• 23 جون, 2025

کیا یہ قربانیاں صرف حاجیوں کے لیے مقرر ہیں؟

تبرکات

عیدالاضحی کی قربانیاں کیا یہ قربانیاں صرف حاجیوں کے لیے مقرر ہیں؟

(حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مندرجہ بالا موضوع پرایک نہایت جامع اور مبسوط مضمون رقم فرمایا تھا۔ا س مضمون کا ایک حصہ عیدالاضحی کی تقریب کی مناسبت سے درج ذیل کیا جاتا ہے۔)

عیدالاضحی کے حکم کا پس منظر

اس مسئلہ کے متعلق صحیح اسلامی تعلیم بتانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختصر الفاظ میں یہ بتا دیا جائے کہ عیدالاضحی کس چیز کا نام ہے اور وہ اسلام میں کس طرح شروع ہوئی اور اس کی غرض و غایت اور حکمت کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ تاکہ اس سوال کا پس منظر واضح ہو جائے کیونکہ پس منظر کے بغیر کسی چیز کا صحیح تصور قائم نہیں ہو سکتا۔سو جاننا چاہئے کہ

(1) عید ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ایسی اجتماعی خوشی کے دن کے ہیں جو بار بار آئے اور اسلام میں تین عیدیں مقرر کی گئی ہیں۔ ایک جمعہ کی عید ہے جو سات دن کی نمازوں کے بعد آتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت یہ عید ساری عیدوں میں سب سے زیادہ اہم اور زیادہ برکت والی عید ہے۔ گو تھوڑے تھوڑے وقفہ پر آنے کی وجہ سے لوگ عموماً اس کی قدر کو نہیں پہچانتے۔ دوسرے عیدالفطر ہے جو ہر سال رمضا ن کی تیس روزہ عبادت کے بعد آتی ہے اور اس کانام عیدالفطر اس واسطے رکھا گیا ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد گویا اس عید کے ذریعہ مومنوں کی افطاری ہوتی ہے اور تیسرے عیدالاضحی ہے جو ذوالحجہ مہینہ کی دسویں تاریخ کو حج کی عبادت کے اختتام پر (جو نو تاریخ کو ہوتا ہے) آتی ہے اور پاکستان میں یہ عید عرفِ عام میں بقر عید کہلاتی ہے اور بعض لوگ اسے بڑی عید بھی کہتے ہیں۔

(2) عیدالاضحی کا نام عیدالاضحی اس واسطے رکھا گیا ہے اور حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی وجہ سے اس نام سے یاد فرمایا ہے کہ یہ قربانیوں کی عید ہے۔ کیونکہ اَضْحٰی کا لفظ عربی زبان میں اَضْحَاۃٌ کی جمع ہے۔ جس طر ح کہ اَضَاحِیْ لفظ اَضْحِیَۃٌ کی جمع ہے جس کے معنی قربانی کے جانور کے ہیں اور اس دن کا دوسرانام اسلامی اصطلاح میں یوم النحر بھی ہے۔ جس کے معنی قربانی دینے والے جانور کے ہیں اور یہ دونوں نام خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال فرمائے ہیں اور حدیث میں کثرت کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں اور حدیث کی کوئی کتاب بھی ان نامو ں کے ذکر سے خالی نہیں۔ بلکہ حق یہ ہے کہ ان ناموں کے سوا اس دن کے لئے حدیث میں کوئی اور نام استعمال ہوا ہی نہیں۔
اس تعلق میں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حج والی قربانیوں کے لئے جو حرم کے علاقہ میں ہوئی ہیں قرآن شریف اور حدیث میں ھَدْیٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے نہ کہ اضحٰی کا لفظ جو عیدالاضحی کی قربانیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو غیر حاجی لوگ اپنے اپنے گھروں میں دیتے ہیں۔

(3) جیسا کہ صحیح روایات سے ثابت ہے عیدالاضحی ہجرت کے بعد دوسرے سال میں شروع ہوئی تھی۔(زرقانی و تاریخ الخمیس ) اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں گویا نو دس ‘‘بڑی عیدیں’’ آئیں۔ا س کے مقابل پر حج آپ نے صرف ایک دفعہ کیا تھا اور یہ وہی حج ہے جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے۔ یہ حج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال میں ادا فرمایا تھا (طبری و فتح الباری شرح بخاری ) اور اس کے صرف اڑھائی ماہ بعد آپؐ وفات پا گئے۔

(4) قرآن شریف نے صراحت فرمائی ہے کہ حج کی عبادت کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا (سورۃ حج رکوع 4) جنہوں نے خدائی حکم سے اپنے پلوٹھے فرزند حضرت اسمٰعیل ؑکو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں لا کر آباد کیا جہاں زندگی کے بقا کا کوئی سامان نہیں تھا اور حقیقتاً یہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس خواب کی تعبیر تھی جس میں آپ نے دیکھا تھا کہ میں اپنے بچے کو ذبح کر رہا ہوں۔ اس موقع پر خدا نے بچے کی قربانی کی جگہ ظاہر میں جانور کی قربانی مقرر فرمائی مگر حقیقت کی رو سے انسان کی قربانی بھی قائم رہی۔ یہ گویا پہلا انسانی وقف تھا جو خدا کی راہ میں پیش کیا گیا تاکہ خدا تعالیٰ حضرت اسماعیلؑ کو اس موت کے بعدایک نئی زندگی دے کر اس درخت کی تخم ریزی کرے جس سے بالآخر عالمگیر شریعت کے حامل حضرت سید ولدِ آدم فخر انبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا وجود باجود پیدا ہونے والا تھا۔ حج میں قربانی کی رسم اسی اسماعیلی قربانی کی ایک ظاہری علامت ہے تاکہ اس کے ذریعہ اس بے نظیر قربانی کی یاد زندہ رکھی جا سکے جس کے شجرہ طیبہ نے مکہ کی بظاہر بے آب و گیا ہ اور بے ثمر وادی میں وہ عدیم المثال ثمر پیدا کیا جس کے دم سے دنیا میں روحانیت زندہ ہوئی، زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ

اَنَا ابْنُ الذَّبِیْحَیْنِ

(تاریخ الخمیس)

یعنی میں دو ذبح ہونے والی ہستیوں کا فرزند ہوں

ان دو قربانیوں میں سے ایک تو اسماعیل ؑ کا جسم تھا جو گویا مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں آباد کر کے عملاً ذبح کر دیا گیا اور دوسرے اسماعیل کی روح تھی جو خدا کے حضور وقف علی الدین کے ذریعہ قربان ہوئی۔

عیدالاضحی کی قربانیاں اسی مقدس قربانی کی یادگار ہیں مگر اس زمانہ کے روحانی تنزل اور مادی عروج پر انسان کیا آنسو بہائے کہ اس عظیم الشان قربانی کی یاد کو زندہ رکھنا تو درکنار آج اکثر مسلمان عیدالاضحی کا نام تک فراموش کر چکے ہیں۔ چنانچہ جسے دیکھو عیدالاضحی (قربانیوں کی عید) کی بجائے جو اس عید کا اصل نام ہے عیدالضحیٰ(صبح کے وقت کی عید ) کہتا ہوا سنائی دیتا ہے اور اس افسوس ناک غلطی سے اچھے پڑھے لکھے لوگ حتیٰ کہ بعض اخباروں کے نامہ نگار اور ایڈیٹر صاحبان بھی مستثنیٰ نہیں۔ بھلا جو لوگ اپنی قربانیوں والی عید کے نام سے ‘‘قربانی ’’ کا لفظ تک حذف کر کے اسے وقفِ طاق نسیاں کر چکے ہوں وہ اس کی قربانی والی عبادت کو کس طرح یاد رکھ سکتے ہیں؟ حالانکہ جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے یہ نام خود ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا رکھا ہوا ہے۔

(ابوداؤد بحوالہ مشکوٰۃ کتاب العیدین)

(5) یہ دلچسپ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے (گو شاید اکثر لوگ اسے نہیں جانتے ) کہ عیدالاضحی کی نماز صرف غیر حاجیوں کے لئے مقرر ہے اور حاجیوں کے لئے مقرر نہیں اور نہ یہ نماز حج میں ادا کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ حج خود اپنے اندر ایک بھاری عید ہے کیونکہ اس میں عید کے چاروں عناصر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ یعنی (الف ) عبادت (ب) مومنوں کا اجتماع (ج) خوشی (د) عَوْد یعنی اس دن کا بار بار لوٹ کر آنا۔ اس لئے شریعت نے عیدالاضحی کی نماز صرف غیر حاجی مقیم لوگوں کے واسطے رکھی ہے تاکہ جہاں ایک طرف حج کے ایا م میں حاجی لوگ حج کی عید منا رہے ہوں وہاں غیر حاجی جنہیں کسی مجبوری کی وجہ سے حج کی توفیق نہیں مل سکی وہ اکنافِ عالم میں اپنی اپنی جگہ پر عید کر کے اور قربانیاں دے کر اس عظیم الشان قربانی کی یاد کو تازہ رکھیں۔ جس کا حضرت ابراہیم ؑ کے ہاتھوں سے حضرت اسماعیل ؑ کے وجود میں آغاز ہوا اور پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں اپنے معراج کو پہنچی۔ پس حدیث میں جہاں کہیں بھی عیدالاضحی کی نماز کے تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کی قربانی کا ذکر آتا ہے وہاں لازماً غیر حاجیوں کی قربانی سمجھی جائے گی۔ عیدالاضحی کی قربانی کے عقبی منظر میں اوپر کی پانچ باتیں اتنی نمایاں اور اتنی واضح ہیں اور ان کی تائید میں ایسے روشن اور قطعی ثبوت موجود ہیں کہ کوئی شخص جو اسلامی تعلیم سے تھوڑی بہت واقفیت بھی رکھتا ہو وہ خواہ کسی فرقہ کا ہو ان کے انکار کی جرأت نہیں کر سکتا اور اسی لئے میں نے ان باتوں کی تائیدمیں حوالے اور شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ لیکن اگر کوئی شخص انکار کرے تو خدا کے فضل سے ان پانچ باتوں میں سے ہر بات کے متعلق یقینی اور ناقابلِ تردید ثبوت پیش کئے جا سکتے ہیں۔

کیا عیدالاضحی کی قربانی صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہے؟

اس کے بعد میں اصل سوال کو لیتا ہوں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا عیدالاضحی کے موقع پر غیر حاجیوں کے لئے بھی قربانی واجب ہے اور اگر واجب ہے تو اس کا ثبوت کیا ہے ؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ اگر واجب یا ضروری کا سوال ہو تو غیر حاجی تو درکنار حاجیوں پر بھی ہر صورت میں قربانی واجب نہیں ہے بلکہ اس کے لئے شریعت نے بعض خاص شرطیں لگائی ہیں۔ مثلاً خالی حج کرنے والے جو اصطلاحاً اِفرادکہلاتا ہے قربانی واجب نہیں بلکہ صرف اس صورت میں واجب ہے کہ وہ نہ تو حج اور عمرہ کو ایک ہی وقت میں جمع کرنے والا ہو جسے اسلامی اصطلاح میں تمتع یا قِرَان کہتے ہیں (قرآن شریف سورۃ بقرۃ آیت 97)او ر یا وہ ایسے حاجی پر واجب ہے جو حج کی نیت سے نکلے مگر پھر حج کی تکمیل سے پہلے کسی حقیقی مجبوری کی بناء پر حج ادا کرنے سے محروم ہو جائے (سورہ بقرۃ آیت 197) اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مالی لحاظ سے قربانی کی طاقت رکھتا ہو ورنہ وہ قربانی کی بجائے روزہ کا کفارہ پیش کر سکتا ہے۔ پس جب ہر حالت میں حاجیوں کے لئے بھی قربانی فرض نہیں تو یہ کس طرح دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ غیر حاجیوں کے لئے وہ بہر صورت فرض یا واجب ہے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے شک قربانی کی طاقت نہ رکھنے والے مستطیع لوگوں کے لئے قربانی واجب نہ سہی مگر کیا وہ ایسے طاقت رکھنے والے مستطیع لوگوں کے لئے واجب ہے جو غیرحاجی ہوں ؟ سو اس سوال کے جواب میں اچھی طرح یادر کھنا چاہئے کہ گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض یا واجب یا سنت وغیرہ کی فقہی اصطلاحیں استعمال نہیں کیں۔ مگر صحیح احادیث سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عیدالاضحی کے موقع پر خود بھی قربانی کی اور اپنے صحابہؓ کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ عَشَرَ سِنِیْنَ یُضَحِّیْی۔

(ترمذی کتاب الاضاحي عن رسول اللہ باب الدلیل علی أن الاضحیۃ سنۃ)

یعنی حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں دس سال گزارے اور آپ نے ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر مدینہ میں قربانی کی۔

بلکہ آپؐ کو عیدالاضحی کی قربانی کا اس قدر خیال تھاکہ آپؐ نے وفات سے قبل اپنے داماد اور چچازاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ کووصیت فرمائی کہ میرے بعد بھی میری طرف سے عیدالاضحی کے موقع پر ہمیشہ قربانی کرتے رہنا۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ

عَنْ حَنَشٍ قَالَ رَأیْتُ عَلِیًّا یُضَحِّیْی بِکَبْشَیْنِ فَقُلْتُ لَہ، مَا ھَذَا قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوْصَانِیْ اَنْ اُضَحِّیَ عَنْہُ فَأَنَا أُضَحِّی عَنْہُ۔

(سنن ابی داؤد کتاب الضحایا باب الاضحیۃ عن ا لمیت)

یعنی حنش ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ؓ کو دیکھا کہ وہ عیدالاضحی کے موقع پر دو دنبے قربان کر رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ دو دنبوں کی قربانی کیسی ہے؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپؐ کی طرف سے (آپؐ کی وفات کے بعد بھی) قربانی کرتا رہوں۔ سو میں آپؐ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔

عیدالاضحی کے دن قربانی کرنا آپؐ کا ذاتی فعل ہی نہیں تھا بلکہ آپؐ اپنے صحابہ ؓ کو بھی اس کی تحریک فرماتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ

عَنِ الْبَراء قاَلَ خَطَبَنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ النَّحْرِ فَقَالَ اِنَّ اَوَّلَ مَا نَبْدَاُ بِہٖ فِیْ یَوْمِنَا ھٰذَا اَنْ نُصَلِّیَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ فَقَدْ اَصَابَ سُنَّتَنَا۔

(صحیح بخاری، کتاب العیدین، باب التکبیر الی العید)

یعنی حضرت براء ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عیدالاضحی کے دن خطبہ دیااور اس میں فرمایا کہ اس دن پہلا کام یہ کرنا چاہئے کہ انسان عید کی نماز ادا کرے اور پھر اس کے بعد قربانی دے۔ سوجس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا۔

اوپر کی حدیث میں ایک طرح سنت کا لفظ بھی آگیا ہے اور چونکہ یہ اصطلاحی طور پر استعمال نہیں اس لئے اس سے وجوب کا پہلو بھی مراد ہو سکتا ہے اور ایک دوسرے موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ

مَنْ وَجَدَ سَعَۃً فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا

(مسند احمد بن حنبل مسندالمکثرینمن الصحابۃ، مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ)

یعنی جس شخص کو مالی لحاظ سے توفیق حاصل ہو او رپھر بھی وہ عیدالاضحی کے موقع پر قربانی نہ کرے اس کا کیا کام ہے کہ ہماری عیدگاہ میں آکر نماز میں شامل ہو؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا یہ ارشاد جس تاکید کا حامل ہے وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر دوسرے ارشاد کو مقبولیت کی برکت حاصل ہوئی اسی طرح اس ارشاد کو بھی صحابہ کرام ؓ نے اپنا حرزِ جان بنایا۔ چنانچہ حدیث میں لکھا ہے کہ

عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ اَنَّ رَجُلاً سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ الْاُضْحِیَّۃِ اَوَاجِبَۃٌ ھِیَی فَقَالَ ضَحَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُوْنَ فَاَعَادَھَا عَلَیْہِ فَقَالَ أتَعْقِلُ ضَحَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ والْمُسْلِمُوْنَ۔

(ترمذی کتاب الاضاحي عن رسول اللہ باب الدلیل علی ان الاضحیۃ سنۃ)

یعنی جبلہؓ ابن سحیم روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے دریافت کیا کہ کیا عیدالاضحی کی قربانی واجب ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی قربانی کرتے تھے اورآپؐ کی اتباع میں صحابہؓ بھی کرتے تھے۔ اس شخص نے اپنے سوال کو پھر دوہرایا اور کہا کہ قربانی واجب ہے؟ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ تم میری بات سمجھ نہیں سکتے؟ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی قربانی کیا کرتے تھے اور آپؐ کی اتباع میں دوسرے مسلمان بھی کیا کرتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کام صرف ذاتی شوق کی خاطر یا دوستوں او رغریبوں کو گوشت کھلانے کی غرض سے نہیں تھا بلکہ آپؐ اسے ایک دینی کام سمجھتے اور بھاری ثواب کا موجب خیال فرماتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ

عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمَ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا ھَذِہِ الْاَ ضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ قَالُوا فَمَالَنَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعَرَۃٍ حَسَنَۃٌ۔

(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب ثواب الاضحیۃ)

یعنی زید بن ارقم ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ نے آپؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! یہ عیدالاضحی کی قربانیاں کیسی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا تمہارے جدّ امجد ابرہیم کی جاری کی ہوئی سنت ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیاکہ پھر ہمارے لئے اس میں کیا فائدہ کی بات ہے ؟ آپؐ نے فرمایا کہ قربانی کے جانور کے جسم کا ہر بال قربانی کرنے والے کے لئے ایک نیکی ہے جو اسے خدا سے اجر پانے کا مستحق بنائے گی۔

اس سے بڑھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید کی قربانیوں کے متعلق فرماتے تھے کہ

مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍٍ یَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ۔

(سنن الترمذی کتاب الاضاحي عن رسول اللہ باب ما جاء فی فضل الاضحیۃ)

یعنی خدا کی نظر میں عیدالاضحی والے دن انسان کا کوئی عمل قربانی کے جانور کو ذبح کرنے اور اس کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔

اس حدیث میں ’’خون بہانے‘‘ کے الفاظ میں جانی قربانی کی اہمیت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ ایک او ر موقع پر آپؐ نے نہ صرف اپنی طرف سے قربانی کی بلکہ مزید تحریک اور تاکید کی غرض سے اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی دی۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ

عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَرَ بِکَبْشٍ ۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ ذَبَحَہ، ثُمَّ قَالَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ۔

(صحیح مسلم کتاب الاضاحي باب استعباب الضحیۃ و ذبحھا مباشرہ بلاتوکیل والتسمیۃ)

یعنی حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک عید کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم نے ایک دنبہ منگوایا۔ پھر اسے خود اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ذبح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں یہ دنبہ خدا کے نام کے ساتھ ذبح کرتا ہوں اور پھر دعا فرمائی کہ اے میرے آسمانی آقا! تو اس قربانی کو محمدؐ کی طرف سے اور محمدؐ کی آل کی طرف سے اور محمدؐ کی امت کی طرف سے قبول فرما۔

کیا ان واضح اور قطعی روایتوں کے ہوتے ہوئے جو اس جگہ صرف نمونہ کے طور پر درج کی گئی ہیں کوئی سچا اور واقف کار مسلمان اس بات کے کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ قربانی صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہے اور غیر حاجیوں کے لئے عیدالاضحی کے موقع پر کوئی قربانی مقرر نہیں؟

بے شک یہ درست ہے کہ قربانی صرف طاقت رکھنے والے لوگوں پر واجب ہے اور بعض احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ اگر سارے گھر کی طرف سے ایک مستطیع شخص قربانی کردے تو یہ قربانی سب کی طرف سے سمجھی جا سکتی ہے (ابوداؤد) مگر بہرحال عیدالاضحی کے موقع پر حسبِ توفیق قربانی کرنا ہمارے رسول ؐ (فداہ نفسی) کی ایک مبارک سنت ہے جس کے متعلق ہمارے آقا نے بہت تاکید فرمائی اور اسے بھاری ثواب کا موجب قرار دیا ہے۔

کیا موجودہ زمانہ میں بھی قربانی ضروری ہے؟

اس سوال کا جواب اوپر گزر چکا ہے کہ کیا عیدالاضحی کے موقع پر قربانی صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہے یا کہ اسے طاقت رکھنے والے غیر حاجیوں کے لئے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے؟ اب میں اس بحث کے دوسرے سوال کو لیتا ہوں یعنی یہ کہ اگر عیدالاضحی کے موقع پر غیر حاجیوں کی قربانی کاثبوت ملتا بھی ہوتو پھر بھی کیا موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ مناسب نہیں کہ بھاری تعداد میں جانور قربان کر کے ضائع کرنے کی بجائے مستحق لوگوں میںنقدروپیہ تقسیم کر دیا جائے جو کئی قسم کی ضرورتوںمیں ا ن کے کام آسکتا ہے۔یا یہ روپیہ کسی قومی اور ملکی مصرف میں لایا جائے ؟ سو اس کے متعلق اصولی طور پر تو صرف اس قدر جاننا کافی ہے کہ نقد روپے کی صورت میں غریبوں کی امداد کرنا موجودہ زمانہ کی ایجاد نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںبھی اس کا طریق موجود اور معلوم تھا اور خود قرآن شریف میں بھی جا بجا اس قسم کی امداد کی تحریک پائی جاتی ہے۔ تو جب یہ طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ز مانہ میں موجود تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بے شمار موقعوں پر استعمال بھی فرمایا تو ہر عقل مند انسان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ جب حضرت شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام بلکہ خود ذاتِ باری تعالیٰ نے عیدالاضحی کے موقع پر نقد روپے یا غلہ وغیرہ (جو آسانی سے نقدی میں منتقل کیا جاسکتا ہے) کی تقسیم کی بجائے قربانی کا نظام قائم کر کے قربانیوں کی تاکید فرمائی (حالانکہ ان کے سامنے نقد روپے اور غلہ وغیرہ کی تقسیم کا طریق موجود تھا ) تو لامحالہ اس طریق کے اختیار کرنے میں کوئی خاص مصلحت سمجھی جائے گی ورنہ ایک زیادہ معروف اور زیادہ آسان طریق کو چھوڑ کر قربانی کا طریق کیوں اختیار کیا جاتا؟ پس اگر غور کیاجائے تو دراصل یہ فرق اور یہ امتیاز ہی اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ قربانی کا نظام مقرر کرنے میں خدا اور اس کے مقدس رسول کے سامنے کوئی خاص غرض مقصود تھی اور پھر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ خدا کے سامنے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے حالات تھے اور اسے نعوذباللہ موجودہ زمانہ کے حالات پر اطلاع نہیں تھی۔ کیونکہ خدا عالم الغیب ہے اور یقینا کسی زمانہ کا کوئی امر بھی اس سے پوشیدہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ استدلال اور بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دوسری عید یعنی عیدالفطر کے موقع پر فطرانہ کی صورت میں غلّہ یا نقد روپے کی تقسیم کا نظام قائم فرمایا ہے تو جب آپؐ عید کے موقع پر غلّہ یا نقدی کا نظام جاری فرما سکتے تھے تو آپؐ کے لئے اس بات میں کیا روک تھی کہ عیدالاضحی کے موقع پر بھی یہی نظام جاری فرما دیتے؟ پس دونوں عیدوں کے موقع پر انفاق فی سبیل اللہ کے طریق میں ایک بیّن اور نمایاں فرق قائم کرنا اس بات کی قطعی اور یقینی دلیل ہے کہ خواہ ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے یہ امتیاز بہرحال کسی خاص مصلحت کی بناء پر قائم کیا گیا ہے۔ وَھُوَالْمُرَادُ فَافْھَمْ وَ تَدَبَّرْ وَلَا تَکُنْ مِنَ الْمُمْتَرِیْنُ۔

کیا قربانیوں کا کوئی بدل بھی اختیار کیا جا سکتا ہے؟

زمانہ ٔحال کے بعض علماء نے گو وہ یقینا بہت قلیل تعداد میں ہیں لکھا ہے کہ شریعت نے حج کے موقع پر ھَدْیٌ ( یہ یاد رہے کہ ھَدْیٌ کی اصطلاح سے وہ قربانی مراد ہے جو حاجی لوگ حرم میں کرتے ہیں اور اس کے بالمقابل اَضْحِیْۃ غیر حاجیوں کی قربانی کا نام ہے جو وہ اپنے گھروں میں کرتے ہیں ) کی طاقت نہ رکھنے کی صورت میں اسلام نے روزوں کا کفارہ یعنی بدل مقرر کیا ہے (سورۃ بقرہ آیت 197) جس کی بناء پر کہا جاتا ہے کہ اسی اصول پر بعض حالات میں عید کی قربانی کا بدل بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اگر کسی حاجی کے سر میں تکلیف ہو اور اس کے لئے سر منڈوانا ممکن نہ ہوتو اس کے لئے اسلام میں روزہ یا صدقہ کی صورت میں بدل مقرر کیا گیا ہے (سورۃ بقرہ آیت 197) اور اس سے بھی یہ استدلال کیا جاتاہے کہ شریعت نے بہرحال بدل کا اصول تسلیم کیا ہے تو کیوں نہ موجودہ زمانہ کے تقاضا کے مطابق عید کی قربانیوں کا بدل اختیار کر لیا جائے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ استدلال ایک دھوکے پر مبنی ہے کیونکہ یہ احکام جن کی ذیل میں یہ بدل والے احکام دئیے گئے ہیں حج سے تعلق رکھتے ہیں نہ کہ غیر حاجیوں کی قربانی یعنی اَضْحِیَۃَسے۔ اور ایک امر سے تعلق رکھنے والا حکم بلادلیل دوسرے حکم پر چسپاں کرنا ہرگز جائز نہیں۔

علاوہ ازیں یہ احکام خود اس بات کی دلیل ہیں کہ غیر حاجیوں کی قربانی کا کوئی بدل نہیں ورنہ جس طرح بعض صورتوں میں ھَدْیٌ یعنی حج کی قربانی کے لئے بدل رکھا گیا ہے اسی طرح اَضْحِیْۃ یعنی غیر حاجیوں کی قربانی کا بدل بھی مقرر کیا جا سکتا تھا مگر خدا کی طرف سے حاجیوں کی قربانی کا بدل مقرر کیا جانا اور غیر حاجیوں کی قربانی کا کوئی بدل مقرر نہ کیا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس معاملہ میں کسی بدل کا سوال نہیں۔

دراصل بات یہ ہے کہ چونکہ حج کی بعض صورتوں میں قربانی ضروری رکھی گئی ہے اور حج خود اسلام کے اہم ترین ارکان میں سے ہے اس لئے لازماً حج میں قربانی کی طاقت نہ رکھنے والوں کے لئے قربانی کا کفارہ یعنی بدل مقرر کیا گیا ہے تاکہ غیر مستطیع حاجی یہ کفارہ ادا کر کے اپنے فرض کے معاملہ میں سرخرو ہو جائیں۔ مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے غیر حاجیوں پر قربانی فرض نہیں ہے بلکہ صرف واجب یا سنتِ مؤکدہ ہے اس لئے اس کا بدل نہیں رکھا گیا۔ یہ بات ایسی ظاہر و عیاں ہے کہ اس میں کسی عقلمند انسان کے لئے شبہ کی گنجائش نہیں۔

جانوروں کی قلت کے خطرہ کا سوال

ایک آخری سوال کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ آج کل عیدالاضحی کی قربانی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ملک میں گوشت کھانے والوں کی کثرت اور گوشت کے جانوروں کی نسبتاً قلت ہو گئی ہے اس لئے ملک کے اقتصادی نظام کے ماتحت جانوروں کو بے دریغ ذبح کرنے سے بچانا ضروری ہے ورنہ خطرہ ہے کہ کل کو نہ صرف گوشت کا قحط بلکہ زمیندارہ استعمال کے جانوروں کی قلت بھی ملک کی خوراک کے سوال کو نازک صورت نہ دے دے۔ یہ سوال بظاہر اہم اور قابلِ غور نظر آتا ہے کیونکہ اس میں شبہ نہیں کہ ایک تو ملکی تقسیم کے فسادات کے دوران میں کئی جانور ضائع ہو گئے اور دوسرے مغربی پاکستان میں خالص مسلمان آبادی کے بڑھ جانے سے گوشت کا خرچ بھی لازماً پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے موجودہ حالات میں ایک حد تک جانوروں کی قلت کا اندیشہ ضرور سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اندیشہ اتنا حقیقی نہیں کہ قطع نظر دینی مسئلہ کے اس کی وجہ سے قربانیوں کو روکنے کا خیال پیدا ہو کیونکہ اول تو اگر غور سے دیکھا جائے تو قربانی کرنے والے لوگ غالباً ساری آبادی کے لحاظ سے صرف نصف فیصدی ہوتے ہیں۔ مثلاً لائلپور (فیصل آباد) پاکستان کے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے اور وہ ہے بھی کافی متموّل شہر جس میں بڑے بڑے کارخانے پائے جاتے ہیں بلکہ لائلپور (فیصل آباد) کا سارا ضلع ہی اپنی زرخیز اراضی کی وجہ سے سب سے زیادہ متموّل ضلع سمجھا جاتا ہے۔ اب اس کے اعدادو شمار سے پتہ لگا ہے کہ گزشتہ (یعنی 1959ء کی) عیدالاضحی کے تین دنوںمیں لائلپور (فیصل آباد) شہر میں (بشمول مضافات) سترہ ہزار (17000) جانورذبح ہوئے ہیں اور کل ضلع لائلپور (فیصل آباد) میں بشمول شہر ستائیس ہزار (27000) قربانیاں ہوئیں۔ یعنی ضلع بھر میں شہر کی نسبت صرف دس ہزار قربانیاں زیادہ ہیں۔ اب اگر ضلع لائلپور (فیصل آباد) کی آبادی پچیس چھبیس لاکھ سمجھی جائے تو یہ قریباً ایک فیصدی یا اس سے کچھ زیادہ شرح بنتی ہے اور خالص دیہاتی آبادی کی شرح اگر سارے ملک پر پھیلا کر دیکھی جائے تو یقینا نصف فیصدی بلکہ اس سے بھی کم ہو گی کیونکہ دیہات میں عموماً بہت کم قربانی ہو تی ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ پاکستان کی آبادی کا نوے فیصد حصہ دیہات میں آباد ہے۔ ان اعدادو شمار سے ظاہر ہے کہ اگر پاکستان میں نسلِ حیوانی کی افزائش کا خاطر خواہ انتظام ہو جیسا کہ دوسرے ترقی یافتہ ملکوںمیں ہوتا ہے تو گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں۔ ہاں اگر صرف خرچ ہی خرچ ہو اور آمد بڑھانے کی کوئی صورت نہ کی جائے تو ظاہر ہے کہ پھر قارون کا خزانہ بھی مکتفی نہیں ہو سکتا۔

اور پھر بعض احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایک گھر میں ایک سے زیادہ قربانی والے افراد موجود ہو ں تو باوجود طاقت رکھنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہونے کے سارے گھر کی طرف سے صرف ایک قربانی کافی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ

یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ عَلیٰ کُلِّ اَھْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ اَضْحِیَۃً

(ابوداؤد کتاب الضحایا، باب ماجاء نی ایجاب الاضاحی)

یعنی اے لوگو! ہر ذی استطاعت گھر کے لئے ایک سال میں ایک جانور کی قربانی کافی ہے۔

اسی لئے اکثر فقہاء نے ایک گھر کو بلکہ بعض نے تو قربانی کے لحاظ سے ایک خاندان کو ایک ہی یونٹ قرار دیا ہے۔

(کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ)

اس کے علاوہ بھی ظاہر ہے کہ قربانی کے ایام میں جانوروںکو عام تجارتی رنگ میں ذبح کرنے کا سلسلہ رُک جاتا ہے اور گوشت کی دکانیں عملاً بند ہو جاتی ہیں کیونکہ گوشت کھانے والا طبقہ یا تو خود قربانی کر کے اپنے لئے گوشت مہیا کر لیتا ہے اور یا اسے اس کے عزیزوں اور دوستوں اور ہمسایوں کی طرف سے گوشت کا ہدیہ پہنچ جاتا ہے۔ پس اگر ایک طرف عید کے ایام میں قربانی زیادہ ہوتی ہے تو دوسری طرف ان ایام میں عام جانوروں کے ذبح کا سلسلہ کم بھی ہو جاتا ہے اور اس طرح یہ فرق زیادہ نہیں رہتا۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 21؍مئی 1961ء)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 27 جولائی 2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 28 جولائی 2020ء