• 19 مئی, 2024

ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی پر عمل کرنا بھی ضروری ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ انسان کو نہیں پتہ کہ چھوٹی نیکی اُس کے لئے کیا ہے اور بڑی نیکی کیا ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ ایک نیکی ایک کے لئے چھوٹی ہے اور دوسرے کے لئے بڑی، یا اس کی تعریف مختلف ہے۔ مثلاً ایک صحابی کے پوچھنے پر کہ یا رسول اللہ!صلی اللہ علیہ وسلم۔ بڑی نیکی کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جہاد فی سبیل اللہ بڑی نیکی ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون الایمان باللہ تعالیٰ افضل الاعمال حدیث نمبر248)

پھر ایک اور موقع پر ایک دوسرے صحابی کے پوچھنے پر کہ بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ماں باپ کی خدمت کرنا۔

(صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب فضل الصلاۃ لوقتھا حدیث نمبر527)

پھر ایک تیسرے موقع پر ایک تیسرے صحابی کے پوچھنے پر کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا تہجد کی نماز ادا کرنا، تہجد کے نفل پڑھنا۔

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل صوم المحرم حدیث نمبر2756)

اس طرح آپؐ نے مختلف لوگوں کو بعض مختلف امور کی طرف توجہ دلائی۔ پس بڑی نیکی تین یا تین سے زیادہ تو نہیں ہو سکتیں اور بھی مختلف لوگوں کو اُن کی کمزوریوں کے مطابق توجہ دلائی ہو گی۔ بڑی نیکی تو ایک ہی ہونی چاہئے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے بڑا کام اور نیکی وہ ہے جس کی کسی میں کمی ہے۔ پس اگر کوئی شخص ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا یا بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتا تو اُس کے لئے دین کی خدمت بڑی نیکی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے وہ یہ خدمت ذاتی مفاد کے لئے بھی کر رہا ہو یا نام و نمود کے لئے بھی کر رہا ہو۔ پس ایسے لوگ جن کے گھر والے اُن کے رویوں سے نالاں ہیں اور وہ عہدیدار بنے ہوئے ہیں، اُنہیں اپنی خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے دین کی خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے، ماں باپ اور بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص چندوں میں بہت اچھا ہے لیکن نمازوں میں سست ہے، نوافل میں سست ہے تو اُس کے لئے نمازیں اور نوافل نیکی ہیں۔ اسی طرح بہت سی نیکیاں ہیں جو ایک کے لئے معمولی ہیں دوسرے کے لئے بڑی ہیں۔ پس چھوٹی بڑی نیکیوں کی کوئی فہرست نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی رِیا کی جو مثال دی ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہ مثلاً رِیا تو یہاں بھی اس سے یہی مراد ہے کہ بظاہر چھوٹا نظر آنے والا گناہ دراصل بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ نماز پڑھنا بڑا ثواب کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا ذریعہ ہے۔ دین کی معراج ہے لیکن دکھاوے کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں بلکہ الٹا دی جاتی ہیں۔ اسی طرح ایک انسان نمازی ہے لیکن دوسروں کے حقوق غصب کر رہا ہے تو یہ نماز نیکی نہیں ہے بلکہ بہتر ہوتا کہ وہ دوسروں کا حق ادا کرتا اور پھر نماز ادا کرکے نماز کا ثواب حاصل کرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس مَیں نے پڑھا ہے جس میں آپ نے ارکانِ اسلام کا ذکر فرمایا۔ روزہ بھی ایک رکن ہے۔ مسلمان رمضان میں روزے کا اہتمام بھی بہت کرتے ہیں لیکن بہت سے روزہ دار ایسے ہوتے ہیں جو روزہ رکھ کر جھوٹ، فریب، گالی گلوچ، غیبت وغیرہ کرتے ہیں، ان سے کام لیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص روزہ رکھ کر یہ سب کام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کا روزہ روزہ نہیں ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور، والعمل بہ فی الصوم حدیث نمبر1903)

پس روزے کا ثواب بھی گیا۔ تو اصل چیز یہ ہے کہ ان اعمال کو اس طرح بجا لایا جائے جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

پس انسانی زندگی کا ہر قدم بڑا پھونک پھونک کر اُٹھنا چاہئے جہاں خالص خدا تعالیٰ کی رضا مقدم ہو، جہاں عقیدے میں پختگی ہو وہاں اعمال کی بھی ایسی اصلاح ہو کہ دنیا کو نظر آ جائے کہ ایک احمدی اور دوسرے میں کیا فرق ہے؟ پس ہمیں اس بات پر نظر رکھنی چاہئے کہ تمام قسم کی برائیوں سے بچنا ہے۔ تمام قسم کی نیکیوں کو اختیار کرنا ہے تا کہ عملی طور پر اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں۔ اپنے چھوٹوں کے لئے نمونہ بنیں۔ اپنے نوجوانوں کے لئے نمونہ بنیں۔ اپنے گھروں میں اپنے بیوی بچوں کے لئے نمونہ بنیں۔ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے لئے نمونہ بنیں، اپنی عملی حالتوں میں ہر چھوٹا بڑا وہ معیار حاصل کرے کہ ہر قسم کی بدی اور برائی کا بیج ہم میں سے ہر ایک میں ختم ہو جائے، اُس کی جڑ ہی ختم ہو جائے۔ اگر افرادِ جماعت میں سے ہر ایک نے اپنی مکمل اصلاح کی کوشش نہ کی تو جماعت میں ہر وقت کسی نہ کسی قسم کی برائی کا بیج موجود رہے گا اور موقع ملتے ہی وہ پھلنے پھولنے لگ جائے گا، پھوٹنے لگ جائے گا۔ پس ہر قسم کی برائیوں کی جڑوں کو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم ہر قسم کی برائیوں کو جماعت میں سے ختم کر کے عملی اصلاح کی حقیقی تصویر بن سکتے ہیں اور تب پھر اللہ تعالیٰ ہمیں فتوحات کے نظارے دکھائے گا۔ تبھی ہماری دعائیں بھی قبول ہوں گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ پھر اللہ تعالیٰ کا قرب ہم پاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 30؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اعلانِ دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2021