اعلیٰ اخلاق و عادات کے ذریعے
مادی و روحانی نسلوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہمارا فرض ہے
ہم نے بار ہا مشاہدہ کیا ہے کہ مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے جب کبھی اپنی بیوقوفی اور متکبرانہ سوچ کی وجہ سے خدائے عزّ و جل کے نظام میں دخل اندازی کر نے کی ناکام کوشش کی تو ان کو تباہی و بربادی اور نقصان ہی دیکھنے کو ملا۔ جیسے کچھ عرصہ قبل ایک ملک نے اپنے ہاں چڑیوں کی نسل کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو اگلے کئی برسوں تک فصلیں، باغات اور پھول پھل وغیرہ توقع سے بہت کم ہوئے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق پرندے اپنے دیگر متعدد فوائد کے علاوہ انسانوں کی زندگی کے لئے بھی کئی اعتبار سے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔
ان کا ایک فائدہ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ پرندے اپنی چونچ اور پنجوں کے ذریعہ Polarization کرتے ہیں یعنی نر پودوں کے پھول کے بور کو مادہ پودوں پر لے کر جاتے ہیں اور فصل (Crop) کے بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں۔ نیز مختلف پھولوں اور پھلوں کے بیج ان پرندوں کی خوراک ہوتے ہیں جن کو یہ بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور اپنا پیٹ بھرتے ہیں، اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ پرندے ہی ایک جگہ کے بیج اپنی بیٹ (droppings) کے ذریعہ دوسری جگہ لے جاتے ہیں اور یوں پھلوں، پھولوں اور فصلوں کی بڑھوتری کا موجب ہوتے ہیں۔ اگر ان پرند وں کی نسل کوہم ختم کرنے کا موجب بنیں گے تو اشرف المخلوقات یعنی انسانوں کی غذا میں کمی واقع ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھَذَا بَا طِلاً (آل عمران: 192) کہ اے ہمارے رب! تو نے اس دنیا میں کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی۔
حتٰی کہ مالٹے اور کینو کے چھلکے اور جوس کی پھانکوں سے ملی سفیدی مائل تہہ جس کو ہم عموماً خصوصی طور پر کوشش کر کے اتار پھینکتے ہیں وہ بھی بے مقصد نہیں۔ آج کل ڈاکٹرز اسے بھی فائبر (fiber) ہونے کی وجہ سے جسم کی آنتوں (intestines) اور میدہ (stomach) کے لئے مفید جانتے ہیں۔ اس مضمون پر اللہ کی دی ہوئی توفیق سے الگ سے آرٹیکل لکھنے کی کوشش کروں گا۔ ان شاءاللہ
اپنے اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے جانوروں، چرند پرند اور کیڑے مکوڑوں کی نسلوں کی طرف آتا ہوں کہ ان کو پڑھنے والوں اور ان پر تحقیق کرنے والوں نے ان کی موجودگی کو انسانی بقا کے لئے لازمی قرار دیا ہے۔ اس لئے جن جانوروں، چرند پرند یا کیڑے مکوڑوں کی نسل کے خاتمے کا خدشہ پیدا ہونے لگتا ہے تو وہ خطرناک حد تک کم ہونے والی نسل کو بچانے کی اسکیمیں بنانا شروع کر دیتے ہیں اور مختلف جتن کئے جاتے ہیں اور تجربات آزمائے جاتے ہیں تا ڈائنو سار کی طرح کسی اور جانور کی نسل دنیا سے ناپید اور ختم ہی نہ ہو جائے۔ جیسے آج کل دنیا بھر کےکئی حصوں میں مختلف قسم کے جانور، چرند پرند کی بقا کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ جن میں تتلیوں، شہد کی مکھیوں، پانڈا، مارخور، ہرن، تلور، بعض جگہوں پر ہاتھی، مور، چیتے اور سانپوں کی نسلیں خطرناک حد تک کم ہو رہی ہیں۔ جن کی باقی ماندہ نسل کو بچانے کے لئے ماحولیات و دیگر مختلف ایجنسیز سرگرم عمل نظر آتی ہیں اورجانوروں کی ان نسلوں کو بچانے کے لئے سر توڑ کوشش کرتی رہتی ہیں۔
اسلام نے تو جانوروں کی افزائش کے لئے کچھ اصول وضع کر دیے ہیں۔ جیسے حاملہ اور Breeding کرنے والے جانوروں کو ذبح کرنے کی ممانعت کی ہے، اور ان کے انڈے دینے کے موسم میں شکار کو بھی روکا گیا ہے۔ جبکہ حیوانات و نباتات اور ماحولیات والے مل جل کر کچھ ایسے فیچرز متعارف کرواتے ہیں جن سے نسلیں بچائی جا سکیں۔ ان جانوروں اور چرند پرند کی بقا کے لئے ساز گار ماحول، آب و ہوا اور خوراک مہیا کرتے ہیں۔ کیڑے مار ادویات (Pesticide) کے استعمال کی حوصلہ شکنی اور Organic طریقوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ کیڑے مار ادویات سے شہد کی مکھیاں اور تتلیاں وغیرہ ہلاک نہ ہو جائیں۔ اول تو ایسی نسل کے شکار پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ مقامی لوگوں کو ان کے تحفظ کے اختیار کرنے کا کہا جاتا ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ (Trophy Hunting) کا طریق متعارف کروایا جاتا ہے۔ مچھلی کے شکار کو ہی دیکھیں جب وہ Breed کر رہی ہوں، انڈے دے رہی ہوں تو ان کے شکار پر پابندی لگ جاتی ہے۔ پاکستان میں مشہور ہے کہ جن مہینوں کے ناموں میں حروف تہجی کا حرف ’’ر‘‘ آئے ان مہینوں میں مچھلی نہ کھائی جائے جیسے جنوری، فروری، مارچ، اپریل، ستمبر، اکتوبر، نومبر، دسمبر۔ یہ وہ مہینے ہیں جب مچھلی اپنی نسل کی افزائش کے لئے انڈے دے رہی ہوتی ہے۔ الغرض ختم ہوتے ہوئے جانوروں ادر چرند پرند کی کم ہوتی نسل کی بقا اور ان کے تحفظ کے لئے حکومتیں، یواین او کے تحت ماحولیات کی ایجنسیاں بھر پور کام کرتی ہیں۔
اگر اسی نظام کو روحانی دنیا میں دیکھیں تو انسانوں کی نسل روحانی اور اخلاقی لحاظ سے تباہی کے دھانے پر آکھڑی ہوئی ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ موتا موتی جاری ہے۔ قومیں بحیثیت قوم ایک دوسرے کو بلا جواز ختم کرنے اور نیچا دکھانے کی مہم میں جُتی ہوئی ہیں۔ انفرادی طور پر دنیا بھر کا جائزہ لیا جائے تو دنیا بھر کے ہر خطہ میں آپا دھاپی کا ماحول ہے۔ بالخصوص ایسے علاقے اور ملکوں میں جن کے رہنے والے حضرت محمد ؐ کے نام لیوا ہیں انسانیت کو پامال کرتے ہوئے اخلاقیات کی اتھا گہرائیوں میں جا چکے ہیں۔ وہ اسلام جو جانوروں جیسے اخلاق و عادات رکھنے والی وحشی قوم کو انسان کیا خدا نما اور باخدا انسان بنانے آیا تھا، آج وہ جانوروں کی عادات رکھنے والے وحشیوں سے بھی بد تر بلکہ بد ترین ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ آج جانوروں کے مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر مختلف جانوروں کی آپس میں کھیلتے ہوئے کی ویڈیوز اور فوٹو ز دکھلاتے ہیں۔ ابھی چند دن قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ ایک بلی چھپتی چھپاتی اپنے خاص انداز میں کبوتر کے شکار کو نکلی مگر کبوتر کے پاس جا کر اس کے چہرے کو چوم لیا۔ اسی طرح ایک شیر نے پانی میں ڈوبتے ہوئے ایک چوہے کو بچا کر خشکی پر چھوڑ دیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ جانوروں کی اچھی اور محبت کرنے کی عادات و اطوار کو اپنا معاشرہ پرامن بنانے کے لیے ہم انسانوں کو بھی تو اپنانے کی ضرورت ہے۔
مگر دیگر افراد کی طرح ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی جان کا ویری (مخالف) بنا بیٹھا ہے۔ جب ظلم کے واقعات پر نظر دوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کی حِس نام تک کو باقی نہیں رہی۔ ابھی چند دن پہلے کی بات ہے پاکستان کے ایک شہر میں شادی ہال کے باہر باراتیوں نے معمولی جھگڑے پر پاپڑ بیچنے والے کو قتل کر دیا۔ اُدھر کھانا کھل گیا۔ اس کی نعش کے سرہانے اس کی موجودگی میں تمام باراتیوں نے کھانا کھایا اور کسی کو شرم تک نہ آئی کہ اس کو کسی چادر سے ہی ڈھانپ دیں۔ گندگی کے ڈھیروں پر بچوں سے غلط کاری کے بعد نعشیں پڑی ہونا تو روز کا معمول بن گیا ہے۔ ایسے انسانیت سوز واقعات آئے روز سننے کو ملتے ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بعض کو بیان کرنے سے زبان اور قلم قاصر ہیں۔
تحفظ ختم نبوت کا نعرہ بلند کرنے والی قوم معصوموں کو توہین رسالت کے نام پر سڑکوں پر گھسیٹ لاتی ہے۔ ان کی بے حرمتی کرتی ہے جیسے ایک سری لنکن کے ساتھ نبی پاک ؐ کے نام پر لوگوں نے کیا۔ وہ رسول ؐ جو ایک یہودی کے جنازہ پر یہ کہتے ہوئے تعظیماً کھڑے ہو گئے تھے کہ آخریہ بھی تو انسان تھا۔ آج اس عظیم نجات دہندہ نبیؐ کے نام لیوا اپنے مخالفین کی قبروں کو اکھیڑ کر مردوں کو باہر لاکر رکھنے میں اپنی تسکین پاتے ہیں۔ ایک بھائی دوسرے بھائی کے خون کا پیاسا نظر آتا ہے۔ الغرض اس بے حس قوم کی وجہ سے اخلاقیات پرموت طاری ہے اور بعض مقامات پر اس کا جنازہ بھی نکل چکا ہے۔
ان حالات میں جب اعلیٰ اخلاق اور نیکیاں نا پید ہو رہی ہیں تو کیا ان اعلیٰ اخلاق کو بچانے کے لئے دنیا کی کوئی مذہبی و فلاحی تنظیمیں اپنا اپنا رول ادا کرتی دکھلائی دیتی ہیں؟ ہر گز نہیں۔ ان روحانی، اخلاقی قدروں کو بچانے کے لئے وہ نام نہاد تنظیمیں کسی مہم کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں بلکہ اپنی مرضی کے مقاصد کو پورا کرنے کی فکر میں ہیں۔ جبکہ ان اخلاقیات کو اعلیٰ و ارفع بنیادوں پر محفوظ کرنے کی اشد ترین ضرورت ہے۔ اسی لئےاسلام کے اس آخری دَور میں ان مردہ جسموں میں زندگی کی روح پھونکنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جن کے متعلق یہ پیشگوئی تھی کہ موعود مسیح ثریا سے گمشدہ ایمان کو دوبارہ مومنوں کے دلوں میں قائم کرے گا۔ جس کے متعلق کہا گیا کہ وہ نیا آسمان اور نئی زمین بنانے کے لئے آیا ہے۔ جس نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور دعاؤں کے ساتھ اس اہم کام کا آغاز کیا اور سوا سو سال میں وہ ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دے گیا کہ اس کے ماننے والوں نے حدیثوں کی پیشگوئیوں کے مطابق صحابہ ٔ رسولؐ سے مماثلت اختیار کی۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں، حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار و محبت میں، اللہ کی کتاب قرآن کریم سے عشق میں، انسانیت کے ساتھ انس رکھنے والی محبت میں۔ الغرض ہر میدان میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ جیسے ہو گئے۔ انہی فدائیوں کی قربانیوں کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:
؎ مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے ان کو ساقی نے پلادی
فسبحان الذی اخزی الاعادی
آج اس جماعت کی باگ ڈور، سالار احمدیت حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اولوالعزم اور بابرکت ہاتھوں میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے کمال حسن انتظام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اس پیاری جماعت کو لے کر بڑی تیزی اور سبک خرامی سے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بارش کی طرح برستا دیکھ کر اور جماعت احمدیہ کی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقیات دیکھ کر دشمن و مخالفین انگلیاں اپنے دانتوں میں دبا کر دنگ ہیں اور اپنی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مادی لحاظ سے دنیا کی تمام کثافتوں اور روحانی لحاظ سے تمام بیماریوں، کمزوریوں سے مبرا ہو کر تمام جماعت کو آگے سے آگے لے جا رہے ہیں کہ غیر بھی احمدی کے متعلق علی الاعلان یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ’’ہے قادیانی مگر ہم سے بہتر ہے۔‘‘ یا سننے کو ملتا ہے کہ ’’اگر قادیانی نہ ہوتا تو بندہ بہت کام کا تھا۔‘‘ میں بار ہا ایک واقعہ اپنے کالمز میں لکھتا آیا ہوں کہ لاہور میں ایک معروف مذہبی جماعت کے سیکرٹری جنرل اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مجھے ملنے دارالذکر آئے اور گفتگو کے دوران یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سرکاری دفاتر میں رشوت نہ لینے والا احمدی، جھوٹ نہ بولنے والا احمدی اور نمازوں کو وقت پر ادا کرنے والااحمدی ہی ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’میں نامرادی کے ساتھ ہر گز قبر میں نہیں اتروں گا کیونکہ خدا میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے۔‘‘
پس جس طرح دنیوی طور پر نسلوں کو Preserve کرنے کے لئے انتظامات کئے جاتے ہیں اسی طرح روحانی ماحول میں اخلاقیات کو مزید چمک دار کر کے انسانوں میں راسخ کرنے کے لئے جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس روحانی نظام کو جماعت میں قائم و دائم رکھے اور ہم سب کو اس عظیم منصب کی اپنی نمازوں اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ حفاظت کرنے اور ان کے احکامات، تحریکات اور ارشادات پرعمل کرنے کی توفیق سے نوازتا رہے۔ آمین
(ابو سعید)