• 11 جولائی, 2025

نبوت اور خلافت خدا تعالیٰ کی دو مختلف تجلیات کے مظاہر

ہمارا ایمان ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ قرآن کی آیت استخلاف میں بھی خلیفہ بنانے کی ضمیر خدا کی طرف جاتی ہے۔ یعنی خلیفہ خدا تعالیٰ خود بناتا ہے۔ دوسری طرف نبی بھی خدا خود بناتا ہے گو کہ نبی بھی زمین پر خدا کا خلیفہ ہی ہوتا ہے۔ لیکن ایک نبی براہ راست خدا کی وحی سے مقرر ہوتا ہے۔ اسکی بعثت میں کسی انسان کا دخل نہیں ہوتا۔ لیکن جب نبی کی وفات کے بعد خلافت علی منہاج نبوت کا قیام ہوتا ہے تو اسی نبی کا خلیفہ بہرحال مومنین دنیاوی طریق کے انتخاب کے اسباب کو اختیار کرکے بظاہر خود منتخب کرتے ہیں۔ لیکن وہ خدا کا انتخاب کہلاتا ہے۔ چونکہ یہ انتخاب رعائیت اسباب کے ذریعے ایک دنیاوی طریق کو اپنانے کے نتیجےمیں عمل میں آتا ہے اسی وجہ سے دنیا دار اور ایمان سے بے بہرہ لوگوں کے دل اس امر کو قبول نہیں کرتے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔

موجودہ دور میں حضرت مسیح موعود ؑ جو خدا تعالیٰ کی قدرت اولیٰ کا مظہر تھے، کی وفات کے بعد خدا کی قدرت ثانیہ کےظہورکے نتیجے جو خلافت حقہ علی منہاج النبوۃ کا قیام عمل میں آیا اس قدرت ثانیہ کے ہر ایک مظہر کو نہ صرف بیرون سے ہی بلکہ جماعت کے اندر سے بھی منافقین اور کمزور ایمان عناصر کی طرف سے اس سوال یا اعتراض کا سامنا کرنا پڑا کہ کیا واقعی خلیفہ خدا بناتا ہے؟ اور اس سوال یا اعتراض کی آڑ میں ہر خلیفہ کی ذات کو، بلا استثناء، اس خلیفہ کے زمانے کے مخالفین اور منافقین کی طرف سے نشانہ بنایا گیا۔ اسکے نتیجے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے لے کر آج تک تمام خلفاء نے اس اعتراض کو سختی سے رد کیا اور نہ صرف یہ واضح کیا کہ ہمارا ایمان ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے بلکہ یہ دعویٰ بھی نہایت تحدی سے کیا کہ اسے خلافت کمیٹی نے نہیں بلکہ خدا نے خود خلیفہ بنایا ہے۔ بہت سے پیروکار بہت سے غیر حقیقی روحانی درجے غلو سے کام لے کر اپنے مذہبی پیشواؤں کی طرف منسوب کرہی دیا کرتے ہیں۔ لہٰذا کسی کے مقام کو پرکھنے کا ایک بنیادی معیار کسی پیشوا کا اپنا دعویٰ بھی ہوا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے خلافت حقہ کا ہر خلیفہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے خدا نے خود خلیفہ بنایا ہے۔

یہاں پر جو عام طور پر سوال یہ اٹھایا جاتا ہے اور اگر نہیں بھی اٹھایا جاتا تو دلوں میں پیدا ضرور ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ جب نبی کو خدا تعالیٰ نبوت کے مقام پر سرفراز فرماتا ہے تو اسے تو اپنی براہ راست وحی اور الہام سے نبوت کا مقام عطا کرتا ہے جبکہ خلیفہ کے معاملے میں یہ طریق اختیار نہیں کیا جاتا بلکہ مومنین کی جماعت کو ایک رعایت اسباب کی صورت پیدا کرکے ان سے ایسے شخص کا انتخاب کروا دیتا ہے جسے وہ خود اپنا انتخاب قرار دیتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والا خلیفہ بھی خود کو خدا کا ہی انتخاب کہتاہے۔ مضمون ہٰذا میں اس موضوع پر کچھ عرض کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

امر اور خلق کے بارے میں خدا تعالیٰ کی
دو مختلف تجلیات

اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق کے حوالے سے جو مختلف قوانین قدرت بیان فرمائے ہیں ان میں دو طرح کی تجلیات کا بیان فرمایا ہے۔ ایک تجلی خدا تعالیٰ کی اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب کسی شے کو عدم سے تخلیق کرکے اسے تخلیق کے کمال تک پہنچایا جائے۔ پھر جب یہ تجلی کے ظہور کے نتیجے میں تخلیق اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو اسکے بعد خدا تعالیٰ کی ایک نئی تجلی کا ظہور ہوتا ہے یعنی تخلیق کے بعد اس تخلیق کو ایک نظام کے تحت چلانا۔ قرآن میں یہ اصول ایک سے زیادہ بار اور تکرار سے بیان ہوا ہے۔ اس ضمن میں پہلا بیان درج ذیل آیت میں بیان ہوا ہے۔ جس میں اس اصول کی وضاحت بیان کی گئی ہے۔

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۟ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ یَطۡلُبُہٗ حَثِیۡثًا ۙ وَّالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ وَالنُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ ؕ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَالۡاَمۡرُ ؕ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۵۵﴾

(الاعراف: 55)

یقیناً تمہارا ربّ وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا۔ وہ رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے جبکہ وہ اُسے جلد طلب کر رہا ہوتا ہے۔ اور سورج اور چاند اور ستارے (پیدا کئے) جو اس کے حکم سے مسخر کئے گئے ہیں۔ خبردار! پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے اور حکومت بھی۔ بس ایک وہی اللہ برکت والا ثابت ہوا جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ)

اس آیت کریمہ میں کائنات کے حوالے سے اول اسکی تخلیق کا بیان کیا ہے کہ چھ ادوار میں درجہ بدرجہ ہوئی۔ اسکے بعد جب تخلیق کا مرحلہ مکمل ہوگیا تو استوائے عرش کا مرحلہ آیا۔ یعنی تخلیق شدہ کائنات یا نظام کو اب بعض دوسرے قوانین کے قدرت کے تحت چلانا۔ حتیٰ کہ انسانی پیدائش بھی اس مضمون کی ایک عمدہ مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔ ایک انسان کو زندہ رہنے کے لئے جن قویٰ اور ماحول کی ضرورت پڑتی ہے پیدائش سے قبل رحم مادر میں وہ اس سے مختلف ماحول میں پرورش پا رہا ہوتا۔ نہ اسکی آنکھ کو روشنی سے غرض ہوتی ہے نہ اسکو سانس لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور نہ ہی خوراک کا نظام اس طرح کام کررہا ہوتا ہے جیسا کہ اس دنیا میں آنے کے بعد کرتا ہے۔ لیکن جب اسکی تکمیل خلق کا مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے تو اسکی ایک نئی پیدائش ہوتی ہے اور اسکے وہ قویٰ جو نشونما پارہے تھے مگر استعمال نہیں ہورہے تھے تکمیل پاکر استعمال ہونے کے لئے اس دنیا میں آتے ہیں۔ جیسے ایک بیج جب زمین میں ہوتا ہے تو اور طریق پر پرورش پاتا ہے لیکن جب وہ پودے کی صورت میں زمین سے باہر آجاتا ہے تو اسکو مختلف قویٰ دیے جاتے ہیں جن سے وہ اب ایک نئے نظام کے ذریعے نشو نما پاتا ہے۔ اب وہی روشنی اور ہوا جس کی بیج کو ضرورت ہی نہیں تھی اب اس پودے کی زندگی کا جزو لازم ٹھہرتی ہے۔

درج بالا آیت کریمہ میں آگے خدا تعالیٰ نے ان دو مراحل میں اپنی مختلف تجلیات کو خلق اور امر کی دو اصطلاحوں میں بھی بیان فرمایا کہ یہ دراصل انہی دو تجلیوں سے متعلق بھی ہیں جن کا پہلے تخلیق کائنات اور بعد ازاں استوائے عرش سے تعلق ہے۔ مزید وضاحت کےلئے حضرت مسیح موعودؑ کا اقتباس پیش خدمت ہے۔

’’جب خدائے تعالیٰ کسی چیز کو اس طور سے پیدا کرے کہ پہلے اس چیز کا کچھ بھی وجود نہ ہو تو ایسے پیدا کرنے کا نام اصطلاح قرآنی میں امر ہے اور اگر ایسے طور سے کسی چیز کو پیدا کرے کہ پہلے وہ چیز کسی اور صورت میں اپنا وجود رکھتی ہو تو اس طرز پیدائش کا نام خلق ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ بسیط چیز کا عدم محض سے پیدا کرنا عالم امر میں سے ہے اور مرکب چیز کو کسی شکل یا ہیئت خاص سے متشکل کرنا عالم خلق سے ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ دوسرے مقام میں قرآن شریف میں فرماتا ہے: اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَالۡاَمۡرُ یعنی بسائط کا عدم محض سے پیدا کرنا اور مرکبات کو ظہور خاص میں لانا دونوں خدا کا فعل ہیں اور بسیط اور مرکب دونوں خدائے تعالیٰ کی پیدائش ہے۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ175-176)

اسی طرح خدا تعالیٰ کی ان دو مختلف تجلیات کے حوالے سے ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔
’’اس کے متعلق خوب سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ایک مجہول الکنہ امر ہے اور خدا تعالیٰ کی تجلیات کی طرف اشارہ ہے وہ خَلقُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ چاہتی تھی اس لئے اول وہ ہوکر ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ہوا۔ اگرچہ توریت میں بھی اس طرف اشارہ ہے مگر وہ اچھے الفاظ میں نہیں ہے اور لکھا ہے کہ خدا۔۔ ۔ ماندہ ہوکر تھک گیا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک انسان کسی کام میں مصروف ہوتا ہے تو اسکے چہرہ اور خدوخال وغیرہ اور دیگر اعضاء کا پورا پتہ نہیں لگتا مگر جب وہ فارغ ہوکر ایک تخت یا چارپائی پر آرام کی حالت میں ہوتو اسکے ہر ایک عضو کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح استعارہ کے طور پر خدا کی صفات کے ظہور کو ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ سے بیان کیا گیا ہے کہ آسمان اور زمین کے پید اکرنے کے بعد صفات الٰہیہ کا ظہور ہوا۔ صفات اسکے ازلی ابدی ہیں مگر جب مخلوق ہو تو خالق کو شناخت کرے اور محتاج ہو تو رازق کو پہچانیں۔ اسی طرح اس کے علم اور قادر مطلق ہونے کا پتہ لگتا ہے: ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ خدا کی اس تجلی کی طرف اشارہ ہے جو خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ کے بعد ہوئی۔

(البدر جلد2 نمبر5 مورخہ 20فروری 1903ء صفحہ37-38)

اب انہیں دو تجلیوں کے ضمن میں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ان دو تجلیات کا تعلق خدا تعالیٰ کی دو بنیادی صفات یعنی رحمٰن اور رحیم سے بھی ہے۔ کسی شے کو عدم سے وجود میں لانا خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے تحت ہے اور پھر اس پیدا شدہ خلق کو برقرار رکھنا صفت رحیمیت کو چاہتا ہے۔ یعنی رحمانیت کے ظہور کے نتیجے میں اگلا مرحلہ رحیمیت اور مالکیت کا آتا ہے۔

نبوت کا قیام

خدا تعالیٰ کی یہ تجلیات محض دنیاوی قوانین فطرت میں ہی نظر نہیں آتیں بلکہ انکا اظہار بعینہ روحانی نظام میں بھی اطلاق پاتا ہے۔ ایک نبی کی آمد کے وقت دنیا کی صورتحال ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ کی صورت پیش کرتی نظر آتی ہے۔ روحانیت دنیا سے اٹھ چکی ہوتی ہے۔ مذاہب کے مردہ اجسام ان مذاہب کی حقیقی روح سے عاری ہوچکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں روحانیت کو از سر نو دنیا میں قائم کرنا خدا تعالیٰ کی رحمانیت کی صفت اور اسکی الامر کی تجلی یعنی روحانیت کا عدم سے ظہور چاہتا ہے۔ اسی قدرت کے تحت خدا تعالیٰ اس دنیا میں نبی کا مقدس وجود نازل فرماتا ہے۔ جس کے لئے خدا تعالیٰ پہلے سے موجود نظام کی بجائے الامر کی تجلی کے تحت خارق عادت قدرت کے ذریعے دنیا میں ایک نبی برپا کردیتا ہےاس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’رسولوں کا مبعوث کرنا اور انبیاء پر کتابوں کا نازل کرنا، یہ سب ہمارے رب ارحم الراحمین کی رحمانیت ہے۔ یہ خالص فضل ہے جو کسی کام کرنے والے کے کام یا گریہ و زاری یا دعا کے نتیجے میں نہیں ہے‘‘

(اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد18صفحہ95-92 تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اوّل صفحہ42تا44)

خلافت کا قیام

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلی الامر کا ظہور دیگر قوانین قدرت سے مختلف ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی عدم سے پیدائش والی قدرت کا ظہور ہوتا ہے اس لئے اس میں کسی انسان کا عمل دخل ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ لیکن جب ایک عدم سے پیدا کی گئی تخلیق بدرجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے اور اپنی چمکار دکھلانے کو تیار ہوجاتی ہے تو پھر اس تخلیق کو ایک نظام کے تحت اور قوانین قدرت کے تحت چلانا خدا تعالیٰ کی دوسری تجلی کے ظہور کوچاہتاہے۔ جسے قرآن میں استوائے عرش کے مرحلے سے موسوم کیا گیا ہے۔ جیسا کہ درج بالا اقتباسات سے ظاہر ہے۔ اس ضمن میں جب خدا تعالیٰ روحانی طور پر عدم سے ایک نبی دنیا میں برپا کردیتا ہے تو نبی کی وفات کے وقت تک اس کی تیار کی ہوئی ایک روحانی جماعت تخلیق کا ابتدائی درجہ کمال حاصل کرچکی ہوتی ہے۔ لہٰذا چونکہ اب عدم نہیں رہا اور روحانیت کی تخم ریزی کے نتیجے میں ایک وجود عدم سے ظہور میں آچکا ہے تو ایسے وقت میں پھر الامر والی تجلی کی بجائے وہ تجلی ظاہر ہوتی ہے جو ایک نظام کا تسلسل ہوتی ہے۔ جو اسی وجود سے نئے وجود پیدا کرنے کا سلسلہ ہے۔ اور جو جماعت خدا تعالیٰ نبی کے ظہور کے نتیجے میں پیدا کرچکا ہے اب اسی جماعت کا تسلسل اسی جماعت کے ذریعے اپنی دوسری قدرت کا ہاتھ دکھا کر چلاتا ہے۔ اور چونکہ یہ تجلی پہلے سے موجود خلق سے اگلی پیدائش کو چاہتی ہے اس لئے یہ قدرت ثانیہ کا ظہور دنیاوی رعائیت اسباب کو چاہتا ہے۔ اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں خوب کھول کر بیان فرمایا ہے۔ لہٰذا اس مضمون کو حضور نے کچھ اس طرح بیان فرمایا کہ
’’میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔ اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے۔ اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آ جائے گی۔

اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں۔

(حاشیہ) ایسے لوگوں کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے پر ہوگا۔ پس جس شخص کی نسبت چالیس 40مومن اتفاق کریں گے کہ وہ اس بات کے لائق ہے کہ میرے نام پر لوگوں سے بیعت لے وہ بیعت لینے کا مجاز ہوگا اور چاہئے کہ وہ اپنے تئیں دوسروں کے لئے نمونہ بناوے۔‘‘

گویا یہ واضح ہے کہ نبوت قدرت اولیٰ جو خدا تعالیٰ کی تجلی الامر کا مظہر ہے جو صفت رحمانیت کو چاہتی ہے وہ اب وجود پا کر قدرت ثانیہ میں تبدیل ہوتی ہے۔ اور تجلی الخلق کا ظہور ہوتا ہے جو صفت رحیمیت کا فیضان ہے۔ رسالہ الوصیت کے پیش کردہ اقتباس میں قدرت ثانیہ کے ذکر میں جیسا کہ حضورؑ نے فرمایا کہ قدرت ثانیہ کا قیام دعاؤں کو چاہتا ہے۔ دوسری طرف حضورؑ نے جہاں رحمانیت اور رحیمیت کے مابین ایک لطیف فرق کو بیان فرمایا وہاں بھی یہ نکتہ بیان فرمایا
’’رحمانیت میں فعل کو کوئی عمل دخل نہیں ہوتا مگر رحیمیت میں فعل و عمل کو دخل ہے لیکن کمزوری بھی ساتھ ہی ہے۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ123)

’’رحمانیت اور رحیمیت میں یہی فرق ہے کہ رحمانیت دعا کو نہیں چاہتی مگر رحیمیت دعا کو چاہتی ہے‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ79)

اب جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے یہ امر بدیہی طور پر ثابت ہے کہ نبوت اور خلافت دراصل خدا تعالیٰ کی دو مختلف تجلیات کے مظاہر ہیں۔ لہٰذا خلافت کا قیام جو خدا تعالیٰ کی ہی قدرت ثانی اور ایک دوسری تجلی کا مظہر ہے اسکا انتخاب دنیاوی رعائیت اسباب سے ہونا دراصل خدا تعالیٰ کا ہی فعل اور قدرت کا مظہر ہے۔

نبوت امر ربی ہے خلافت استوائے عرش

اس جگہ ایک لطیف نکتہ بیان کرنے کے لائق ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے عرش سے کیا مراد ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو عرش کی حقیقت اور اس ضمن میں عرش کو چار ملائکہ کے اٹھانے کی لطیف تفسیر پیش کی ہے اسکے مطابق:
’’چار ملائک کا عرش کو اٹھانا یہ بھی ایک استعارہ ہے۔ رب، رحمٰن، رحیم اور مالک یوم الدین یہ صفات الٰہی کے مظہر ہیں۔‘‘

(البدر جلد2 نمبر5 مورخہ 20فروری 1903ء صفحہ37-38)

اس امر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ:
’’خدا تعالیٰ کی چار صفتیں ہیں جو امُّ الصفات ہیں اور ہر ایک صفت ہماری بشریت سے ایک امر مانگتی ہے اور وہ چار صفات یہ ہیں۔ ربوبیت۔ رحمانیت۔ رحیمیت۔ مالکیت یوم الدّین۔ (1) ربوبیت اپنے فیضان کے لئے عدم محض یا مشابہ بالعدم کو چاہتی ہے اور تمام انواع مخلوق کی جاندار ہوں یا غیر جاندار اسی سے پیرایہء وجود پہنتے ہیں۔ (2) رحمانیت اپنے فیضان کے لئے صرف عدم کو چاہتی ہے۔ یعنی اُس عدمِ محض کو جس کے وقت میں وجود کا کوئی اثر اور ظہور نہ ہو اور صرف جانداروں سے تعلق رکھتی ہے اور چیزوں سے نہیں۔ (3) رحیمیت اپنے فیضان کے لئے موجود ذوالعقل کے منہ سے نیستی اور عدم کا اقرار چاہتی ہے اور صرف نوع انسان سے تعلق رکھتی ہے۔ (4) مالکیت یوم الدّین اپنے فیضان کےلئے فقیرانہ تضّرع اور الحاح کو چاہتی ہے اور صرف اُن انسانوں سے تعلق رکھتی ہے جوگداؤں کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرتے ہیں اور فیض پانے کے لئے دامنِ افلاس پھیلاتے ہیں اور سچ مچ اپنے تئیں تہی دست پاکر خدا تعالیٰ کی مالکیت پر ایمان لاتے ہیں۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چاروں صفتیں لف و نشر مرتب کے طور پر سورہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں اور کیونکہ صحیفہء ِ فطرت پر نظرڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ اسی ترتیب سے جو سورہ فاتحہ میں ہے یہ چاروں صفات خدا کی فعلی کتاب قانونِ قدرت میں پائی جاتی ہیں۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14صفحہ242 تا 244)

جیسا کہ مضمون کی ابتداء میں سورہ اعراف کی آیت کی تفسیر فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں تخلیق کے حوالے سے خدا تعالیٰ کی دو تجلیات کا ذکر ہوا ہے اس بارے میں جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ نبوت کے ذریعے روحانیت کے نظام کو دنیا میں عدم سے وجود میں لانا محض ربوبیت اور رحمانیت کی صفت کے تحت ہے اس لئے اس مرحلے پر رحیمیت، مالکیت یوم الدین کا ظہور نہیں ہوتا۔ اس لئے اس مرحلے پر خداتعالیٰ کی استوائے عرش والی تجلی کا ظہور نہیں ہوتا۔ جبکہ جب ایک نبی اپنی بعثت کے بعد ایک روحانی نظام دنیا میں قائم کردیتا ہے تو اس مرحلے پر خدا تعالیٰ کی دیگر صفات یعنی رحیمیت اور مالکیت یوم الدین کا ظہور بھی ہوجاتا ہے۔ گویا استوائے عرش کو جن چار صفات کا اظہار چاہئے وہ ظہور تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ اور خدا کا عرش ایک نئے نظام کی صورت قائم ہوجاتا ہے۔ اور اب ان چاروں صفات کا اظہار ہونا شروع ہوجاتا ہے جو عرش کے استواء کےلئے ضروری ہیں۔

کیا خلیفہ کا تقرر انسانوں کے ذریعے نہیں ہونا چاہیے؟

اب یہاں ایک اور نکتہ غور کرنے کے لائق ہے کہ جب خدا نے دنیا میں عدم سے ایک روحانی وجود نبی کی صورت میں نازل کردیا تو اسکا حقیقی مقصد اور علت غائی کیا ہے؟ نبی کی بعثت کا مقصد خدا تعالیٰ کے نہاں در نہاں وجود کو دنیا کو دکھانا اور روحانیت کا قیام یعنی انسانوں کا ان کے خدا سے حقیقی تعلق قائم کرنا ہے۔ یعنی ایک انسان کو نفس امارہ کی گہرائی سے اٹھا کر نفس مطمئنہ کی معراج پر لے جانا۔ گویا خدا اس مومن کے ہاتھ ہوجائے، اسکے پیر ہوجائے، اسکی آنکھ ہوجائے اور اسکے کان ہوجائے۔ ایک زمینی انسان الہٰی رنگ پکڑ لے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ لوہا جب آگ میں پڑتا ہے تو آگ کا رنگ اختیار کرلیتا ہے۔ اس میں وہ سبھی خاصیتیں پیدا ہوجاتی ہیں جو آگ اپنے اندر رکھتی ہے۔ لیکن نہیں کہہ سکتے کہ وہ اب لوہا نہیں رہا آگ بن گیا ہے۔ گویا ایک انسان جب مذہب کی پیروی کرکے خدا سے تعلق قائم کرلے اور الہٰی رنگ پکڑ لے تو گویا مذہب کا مدعا پورا ہوگیا۔ اور اگر نبی اپنی زندگی میں ایسی جماعت ہی پیدا نہ کرسکے جو الٰہی رنگ پکڑ کر خدا سے جڑسکے۔ جو خدا کی رضا کو جان کر نبی کے جانشین کو بھی پہچان نہ پائے۔ تو ظاہر ہے کہ نبی کے قیام کا مقصد نعوذ باللہ پورا ہی نہ ہوا۔ گوکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے لوہے اور آگ کا یہ لطیف استعارہ کئی جگہ بیان فرمایا ہے مگر یہاں اس ضمن میں ایک دلچسپ روایت پیش خدمت ہے۔

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب روایت کرتے ہیں کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کی وفات کے متعلق الہامات ہو رہے تھے اُنہی دنوں کا واقعہ ہے کہ جلسہ سالانہ مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوا۔ حضور نے اس جلسہ میں نماز کے بعد متعلق تقریر فرماتے ہوئے سورۃ فاتحہ کی تشریح فرمائی اور عبودیت کے معنی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ عبد جب صحیح طور پر عبودیت کے رنگ سے رنگین ہوتا ہے تو اُس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں پڑ کر آگ کا انگارہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح صفاتِ الٰہیہ سے عبد متصف ہو جاتا ہے جس طرح کہ وہ لوہا کا ٹکڑا آگ نہیں ہوتا بلکہ اپنی ماہیت میں لوہا ہوتا ہے اور عارضی طور پر آگ کی کیفیت اُس میں سرایت کرتی ہے۔ اسی طرح عبد اپنی حقیقت میں انسان ہوتا ہے لیکن اس میں صفاتِ الٰہیہ کام کر رہی ہوتی ہیں ایسے عبد کا ارادہ اپنا نہیں ہوتا بلکہ الٰہی ارادے کے ساتھ اُس کی تمام حرکات و سکنات وابستہ ہوتی ہیں۔

(روایات حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد14 صفحہ50)

اب اگر خدا تعالیٰ کو نبی کی وفات کے بعد ایک بار پھر عدم سے نبی کی طرز پر ہی ایک نیا خلیفہ قائم کرنا پڑے تو یہ دراصل خدا کی قدرتِ اولیٰ یعنی نبوت کے قیام پر ایک حملہ تصور ہوگا۔ خدا تعالیٰ کی قدرت اولیٰ اور تجلی الامر پر حملہ ہوگا۔ گویا خدا نے نبی کے ذریعے ایک پودا تو لگا دیا مگر وہ زمین سے باہر نکل کر زندہ نہ رہ سکا اور مرجھا گیا۔ اور یوں کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ والا قانون بھی سوالیہ نشان بن کر سامنے آجاتا ہے۔ کیونکہ رسولوں کو غلبہ تو عموماً انکی زندگی کے بعد نصیب ہوا کرتاہے۔ اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں اس طرح بیان فرمایا ہے:
’’یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اُس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اِس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اِسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اُس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں اُن کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔ دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے۔‘‘

پھر فرماتے ہیں:
’’سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دوقدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دوجھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے۔ بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اُس نے وعدہ فرمایا اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔‘‘

لہٰذا اس ساری بحث سے یہ واضح ہے کہ اس امر کے ماننے کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے کہ خلافت کا انتخاب بہر حال وہی پاک جماعت کرے گی جسے نبی نے اپنی بعثت کے نتیجے میں تیار کیا۔ اور وہ ایسی جماعت تیار ہوگئی جو خدا سے تعلق پکڑ کر اسکا رنگ اختیار کرگئی ہے۔ اور جس نے تقویٰ کا وہ مقام حاصل کرلیا ہے کہ خدا کی رضا اب خدا کی اس جماعت کے ذریعے خدا کی ایک دوسری تجلی کے ظہور کی صورت میں ظاہر ہورہی ہے۔ نبوت کے بعد روحانی طور پر ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان پیدا ہوگئے ہیں۔ اور اس پیدائش کے بعد اب خدا تعالیٰ کی دوسری تجلی استوائے عرش کو چاہتی ہے جو اس نظام کی بقا کا باعث ہو۔ بالکل ایسے ہی جیسے خدا تعالیٰ نے ابتدا میں ایک لمبے ارتقا کے نتیجے میں نیستی سے زندگی کو پیدا کیا مگر اب وہ زندگی خدا کی ہی دوسری تجلی کے تحت ایک نظام حیات کے ذریعے آگے سے آگے زندگی کو چلانے کا سبب بن رہی ہے۔ اور نادان نہیں سمجھ سکتا کہ اس زندگی کے پیدا کرنے میں بھی خدا تعالیٰ کی ہی قدرت کارفرما ہے اور ایک غیر مومن اپنی محدود نظر سے یہی سمجھتا ہے کہ دنیاوی رعایت اسباب اور قوانین قدرت کے تحت ہی سب چل رہاہے۔ لیکن خدا کی جماعت جانتی ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ اپنے خلیفہ کو نہ صرف اس جماعت کے ذریعے منتخب کرواتا ہے بلکہ اسکی مسلسل تائید و نصرت کرکے اس انتخاب کو اپنا انتخاب ثابت بھی کرتا ہے۔

(ابن الواحد)

پچھلا پڑھیں

اطاعت خلافت کی برکات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2022