• 19 مئی, 2024

پاک ہونے کا ایک طریق

پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے نہ علمی، نہ خاندانی، نہ مالی۔ جب خدا تعالٰے کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو ان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سُورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے۔ اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظُلمت کو دُور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے۔ اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کردے۔

پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشیٔ محض سمجھے۔ اور آستانۂ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذباتِ نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبّر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اَور بھی ترقی ہو۔ کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اُتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اُس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبّر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اُسے حقیر سمجھتا ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ213 ایڈیشن 1988ء)

پچھلا پڑھیں

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 54)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جولائی 2022