بنیادی مسائل کے جوابات
قسط نمبر 19
سوال:۔ ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ اگر ہم اچھے کام کریں گے تو جنت کا وعدہ ہے اور اگر بُرے کام کریں گے تو جہنم میں جانا پڑے گا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا کیا فائدہ ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب:۔ بنیادی طور پر یہ سوال ہی درست نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام کی ہر گز یہ تعلیم نہیں کہ انسان جنت کی لالچ سے نیکیاں بجالائے یا جہنم کے خوف سے بُرائیوں سے بچے۔ ایسا ایمان جو کسی لالچ یا کسی خوف سے ہو وہ کمزور ایمان ہوتا ہے۔مخلوق کا اپنے خالق سے ایسا مضبوط تعلق ہونا چاہیئے جو بہشت کی طمع یا دوزخ کے خوف سے پاک ہو۔ بلکہ اگر فرض کر لیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے تب بھی انسان اپنے رب کی عبادت میں، اس کی محبت اور اطاعت میں ذرہ بھر بھی فرق نہ آنے دے۔اسی لئے قرآن وحدیث میں خالق اور مخلوق کے تعلق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کو اختیار کر کے اس کا حقیقی عبد بنے اور اس کے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول پیش نظر ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس مضمون کو کئی جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:
’’ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ21)
پس اللہ اور بندے کا تعلق،عاشق اور معشوق والا تعلق ہے۔ کوئی عاشق اپنے معشوق سے یہ نہیں کہتا کہ میں تجھ پر اس لئے عاشق ہوں کہ تو مجھے اتنا روپیہ یا فلاں فلاں شے دیدے۔ہر گز نہیں۔ اس کا عشق تو ہر قسم کے طمع اور لالچ سے پاک ہوتا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان باتوں سے اللہ تعالیٰ کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ ہر قسم کے فائدہ یا نقصان سے پاک ذات ہے۔ اس نے انسان کو یہ تعلیم انسان ہی کے فائدہ کیلئے دی ہے۔ اسی لئے وہ فرماتا ہے کہ ’’جو شخص شکر کرتا ہے اس کے شکر کا فائدہ اسی کی جان کو پہنچتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو یقیناً اللہ بے نیاز ہے (اور) بہت صاحب تعریف ہے۔‘‘
(سورۃ لقمان: 13)
یہ سوال ایسا ہی ہے، جیسے کوئی کہے کہ ایک ماں کے اپنے بچہ کو دودھ پلانے اور بچہ کے بیمار ہونے پر اسے کڑوی دوائی پلانے میں اس ماں کا کیا فائدہ ہے؟ یا ایک استاد کے پڑھائی کرنے والے شاگرد کوپاس کرنے اور پڑھائی نہ کرنے والے شاگرد کو فیل کرنے میں اس استاد کا کیا فائدہ ہے؟
پس جس طرح ان امور میں ماں اور استاد کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں بلکہ اس بچہ اور شاگرد کا فائدہ اور نقصان ہے اسی طرح اللہ اور بندہ کے معاملہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں بلکہ الہٰی احکامات کی بجا آوری میں انسان کا فائدہ اور ان احکامات کی حکم عدولی میں انسان ہی کا نقصان ہے۔
سوال:۔ ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتابوں میں Complicated باتیں کیوں بیان کی ہیں اور سب کچھ آسان اور واضح انداز میں کیوں نہیں بتا دیا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ بعد میں اختلافات ہونے ہیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل الفاظ میں جواب عطاء فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب:۔ اصل میں اعلیٰ درجہ کے ایمان کیلئے آزمائش شرط ہوتی ہے۔ اسی لئے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں ہدایت پانے والے اور کامیابی حاصل کرنے والے متقیوں کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ پس ایمان ہمیشہ اسی صورت میں مفید ہوتا ہے جب اس میں کوئی اخفاء کا پہلو ہو۔ تا کہ مومن اور غیر مومن کا فرق واضح ہو سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اخفاء کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’پیشگوئی میں کسی قدر اخفاء اور متشابہات کا ہونا بھی ضروری ہے اور یہی ہمیشہ سے سنت الہٰی ہے ۔۔۔۔۔۔ اگر آنحضرت ﷺ کے متعلق جو پیشگوئیاں تورات اور انجیل میں ہیں وہ نہایت ظاہر الفاظ میں ہوتیں ۔۔۔۔۔۔ تو پھر یہودیوں کو آپ کے ماننے سے کوئی انکار نہ ہو سکتا تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ ان میں متقی کون ہے جو صداقت کو اس کے نشانات سے دیکھ کر پہنچانتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد نہم صفحہ283 ایڈیشن 1984ء)
سوال:۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ بنگلا دیش کی Virtual ملاقات مؤرخہ 14 نومبر 2020ء میں ایک ممبر لجنہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ چھوٹے بچوں والی ماؤں کو نماز کے وقت بچہ کو ساتھ لے کر یا گود میں اٹھا کر نماز پڑھنا پڑتی ہے۔ اس وقت فطرتاً نماز سے زیادہ بچہ کی طرف توجہ رہتی ہے۔ اس سے ہم نماز کی فضیلت سے محروم تو نہیں ہو رہی ہوتیں؟ حضور نے فرمایا:
جواب:۔ نہیں محروم نہیں ہو رہی ہوتیں۔ لیکن آپ یہ کیا کریں کہ جب بچہ روتا ہے تو اس کو گود میں اٹھا لیا اور نماز پڑھ لی اورپھر جب سجدہ میں گئے تو بچہ کو ایک سائیڈ پر بٹھا دیا پھر نماز پڑھ لی۔ یہ تو اضطراری حالت ہے اللہ تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے۔ کیونکہ آپ نیک نیتی سے نماز پڑھ رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کا ثواب دیتا ہے۔ لیکن نماز کا وقت آپ کے پاس کافی ہوتا ہے۔ فجر کے وقت تو بچے عموماً سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ یا فیڈر یا دودھ دے کے، یا فیڈ دے کے اس کو سُلا کے آپ آرام سے فجر کی نماز پڑھ سکتی ہیں۔ عام طور پہ کوشش یہ کریں کہ بچہ کو سلانے کے بعد یا بچہ کو فیڈ دیدی ہے تو پھر اس کے بعد اس کو لٹا کے اگر وقفہ ہے تو پھرآرام سے نماز پڑھیں۔ اور اگر وقفہ تھوڑا ہے مثلاً سورج ڈوب رہا ہے یا فجر کی نماز پہ سورج نکل رہا ہےتو پھر مجبوری ہے کہ جلدی جلدی نماز پڑھ لینی ہے۔ یاآپ کی عصر کی نماز سورج ڈوبنے کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہے تو جلدی سے پڑھ لیں۔ لیکن عموماً کوشش یہ کریں کہ بچہ سے فارغ ہونے کے بعد اس کو سلا کے،لٹا کے آپ اپنی نماز پڑھ لیں۔ لیکن اگر مجبوری میں آپ کو بچہ کو گود میں لے کے پڑھنی بھی پڑھتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ا س میں کوشش کریں کہ جتنی زیادہ توجہ آپ نماز کی طرف قائم کرسکتی ہیں قائم رکھیں، نماز کے جو الفاظ ہیں ان پہ غور کرتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ تو ثواب دینے والا ہے، اللہ تعالیٰ رحمٰن رحیم ہے اور بخشش کرنے والا بھی ہے۔تو اللہ تعالیٰ یہ ظلم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کو ساری صورت حال پتا ہے۔ لیکن اگر ساری کوششوں کے باوجود کسی عورت کے پاس وقت نہیں رہتا اور اس کو بچہ کو گود میں لے کے نماز پڑھنا مجبوری ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ثواب دینے والا ہے، دیتا ہے۔
سوال:۔ اسی ملاقات میں ایک ممبر لجنہ نے دریافت کیا کہ کئی دفعہ شادی کے بعد لڑکیاں اپنا نام بدل کر خاوند کے نام کے ساتھ ملا کر رکھ لیتی ہیں۔ اسلامی نظریہ کے مطابق ایسا کرنا جائز ہے؟ حضور انور اس سوال کے جواب میں نے فرمایا:
جواب:۔ کوئی حرج نہیں ہے۔ رکھ لیتی ہیں تو کیا ہوگیا؟ اب ان کی جو پہچان ہے سرکاری کاغذوں میں، تو مجبوری ہے۔ بعض دفعہ سرکاری کاغذوں میں ایک نام مثلاً عطیہ بابر کسی نے اپنے باپ کے نام سے نام رکھا ہوا ہے۔ تو جب اس کی شادی ہو جائے گی، اس کی رجسٹریشن ہو جائے گی تو رجسٹریشن میں، اس کے نکاح فارم یا سرکاری کاغذوں میں اس کا نام عطیہ مبشر کے نام سے اگر آجائے گا، بابر کی جگہ مبشر آ جائے گا تو اس میں کیا حرج ہے؟ کوئی حرج نہیں اس میں۔ اسلام میں اس کی بالکل اجازت ہے کہ خاوند کے نام سے نام رکھ لیا جائے۔ اصل نام اس کا عطیہ ہے۔ دوسرا نام تو پہچان کیلئے رکھا ہوا ہے، پہلے باپ اس کی پہچان تھا اب شادی کے بعد خاوند اس کی پہچان ہوگیا۔ بلکہ اچھی بات ہے جو خاوند کی پہچان کے ساتھ نام رکھیں گے تو خاوند کو اپنی بیوی کی عزت کا خیال رہے گا اور بیوی کو اپنے خاوند کی عزت کا خیال رہے گا۔ اور دونوں میں اس سے پیار اور تعلق زیادہ قائم ہوگا۔ اس لئے خاوند کے نام سے نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
سوال:۔ اسی ملاقات میں ایک ممبر لجنہ کا سوال پیش ہوا کہ ان Pandemic حالات میں ہم پہلے کی طرح تبلیغ نہیں کر پا رہی ہیں۔ اب ان حالات میں ہم کس طرح اپنے کام کو جاری رکھ سکتی ہیں۔ حضور اس معاملہ میں ہماری راہنمائی فرما دیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کے جواب میں فرمایا:
جواب:۔ اب مجبوری ہے باہر تو نکل نہیں سکتے۔ بعض ملکوں میں حکومت کی طرف سے کووڈ کی وجہ سے Social Distancing اور بعض دوسری چیزوں کی بعض پابندیاں ہیں۔ لیکن اس میں آن لائن اپنے ذاتی رابطے کئے جا سکتے ہیں۔ جنہوں نے کام کرنا ہوتا ہے انہوں نے سوشل میڈیا پہ آن لائن تبلیغ کیلئے پروگرام بنا لئے ہیں۔ اگر آپ کا تبلیغ ڈپارٹمنٹ سوشل میڈیا پہ کوئی ویب سائٹ بنا لیتا ہے تو اس پہ لجنہ تبلیغ کر سکتی ہیں، ساری لجنہ شامل ہو سکتی ہیں۔ پھر اپنے Contacts کو فون کر کے یا سوشل میڈیا کے ذریعہ سے Message بھیج کے تبلیغ کرسکتی ہیں۔ اسلام کی تعلیم کے بارہ میں کوئی اچھا Message، کوئی اچھا Quote بھیج دیا۔ اس سے پھر آہستہ آہستہ رستے کھلتے ہیں۔ توان حالات میں بھی تبلیغ کرنے کے نئے نئے رستے Explore ہو سکتے ہیں، وہ تو خود کوشش کر کے Explore کرنے چاہئیں۔ ٹھیک ہے؟
سوال:۔ اسی ملاقات میں ایک ممبر لجنہ نے حضور سے دریافت کیا کہ شادی کے معاملہ میں دین کو ترجیح دینے کی بات کی گئی ہے۔ مگر آجکل لوگ خوبصورتی اور دوسری خصوصیات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جس وجہ سے جماعت کی کافی نیک اور دینی لڑکیوں کی شادی نہیں ہو رہی، اس بارہ میں حضور سے راہنمائی کی درخواست ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
جواب:۔ دیکھیں ہم نے تو کوشش کرنی ہے اور میں تو کوشش کرتا رہتا ہوں۔ لڑکوں کو بھی سمجھاتا رہتا ہوں۔ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ آنحضرت ﷺنے یہی فرمایا ہے کہ تم لوگ جو کسی سے شادی کرتے ہو تو اس کی خصوصیات کی بنا پر کرتے ہو یا اس کا خاندان دیکھتے ہو یا اس کی شکل دیکھتے ہویا اس کی دولت دیکھتے ہو۔لیکن ایک مومن جو ہے اس کو ہمیشہ عورت کا دین دیکھنا چاہیئے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر لڑکوں میں دین نہیں ہوگا تو وہ لڑکیوں کا دین کس طرح دیکھیں گے؟ تو جو جماعتی نظام ہے اور خدام الاحمدیہ ہے، میں ان کو بھی کہتا ہوں کہ لڑکوں میں دینداری پیدا کرو۔ جب لڑکوں میں دینداری پیدا ہوگی تو پھر وہ یقیناً ایسی لڑکیوں سے شادی کرنے کی کوشش کریں گے جو دیندار ہوں۔ تو یہ تربیت کا معاملہ ہے اور اس طرف میں جماعت کو بھی توجہ دلاتا رہتا ہوں اور خدام الاحمدیہ کو بھی توجہ دلاتا رہتا ہوں اور انصار اللہ کو بھی توجہ دلاتا رہتاہوں۔ لیکن لجنہ کا کام یہی ہے کہ وہ خود بھی کوشش کریں، جو بڑی عمر کی لجنہ ممبرات ہیں، مائیں ہیں وہ بھی اپنے بچوں اور لڑکوں کی تربیت کریں، ان کو توجہ دلائیں کہ تم نے نیک اور دیندار لڑکی سے شادی کرنی ہے۔ اگر مائیں اپنا کردار ادا کریں گی تو یقیناً ان کے لڑکے بھی دیندار لڑکیوں سے شادی کریں گے۔مسئلہ یہ ہے کہ جب لڑکے کی شادی کا معاملہ آتا ہے تو مائیں کہتی ہیں کہ ہمارا بچہ جو ہے ہم اس کی شادی اپنی مرضی سےکریں گے۔ اور جب لڑکیوں کی عمر گزر رہی ہوتی ہے اور لڑکیوں کے رشتے نہیں ملتے، جب وہ بڑی ہو جاتی ہیں، تو پھر مائیں اور باپ کہتے ہیں کہ جماعت ان کی شادی کرواد ے۔ حالانکہ دونوں کو جماعت کے سپرد کرنا چاہیئے اور کہنا چاہیئے کہ دیندار لڑکے اور دیندار لڑکیاں آپس میں مل کر شادیاں کریں تا کہ جماعت کے اندر ہی لڑکے اور لڑکیاں رہیں اور آئندہ بھی نیک اور دیندار نسل پیدا ہوتی رہے۔ تو یہ تو کوشش ہے، مردوں کی بھی اور عورتوں کی بھی مشترکہ کوشش ہے، جو مل کے کرنی چاہیئے۔ اس میں ماوٴں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور باپوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس کیلئے میں کوشش بھی کرتا ہوں، میں توجہ بھی دلاتا ہوں، دعا بھی کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔
سوال:۔ اسی ملاقات میں ایک سوال حضور انور کی خدمت اقدس میں یہ پیش ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا امر سب سے پسندیدہ اور کونسا امر سب سے نا پسندیدہ ہے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بارہ میں فرمایا:
جواب:۔ بات یہ ہے کہ ہر ایک کے حالات کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ کے پاس ایک شخص آیا اس نے کہا کہ کونسی نیکی ہے جو میں اختیار کروں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم اپنے ماں باپ کی خدمت کرو جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ ایک دوسرا شخص آیا اس نے کہا کونسی نیکی ہے جو میں کروں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم مالی قربانی کرو، یہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ تیسرا شخص آیا اس نے کہا بتائیں کونسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے جو میں کروں۔ آپؐ نے کہا اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ اسی طرح چوتھا شخص آیا اس کو ایک اور بات بتائی۔ تو آنحضرت ﷺ ان کے حالات جانتے تھے اور پتا تھا کہ کس کس میں کون کون سی کمزوریاں ہیں۔ کچھ ان کے حالات جاننے کی وجہ سے پتا ہوں گی، کچھ اللہ تعالیٰ بھی راہنمائی کرتا ہوگا۔ تو ہر ایک کے حالات کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ یہ انسان کو خود جائزہ لینا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سات سو احکام دئیے ہیں۔ نیکیاں بھی بتائی ہیں، نواہی بھی بتائے ہیں۔ یہ بھی بتایا ہے کہ کیا کام کرنے ہیں اور کیا منع ہیں۔اوامر کیا ہیں اور نواہی کیا ہیں۔کرنے والے کام کیا ہیں اور نہ کرنے والے کام کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی لسٹ بتا دی۔ اب خود انسان کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ میرے میں کونسی کمزوری ہے جس کو میں دور کروں اور کونسی نیکی ہے جو میں نہیں کرتا اس کو میں کروں۔ تو اگر ہر ایک اپنا جائزہ لے کر خود یہ کرے تو اصلاح پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لئے اپنے نفس سے فتویٰ لینا چاہئے۔ ہر ایک فتویٰ Black and White میں ظاہر نہیں ہوجاتا۔اصولی طور پر یہی حکم ہے کہ اپنی کمزوریوں کو تلاش کرو اور ان کو دور کرنے کی کوشش کرو۔ اورنہ صرف کمزوریاں دور کرو بلکہ نیکی بھی کرو۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے جو بنیادی اصول بتا دیا وہ یہ بتا دیا کہ تمہارے دو کام ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو، اس کی عبادت کا حق ادا کرو۔ اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق صحیح طرح ادا کیا جائے تو اللہ تعالیٰ پھر انسان کو توفیق دیتا ہے کہ وہ نیکیاں ہی کرتا رہے۔کیونکہ اس کی عبادت کا حق ادا ہو رہا ہوتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس کے بندوں کا حق ادا کرو۔جب انسان اس کے بندو ں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر کسی سے برائی نہیں کرتا اور پھر مزید نیکیوں کی بھی توفیق ملتی چلی جاتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ تو بنیادی چیز یہی ہے کہ اللہ کا حق ادا کرو اور بندوں کا حق ادا کرو۔باقی انسان تفصیلات میں جائے تواپنا خود جائزہ لے، اپنے ضمیر سے دیکھے، پوچھے کہ کیا برائیاں ہیں جو میں نے چھوڑنی ہیں اور کیا نیکیاں ہیں جو میں نے کرنی ہیں۔ باقی یہ بھی ہے کہ ایک شخص آیا اس نے آنحضرت ﷺسے کہا کہ میں اتنا نیک نہیں ہوں، میرے میں بہت ساری برائیاں ہیں۔ آپ مجھے ایک برائی بتا دیں جو میں چھوڑدوں، باقی میں ابھی نہیں چھوڑ سکتا۔ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا اچھا تم یہ عہد کر لو کہ تم نے جھوٹ نہیں بولنا، ہمیشہ سچ بولنا ہے۔ جب اس نے ہمیشہ سچ بولنے کا ارادہ کیا تو ہر دفعہ جب کوئی برائی کرنے لگتا تھا تو اسے خیال آتا تھا کہ اگر آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ تم نے یہ برائی کی ہے تو اگر میں سچ بولوں گا تو شرمندگی ہو گی، جھوٹ بولوں گا تو میں نے وعدہ کیا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اس طرح آہستہ آہستہ اس کی ساری برائیاں ختم ہو گئیں۔ تو انسان کو خود دیکھنا چاہیئے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ اس لئے انسان کو جائزہ لینا چاہیئے کہ میں نے چھوٹی سے چھوٹی با ت پہ بھی جھوٹ نہیں بولنا کیونکہ یہ شرک ہے اور اللہ تعالیٰ کو شرک نا پسند ہے۔ تو یہ بہت ساری باتیں ہیں جو ہر ایک کے حالات کے مطابق مختلف ہوتی ہیں۔ اس لئے خود جائزہ لے لیں کہ کیا کمی ہے۔ لیکن بنیادی اصول یہی ہے کہ اللہ کا حق ادا کرو اور بندوں کا حق ادا کرو اور جب کوئی کام کرنے لگو تو یہ دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ جب یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے، میرے ہر کام کو دیکھ رہا ہے تو پھر انسان برائی سے رُکے گا اور نیکیاں کرے گا۔
سوال:۔ اسی Virtual ملاقات مؤرخہ 14 نومبر 2020ء میں صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ بنگلا دیش نے حضور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور بنگلہ دیش کی لجنہ اور ناصرات کیلئے کوئی پیغام ارشاد فرما دیں جو اس میٹنگ کے بعد وہ سب کو پہنچا دیں۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جواب:۔ سب کو میرا السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ پہنچا دیں اور ساتھ یہ بھی کہہ دیں کہ اپنے ایمان پہ قائم رہنا۔ مشکل حالات آتے ہیں، پریشانیاں آتی ہیں، تکلیفیں آتی ہیں، اس کو کبھی اپنے دین پہ حاوی نہ ہونے دینا۔ اور ہمیشہ ہر مشکل اور ہر تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا۔ اور کسی انسان سے کسی قسم کی امید نہ رکھنا۔ اور اپنی اور اپنے بچوں کی اور اپنی نسل کی تربیت کیلئے عہد کرو کہ ہم نے انہیں نیک اور صالح بنانا ہے اور صحیح مومن بنانا ہے۔ اور اگر یہ دعا کریں گی اور اپنے بچوں کیلئے کوشش کریں گی تو ظاہر ہے کہ خود بھی اس کیلئے کوشش کرنی پڑے گی۔ اس لئے اپنی اصلاح کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دیں تاکہ آئندہ نیک نسلیں پیدا ہوتی رہیں۔ اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر ہماری عورتوں کی اصلاح ہو جائے اور ہماری عورتیں نیک ہو جائیں، ہماری عورتیں تقویٰ کے معیاروں کو حاصل کرنے لگیں تو ہماری نسلیں ان شاء اللہ تعا لیٰ محفوظ ہو جائیں گی، پھر ہمیں کوئی فکر نہیں ہوگی۔ یہی لجنہ اماءاللہ کا کام ہےاور یہی میرا پیغام سب لجنہ اماءاللہ کو اور سب ناصرات کو ہے جنہوں نے آئندہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ مائیں بننا ہے۔
(مرتبہ:۔ ظہیر احمد خان۔ انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)