• 28 اپریل, 2024

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بعض اسلامی اصطلاحات

کائنات کی بنیادی حقیقت

اس کائنات کی بنیادی حقیقت توحید باری تعالیٰ ہے جس سے کامل اور اکمل طور پر اسلام نے دنیا کو روشناس کرایا ہے اگر دنیا اس بنیادی حقیقت کی طرف نہیں آئے گی تو انسانیت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی اور اگر وہ اس تباہی سے بچی تو محض خدا کے فضل سے بچیگی اور اسے طَوْعاً وَّ کَرْہاً اس بنیادی حقیقت کی طرف آنا اور اسے تسلیم کرنا ہو گا

(دورہ مغرب 1400ھ صفحہ90)

ایک دوسری حقیقت جس طرح خدا ایک حقیقت ہے اسی طرح ایک دوسری حقیقت بھی ہے اور وہ ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کو خدا نے تمام روئے زمین کے انسانوں مرد و زن کے لئے بھیجا۔

(دورہ مغرب 1400ھ صفحہ522)

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وجود کہ کسی ماں نے ویسا جنا اور نہ جنے گی وہ صفات باری کےجلوے اپنے اندر جمع کئے ہوئے تھا۔

(جلسہ سالانہ کی دعائیں صفحہ47)

قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ

قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے:

سب سے محبت اور نفرت کسی سے نہیں

LOVE FOR ALL HATRED FOR NONE

(دورہ مغرب 1400ھ صفحہ533)

باہم محبت کرنا اس لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ محبت دنیا میں غالب آتی ہے اور نفرت ناکامی سے دوچار کرنے کا موجب بنتی ہے۔

(دورہ مغرب 1400ھ صفحہ185)

کار گرہتھیار

ایک چیز ہمارے پاس ہے اور وہ دنیا کے مہلک ترین ہتھیاروں سے بڑھ کر کارگر ہتھیار ہے اور وہ ہے دعا کا ہتھیار۔

(دور مغرب 1400ھ صفحہ165)

قانون قدرت اور سنت اللہ

اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ کوئی چیز بھی قانون سے باہر نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے جسے قانون قدرت کہتے ہیں۔

جب ہم اسے قانون قدرت کہتے ہیں تو یہ ایک ناقص اصطلاح ہے جب ہم اسے سنت اللہ کہتے ہیں تو یہ ایک کامل اصطلاح ہے قرآن کریم نے اس کو اللہ کی سنت یا سنت اللہ کی کامل اصطلاح سے بیان کیا ہے کہ تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاتے۔

جب میں نے کہا ہے کہ قانون قدرت غلط ناقص اصطلاح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس بات کو ایک سائنس دان نے قانون قدرت سمجھا اور کہا، کچھ عرصہ کے بعد مزید تحقیق اور تجسس کے نتیجہ میں معلوم ہوا کہ در اصل وہ قانون قدرت نہیں تھا بلکہ قانون قدرت اور ہی تھا کہ وہ غلط سمجھ رہے تھے اور اس دوسرے قانون قدرت کے ماتحت یہ واقعات رونما ہوئے تھے۔

(قرآ نی انوار صفحہ42)

خلافت آئمہ

مجلس انصار اللہ مرکزیہ ربوہ کے سالانہ اجتماع سے 1968ء پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ’’خلافت اور مجددیت‘‘ کے موضوع پر ایک جامع خطاب فرمایا اور بعض جدید اصطلاحات کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک ’’خلافت آئمہ‘‘ ہے۔

فرمایا:
’’آیت استخلاف میں خلافت کے ایک دوسرے سلسلہ کا وعدہ بھی دیا گیا ہے….. اس کو ہم خلافت آئمہ کہیں گے….. پہلا سلسلہ تو ہے جس سلسلہ کا خلیفہ اپنے وقت کے تمام خلفاء کا سردار ہوتا ہے اور وہ اس کے اجزاء ہوتے ہیں یہ کہنا کہ حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت میں حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور دوسرے بزرگ صحابہ جن میں بعض کو بعد میں خلافت ملی گو اکثر کو نہیں ملی۔…. وہ مصلح اور آئمہ تھے مگر وہ شریعت کے استحکام اور اشاعت قرآن کی مہم میں خلیفہ وقت کی مدد کرنے والے تھے اور خلافت کے ماتحت تھے اگر خلافت راشدہ سے اپنا تعلق قطع کر لیتے تو وہ خدا کی نگاہ میں خدا سے دور ہو جاتے اور تمام برکتیں ان سے چھین لی جاتیں جیسا کہ ان لوگوں سے برکتیں چھین لی گئیں جنہوں نے ظاہری طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلق کا اظہار کیا لیکن حضرت ابوبکر سے علیحدہ ہو گئے۔………..

خلافت راشدہ کا خلیفہ ان تمام کا سردار ہوتا ہے اور بڑا خوش قسمت ہے وہ خلیفہ جس کے ماتحت دوسروں کی نسبت زیادہ اس دوسرے سلسلہ کے خلفاء آئمہ موجود ہوں۔

جس خلافت راشدہ کے وقت جتنے زیادہ خلفاء اس دوسرے سلسلہ کے ہوں گے یعنی سلسلہ خلافت آئمہ کے جو مضبوتی کے ساتھ اس کے دامن کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور جن کے سینہ میں وہی دل جو خلیفہ وقت کے سینہ میں دھڑک رہا ہے دھڑک رہا ہوگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ ان کو طاقت بخشتی رہے گی آپ کے روحانی فیوض سے وہ حصہ لیتے رہیں گے اتنا ہی زیادہ اسلام ترقی کرتا چلا جائے گا اور دنیا میں غالب آتا چلا جائے گا۔

امام جماعت اور جماعت

میرے اور احباب کے وجود میں میرے نزدیک کوئی امتیاز اور فرق نہیں ہے ہم دونوں ’’امام جماعت‘‘ اور ’’جماعت‘‘ ایک ہی وجود کے دونام ہیں ااور ایک ہی چیز کے دو مختلف زاویے ہیں۔

(جلسہ سالانہ کی دعائیں صفحہ97)

خَیْلٌ لِّلرَّحْمَان گھوڑ دوڑ اور کِتَابُ الْخَیْل

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 9 دسمبر 1972ء کو ربوہ میں گھوڑ دوڑ ٹورنمنٹ کا آغاز فرمایا۔ اس کے لئے حضور نے خَیْلٌ لِّلرَّحْمَان کے نام سے ایک کمیٹی بنائی اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو اس کمیٹی کا صدر مقرر فرمایا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث صرف گھوڑوں کی افزائش، ان کی عادات کے مطالعہ اور ان کی نگہداشت کے بارے میں ہیں میں نے ان احادیث کو اکٹھا کرنا شروع کیا ہے اور اس مجموعہ کا نام کِتَابُ الْخَیْل رکھا ہے۔

(بحوالہ حیات ناصر جلد اول صفحہ629)

اَطْعِمُوْا الْجَآئِعَ

قرآن کریم سے اخذ کر کے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلانے کی تحریک کے لئے اَطْعِمُوْا الْجَآئِعَ کی اسلامی اصطلاح استعمال فرمائی۔

(حیات ناصر جلد اول صفحہ642)

(ابن ایف آر بسمل)

پچھلا پڑھیں

اعلانِ دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2021