔ کیونکہ وہ حُسن تجلّی گاہِ حق ہے۔ وہی حُسن تھا جس کے لئے فرمایا گیا

اُسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ

(البقرہ: 35)

(ترجمہ: آدم کی خاطر سجدہ کرو تو وہ سب سجدہ ریز ہوگئے سوائے ابلیس کے۔) اور اب بھی بہتیرے ابلیس ہیں جو اِس حُسن کو شناخت نہیں کرتے مگر وہ حسن بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے۔

نوح میں وہی حُسن تھا جس کی پاس خاطر حضرت عزت جلّ شانہٗ کو منظور ہوئی اور تمام منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا۔ پھر اس کے بعد موسیٰ بھی وہی حُسن رُوحانی لے کر آیا جس نے چند روز تکلیفیں اٹھا کر آخر فرعون کا بیڑا غرق کیا۔ پھر سب کے بعد سیّد الانبیاء وخیرالوریٰ مولانا و سیدنا حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ و سلم ایک عظیم الشان روحانی حُسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے۔

دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی

(النجم: 9۔ 10)

یعنی وہ نبی جنابِ الٰہی سے بہت نزدیک چلا گیا۔ اور پھر مخلوق کی طرف جُھکا اور اس طرح پر دونوں حقوں کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر دیا۔ اور دونوں قسم کا حُسن رُوحانی ظاہر کیا۔ اور دونوں قوسوں میں وتر کی طرح ہو گیا۔‘‘

(ضمیمہ براہینِ احمدیہ حصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ219-221)

ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد ﷺ کی ذات میں نہ صرف اِس حسن کی کامل تجلیّ ہوئی بلکہ آپ کے بعثت کے بعد یہ نور صرف اور صرف آپ کی اُمت کے ساتھ مخصوص کردیا گیا۔ آپﷺ کی وفات کے بعد خلفاءراشدین اِس نور کی تجلی گاہ بنے اور پھر مجدیدین کے سلسلہ کے ذریعہ وقتاً فوقتاً یہ نوراُمت کیلئے تاریکی میں روشنی کے مینار کا کام کرتارہا۔ بالآخراسلام کی چودھویں صدی میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ذریعہ بدرِ کامل کی مانند اِس نور کی ضیاپاشی سے سارا عالم منور ہوگیا۔

؎ مَیں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
مَیں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار

تاہم آپ نے بار بار یہ امر بھی کھو ل کھول کر بیان کیا کہ اِس نور کا حقیقی سرچشمہ آنحضور ﷺ کی ذات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سارے زمانوں کیلئے سِراجاً مُنیراً بنا کر بھیجا ہے۔ چنانچہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں۔

؎ وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا
نام اُس کا ہے محمدؐ دلبر مِرا یہی ہے
؎ اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا ہی مَیں ہوا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

پھر حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد آپ کی بشارتوں کے مطابق خلافت کے مبارک سلسلہ کے ذریعہ انسانیت کو ایک بار پھر ضلالت اور گمراہی کے اندھیروں سے بچنے کیلئے اِس نور کا سہارا مل گیا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے جہاں اِس روحانی نور کو پانے کیلئے سلوک کی باریک راہوں کا نہایت لطیف پیرایہ میں تذکرہ فرمایا وہاں اِس مقام کو پالینے والوں کی علامات کی بھی تفصیل بیان فرمائی۔ چنانچہ خلفاء کے وجود میں اِن علامات کا پایا جانا نہ صرف اُن کے اعلیٰ روحانی مقام پر فائز ہونے کی گواہی دیتا ہے بلکہ اِس امر کی دلالت بھی کرتا ہے کہ وہ واقعتاً خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ ہیں۔ ورنہ انسان کسی خاص کام کیلئے دوسرے انسان کا انتخاب تو کرسکتا ہے مگر اُس میں وہ صفات تو پیدا نہیں کرسکتا جن کے ذریعہ وہ اپنے فرائض کو بخوبی سرانجام دے سکے۔

چنانچہ اِن کامل مؤمنین اور آئمۃ المتقین کے مزید اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔
’’جیسا کہ خدائے کریم بے نیاز ہے اس نے اپنے برگزیدوں میں بھی بے نیازی کی صفت رکھ دی ہے۔ سو وہ خدا کی طرح سخت بے نیاز ہوتے ہیں اور جب تک کوئی پوری خاکساری اور اخلاص کے ساتھ اُن کے رحم کے لئے ایک تحریک پیدا نہ کرے وہ قوت اُن کی جوش نہیں مارتی اور عجیب تر یہ کہ وہ لوگ تمام دنیا سے زیادہ تر رحم کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ مگر اُس کی تحریک اُن کے اختیار میں نہیں ہوتی گو وہ بارہا چاہتے بھی ہیں کہ وہ قوت ظہور میں آوے مگر بجز ارادہ الٰہیہ کے ظاہر نہیں ہوتی۔ بالخصوص وہ منکروں اور منافقوں اور سُست اعتقاد لوگوں کی کچھ بھی پروا نہیں رکھتے اور ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح اُن کو سمجھتے ہیں اور وہ بے نیازی ان کی ایک ایسی شان رکھتی ہے جیسا کہ ایک معشوق نہایت خوبصورت برقع میں اپناچہرہ چھپائے رکھے۔ اور اِسی بے نیازی کا ایک شعبہ یہ ہے کہ جب کوئی شریر انسان اُن پر بدظنی کرے تو بسا اوقات بے نیازی کے جوش سے اُس بدظنی کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں۔ کیونکہ تخلّق باخلاق اللّٰہ رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا

(البقرہ: 11)

ترجمہ: ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ پس اللہ نے ان کو بیماری میں بڑھا دیا۔

جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ کوئی معجزہ اُن سے ظاہر ہو تو اُن کے دلوں میں ایک جوش پیدا کر دیتا ہے اور ایک امر کے حصول کے لئے سخت کرب اور قلق اُن کے دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے تب وہ بے نیازی کا برقع اپنے مُنہ پر سے اُتار لیتے ہیں اور وہ حُسن اُن کا جو بجز خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں دیکھتا وہ آسمان کے فرشتوں پر اور ذرّہ ذرّہ پر نمودار ہو جاتا ہے۔ اور اُن کا مُنہ پر سے برقع اٹھانا یہ ہے کہ وہ اپنے کامل صدق اور صفا کے ساتھ اور اِس رُوحانی حُسن کے ساتھ جس کی وجہ سے وہ خدا کے محبوب ہو گئے ہیں اس خدا کی طرف ایک ایسا خارق عادت رجوع کرتے ہیں اور ایک ایسے اقبال علی اللہ کی اُن میں حالت پیدا ہو جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کی فوق العادت رحمت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور ساتھ ہی ذرّہ ذرّہ اس عالم کا کھنچا چلا آتا ہے۔ اور اُن کی عاشقانہ حرارت کی گرمی آسمان پر جمع ہوتی اور بادلوں کی طرح فرشتوں کو بھی اپنا چہرہ دکھا دیتی ہے اور اُن کی دردیں جو رعد کی خاصیت اپنے اندر رکھتی ہیں ایک سخت شور ملاءِ اعلیٰ میں ڈال دیتی ہیں تب خدا تعالیٰ کی قدرت سے وہ بادل پیدا ہو جاتے ہیں جن سے رحمتِ الٰہی کا وہ مینہ برستا ہے جس کی وہ خواہش کرتے ہیں۔ اُن کی روحانیت جب اپنے پورے سوز و گداز کے ساتھ کسی عقدہ کشائی کے لئے توجہ کرتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ کیونکہ وہ لوگ بباعث اس کے جو خدا سے ذاتی محبت رکھتے ہیں محبوبانِ الٰہی میں داخل ہوتے ہیں۔ تب ہر ایک چیز جو خدا تعالیٰ کےزیرِ حکم ہے۔ اُن کی مدد کے لئے جوش مارتی ہے اور رحمتِ الٰہی محض اُن کی مراد پوری کرنے کے لئے ایک خلق جدید کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ اور وہ امور ظاہر ہوتے ہیں جو اہل دنیا کی نظر میں غیر ممکن معلوم ہوتے ہیں اور جن سے سفلی علوم محض نا آشنا ہیں۔ ایسے لوگوں کو خدا تو نہیں کہہ سکتے مگر قرب اور علاقہ محبت اُن کا کچھ ایسا صدق اور صفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے گویا خدا اُن میں اُتر آتا ہے۔ اور آدم کی طرح خدائی رُوح اُن میں پُھونکی جاتی ہے مگر یہ نہیں کہ وہ خدا ہیں لیکن درمیان میں کچھ ایسا تعلق ہے جیسا کہ لوہے کو جب کہ سخت طور پر آگ سے افروختہ ہو جائے اور آگ کا رنگ اُس میں پیدا ہو جائے آگ سے تعلق ہوتا ہے۔ اس صورت میں تمام چیزیں جو خدا تعالیٰ کے زیرِ حکم ہیں اُن کے زیر حکم ہو جاتی ہیں۔ اور آسمان کے ستارے اور سورج اور چاند سے لے کر زمین کے سمندروں اور ہوا اور آگ تک اُن کی آواز کو سُنتے اور ان کو شناخت کرتے اور اُن کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور ہر ایک چیز طبعاً اُن سے پیار کرتی ہے اور عاشقِ صادق کی طرح اُن کی طرف کھنچی جاتی ہے۔ بجز شریر انسانوں کے جو شیطان کا اوتار ہیں۔ عشق مجازی تو ایک منحوس عشق ہے کہ ایک طرف پیدا ہوتا اور ایک طرف مر جاتا ہے۔ اور نیز اس کی بنا اُس حُسن پر ہے جو قابلِ زوال ہے۔ اور نیز اُس حُسن کے اثر کے نیچے آنے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ مگر یہ کیا حیرت انگیز نظارہ ہے کہ وہ حسن روحانی جو حُسن معاملہ اور صدق و صفا اور محبتِ الٰہیہ کی تجلّی کے بعد انسان میں پیدا ہوتا ہے اس میں ایک عالمگیر کشش پائی جاتی ہے وہ مستعد دلوں کو اس طرح اپنی طرف کھینچ لیتا ہے کہ جیسے شہد چیونٹیوں کو۔ اور نہ صرف انسان بلکہ عالم کا ذرّہ ذرّہ اس کی کشش سے متاثر ہوتا ہے۔ صادق المحبت انسان جو سچی محبت خدا تعالیٰ سے رکھتا ہے وہ وہ یوسف ہے جس کے لئے ذرّہ ذرّہ اس عالم کا زلیخا صفت ہے۔ اور ابھی حسن اُس کا اس عالم میں ظاہر نہیں کیونکہ یہ عالم اس کی برداشت نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ اپنی پاک کتاب میں جو فرقان مجید ہے فرماتا ہے کہ مومنوں کا نور اُن کے چہروں پر دوڑتا ہے۔ اور مومن اس حُسن سے شناخت کیا جاتا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں نور ہے۔

اور مجھے ایک دفعہ عالمِ کشف میں پنجابی زبان میں اِسی علامت کے بارہ میں یہ موزوں فقرہ سُنایا گیا۔ ’’عِشق الٰہی وَسّے مُنہ پر ولیاں ایہہ نشانی‘‘ مومن کا نور جس کا قرآن شریف میں ذکر کیا گیا ہے وہ وہی روحانی حُسن و جمال ہے جو مومن کو وجود رُوحانی کے مرتبہ ششم پر کامل طور پر عطا کیا جاتا ہے۔ جسمانی حُسن کا ایک شخص یا دو شخص خریدار ہوتے ہیں مگر یہ عجیب حُسن ہے جس کے خریدار کروڑ ہا رُوحیں ہو جاتی ہیں۔‘‘

(ضمیمہ براہینِ احمدیہ حصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ221-224)

یہاں یہ دلچسپ امر بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات کی نہایت لطیف تشریح بیان کرتے ہوئے جس نور کا ذکر فرما رہے، اِسی نور کی مزید تفصیلات اللہ تعالیٰ نے اِس سے اگلی سورۃ میں مزید کھول کربیان فرمادیں اور اِس سورۃ کا نام بھی سورۃ النور رکھا۔ جہاں اِس سورۃ کے آغاز میں اِس نور کے بجھانے والوں اور اُس پرپردے ڈالنے والوں کے احوال کا تذکرہ ہے وہاں آیتِ استخلاف کے ذریعہ اِس الٰہی نور کے انبیاء کے بعد نظامِ خلافت کے ذریعہ جاری و ساری رہنے کی بھی بشارت عطا فرمادی۔

چنانچہ اِس الٰہی نور کے وارث اور خدا کےاِن مقربین کی مزید علامات کا تذکرہ آپؑ نے اپنی کتاب تذکرۃ الشہادتین کے عربی حصّہ ’’علامات المقربین‘‘ میں نہایت فصیح وبلیغ عربی زبان میں تحریر فرمایا ہے۔ اِن میں سے چند ایک علامات اردو ترجمہ کے ساتھ پیش ہیں۔

’’اے لوگو! اکٹھے ہو جاؤ، میں تمہارے لئے مقربین کی علامات بیان کروں گا۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کی روح کی شادابی کی حفاظت اللہ نے فرمائی ہے وہ خشک اور کم عقل شخص کی مانند نہیں ہوتے۔ تو انہیں خوش شکل، خوبرو اور بھرپور جوان کی طرح پائے گا اور اس شخص کی طرح نہیں پائے گا جو دِق کے مریض کی طرح لاغر ہو گیا ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سینے کھول دیئے گئے اور ان کی کمر یں مضبوط کی گئیں اور ان کے نور کو تابانی عطا کر دی گئی۔ انہوں نے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دیا۔ وہ اللہ کی راہ میں کسی بھی تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے خواہ ان کی رگ جان ہی کاٹ دی جائے۔ وہ صرف رب العالمین کی خاطر موت سے بچتے ہیں۔ خلق کے دودھ سے پرورش پاتی ہے اور دل ان کے فیض سے مضبوط کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘

(تذکرة الشہادتین مع علامات المقربین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ50)

’’وہ پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ وہ ہر دم آگےہی آگے بڑھتے ہیں اور اللہ اُن کے نور میں مزید نور کا اتنا اضافہ فرماتا ہے کہ وہ پہچانے نہیں جاتے۔ جاہل انہیں ایسے انسان تصور کرتا ہے جو آلائشوں سے آلودہ ہیں حالانکہ وہ اپنے نفسوں سے دور کئے گئےہیں۔ جب انہیں کسی شیطانی چکر کا ذرا بھی احساس ہو تو وہ عاجزی کرتے ہوئے اپنا رخ اللہ کی جانب کر لیتے ہیں اور اس (اللہ) کی پناہ کی طرف دوڑتے ہیں تو ناگہاں وہ صاحب بصیرت ہو جاتے ہیں۔

وہ سست ہونے کی حالت میں دعا کے لیے کھڑے نہیں ہوتے بلکہ قریب ہے کہ وہ دعا کرتے کرتے ہی جان دے دیں۔ اور ان کے اس تقوی کی وجہ سے ان کی (دعا) سنی جاتی ہے اور وہ مدد یافتہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح دعا کے وقت انہیں ضعف کے بعد قوت دی جاتی ہے اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور فرشتے انہیں تقویت دیتے ہیں پس وہ ہر خطا سے مصئون و محفوظ ہو جاتے ہیں اور اللہ کی جانب صعود کرتے ہیں اور اس کی رضا میں گم ہوجاتے ہیں۔ پس اللہ کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا اور وہ لوگوں کی نگاہ سے چھپا لیے جاتے ہیں۔ یہ ایک مخفی قوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے معاملے میں ہلاک ہونے والے ہلاک ہوگئے۔

اس دنیا کے اندھے انہیں دیکھ کر ان سے استہزاء کرتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) کیا اس کو اللہ نے مبعوث کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ وہ (استہزاء کرنے والے) اندھے ہیں۔ ان (مقربان الہی) کی کچھ علامات ہوتی ہیں۔ جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں مگر انہیں صاحب فراست اور پاک لوگ ہی پہچانتےہیں۔

اور ان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ دنیا سے دور رکھے جاتے ہیں اور انہیں دنیاوی امور کی سماعت سے محروم کردیا جاتا ہےکہ ان کے دلوں میں دنیا ذرہ برابر بھی نہیں رہتی۔ وہ بکثرت برسنے والے بادل کی طرح ہوتے ہیں اور اللہ کی خاطر بے دریغ خرچ کرتے ہیں اور انہیں ہر آن نور کا غسل دیا جاتا ہے۔

اور ان کی ایک علامت یہ ہے کہ اللہ ان کے قلوب میں ایسی کشش ودیعت فرما دیتا ہے کہ مخلوق ان کی جانب کھینچی چلی آتی ہے۔ ان کی حالت اس جوش مارتے چشمے کی طرح ہوتی ہے جس کا پانی ٹھنڈا ہو۔ پس مخلوق ان کی طرف بھاگتی چلی آتی ہے۔‘‘

(تذکرة الشہادتین مع علامات المقربین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ54)

’’ان کی ایک علامت یہ ہے کہ جو لوگ ازراہِ اخلاص ان کے حلقہ بیعت میں آتے ہیں وہ ان کی پرورش اس طرح کرتے ہیں جس طرح چوزوں کی پروش کی جاتی ہے۔ اور وہ انہیں شیطانی پھندوں سے رہا کرتے ہیں اور ان کی خاطر تاریک راتوں میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے اور سجدے کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان پر رحمت کی بارش ہوتی ہے اور ان پر رحم کیا جاتا ہے۔‘‘

(تذکرة الشہادتین مع علامات المقربین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ57)

’’ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ نہ تو چیں بجبیں ہوتے ہیں نہ ہی بد مزاجی سے پیش آتے ہیں اور نہ ہی لوگوں سے بے رخی کرتے ہیں اور وہ ہدایت کی چراگاہ میں ہر جگہ چرتے ہیں اور وہ ایسی زمین کی مانند نہیں ہوتے جس میں کسی جگہ روئیدگی ہو اور کہیں نہ ہو۔ وہ شدائد کا سامنا ہونے پر پیٹھ نہیں پھیرتے خواہ انہیں تاریکیوں میں چلنا پڑے۔ وہ بھاگتے نہیں خواہ انہیں قتل ہی کر دیا جائے۔ ان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ ناحق کسی کی عزت و آبرو کو آلودہ نہیں کرتے اور وہ اپنی زبان کو نیام میں رکھتے ہیں اور سونتتے نہیں۔ وہ باطل امور میں نہیں پڑتےاور انہیں کتنا ہی بھڑکایا جائے پھر بھی ان کی آتش غضب ٹھنڈی ہی رہتی ہے اور جب کوئی تکلیف دہ بات انہیں پہنچے تو وہ خمیرے آٹے کی مانند غصہ سے نہیں پھولتے۔ وہ استقامت کو نہیں چھوڑتے نہیں بلکہ وہ اس پرہمیشہ قائم رہتے ہیں۔

تو انہیں بے غیرت کی طرح نہیں پائے گا بلکہ وہ ایک غیور قوم ہیں۔ وہ اللہ کے اخلاق کی نقل کرتے ہیں اور وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بھی نقل کرتے ہیں جیسے تم ایک تحریر سے دوسری تحریر نقل کرتے ہو اور وہ اسی طرح ہی کرتے ہیں۔‘‘

(تذکرة الشہادتین مع علامات المقربین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ58)

’’ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ بلاؤں کے نزول کے وقت ان کی صحبت زمین پر بسنے والوں کے لئے آسمان سے حفاظت کا سامان ہوتا ہے اور اس سنگدلی کی دوا بن جاتی ہے جو دنیا کی تمناؤں اور خواہشات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور جس طرح پانی کےقلتِ استعمال سے بدن پر میل چڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح اولیاءاللہ کی صحبت کی قلت دلوں کو میلا کر دیتی ہے اور جاننے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں۔

ان کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی صحبت دلوں کو زندگی بخشتی، گناہوں کو کم کرتی اور نا تواں تھکے مانندوں کو قوت دیتی ہے۔ ان کی صحبت سے لوگ اپنی راہ پر ثابت قدم ہو جاتے ہیں اور وہ تفرقہ میں نہیں پڑتے۔‘‘

(تذکرة الشہادتین مع علامات المقربین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ60)

’’ان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ لغو اور فضول بات نہیں کرتے۔ تمسخر سے پرہیز کرتے ہیں اور ٹھٹھا نہیں کرتے وہ افسردہ زندگی گزارتے ہیں اوراس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات اور ان کا کوئی فعل ان کے (نیک) اعمال کو ضائع نہ کر دے۔ ان کی گفتار صرف مضبوط (بنیاد) پر استوار ہوتی ہے اور وہ لایعنی گفتگو نہیں کرتے۔ ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ تو انہیں دیکھتا ہے کہ اللہ انہیں ضعف کے بعد قوت اور افلاس کے بعد تونگری بخشتا ہے اور وہ لوگ بے یارو مددگار نہیں چھوڑے جاتے۔ ان کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں سے ہر قسم کی تکلیف اور کجروی پاتے ہیں اور ہر طرف سے انہیں مایوسی نظر آتی ہے پھر اللہ تعالی انہیں تھام لیتا ہے اور وہ بچائے جاتے ہیں۔ جب ان پر کوئی آفت نازل ہوتی ہے تو اللہ کی جناب سے انہیں ایسا صبر عطا کیا جاتا ہے جو فرشتوں کو حیران کر دیتا ہے۔ پھر فضل نازل ہوتا ہے تو وہ (آفات سے) نجات دیئے جاتے ہیں۔‘‘

(روحانی خزائن جلد20۔ (اُردو ترجمہ) تذکرة الشہادتین مع علامات المقربین صفحہ62)

’’ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ان کی گردنیں ہر بار امانت اٹھانے والے شخص سے زیادہ اللہ کی امانتوں کا بارِگراں اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور ان کی گردنیں اس بوجھ سے خم نہیں کھاتیں بلکہ وہ (بارِ امانت) انہیں ایک خوبصورت لمبی گردن والی عورت کی طرح حسین کر دیتا ہے اور اس سے حسن استقامت جھلکتا ہے جو ایک کرامت ہی دکھائی دیتی ہے اور وہ اللہ کے حضور اور لوگوں میں بھی عزت دیئے جاتے ہیں۔‘‘

(تذکرة الشہادتین مع علامات المقربین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ66)

’’پس یہ اللہ کا اپنی خَلق پر عظیم فضل ہے کہ یہ (مقربین) مبعوث کئےجاتے ہیں اور یقیناً سب لوگ سنگلاخ زمین کی طرح ہیں اور یہ ان کی اصلاح کرتے ہیں اور جس نے انہیں کھو دیا وہ یتیم کی طرح ہے اور جس نے فطرت صحیحہ کو کھو دیا وہ ایسے بچے کی طرح ہے جس کی ماں نہ ہو اور جس نے ان دونوں کو کھو دیا وہ ایسے شخص کی طرح ہے جس کے ماں باپ (دونوں) مر گئے ہوں اور وہ بد بختوں میں ہے۔ پس مبارک ہو انہیں جنہیں سب سعادتیں دی جائیں اور وہ (ان کو) جمع کر لیتے ہیں۔‘‘

(تذکرة الشہادتین مع علامات المقربین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ68)

’’ان کی ایک علامت یہ ہے کہ اللہ ان کے گھروں، کپڑوں، پگڑیوں، قمیصوں، چادروں، ہونٹوں، ہاتھوں اور پیٹھوں میں اور اسی طرح ان کے جملہ اعضاء بدنی میں، ان کے بچے کھچے ٹکڑوں اور اس پانی میں جو ان کے پینے کے بعد بچ جاتا ہے برکت رکھ دیتا ہے اور اُن کی کمزوری کے وقت اور اُس وقت جب وہ گرے پڑے ہوں وہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ اُن کی دعائیں قبول کرتا ہے۔‘‘

(تذکرة الشہادتین مع علامات المقربین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ70)

’’وہ اپنے تئیں ایسا بنا لیتے ہیں جیسے شاخ دار درخت ہو کہ ہر طرف سے آنے والا بھوکا شخص ان کے پھل کھاتا ہے۔ کیا ہی اچھے مہمان اور کیا ہی اچھے میزبان ہیں۔ یہ لوگ حسن تام کے مالک ہیں اور بدی کو نیکی سے دور کرتے ہیں اور مخلوق کی خدمت کرتے ہیں اور جو انہیں ایذاء پہنچائے وہ اسے ایذاء نہیں پہنچاتے اور معذرت خواہ کی معذرت قبول کرتے ہیں اور جب کمینہ دشمنوں کی طرف سے ان پر سختیاں کی جائیں تو اس کے جواب میں وہ ان پر احسان کرتے ہیں اور وہ گالی کے جواب میں گالی دینے سے اجتناب کرتے ہیں اور اس کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ اور وہ اپنے دشمنوں کے لیے اللہ کی طرف سے خیر، سلامتی، صحت و عافیت اور ہدایت کی دعا کرتے ہیں اور وہ اپنے سینوں میں کسی کے لیے بھی ذرہ برابر کینہ نہیں رکھتے اور وہ ان کے لئے بھی دعا کرتے ہیں جو ان پر گندے الزام لگاتے اور حقیر جانتے ہیں۔ اور عاصی تک کو اپنی جماعت میں پناہ دیتے ہیں۔ پس اللہ ان پر ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اسے مقدم کرتے ہیں اور اس کے بندوں پر رحم کرتے ہیں اور اس وجہ سےکہ وہ اخلاص رکھتےہیں۔ حقیقتاً یہی لوگ ابدال اور اولیاء اللہ ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔

ان کی تشریف آوری سے زمین کو برکت دی جاتی ہے اور لوگوں کو ان کے غموں سے نجات دی جاتی ہے۔ پس مبارک ہوان لوگوں کو جو ان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اے میرے رب! تو مجھے ان میں شامل فرما اور میرا ہو اور میرے ساتھ ہو جا اس دن تک کہ جب لوگ اٹھائے جائیں اور پیش کیے جائیں۔ اے میرے رب! ان لوگوں پر جو میری دشمنی کر رہے ہیں گرفت نہ فرما کیونکہ وہ مجھے نہیں پہچانتےاور نہ انہیں بصیرت حاصل ہے۔ پس اے میرے رب! اپنی جناب سے ان پر رحم کر اور انہیں ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرما۔‘‘

(تذکرة الشہادتین مع علامات المقربین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ89-90)

دوسری طرف خدائی نور کے مظہر بننے والے اِن خلفاء اور برگزیدوں کے مقابل کھڑے ہونے والے اور اِس نور کے بجھانے کے درپے ہونے والوں کے عبرتناک انجام کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعودؑ اِن الفاظ میں فرماتے ہیں۔
’’اب یہ بھی یاد رہے کہ بندہ تو حُسنِ معاملہ دکھلا کر اپنے صدق سے بھری ہوئی محبت ظاہر کرتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس کے مقابلہ پر حد ہی کر دیتا ہے اس کی تیز رفتار کے مقابل پر برق کی طرح اس کی طرف دوڑتا چلا آتا ہے اور زمین و آسمان سے اس کے لئے نشان ظاہر کرتا ہے اور اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے اور اگر پچاس کروڑ انسان بھی اُس کی مخالفت پر کھڑا ہو تو ان کو ایسا ذلیل اور بے دست و پا کر دیتا ہے جیسا کہ ایک مرا ہوا کیڑا۔ اور محض ایک شخص کی خاطر کے لئے ایک دنیا کو ہلاک کر دیتا ہے اور اپنی زمین و آسمان کو اس کے خادم بنا دیتا ہے اور اس کے کلام میں برکت ڈال دیتا ہے اور اس کے تمام درو دیوار پر نور کی بارش کرتا ہے اور اُس کی پوشاک اور اُس کی خوراک میں اور اس مٹی میں بھی جس پر اس کا قدم پڑتا ہے ایک برکت رکھ دیتا ہے اور اس کو نامراد ہلاک نہیں کرتا۔ اور ہر ایک اعتراض جو اس پر ہو اُس کا آپ جواب دیتا ہے۔ وہ اُس کی آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے اور اُس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے اور اُس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اُس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے اور اُس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے۔ وہ اُس کے دشمنوں کے مقابل پر آپ نکلتا ہے اور شریروں پر جو اُس کو دُکھ دیتے ہیں آپ تلوار کھینچتا ہے۔ ہر میدان میں اس کو فتح دیتا ہے اور اپنی قضاء و قدر کے پوشیدہ راز اس کو بتلاتا ہے۔ غرض پہلا خریدار اس کے رُوحانی حُسن و جمال کا جو حُسنِ معاملہ اور محبتِ ذاتیہ کے بعد پیدا ہوتا ہے خدا ہی ہے۔ پس کیا ہی بدقسمت وہ لوگ ہیں جو ایسا زمانہ پاویں اور ایسا سورج اُن پر طلوع کرے اور وہ تاریکی میں بیٹھے رہیں۔‘‘

(ضمیمہ براہینِ احمدیہ حصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ224)

(ابو عطیہ۔ کیلگری، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

اطاعت خلافت کی برکات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2022