اسلامی سال کا تیسرا قمری مہینہ
ماہِ ربیع الاول
اسلامی سال کا تیسری قمری مہینہ ’’ربیع الاول‘‘ ہے۔اسے ربیع الاولیٰ بھی کہاجاتا ہے۔یہ بابرکت مہینہ اسلامی سال میں بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس بابرکت مہینہ میں محسن انسانیت ہادیٔ کامل خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی جو تمام جہانوں کےلیے بہار ثابت ہوئی۔
ربیع الاول کی وجہ تسمیہ
ربیع کا لفظ ربع سےنکلا ہے۔ربع کے معنی توقف یاانتظار کرنے کے ہیں۔ربع بالمکان کا مطلب ہے کہ اقامت کرنا،ٹھہرنا۔ اہل عرب موسم بہار کی اقامت گاہ کو ربیع کہا کرتے تھے۔اسی طرح سبزہ زار اور پانی پر وارد ہونے اور اترنے کی جگہ منزل کو بھی ربیع کہا جاتا تھایہاں تک کہ ہرمنزل کو ’’رُبع‘‘ سے موسوم کیا جانے لگا۔ ’’الربع‘‘ کے ایک معنی گھر یا گھر کے اردگرد کے بھی ہیں۔اسی طرح ارتبع الجمل سے مراد ہے کہ اونٹ کا بہار کا سبزہ چر کر موٹا ہوجانا۔موسم بہار کی رم جھم کو بھی ’’ربیع‘‘ کہاجاتا ہے۔پس الربیع کے معنے موسم بہار، موسم بہار کی اقامت گاہ، موسم بہار کی بارش،موسم بہار کی پیداوار سبز چارہ وغیرہ کے ہیں۔
بہارکا ایسا موسم جس میں نہ سردی کی شدت ہواور نہ گرمی کی اورپھولوں کے کھلنے اور مہکنے کا موسم ہو اسے ربیع کہاجاتا ہے۔ حدیث نبویؐ میں ہے کہ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنَ رَبِيْعَ قَلْبِيْ
(مسند أحمد جزء6صفحہ247)
یعنی اے اللہ! قرآن کو میرے دل کی بہار بنادے۔
اس کے حاشیہ میں ’’ربیع قلبی‘‘ کی وضاحت یوں درج ہے۔
’’ربیع قلبی سے مراد یہ ہے کہ دل کو پاک صاف کرکے اسے قرآن کریم سے نفع حاصل کرنے والا،اس کے نور سے حصہ پانیوالا بنا۔اس کے درختوں اور پھلوں سے حظ اٹھانے والا بنا اور اسی طرح مختلف قسم کے علوم و معارف اور حکم و احکام اور لطیف نکات سے بہرہ ور فرما۔‘‘
(مسند أحمد جزء6صفحہ250)
یعنی جس طرح موسم بہار میں پھل پھول کھلتے ہیں اورموسم کو خوشگوارکرکےانسان کےلیے طمانیت قلب کا باعث بنتے ہیں۔اسی طرح قرآن بھی اطمینان قلب عطا کرکے انسانی مزاج کو خوشگوار بنادیتا ہے اور اس میں ایمان و یقین کے پھل اور پھول کھلتے ہیں اور انسانی زندگی میں بہار آجاتی ہے۔
ماہ ربیع الاول کی وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف آراء ہیں۔علامہ ابو علی مرزوقی (متوفی:421ھ) اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ
’’دونوں ربیعوں (ربیع الاول و ربیع االثانی) کا نام اس لیے رکھا گیا کیونکہ ان ایام میں لوگ اپنے گھروں میں قیام کیا کرتے تھے۔‘‘
(کتاب الازمنة والامکنة جزء1صفحہ205)
علامہ ابن کثیر نےعلامہ علم الدین سخاوی کی تصنیف ’’الْمَشْهُوْرُ فِي أَسْمَآءِ الْأَيَّامِ وَالشُّهُوْرِ‘‘ کے حوالہ سے اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس مہینہ کا نام لوگوں کا گھروں میں قیام کرنے کی وجہ سے رکھا گیا اور ارتباع کے معنی موسم بہار میں قیام کرنے کے ہیں۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر جزء4صفحہ146)
بعض کے نزدیک ماہ ربیع الاول کا نام بہار کے موسم میں رکھا گیا جب درختوں کے پتے کھل رہے تھے اس لیے یہ ربیع الاول کہلایا۔
ربیع الاول کے دیگر نام
زمانہ جاہلیت میں ربیع الاول کے بعض دوسرے نام بھی تھے جن میں ایک نام ’’خوان‘‘ ہے۔اسی طرح اس مہینہ کو ’’مورد‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔
(الشماریخ فی علم التاریخ از جلال الدین سیوطی صفحہ39)
دورحاضر میں بعض لوگ ربیع الاول کو ’’ربیع النور‘‘ بھی کہتے ہیں۔اس کی وجہ وہ رسول اللہﷺ کی ولادت باسعادت قرار دیتے ہیں کہ آپﷺ نُوْرٌ مِّنْ نُّوْرِ اللّٰہِ ہیں۔چنانچہ اس بارہ میں ایک شعر بھی ہے کہ
لِھٰذَا الشَّھْرِ فِی الْاِسْلَامِ فَضْلٌ وَ مَنْقَبَةٌ تُفَوِّقُ عَلَی الشُّھُوْرِ
رَبِیْعٌ فِیْ رَبِیْعٍ فِیْ رَبِیْعٍ وَ نُوْرٌ فَوْقَ نُوْرٍ فَوْقَ نُوْرٍ
یعنی اسلام میں اس مہینہ کی خاص فضیلت اور منقبت ہے جو اسے دوسرے مہینوں پر فوقیت بخشتی ہے اور وہ امتیاز رسول اللہﷺ کی ولادت باسعادت ہے جو خود بہار ہیں اور بہار کے موسم میں پیدا ہوئے اوروہ خود نور ہیں جو نور علی نور ہیں۔
رسول اللہؐ کی ولادت باسعادت
ماہ ربیع الاول وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں سرور کونین رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔علامہ جلال الدین سیوطیؒ بیان کرتے ہیں کہ ماہ ربیع الاول وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں آپﷺ کی ولادت ہوئی اور ہجرت مدینہ کا سفر بھی اسی مہینہ میں ہوا اور آپؐ کا وصال بھی اسی مہینہ میں ہوا۔
(الشماریخ فی علم التاریخ صفحہ39)
یہ اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر خاص احسان تھا کہ اس نے رحمة للعالمینﷺ کو دنیا میں مبعوث فرمایا۔آپﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل کسریٰ نوشیروان کے عہدمیں ہوئی۔ربیع الاول کا بابرکت مہینہ تھا۔9 تاریخ تھی۔سوموار کے مبارک دن کا صبح کا وقت تھا۔جو عیسوی کیلنڈر کے مطابق 20 اپریل571ء کی تاریخ بنتی ہے۔
جمہورعلماء کا اتفاق ہے کہ رسول اللہﷺ کی ولادت باسعادت مکہ میں عام الفیل میں ماہ ربیع الاول میں ہوئی۔البتہ تاریخ ولادت کے بارہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں:
- پہلا قول یہ ہے کہ آپ کی ولادت 8 ربیع الاول کو ہوئی۔علامہ مسعودی،علامہ محمد بن موسیٰ خوارزمی،علامہ ابن عبد البر،علامہ مطہر مقدسی وغیرہ نے آٹھ ربیع الاول بیان کی ہے۔
- دوسرا قول 10ربیع الاول کے بارہ میں ہے۔علامہ دمیاطی، علامہ ابن جوزی،ابو جعفر محمد بن علی وغیرہ نے اسے بیان کیا ہے۔
- تیسرا قول 12ربیع الاول کے متعلق ہے جو سعید بن مسیبؒ سے مروی ہے۔جس کے ابن اسحاق،ابن حبان،ابن رجب وغیرہ قائل ہیں اور جمہور میں یہ تاریخ مشہور ہے۔
علامہ شمس الدین ابو المعالی ابن الغزی (متوفی:1167ھ)لکھتے ہیں:
’’رسول اللہﷺ کے یوم ولادت کے بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن مشہور بارہ ربیع الاول ہے۔کہا گیا ہے کہ رات کا وقت یا دن کا۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو ربیع الاول ہے اور آٹھ ربیع الاول کے بھی اقوال ہیں جسے ائمہ کی ایک جماعت نے صحیح قرار دیا ہے اور دس ربیع الاول کی تاریخ بھی بتائی جاتی ہے۔‘‘
(دیوان الاسلام جزء1صفحہ 20)
علامہ ابن کثیر(متوفی:774ھ) بیان کرتے ہیں کہ
’’ایک قول یہ ہے کہ آپﷺ بارہ 12ربیع الاول کو پیدا ہوئے یہ ابن اسحاق نے درج کیا ہے۔ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں عفان سے اور عفان نے سعید بن میناء سے اور انہوں نے حضرت جابرؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہﷺ عام الفیل میں بروز سوموار بارہ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے اور اسی بابرکت مہینہ میں آپؐ مبعوث ہوئے اور اسی مہینہ میں معراج ہوا اور اسی میں ہجرت کرکے مدینہ داخل ہوئے اور اسی مہینہ میں آپ کا وصال ہوا اور جمہور کے نزدیک یہی بات مشہور ہے۔وَاللّٰہُ اَعْلَمُ۔‘‘
(البدایہ والنھایہ جزء 2 صفحہ320)
4۔چوتھا قول جدید تحقیق کی رو سے 9 ربیع الاول ہے۔جسے دورحاضر کے مورخین اور سیرت نگاروں نے راجح اور درست قرار دیا ہے۔علامہ اکبر شاہ نجیب آبادی،علامہ معین الدین ندوی،علامہ شبلی نعمانی،علامہ محمد سلیمان منصورپوری،اور علامہ صفی الرحمن مبارکپوری، علامہ محمود پاشافلکی وغیرہ نو 9ربیع الاول کو ہی آپﷺ کی درست تاریخ ولادت قرار دیتے ہیں۔
علامہ محمود پاشا فلکی نے تو علم تاریخ و حساب کی رو سے رسول اللہﷺ کی تاریخ ولادت کو نو ربیع الاول بمطابق 20اپریل 571ء بیان کی ہے۔
(کتاب نتائج الافھام فی تقویم العرب قبل الاسلام و فی تحقیقی مولد النبی و عمرہ علیہ الصلاة والسلام ازمحمود پاشا مصری صفحہ 21تا25)
ولادت نبویؐ کے زمانہ میں
خارق عادت نشانات کا ظہور
علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری لکھتے ہیں کہ
’’ابن سعدکی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کی والدہ نے فرمایا:’’جب آپ کی ولادت ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس میں ملک شام کے محل روشن ہوگئے۔‘‘امام احمد نے حضرت عرباض بن ساریہ سے بھی تقریباً اسی مضمون کی ایک روایت نقل فرمائی ہے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’بعض روایتوں میں بتایا گیا ہے کہ ولادت کے وقت بعض واقعات نبوت کے پیش خیمے کے طور پر ظہور پذیر ہوئے یعنی ایوان کسیٰ کے چودہ کنگورے گرگئے۔مجوس کا آتشکدہ ٹھنڈا ہوگیا۔بحیرہ ساوہ خشک ہوگیا اور اس کے گرجے منہدم ہوگئے۔یہ بیہقی کی روایت ہے لیکن محمد غزالی نے اس کو درست تسلیم نہیں کیا۔‘‘
(الرحیق المختوم از علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری صفحہ 83)
علامہ زرقانی اور علامہ حسین بن محمد دیار بکری (متوفی:966ھ)نے اپنی کتب میں ایک اور روایت درج کی کہ آپﷺ کی ولادت کے وقت آسمان پر غیر معمولی بکثرت ستارے ٹوٹتے نظر آتے تھے۔
(تاریخ الخمیس جزء1 صفحہ198)
عیدمیلادالنبیؐ منانے کی حقیقت
محسن انسانیت رسول اللہﷺ کی ولادت سعادت بلاشبہ تمام دنیا کےلیے ایک بہت بڑی رحمت ہے۔آپﷺ تمام انسانوں کےلیے اسوۂ کامل ہیں۔زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر طبقہ کےلیے آپ کی حیات مبارکہ بے مثال نمونہ ہے۔جس کاتذکرہ کرناکسی زمان و مکان کا متقاضی نہیں۔خصوصاً ایک تاریخ معین کرکے اس میں جشن منانا اس صورت میں مناسب نہیں جبکہ سنت نبویؐ اور سنت خلفائے راشدین میں ایسی کوئی مثال نہ ملتی ہو۔
اسلامی شریعت میں دو عیدوں کا ذکر ملتا ہے۔عید الفطر اور عیدالاضحی۔کسی تیسری عید کا ذکر موجود نہیں۔ہاں جمعہ کے دن کو عید کے دن سے مناسبت دی گئی ہے۔علاوہ ازیں عید میلاد النبیؐ کے حوالہ سے کوئی شرعی حکم یا عمل سنت نبویؐ و سنت خلفائے راشدینؓ اور صحابہؓ سے ثابت نہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲﴾
(الحجرات:2)
اے لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پىش قدمى نہ کىا کرو اور اللہ کا تقوى اختىار کرو ىقىناً اللہ بہت سننے والا (اور) دائمى علم رکھنے والا ہے۔
پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ
فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ
(سنن ابن ماجہ کتاب أبواب السنۃبَابُ اتِّبَاعِ سُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ)
یعنی میرے بعد جب اختلافات ہوں گے تو تم میری اورمیرے خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی کرنا۔
پس تاریخ سے ثابت ہے کہ عہد نبویؐ یا عہد خلفائے راشدین یا کسی صحابیؓ یا تابعی کے زمانے میں عید میلادالنبیؐ کا ذکر نہیں ملتا۔
رسول اللہﷺ کی آمد اس دنیا میں ایک عظیم الشان اور اہم واقعہ تھا جس کا سال واقعہ اصحاب الفیل یعنی عام الفیل تو بیان کردیاگیا لیکن تاریخ ولادت کی اگر اس قدر اہمیت ہوتی جتنی آجکل عوام الناس میں جس طرز پر یہ منائی جاتی ہے تو صحابہ رسول اللہﷺ سے آپؐ کی زندگی میں ہی ضرور اس بارہ میں دریافت کرلیاجاتا اور اس کے منانے کے جواز اور طریق کے بارہ میں استفسار کرلیاجاتا اور رسول اللہﷺ جو شارح قرآن اور ہادیٔ کامل ہیں وہ اس بارہ میں اپنی امت کی لازماًرہنمائی فرمادیتےاورخود اپنی تاریخ ولادت منانے اور عید میلاد منعقد کرنے کا اسوہ دیتے۔اور آپؐ کے بعد آپ کے خلفاءؓ اس پر عمل پیرا ہوتے۔
اگر عہد نبویؐ یا عہد خلفائے راشدین میں ایسا کوئی حکم یا طریق بیان ہوا ہوتا تو اول تو تاریخ ولادت میں اختلاف کا امکان ہی نہ رہتا اورتعامل امت کی وجہ سے اس کے منانے کا شرعی جواز بھی مل جاتا۔جیساکہ عید الفطر اور عید الاضحی کے منانے کا شرعی جواز اور احکام موجود ہیں اور تعامل امت موجود ہے۔
پس خیرالقرون میں ایسی کسی عید کا انعقاد نہ کیاجانا یہ ثابت کرتا ہے کہ ایسے جشن کی اسلام میں کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
جشن عید میلاد کی ابتداء
خیرالقرون پہلی تین صدیوں میں تو اس عید کا کہیں وجود نظر نہیں آتا۔پھر آخر اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟اور اس کا اصل محرک کون تھا؟
ان سوالات کا جواب ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ مبارکہ میں درج ہے۔آپ فرماتے ہیں:
’’وہ شخص جس نے اس کا آغاز کیا، اس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ عبداللہ بن محمد بن عبداللہ قداح تھا۔ جس کے پیرو کار فاطمی کہلاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور اس کا تعلق باطنی مذہب کے بانیوں میں سے تھا۔ باطنی مذہب یہ ہے کہ شریعت کے بعض پہلو ظاہر ہوتے ہیں، بعض چھپے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کی یہ اپنی تشریح کرتے ہیں۔ ان میں دھو کے سے مخالفین کو قتل کرنا، مارنا بھی جائز ہے اور بہت ساری چیزیں ہیں اور بے انتہا بدعات ہیں جو انہوں نے اسلام میں داخل کی ہیں اور ان ہی کے نام سے منسوب کی جاتی ہیں۔ پس سب سے پہلے جن لوگوں نے میلاد النبیﷺ کی تقریب شروع کی وہ باطنی مذہب کے تھے اور جس طرح انہوں نے شروع کی وہ یقینا ایک بدعت تھی۔ مصر میں ان کی حکومت کا زمانہ 362 ہجری بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اَوربھی بہت سارے دن منائے جاتے تھے۔ یوم عاشورہ ہے۔ میلاد النبیؐ تو خیر ہے ہی۔ میلاد حضرت علیؓ ہے۔ میلاد حضرت حسنؓ ہے۔ میلاد حضرت حسینؓ ہے۔ میلا د حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ ہے۔ رجب کے مہینے کی پہلی رات کو مناتے ہیں۔ درمیانی رات کو مناتے ہیں۔ شعبان کے مہینے کی پہلی رات مناتے ہیں۔ پھر ختم کی رات ہے۔ رمضان کے حوالے سے مختلف تقریبات ہیں اور بے تحاشا اور بھی دن ہیں جو مناتے ہیں اور انہوں نے اسلام میں بدعات پیدا کیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا مسلمانوں میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو بالکل اس کو نہیں مناتے اور عید میلا دالنبیؐ کوبدعت قرار دیتے ہیں۔ یہ دوسرا گروہ ہے جس نے اتنا غلو سے کام لیا کہ انتہا کر دی۔‘‘
(خطبہ جمعہ 13 مارچ 2009ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍ اپریل 2009ء صفحہ 5-6)
علامہ مقریزی لکھتے ہیں:
’’فاطمی خلفاء سارا سال عیدیں اور تہوار مناتے تھے۔یہ تہوار شروع سال میں ہوتے تھے اورسال کے شروع میں یوم عاشوراء، میلاد النبیؐ، میلاد حضرت علیؓ، میلاد حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ۔میلاد حضرت فاطمہؓ اور موجود خلیفہ کے میلاد کا تہوار ہوتا تھا۔‘‘
(المواعظ والاعتبار بذکر الخط والآثار جزء2 صفحہ118)
پس چوتھی صدی ہجری میں فاطمی خلفاء نے عید میلاد کا آغاز کیا جس پر تمام علماء متفق ہیں۔شیخ علی محفوظ لکھتے ہیں:
’’سب سے پہلے قاہرہ میں چوتھی صدی ہجری میں فاطمی خلیفوں نے عید میلاد کو جاری کیا۔انہوں چھ میلاد ایجاد کیے: میلاد النبیؐ،میلاد حضرت علیؓ،میلاد حضرت فاطمہؓ، میلاد حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ اور موجودخلیفہ کا میلاد۔یہ میلاد اپنی رسوم کے ساتھ جاری رہے یہاں تک کہ افضل بن امیر الجیوش نے آکر ان کو ختم کردیا۔‘‘
(الابداع فی مضار الابتداء صفحہ251)
اس کا دوبارہ اجراء موصل میں عمر بن محمد الملا نے کیا اوراربل کے بادشاہ مظفر ابو سعید کوکبوری بن زین الدین علی نے بھی اس کو چھٹی صدی ہجری میں دوبارہ جاری کیا۔علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ
’’میلاد کے موقع پر کبار مولوی اور صوفیاء اس کے پاس آیا کرتے اور وہ انہیں خلعت فاخرہ پہناتا اور عطیات سے نوازتا۔صوفیاء کے لیے محفل سماع کا انعقاد کرواتا اور ان کے ساتھ مل کر رقص کرتا اور ہر سال میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔‘‘
(البدایہ والنھایہ جزء 3 صفحہ160)
عید میلاد النبیؐ اور جماعت احمدیہ کا موقف
عیدمیلاد النبیؐ کے بارہ میں اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ کا ارشاد مشعل راہ ہے۔
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مولو د خوانی پر سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ: ’’آنحضرتﷺ کا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خد انے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جاویں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں۔ خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو۔ آج کل کے مولویوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں۔ اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تووہ ایک وعظ ہے۔ آنحضرتﷺ کی بعثت، پیدائش اور وفات کا ذکر ہو تو موجب ثواب ہے۔ ہم مجاز نہیں کہ اپنی شریعت یا کتاب بنا لیویں‘‘۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ159-160 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
ایک موقع پر جماعت احمدیہ شملہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھا کہ عید میلاد کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟اس پر آپؓ نے فرمایا:
’’عید میلاد بدعت ہے۔ عیدیں دو ہیں۔ اس طرح تو لوگ نئی نئی عیدیں بناتے جائیں گے۔ اور احمدی کہیں گے کہ مرزا صاحب پر الہام اوّل کے دن ایک عید ہو۔ یوم وصال پر عید ہو۔ آنحضرتؐ کے سب سے بڑے محب تو صحابہ تھے۔ انہوں نے کوئی تیسری عیدنہیں منائی بلکہ ان کا یہی مسلک رہا کہ’’بزہد و ورع کوش وصدق وصفا ولیکن میفزائے بر مصطفیؐ‘‘
اگر عید میلاد جائز ہوتی۔ تو حضرت صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)آنحضرتؐ کے بڑے محب تھے۔ وہ مناتے۔ ایسی عید نکالنا جہالت کی بات ہے۔ اور نکالنے والے صرف عوام کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ ان میں کوئی دینی جوش نہیں۔ ‘‘
(حیات نور باب ہفتم صفحہ508 انٹرنیشنل 8 نومبر2019ء)
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارہ میں رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بہرحال خلاصہ یہ کہ مولود کے دن جلسہ کرنا، کوئی تقریب منعقد کرنا منع نہیں ہے بشرطیکہ اس میں کسی بھی قسم کی بدعات نہ ہوں۔ آنحضرتﷺ کی سیرت بیان کی جائے۔ اور اس قسم کا (پروگرام) صرف یہی نہیں کہ سال میں ایک دن ہو۔ محبوب کی سیرت جب بیان کرنی ہے تو پھر سارا سال ہی مختلف وقتوں میں جلسے ہو سکتے ہیں اور کرنے چاہئیں اور یہی جماعت احمدیہ کا تعامل رہا ہے، اور یہی جماعت کرتی ہے۔ اس لئے یہ کسی خاص دن کی مناسبت سے نہیں، لیکن اگر کوئی خاص دن مقرر کر بھی لیا جائے اور اس پہ جلسے کئے جائیں اور آنحضرتﷺ کی سیرت بیان کی جائے بلکہ ہمیشہ سیرت بیان کی جاتی ہے۔ اگر اس طرح پورے ملک میں اور پوری دنیا میں ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ بدعات شامل نہیں ہونی چاہئیں۔ کسی قسم کے ایسے خیالات نہیں آنے چاہئیں کہ اس مجلس سے ہم نے جوبرکتیں پالی ہیں ان کے بعد ہمیں کوئی اور نیکیاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیساکہ بعضوں کے خیال ہوتے ہیں۔ تو نہ افراط ہو نہ تفریط ہو۔‘‘
(خطبہ جمعہ 13 مارچ 2009ء)
ہجرت مدینہ اور ماہ ربیع الاول
ربیع الاول وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں رسول اللہﷺ مدینہ میں داخل ہوئے۔رسول اللہﷺ نے مکہ سے ماہ صفر کے آخر میں کوچ فرمایا اور غارثور میں تین راتیں قیام کے بعد عازم مدینہ ہوئے اور دوشنبہ 8 ربیع الاول 14نبوی یعنی 1 ہجری کوقبا میں تشریف لائے۔علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری لکھتے ہیں:
’’آپﷺ کے استقبال اور دیدار کےلیے سارا مدینہ امڈ پڑا تھا۔یہ ایک تاریخی دن تھا جس کی نظیر سرزمینِ مدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی۔‘‘
(الرحیق المختوم اردو مترجم صفحہ 239)
رسول اللہؐ کے وصال کا مہینہ
رسول اللہﷺ کا وصال ربیع الاول کے مہینہ میں بروز سوموارہی ہوا۔علامہ طبری لکھتے ہیں:
’’جہاں تک رسول اللہﷺ کے یوم وفات کا تعلق ہے تو اس بارہ میں علماء کا اتفاق ہے کہ آپؐ کی وفات ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار کو ہوئی۔‘‘
(تاریخ طبری جزء3 صفحہ 199)
البتہ وفات کی تاریخ کی تعیین میں اختلاف ہے۔اکثر علماء نے بارہ ربیع الاول ہی رسول اللہﷺ کی تاریخ وفات بیان کی ہے۔
ماہ ربیع الاول کے دیگراہم تاریخی واقعات
عہد نبویؐ اور عہد خلفائے راشدین میں ماہ ربیع الاول میں جو اہم تاریخی واقعات ہوئے ان میں غزوہ بواط،غزوہ دومة الجندل،لشکر اسامہ کی روانگی،جنگ یمامہ وغیرہ شامل ہیں۔حضرت ام کلثومؓ اور حضرت عثمانؓ کا نکاح اسی بابرکت مہینہ میں 3ھ کوہوا۔حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کی وفات ربیع الاول5ھ میں ہوئی۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت معاویہؓ میں صلح اسی بابرکت مہینہ میں 41ھ کوہوئی۔حضرت امام حسنؓ کی وفات ربیع الاول 49ھ میں ہوئی۔
(ابوفاضل بشارت)