کتاب، تعلیم کی تیاری
قسط 13
اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔
1۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
2۔ نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
3۔ بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟
اللہ کے حضور ہمارے فرائض
یاد رکھو کہ یہ جو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی ابتداء بھی دُعا سے ہی کی ہے اور پھر اس کو ختم بھی دُعا پرہی کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان ایسا کمزور ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر پاک ہو ہی نہیں سکتا اور جب تک خدا تعالیٰ سے مدد اور نُصرت نہ ملے یہ نیکی میں ترقی کر ہی نہیں سکتا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ سب مردے ہیں مگر جس کو خدا زندہ کرے۔ اور سب گمراہ ہیں۔ مگر جس کو خدا ہدایت دے اور سب اندھے ہیں مگر جس کو خدا بینا کرے۔
غرض یہ سچی بات ہے کہ جب تک خدا کا فیض حاصل نہیں ہوتا تب تک دنیا کی محبت کا طوق گلے کا ہار رہتا ہے اور وہی اس سے خلاصی پاتے ہیں جن پر خدا اپنا فضل کرتا ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ خدا کا فیض بھی دُعا سے ہی شروع ہوتا ہے۔
لیکن یہ مت سمجھو کہ دعا صرف زبانی بک بک کا نام ہے بلکہ دعا ایک قسم کی موت ہے جس کے بعد زندگی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ پنجابی میں ایک شعر ہے:
؎جو منگے سو مر رہے
مرے سو منگن جا
دُعا میں ایک مقناطیسی اثر ہوتا ہے وہ فیض اور فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
یہ کیا دُعا ہے کہ مُنہ سے تو اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الفاتحہ: 6) کہتے رہے اور دل میں خیال رہا کہ فلاں سودا اس طرح کرنا ہے۔ فلاں چیز رہ گئی ہے۔ یہ کام یُوں چاہیئے تھا، اگر اس طرح ہو جائے تو پھر یُوں کریں گے۔ یہ تو صرف عُمر کا ضائع کرنا ہے۔ جب تک انسان کتاب اللہ کو مقدم نہیں کرتا اور اسی کے مطابق عملدر نہیں کرتا تب تک اس کی نمازیں محض وقت کا ضائع کرنا ہے۔
قرآن مجید میں تو صاف طور پر لکھا ہے: قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۔ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ۔ (المؤمنون: 2۔3) یعنی جب دُعا کرتے کرتے انسان کا دل پگھل جائے اور آستانہء الُوہیت پر ایسے خلوص اور صدق سے گِر جاوے کہ بس اسی میں محو ہو جاوے اور سب خیالات کو مٹا کر اسی سے فیض اور استعانت طلب کرے اور ایسی یکسوئی حاصل ہو جائے کہ ایک قسم کی رقّت اور گداز پیدا ہو جائے تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے جس سے دُنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ دو محبّتیں ایک جگہ جمع نہیں رہ سکتیں۔ جیسے لکھا ہے۔
؎ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دُوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
اسی لئے اس کے بعد ہی خدا فرماتا ہے وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ (المؤمنون: 4) یہاں لغو سے مراد دُنیا ہے۔ یعنی جب انسان کو نمازوں میں خشوع اور خضوع حاصل ہونے لگ جاتا ہے۔ تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت اس کے دل سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ پھر وہ کاشتکاری، تجارت نوکری وغیرہ چھوڑ دیتا ہے بلکہ وہ دنیا کے ایسے کاموں سے جو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں اور جو خدا سے غافل کر دیتے ہیں اعراض کرنے لگ جاتا ہے اور ایسے لوگوں کی گریہ و زاری اور تضرّع اور ابتہال اور خدا کے حضور عاجزی کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص دین کی محبت کو دنیا کی محبت، حرص، لالچ اور عیش و عشرت سب پر مقدم کر لیتا ہے کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ ایک نیک فعل دوسرے نیک فعل کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور ایک بد فعل دوسرے بد فعل کی ترغیب دیتا ہے۔ جب وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کرتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبعاً وہ لغو سے اعراض کرتے ہیں۔ اور اس گندی دنیا سے نجات پا جاتے ہیں۔ اور اس دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو کر خدا کی محبت ان میں پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ (المؤمنون: 5) یعنی وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور یہ ایک نتیجہ ہے عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ (المؤمنون: 4) کا۔ کیونکہ جب دنیا سے محبت ٹھنڈی ہو جائے گی تو اس کا لازمی نتیجہ ہو گا کہ وہ خدا کی راہ میں خرچ کریں گے اور خواہ قارون کے خزانے بھی ایسے لوگوں کے پاس جمع ہوں وہ پروا نہیں کریں گے اور خدا کی راہ میں دینے سے نہیں جھجکیں گے۔ ہزاروں آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتے یہانتک کہ اُن کی قوم کے بہت سے غریب اور مفلس آدمی تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں مگر وہ ان کی پروا بھی نہیں کرتے حالانکہ خدا تعالےٰ کی طرف سے ہر ایک چیز پر زکوٰۃ دینے کا حکم ہے یہانتک کہ زیور پر بھی۔ ہاں جواہرات وغیرہ چیزوں پر نہیں۔ اور جو امیر، نواب اور دولت مند لوگ ہوتے ہیں ان کو حکم ہے کہ وہ شرعی احکام کے بموجب اپنے خزانوں کا حساب کر کے زکوٰۃ دیں لیکن وہ نہیں دیتے۔ اس لئے خدا فرماتا ہے کہ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ کی حالت تو اُن میں تب پیدا ہو گی جب وہ زکوٰۃ بھی دیں گے۔ گویا زکوٰۃ کا دینا لغو سے اعراض کرنے کا ایک نتیجہ ہے۔
پھر اس کے بعد فرمایا۔ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ (المؤمنون: 6) یعنی جب وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کریں گے۔ لغو سے اعراض کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ لوگ اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں گے۔ کیونکہ جب ایک شخص دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے اور اپنے مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ کسی اَور کے مال کو نا جائز طریقہ سے کب حاصل کرنا چاہتا ہے اور کب چاہتا ہے کہ میں کسی دوسرے کے حقوق کو دبالُوں۔ اور جب وہ اپنی مال جیسی عزیز چیز کو خدا کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا تو پھر آنکھ، ناک، کان، زبان وغیرہ کو غیر محل پر کب استعمال کرنے لگا۔ کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب ایک شخص اوّل درجہ کی نیکیوں کی نسبت اس قدر محتاط ہوتا ہے تو ادنیٰ درجہ کی نیکیاں خود بخود عمل میں آتی جاتی ہیں مثلاً جب خشوع خضوع سے دُعا مانگنے لگا تو پھر اس کے ساتھ ہی لغو سے بھی اعراض کرنا پڑا۔ اور جب لغو سے اعراض کیا تو پھر زکوٰۃ کے ادا کرنے میں دلیر ہونے لگا اور جب اپنے مال کی نسبت وہ اس قدر محتاط ہو گیا تو پھر غیروں کے حقوق چھیننے سے بدرجۂ اولیٰ بچنے لگا۔ اس لئے اس کے آگے فرمایا۔ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ (المؤمنون: 9) کیونکہ جو شخص دوسرے کے حق میں دست اندازی نہیں کرتا اور جو حقوق اس کے ذمہ ہیں ان کو ادا کرتا ہے۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنے عہدوں کا پکا ہو اور دوسرے کی امانتوں میں خیانت کرنے سے بچنے والا ہو۔ اس لئے بطور نتیجہ کے فرمایا کہ جب ان لوگوں میں یہ وصف پائے جاتے ہوں گے تو پھر لازمی بات ہے کہ وہ اپنے عہدوں کے بھی پکے ہوں گے۔ پھر ان سب باتوں کے بعد فرمایا۔ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ (المؤمنون: 10) یعنی ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور کبھی ناغہ نہیں کرتے اور انسان کی پیدائش کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ وہ نماز کی حقیقت سیکھے۔
(ملفوظات جلد10صفحہ62 تا 65 ایڈیشن1984ء)
نفس کے ہم پر حقوق
یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن مجید میں نفس کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ نفس امّارہ۔ نفس لوّامہ۔ نفس مطمئنّہ۔ نفس امّارہ اس کو کہتے ہیں کہ سوائے بدی کے اور کچھ چاہتا ہی نہیں جیسے فرمایا اللہ تعالےٰ نے اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف: 54) یعنی نفس امارہ میں یہ خاصیّت ہے کہ وہ انسان کو بدی کی طرف جُھکاتا ہے اور ناپسندیدہ اور بد راہوں پر چلانا چاہتا ہے۔ جتنے بدکار چور ڈاکُو دُنیا میں پائے جاتے ہیں وہ سب اسی نفس کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ ایسا شخص جو نفس امارہ کے ماتحت ہو ہر ایک طرح کے بد کام کر لیتا ہے۔ ہم نے ایک شخص کو دیکھا تھا جس نے صرف بارہ آنہ کی خاطر ایک لڑکے کو جان سے مار دیا تھا۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ
؎حضرتِ انساں کہ حد مشترک را جامع است
مے تواند شد مسیحا مے تواند شد خرے
غرض جو انسان نفس امّارہ کے تابع ہوتا ہے وہ ہر ایک بدی کو شیرِ مادر کی طرح سمجھتا ہے اور جب تک کہ وہ اسی حالت میں رہتا ہے بدیاں اُس سے دُورنہیں ہو سکتیں۔
پھر دوسری قسم نفس کی نفسِ لوّامہ ہے جیسے کہ قرآن شریف میں خدا تعالےٰ فرماتا ہے وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ (القیامہ: 3) یعنی میں اس نفس کی قسم کھاتا ہوں جو بدی کے کاموں اور نیز ہر ایک طرح کی بے اعتدالی پر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے۔ ایسے شخص سے اگر کوئی بدی ظہور میں آ جاتی ہے تو پھر وہ جلدی سے متنبّہ ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو اس بُری حرکت پر ملامت کرتا ہے اور اسی لئے اس کا نام نفسِ لوّامہ رکھا ہے یعنی بہت ملامت کرنے والا۔ جو شخص اس نفس کے تابع ہوتا ہے وہ نیکیوں کے بجا لانے پر پُورے طور پر قادر نہیں ہوتا اور طبعی جذبات اس پر کبھی کبھی غالب آ جاتے ہیں لیکن وہ اس حالت سے نکلنا چاہتا ہے اور اپنی کمزوری پر نادم ہوتا رہتا ہے۔
اس کے بعد تیسری قسم نفس کی نفس مطمئنّہ ہے جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ۔ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً۔ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ۔ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ۔ (الفجر:28 تا 31) یعنی اے وہ نفس جوخدا سے آرام پا گیا ہے اپنے رب کی طرف واپس چلا آ تو خدا سے راضی ہے اور خدا تجھ پر راضی ہے پس میرے بندوں میں مل جا اور میرے بہشت کے اندر داخل ہو جا۔ غرض یہ وہ حالت ہوتی ہے کہ جب انسان خدا سے پُوری تسلّی پا لیتا ہے اور اس کو کسی قسم کا اضطراب باقی نہیں رہتا اور خدا تعالیٰ سے ایسا پیوند کر لیتا ہے کہ بغیر اس کے جی ہی نہیں سکتا۔ نفسِ لوّامہ والا تو ابھی بہت خطرے کی حالت میں ہوتا ہے کیونکہ اندیشہ ہوتا ہے کہ لَوٹ کر وہ کہیں پھر نفسِ امّارہ نہ بن جاوے۔ لیکن نفس مطمئنّہ کا وہ مرتبہ ہے کہ جس میں نفس تمام کمزوریوں سے نجات پا کر رُوحانی قوتوں سے بھر جاتا ہے۔
غرض یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک انسان اس مقام تک نہیں پہنچتا اس وقت تک وہ خطرہ کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس لئے چاہیئے کہ جب تک انسان اس مرتبہ کو حاصل نہ کرلے مجاھدات اور ریاضات میں لگا رہے۔
(ملفوظات جلد10 صفحہ 76۔77 ایڈیشن 1984ء)
انسان میں کئی قسم کے گناہ، کسل، کبر، سُستیاں اور باریک در باریک گناہ ہوتے ہیں ان سب سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں نفس انسان کے تین مرتبے بیان فرمائے ہیں۔ امّارہ۔ لوّامہ۔ مطمئنّہ۔ نفس امّارہ تو ہر وقت انسان کو گناہ اور نافرمانی کی طرف کھینچتا رہتا ہے اور بہت خطرناک ہے۔ لوّامہ وہ ہےکہ کبھی کوئی بدی ہو جاوے تو ملامت کرتا ہے۔ مگر یہ بھی قابل اطمینان نہیں ہے۔ قابلِ اطمینان صرف نفس کی وہ حالت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نفسِ مطمئنّہ کے نام سے پکارا ہے اور وہی اچھا ہے۔ وہ اس حالت کا نام ہے کہ جب انسان خدا کے ساتھ ٹھہر جاتا ہے۔ اسی حالت میں آ کر انسان گناہ کی آلائش سے پاک کیا جاتا ہے۔ یہی ایک گناہ سوز حالت ہے اور اسی درجہ کے انسانوں کے ساتھ برکات کے وعدے ہوئے ہیں۔ ملائکہ کا نزول ان پر ہوتا ہے اور حقیقی نیکی اور پاکی صرف انہیں کا حِصّہ ہوتی ہے۔
(ملفوظات جلد10 صفحہ135۔136 ایڈیشن 1984ء)
بنی نوع کے ہم پر حقوق
میں خوب جانتا ہوں کہ ابھی بہت سی کمزوریاں اس میں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے سمجھنا چاہیئے کہ خدا تعالےٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا۔ وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰٮہَا۔ (الشمس: 10۔11) جس کا مطلب یہ ہے کہ نجات پا گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا اور خائب اور خاسر ہوگیا وہ شخص جو اس سے محروم رہا۔ اس لئے اب تم لوگوں کو سمجھنا چاہیئے کہ تزکیہ نفس کس کو کہا جاتا ہے۔ سو یاد رکھو کہ ایک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تیار رہنا چاہیئے اور جیسے زبان سے خدا تعالےٰ کو اسکی ذات اور صفات میں وحدہ لا شریک سمجھتا ہے ایسے ہی عملی طور پر اسکو دکھانا چاہیئے اور اس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور ملائمت سے پیش آنا چاہیئے اور اپنے بھائیوں سےکسی قسم کا بھی بغض حسَد اور کینہ نہیں رکھنا چاہیئے اور دوسروں کی غیبت کرنے سے بالکل الگ ہو جانا چاہیئے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ یہ معاملہ تو ابھی دُور ہے کہ تم لوگ خدا تعالےٰ کے ساتھ ایسے ازخودرفتہ اور محو ہو جاؤکہ بس اُسی کے ہو جاؤ اور جیسے زبان سے اس کا اقرار کرتے ہو عمل سے بھی کرکے دکھاؤ۔ ابھی تو تم لوگ مخلوق کے حقوق کو بھی کما حقہٗ ادا نہیں کرتے بہت سے ایسے ہیں جو آپس میں فساد اور دشمنی رکھتے ہیں اور اپنے سے کمزور اور غریب شخصوں کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں اور بدسلوکی سے پیش آتے ہیں اور ایک دوسرے کی غیبتیں کرتے اور اپنے دلوں میں بغض اور کینہ رکھتے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم آپس میں ایک وجود کی طرح بن جاؤ۔ اور جب تم ایک وجود کی طرح ہو جاؤ گے اس وقت کہہ سکیں گے کہ اب تم نے اپنے نفسوں کا تزکیہ کر لیا۔ کیونکہ جب تک تمہارا آپس میں معاملہ صاف نہیں ہو گا اس وقت تک خدا تعالیٰ سے بھی معاملہ صاف نہیں ہو سکتا گو ان دونوں قسم کے حقوق میں بڑا حق خدا تعالےٰ کا ہے مگر اس کی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنا یہ بطور آئینہ کے ہے۔ جو شخص اپنے بھائیوں سے صاف صاف معاملہ نہیں کرتا وہ خدا تعالےٰ کے حقوق بھی ادا نہیں کرسکتا۔
یاد رکھو۔ اپنے بھائیوں کے ساتھ بکلی صاف ہو جانا یہ آسان کام نہیں بلکہ نہایت مشکل کام ہے۔ منافقانہ طور پر آپس میں ملنا جُلنا اَور بات ہے مگر سچی محبّت اور ہمدردی سے پیش آنا اَور چیز ہے۔ یاد رکھو اگر اس جماعت میں سچی ہمدردی نہ ہوگی تو پھر یہ تباہ ہو جائے گی۔ اور خدا اس کی جگہ کوئی اور جماعت پیدا کر لے گا۔
ہمارے نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت بنائی تھی۔ ان میں سے ہر ایک زکی نفس تھا اور ہر ایک نے اپنی جان کو دین پر قربان کر دیا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جو منافقانہ زندگی رکھتا ہو۔ سب کے سب حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے والے تھے۔ سو یاد رکھو اس جماعت کو بھی خدا تعالےٰ انہیں کے نمونہ پر چلانہ چاہتا ہے اور صحابہؓ کے رنگ میں رنگین کرنا چاہتا ہے۔ جو شخص منافقانہ زندگی بسر کرنے والا ہو گا وہ آخر اس جماعت سے کاٹا جائے گا۔
(ملفوظات جلد10 صفحہ72۔74 ایڈیشن 1984ء)
پس خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جب تک تم ایک وجود کی طرح بھائی بھائی نہ بن جاؤ گے اور آپس میں بمنزلہ اعضاء نہ ہو جاؤ گے تو فلاح نہ پاؤ گے۔ انسان کا جب بھائیوں سے معاملہ صاف نہیں تو خدا سے بھی نہیں۔ بیشک خدا تعالیٰ کا حق بڑا ہے مگر اس بات کو پہچاننے کا آئینہ کہ خدا کا حق ادا کیا جا رہا ہے یہ ہے کہ مخلوق کا حق بھی ادا کر رہا ہے یا نہیں۔ جو شخص اپنے بھائیوں سے معاملہ صاف نہیں رکھ سکتا وہ خدا سے بھی صاف نہیں رکھتا۔ یہ بات سہل نہیں یہ مشکل بات ہے۔ سچی محبت اور چیز ہے اور منافقانہ اور۔ دیکھو مومن کے مومن پر بڑے حقوق ہیں۔ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کو جائے اور جب مرے تو اس کے جنازہ پر جائے۔ ادنیٰ ادنیٰ باتوں پر جھگڑا نہ کرے بلکہ درگزر سے کام لے۔ خدا کا یہ منشاء نہیں کہ تم ایسے رہو۔ اگر سچی اخوت نہیں تو جماعت تباہ ہو جائے گی۔
(بدر جلد7 نمبر1 صفحہ12 مؤرخہ 9 جنوری 1908ء بحوالہ ملفوظات جلد10 صفحہ73۔74 حاشیہ ایڈیشن 1984ء)
(ترتیب وکمپوزڈ۔عنبرین نعیم)