• 5 مئی, 2024

حضرت عائشہ صدیقہؓ

حدیقة النساء

حضرت عائشہ صدیقہؓ

مذہب اسلام میں رب العالمین تک پہنچنے کا سب سے موٴثر ذریعہ یہ ہے کہ رحمة للعالمین کی کامل اطاعت اور اُن سے حقیقی محبت کی جائے۔ ان لوگوں سے زیادہ خوش نصیب بھلا کون ہو گا جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا آپؐ کو قریب سے دیکھا آپؐ سے حقیقی محبت کی اور اپنے آپ کو آپ پر فدا کر دیا۔

اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے

رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ

(توبہ: 100)

ترجمہ: اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے۔

اس آیت کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں ’’اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ذکر ہے جو سبقت لے جانے والے ہیں جو روحانی مرتبہ میں سب کے اوپر ہیں اور اپنے ایمان کے معیاروں اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق اعمال بجا لانے والے ہیں باقی سب کو پیچھے چھوڑنے والے ہیں یہی لوگ ہیں جو سب سے پہلے ایمان لائے اور دوسروں کے لیے اپنے بعد آنے والوں کے لیے اپنی مثالیں بطور نمونہ چھوڑ گئے تاکہ دوسرے ان کی تقلید کریں۔

(خطبہ جمعہ 15 دسمبر 2017ء)

ایک ایسی ہی بابرکت ہستی جنہوں نے نہ صرف ان کا زمانہ پایا بلکہ آپؐ کی شریک حیات بن کر اس مطہر وجود کو نہایت قریب سے دیکھا ان کی سیرت کا بغور مشاہدہ کیا بلکہ اس بابرکت وجود سے جو علم سیکھا جو تربیت حاصل کی اسے قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے محفوظ کروا دیا۔ہم بات کر رہے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی زوجہ محترمہ تھیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لخت جگر تھیں۔ آپ کی والدہ کا نام زینب کنیت ام رومان تھی۔ آپ کو حمیرا کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو بنت صدیق بھی کہا کرتے تھے۔ آپؓ کی کیونکہ کوئی اولاد نہ تھی تو اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بھانجے کے نام پر آپؓ کی کنیت ام عبداللہ رکھی تھی۔ جو آپؓ کی بہن اسماء بنت ابی بکرؓاور زبیر بن عوامؓ کے بیٹے تھے۔

(مسند احمد، امام احمد بن حنبل جلد9)

حضرت صدیقہ کا نبی کریم ؐسے نکاح

حضرت عائشہؓ کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے فوراً بعد ہوا، نبی کریم ﷺ نے حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ سے بیک وقت نکاح فرمایا۔ لیکن حضرت عائشہؓ کا رخصتانہ تین سال بعد ہوا۔

آپؓ فرماتی ہیں کہ:
جبرئیل امین علیہ السلام ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی) اُن کی تصویر لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ دنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ: میں نے خواب میں تمہیں دو بار دیکھا، آپؐ نے فرمایا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے، جب میں نے دیکھا تو تم ہی تھی۔ تو میں نے کہا:اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ ایسا کرکے ہی رہے گا۔

(امام بخاری:صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب21:الرقم الحدیث 7012)

نبی کریم ؐ کی سب سے زیادہ چہیتی

نبی کریم ﷺ حضرت عائشہؓ سے بہت محبت فرماتے، حضرت عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بار نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ تو فرمایا عائشہؓ۔ پھر پوچھا گیا اور لوگوں میں تو فرمایا ان کے والد محترم۔

(بخاری: حدیث 23588)

آنحضرت ﷺ حضرت عائشہؓ کے بہت ناز اٹھاتے تھے۔ ایک دفعہ ان سے فرمانے لگے کہ عائشہؓ میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں رب محمدؐ کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو رب ابراہیم ؑ کہہ کر بات کرتی ہو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہاں یا رسول اللہ یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپؐ کا نام چھوڑتی ہوں (دل سے تو آپؐ کی محبت نہیں جاسکتی)۔

(ازواج مطہرات و صحابیات: 126)

دوسری خواتین پر سبقت

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مردوں میں سے کامل افراد تو بہت گذرے ہیں لیکن عورتوں میں کامل عورتیں صرف حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا جو فرعون کی بیوی تھیں اور حضرت مریم علیہا السلام گذری ہیں اور تمام عورتوں پر عائشہؓ کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔

(صحیح بخاری 3411)

علم و ذہانت

حضرت عائشہؓ کو اللہ تعالیٰ نے کمال کی ذہانت عطا فرمائی تھی، آپؓ جو بات بھی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتیں اسے اپنے دماغ میں بٹھا لیا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ سے 2110 احادیث مروی ہیں۔

ان کے پاس شریعت کا اتنا علم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔ ’’خُذُوْا نِصْفِ دِیْنُکُمْ مِنْ ھٰذِہِ الْحُمَیْرٓاء‘‘، یعنی شریعت کا آدھا علم سرخ رنگ والی عورت یعنی حضرت عائشہؓ سے حاصل کرو۔

اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہی کیا کرتے تھے کہ جب کسی مسئلے میں ان کو کچھ شک ہوا کرتا تھا تو وہ فوراً حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے یہاں تک کہ بڑے بڑے عالم صحابہ کرام بھی حضرت عائشہؓ کے پاس استفادہ کے لیے آیا کرتے تھے۔

عبادات الٰہی

آپ کے دل میں ہمیشہ خدا تعالیٰ کی محبت جاگزین رہی۔ بے حد عبادت گزار تھیں۔ فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کا بھی خاص التزام کرتیں۔ چاشت کی نماز کی اتنی پابند تھیں کہ کہا کرتیں تھیں کہ میرا باپ بھی قبر سے اٹھ کر آئے اور مجھے منع کرے تو میں باز نہ آؤں۔

(مسند احمد جلد2 صفحہ138)

باقاعدہ تہجد پڑھتیں۔ روزے رکھتیں اعتکاف کیا کرتیں۔ تلاوت قرآن کریم اور قرآنی آیات پر غور و فکر کرتیں۔ ہر سال حج کی ادائیگی کرتیں۔ غرض ہر وہ کام کرتیں جس سے خدا تعالیٰ راضی ہوتا ہو۔

قرآنی آیات کا نزول

غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر آپؓ پر جو تہمت لگی وہ واقعہ تاریخ اسلام میں واقعہ افک کے نام سے مشہور ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بریت ظاہر کرنے کے لیے سورہ النور میں سترہ قرآنی آیات نازل کیں یہ آپؓ کے لیے ایک ایسا اعزاز ہے جس کی مثال ملنی مشکل ہے اسی طرح غزوہ ذات الرقیع کے موقع پر بھی حضرت عائشہ صدیقہؓ کی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا۔ تیمم کے حکم کا نازل ہونا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے اس امت پر کی جانے والی اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور احسانات میں سے ایک برکت اوراحسان ہے۔اس واقعہ کو خود انھوں نے بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت امام بخاری ؒ نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک سفر کے موقع پر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھی۔ اس سفر میں بہت سارے مسلمان بھی ہمارے ہمراہ تھے۔ میں نے ایک ہار پہن رکھا تھا۔ جب ہمارا قافلہ ذات الجیش کے مقام پر پہنچا تو وہاں یہ ہار ٹوٹ کر گم ہوگیا۔ لہٰذا اس ہار کو ڈھونڈنے کے لیے نبی کریمﷺ نے وہاں مزید قیام فرمایا، اور آپ کے ساتھ آپ کے ہمراہی بھی وہیں ٹھہرے رہے۔ اتفاق سے قافلے نے جہاں پڑاؤ ڈالا تھا، وہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہ تھا، صبح قریب تھی، اور لوگوں کو فجر کی نماز پڑھنے کی فکر تھی۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ گھبرائے ہوئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے اور انھیں اپنی صورت حال بتائی (کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے، اور وضو کے لیے دور دور تک پانی نہیں ہے، اب کیا کیا جائے؟ عائشہؓ نے کیا کردیا) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:لوگوں کی یہ باتیں سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ میرے پاس آئے اور (والد ہونے کی حیثیت سے) مجھے سرزنش کرنا شروع کردی۔ اس وقت کریمﷺ میرے زانو پر اپنا سرِ مبارک رکھے ہوئے آرام فرما تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے میرے پہلو میں کچوکے لگائے۔ لیکن میں نے نبی کریمﷺ کے آرام میں خلل نہ آئے، اس خیال سے ذرا بھی حرکت نہ کی۔ یہاں تک کہ صبح کے وقت جب نبی کریم ﷺبیدار ہوئے تو دیکھا پانی موجود نہیں ہے۔ اسی دوران وحی کے آثار نمایاں ہوئے اور حکم نازل ہوا۔

وَاِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَاَیۡدِیۡکُمۡ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوۡرًا

(النساء: 44)

ترجمہ:اور اگر تم بیمار ہو یا مسافر ہو یا تم میں سے کوئی طبعی حوائج سے فارغ ہوا ہو یا تم نے عورتوں سے تعلق قائم کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو خشک پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ سو تم اپنے چہروں پر اور ہاتھوں پر مسح کرو۔ یقیناً اللہ بہت درگزر کرنے والا (اور) بہت بخشنے والا ہے۔

اسی طرح سورہ مائدہ آیت نمبر 7 میں بھی تمیم کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔

ازواجِ مُطہّرات پر فوقیت

اپنے علم، فہم و فراست، زہد وتقویٰ اور تبلیغ دین کی وجہ سے آپؓکو باقی تمام ازواج رسول اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر فوقیت حاصل تھی.

آپؓ خود فرماتی ہیں
کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نو باتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔

(1) خواب میں حضور کے سامنے فرشتے نے میری تصویر پیش کی۔
(2) جب میں سات برس کی تھی تو آپنے مجھ سے نکاح کیا،
(3) نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔
(4) میرے سوا آپ کی خدمت میں کوئی اور کنواری بیوی نہ تھی،
(5) حضور جب میرے پاس ہوتے تب بھی وحی آتی تھی،
(6) میں آپ کی محبوب ترین بیوی تھی،
(7) میری شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں،
(8) میں نے حضرت جبرائیل ؑ کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے،
(9) آپ نے میری ہی گود میں سر مبارک رکھے ہوئے وفات پائی

(مستدرک حاکم)

پردے کا التزام

حضرت عائشہؓ کی صفات میں ایک اہم صفت یہ بھی تھی کہ آپؓ پردے کا سخت التزام کرتی تھیں۔

چنانچہ وہ خود بیان کرتی ہیں کہ ’’ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں میں نے اپنے رضاعی چچا کو اپنے گھر میں نہیں آنے دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس بارے میں نبی کریم ﷺ سے استفسار نہ کرلیا پھر بھی میں نے قطعاً انہیں اجازت نہ دی جب تک کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے یہ نہ فرمایا کہ تمہارے چچا کے تمہارے گھر میں آنے میں کوئی حرج نہیں’’ اس کے باوجود میں نے اپنے دل کے مزید اطمینان کے لیے عرض کیا: ’’مجھے عورت نے دودھ پلایا تھا مرد نے تو نہیں‘‘ حضور ﷺ نے اپنی بات کی تاکید کے لیے دوبارہ وہی فرمایا: ’’بے شک وہ تمہارے چچا ہیں اور تمہارے پاس آسکتے ہیں۔

(صحیح البخاری: 909)

ایک دفعہ حج کے موقع پر چند عورتوں نے عرض کی کہ اے ام المؤمنین! چلیے حجر اسود کو بوسہ دے آئیں فرمایا،تم جا سکتی ہو میں مردوں کے ہجوم میں نہیں جا سکتی۔

(صحیح بخاری کتاب الحج باب طواف النساءمع الرجال: 1618)

مدح سرائی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا

حضرت عائشہؓ اپنی مدح و ثنا کو سخت ناپسند کرتی تھیں اور کسی کو اپنی تعریف نہیں کرنے دیتی تھیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہؓ کے مرض الموت میں تیمار داری کی اجازت طلب کی تو حضرت عائشہؓ نے فوراً بھانپ لیا کہ وہ آئیں گے اور میری تعریف کریں گے اس لیے اجازت نہیں دی۔ پھر جب کسی نے ان کی سفارش کی تو انہیں اجازت دے دی، ابن عباس رضی اللہ عنہ جب اندر آئے تو ام المؤمنینؓ کی مدح سرائی بیان کرنے لگے تو حضرت عائشہؓ نے اپنے کرب کا اظہار ان الفاظ میں کیا ’’میرا دل چاہتا ہے کہ میں لوگوں کی یادوں سے محو ہوجاؤں‘‘

(صحیح البخاری رقم الحدیث 4753)

زُہد و قناعت

’’ایک مسکین نے ان سے کچھ مانگا اس وقت وہ روزہ دار تھیں۔ان کے حجرہ مقدس میں صرف ایک روٹی تھی انہوں نے اپنی لونڈی سے فرمایا: ’’یہ روٹی اس مسکین کو دے دو‘‘۔ اس لونڈی نے عرض کی: ’’ام المومنینؓ آپ روزہ کس سے افطار کریں گی؟‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’یہ روٹی اس مسکین کو دے دو‘‘۔ لونڈی نے کہا: وہ روٹی میں نے مسکین کو دے دی جب شام ہوئی تو ہمیں کسی گھر والوں یا کسی نے ہدیہ بھیجا جو ہمیں بکری یا روٹی بھیجا کرتا تھا۔ ام المومنینؓ نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’اس میں سے کھاؤ، یہ تمہاری روٹی (ٹکیہ) سے بہتر ہے۔‘‘

(مؤطا امام مالک، کتاب الصدقۃ الحدیث:1969)

جود و سخا

ایک دن حضرت عائشہؓ کی خدمت میں ان کے بھانجے عبداللہ بن زبیر نے ایک لاکھ اسی ہزار درہم بطورِ ہدیہ بھیجے، وہ اس دن روزے سے تھیں، چنانچہ انہوں نے اسے لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا، شام ہونے تک ایک درہم بھی باقی نہیں رہ گیا تھا، افطار کے وقت باندی سے فرمایا: میرے افطار کا انتظام کرو، چنانچہ ایک روٹی اور تھوڑا تیل لے کر حاضر ہوئی، اور کہنے لگی آپؓ نے آج جو کچھ تقسیم کیا ہے، اس میں سے ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں تو اس سے افطار کر لیتیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ناراض نہ ہو، اگر تو مجھے یاد دلاتی تو شاید میں ایسا کر لیتی۔

(ابن سعد جزء نساء: 46)

وصال

اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو باکمال زندگی عطا کی جس کے ہر لمحہ لمحہ کو آپؓ نے اس کی رضا میں گزارا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی اسلام کے مشن میں معاون و مددگار رہیں اور آپؐ کی وفات کے بعد بھی ایک لمبا عرصہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت میں مشغول رہیں۔ آخر کار ایک باعمل زندگی گزار کر سترہ رمضان کو 66 سال کی عمر میں آپؓ کا وصال مدینہ منوّرہ میں ہوا- اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

(طبقات ابن سعد جلد8)

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپؓ کی وصیّت کے مطابق رات کو جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی قبروں کے پہلو میں آپؓ کی تدفین ہوئی۔

بلاشبہ حضرت عائشہؓ کی ذات میں ہر مسلمان عورت کے لیے مثال ہے۔ جنہوں نے اُس دور میں اپنے علم و عمل سے رہتی دنیا تک کی خواتین کے لیے اپنا نمونہ چھوڑا ہے۔ تو آج اس جدید دور میں جب عورت پہلے کی نسبت بہت آزاد ہے تعلیمی ذرائع بھی بے شمار ہیں وسائل کی بھی کہیں کمی نہیں۔ ہمارے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی مثالیں بھی موجود ہیں اور پھر ان کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازسر نو ان سب تعلیمات کو زندہ کیا اور پھر آپ کے زمانے کی خواتین مبارکہ کی مثالیں بھی موجود ہیں تو ہمارے پاس اب کیا عذر بچتا ہے کہ ہم ان حسین تعلیمات پر عمل نہ کریں اپنے دینی علم میں اضافہ نہ کریں۔ خدا کرے کہ ہم احمدی بہنیں بھی ایسی بابرکت ہستیوں کے نقش قدم پر چل سکیں اور اپنی دنیا و آخرت سنوار سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔

(مرسلہ: صدف علیم صدیقی۔ ریجائنا کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

جلسہ یوم خلافت جماعت احمدیہ لٹویا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جون 2022