• 18 مئی, 2024

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام (قسط 41)

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام
آسمانی تعلیم و تربیت
قسط 41

چوں حاجتے بود بادیب دگر مرا
من تربیت پذیر ز ربّ مہیمنم

مجھے کسی اور استاد کی ضرور ت کیوں ہو۔ میں تو اپنے خدا سے تربیت حاصل کئے ہوئے ہوں۔

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ658)

اللہ تبارک تعالیٰ خود اپنے انبیا کا معّلم ہو کر ان کو علوم آسمانی سے بہرہ ور فرماتا ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا وَعَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا

(البقرہ: 32)

اور اس نے آدم کو تمام نام سکھائے۔ اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسٰی علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا کہ اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّعِلۡمًا (الانبیاء: 75) اسے ہم نے حکمت و علم عطا کیا تھادیگر انبیاء کے بارہ میں بھی یہی فرمایا گیا وَکُلًّا اٰتَیۡنَا حُکۡمًا وَّعِلۡمًا (الانبیاء: 80) اور ہر ایک کو ہم نے حکمت اور علم عطا کئے۔

نبی کریمﷺ کو مخاطب کر کے اللہ تعا لیٰ نے فرمایا وَعَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ (النساء: 114) اور تجھے وہ کچھ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا۔

تلاوت آیات، قرآن کا علم و حکمت اور تزکیہ نفوس

آنحضورﷺ کے ساتھ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی:

رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَیُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۱۳۰﴾

(البقرہ: 130)

اے ہمارے ربّ! تو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور (اس کی) حکمت بھی سکھائے اور ان کا تزکیہ کر دے۔ یقیناً تو ہی کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔

یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تعلیم و تربیت دے کر تلاوت آیات اور کتاب کی تعلیم و حکمت سکھانے کے لئے آنحضورﷺ کو مبعوث فرمایا۔ انبیائے کرام کی بعثت حادثاتی یا اتفاقی طور پر نہیں ہوتی۔ اللہ قادرو توانا ہزارہا سال پشت ہا پشت ان کے جوہر کی حفاظت کرتا ہے۔ پھر اپنے خاص فضل و کرم سے اپنے نور سے ممسوح کر کے پاک فطرت ودیعت کر کے پیدائشی طور پر اخلاق فاضلہ سے مزین کرکے اس پاک نفس کو بھیجتا ہے جس کی سرشت میں صرف بھلائی اختیار کرنا اوربرائی سے دور ہٹنا شامل ہوتا ہے۔ یہ خصوصیات کوئی دنیاوی استاد نہیں سکھا سکتا۔ رسول پاکﷺ تو امّی تھے حضرت جبرائیل جب غار حرا میں اللہ کا پیغام لے کر آئے اور آپﷺ کو پڑھنے کا ارشاد کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ما انا بقاریء میں تو پڑھنا نہیں جانتا اور یہ حقیقت تھی۔ پھر آپﷺ کو جو کچھ سکھایا اللہ پاک نے خود سکھایا۔ اللہ تبارک تعالیٰ کی سرکار سے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے صرف آنحضرتﷺ کو ’’النبی الامی ‘‘ کا امتیازی قابل فخر خطاب عطا ہوا۔ یہ آپﷺ سے خاص تھا۔

خدائے رحمان نے خود قرآن پاک سکھایا

وَکَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا ؕ مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَلَا الۡاِیۡمَانُ وَلٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ وَاِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿ۙ۵۳﴾

(الشعراء:53)

اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک زندگی بخش کلام وحی کیا۔ تو جانتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے لیکن ہم ہی نے اسے نوربنایا جس کے ذریعہ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اوریقیناً تو سیدھے راستہ کی طرف چلاتا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آپﷺ کے نبی امی ہونے کی حکمت سمجھاتے ہیں:
’’متقی کا معلم خدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ نبیوں پر امیت غالب ہوتی ہے ہمارے نبی کریمﷺ کو اس لئے امی بھیجا کہ باوجود یہ کہ آپﷺ نے نہ کسی مکتب میں تعلیم پائی اور نہ کسی کو استاد بنایا۔ پھر آپؐ نے وہ معارف اور حقائق بیان کئے جنہوں نے دنیوی علوم کے ماہروں کو دنگ اور حیران کردیا۔ قرآن شریف جیسی پاک، کامل کتاب آپؐ کے لبوں پر جاری ہوئی۔ جس کی فصاحت و بلاغت نے سارے عرب کو خاموش کرادیا۔ وہ کیا بات تھی جس کے سبب سے آنحضرتﷺ علوم میں سب سے بڑھ گئے۔ وہ تقویٰ ہی تھا۔ رسول اللہﷺ کی مطہر زندگی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ قرآن شریف جیسی کتاب وہ لائے۔ جس نے دنیا کو حیران کردیاہے۔ آپؐ کا امی ہونا ایک نمونہ اور دلیل ہے اس امر کی کہ قرآنی علوم یا آسمانی علوم کے لئے تقویٰ مطلوب ہے نہ دنیوی چالاکیاں۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ سورۃ الاعراف صفحہ241)

آپؐ کا ہر کلام وحی ٔ الٰہی کے تحت ہوتا

آپؐ کی ہر بات میں خدا تعالیٰ بولتا۔ ہمہ وقت فرشتے آپؐ کو اپنے حصار میں رکھتے۔

وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۴﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ﴿۵﴾

(النجم: 4-5)

یہ تو محض ایک وحی ہے جو اتاری جارہی ہے اور وہ خواہش نفس سے کلام نہیں کرتا۔

صاحب تجربہ کی تشریح دیکھئے:
’’نبی کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پیدا ہوتی ہیں درحقیقت وہ تمام وحی ہوتی ہیں جیسا کہ قرآن کریم اس پر شاہد ہے۔ ۔ ۔ لیکن قرآن کریم کی وحی دوسری وحی سے جو صرف معانی منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلو میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر یک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ353)

کشفی طور پر دنیاوی آلائشوں سے پاک کیا

حضرت رسول پاکﷺ کوبہت چھوٹی عمر میں آلائشوں سے پاک کردیا گیا تھا۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب کہ آنحضرتﷺ بعض بچوں کے ساتھ مل کر کھیل رہے تھے آپﷺ کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور آپﷺ کو زمین پر لٹا کر آپﷺ کا سینہ چاک کر دیا اور پھر آپﷺکے سینہ کے اندر سے آپﷺ کا دل نکالا اور اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور ساتھ ہی کہا کہ یہ کمزوریوں کی آلائش تھی جو اب تم سے جدا کر دی گئی ہے۔ اس کے بعد جبرائیل نے آپﷺکے دل کو مصفیٰ پانی سے دھویا اور سینہ میں واپس رکھ کر اسے پھر جوڑ دیا۔ جب بچوں نے جبرائیل کو آپﷺ کو زمین پر گراتے اور سینہ چاک کرتے ہوئے دیکھا تو وہ گھبرا کر دوڑتے ہوئے آپﷺ کی دائی کے پاس گئے اور کہا کہ محمد کو کسی نے قتل کر دیا ہے۔ جب یہ لوگ آنحضرتﷺ کے پاس پہنچے تو فرشتہ غائب تھا اور آپﷺ ایک خوفزدہ حالت میں کھڑے تھے۔ (مسلم جلد1 باب الاسراء) یہ واقعہ ایک کشفی نظارہ تھا۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ معراج کی رات بھی آنحضرتؐ کے ساتھ اسی قسم کے شقّ صدر کا واقعہ ہوا اور فرشتوں نے آپ کا دل نکال کر زمزم کے مصفّا پانی سے دھویا اور پھر اپنی جگہ پر رکھ دیا۔

(بخاری باب المعراج)

اللہ پاک نے فصاحت عطا فرمائی

حضرت نبی کریمﷺ امّی تھے تاہم اللہ پاک نے آپؐ کو عرب میں سب سے زیادہ فصیح بنایا تھا۔ جب آپؐ سے پوچھا گیا کہ آپؐ کی اس قدر فصاحت کا سبب کیا ہے تو آپؐ نے فرمایا:
اَنَا اَعْرَبُكُمْ اَنَا قُرَشِيٌّ وَاسْتُرْضِعْتُ فِي بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ یعنی میں عربی میں تم سب سے زیادہ فصیح ہوں، میں قریشی ہوں اور میری رضاعت بنو سعد بن بکر میں ہوئی ہے۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ681)

آپؐ کا فرمان ہے اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِم یعنی مجھے جَوَامِعُ الْکَلِم عطا کئے گئے۔

(مسلم صفحہ 210 حدیث:1167)

یہ جوامع الکلم آپؐ کی عظمت نبوت کا ثبوت ہیں اور یہ آپؐ کے خصائص عظیمہ میں سے ہیں۔

فطری وقدرتی نیک رجحان

جو عمر بچے کے ادب آداب سیکھنے کی ہوتی ہے اس میں یہ یتیم بچہ کچھ عرصہ ماں کا لاڈ پیار دیکھ اس سے ہمیشہ کے لئےمحروم ہوگیا۔ دادا نے پیار دیا مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی۔ آپؐ چچا کے گھر آگئے۔ کچھ تو قدرتی طور پر سنجیدہ تھے کچھ حالات نے خاموش رہنا سکھا دیا آپ ایک مؤدب بچے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس زمانے کا بڑا پیارا نقشہ کھینچا ہے فرماتے ہیں:
ابو طالب بعض دفعہ اپنے بچوں کے سامنے کہتے کہ ’’یہ میرا بچہ ہے‘‘ رات کو عموما ً اپنے ساتھ سلاتے تھے یہی کوشش رہتی کہ حضرت محمدﷺہر وقت آپ کی آنکھوں کے آگے رہیں۔ کبھی کسی کام کے لئے باہر جاتے تو آکر تسلی کرتے کہ آپؐ بھوکے تو نہیں رہے۔ آپؐ کی چچی بھی آپؐ پر سختی نہیں کرتی تھیں۔ دراصل آپ اتنی پیاری اداؤں کے مالک تھے کہ سختی کی ضرورت ہی پیش نہ آتی تھی۔ ۔ ۔ آپؐ کے چچا کے گھر میں جب کھانا تقسیم ہوتا تھا تو آپؐ کبھی بڑھ کر مانگا نہیں کرتے تھے۔ باقی بچے لڑ جھگڑ کر مانگتے مگر رسول کریمﷺ ایک طرف خاموش کھڑے رہتے اور جب آپؐ کی چچی آپؐ کو کچھ دیتی تو آپؐ لے لیتے خود مانگ کر نہیں لیتے تھے۔ ۔ ۔ بعض دفعہ ابو طالب جب گھر میں آتے اور وہ رسول کریمﷺ کو عام بچوں سے الگ ایک طرف کھڑے دیکھتے اور یہ بھی دیکھتے کہ باقی بچے شور کر رہے ہیں اور لڑ جھگڑ کر چیزیں لے رہے ہیں۔ مثلاً مٹھائی تقسیم ہورہی ہے تو ایک کہتا میں مٹھائی کی ایک ڈلی نہیں دو ڈلیاں لوں گا۔ دوسرا کہتا ہے اماں مجھے توتونے کچھ بھی نہیں دیا اسی طرح ہر بچہ اپنا حق جتا کر چیز کا مطالبہ کر رہا ہے اور رسول کریمﷺ ایک کونے میں خاموش بیٹھے ہوئے ہیں تو ابو طالب ان کو بازو سے پکڑ لیتے اور کہتے میرے بچے تو یہاں کیوں خاموش بیٹھا ہے۔ پھر وہ آپؐ کو لا کر اپنی بیوی کے پاس کے پاس کھڑا کر دیتے اور کہتے ، تو بھی اپنی چچی سے چمٹ جااور اس سے مانگ۔ مگر رسول کریمﷺ نہ چمٹتے اور نہ کچھ مانگتے۔ رسولﷺ کی یہ حالت دراصل ان ہی جذبات کا نتیجہ تھی کہ آپؐ سمجھتے تھے میرا اس گھر پر کوئی حق نہیں اور جو کچھ مجھے ملتا ہے بطور احسان ملتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ255۔ 256)

لکھنے پڑھنے کی عمر میں دنیاوی استادوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اللہ پاک نے آپؐ کو اپنی گود میں مثل طفل شیر خوار لے کر سارے علوم سکھا دیے۔ آپؐ کی حیات طیبہ کا کوئی گوشہ تاریخ کی نظر سے اوجھل نہیں رہا۔ طبعی نیکی اور خدائی تربیت کی روشنی آپؐ کےافعال و اقوال سے جھلکتی ہے۔ نو عمری سے علیحدگی پسند تھے۔ چند دوست تھے جن کا تعلق اعلیٰ خاندانوں سے تھا مثلاً عبد اللہ بن ابی قحافہ (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ) حکیم بن حزام، زید بن عمرو زمانہ جاہلیت میں بھی مشرک نہ تھے دین ابراہیمی پر قائم تھے۔ آپؐ ہمیشہ عرب سوسائٹی کی گندی رسوم سے مجتنب رہے۔ مشرکانہ رسوم سے بکلی پرہیز کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپؐ کا ایک قول مروی ہے فرماتے تھے کہ:
’’میں نے بتوں کے چڑھاوے کا کھانا کبھی نہیں کھایا۔‘‘

ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ سے کسی نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ! کیا آپؐ نے کبھی بتوں کو پوجا ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں۔ پھر لوگوں نے پوچھا کیا آپؐ نے کبھی شراب پی ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں۔ پھر فرمایا کہ میں ہمیشہ سے ان باتوں کو قابل نفرت سمجھتا رہا ہوں، لیکن اسلام سے پہلے مجھے شریعت اور ایمان کا کوئی علم نہیں تھا۔

(سیرت حلبیہ جلد ۱ باب ما حفظہ اللّٰہ)

اسی زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک رات اپنے ساتھی سے کہا جو بکریاں چرانے میں آپؐ کا شریک تھا کہ تم میری بکریوں کا خیال رکھو تاکہ میں ذرا شہر جاکر لوگوں کی مجلس دیکھ آؤں۔ ان دنوں میں دستور تھا کہ رات کے وقت لوگ کسی مکان میں جمع ہو کر کہانیاں سناتے اور شعر و غزل کا شغل کیا کرتے تھے اور بعض اوقات اسی میں ساری ساری رات گزار دیتے تھے۔ آنحضرتﷺ بھی بچپن کے شوق میں یہ تماشہ دیکھنے گئے۔ مگر اﷲ تعالیٰ کو اس لغو کام میں خاتم النّبیّین کی شرکت پسند نہ آئی، چنانچہ ایک جگہ آپؐ گئے مگر راستے میں ہی نیند آگئی اور سو گئے اور صبح تک سوتے رہے۔ ایک دفعہ اور آپؐ کو یہی خیال آیا مگر پھر بھی دست غیبی نے روک دیا۔ زمانہ ٔ نبوت میں آنحضرتﷺ فرماتے تھے کہ میں نے ساری عمر میں صرف دو دفعہ اس قسم کی مجلس میں شرکت کا ارادہ کیا، مگر دونوں دفعہ روک دیا گیا۔

(سیرت خاتم النبیین صفحہ117 بحوالہ طبری)

اہالیان مکہ کا آپؐ کو صادق، امین کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپؐ کی سلامت روی معروف تھی۔ اللہ تعالیٰ نے بچپن سے آپؐ کو سچ بولنے کی تربیت دی تھی۔ مخالفین نے آپؐ کی زندگی پر کئی جھوٹے اعتراض کئے مگر وہ کوشش کے باوجود آپؐ کو جھوٹا نہ کہہ سکے۔ آپؐ کی زوجہ محترمہ نے، عزیز و اقربا نے،دوستوں نے حتیٰ کہ شدید معاند جانی دشمنوں نے برملا آپؐ کی راست گفتاری کا اعلان کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم و تربیت بھی اللہ تعالیٰ نے کی۔ دنیا بھر میں تلاش کرکے آنحضورﷺ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے کو آپؐ کی کامل اتباع اور پیروی کا ارشاد فرمایا۔ آپ علیہ السلام کو اس غلامی پر فخر رہا:

اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
وہ دلبر یگانہ علموں کا ہے خزانہ
باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے
سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے

(درثمین)

اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو بھی آنحضورﷺ کو الہام فرمائے ہوئے مبارک الفاظ الہام فرمائے:

کُلُّ بَرَکَۃٍ مِنْ مُّحَمَّدٍؐ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ

(تذکرہ صفحہ45 ایڈیشن چہارم)

تمام برکتیں محمدﷺ سے حاصل ہوتی ہیں۔ پس بہت برکت والا ہے وہ بھی جس نے سکھایا وہ بھی بہت برکت والا ہے جس نے سیکھا۔ سکھانے والے محمدﷺ اور سیکھنے والے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام۔ سبحان اللّٰہ

خدائے رحمان نے خود قرآن پاک سکھایا

رسول کریمﷺ پر قرآن نازل ہوا اور خدائے رحمان نے خود سکھایا اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۲﴾ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ﴿۳﴾ حضرت اقدس علیہ السلام کو بھی قرآن پاک اللہ تعالیٰ نے خود سکھایا۔ الہام ہوا: یَآ اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ۔ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ترجمہ: اے احمد! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے۔ جو کچھ تونے چلایا۔ یہ تو نے نہیں چلایا۔ بلکہ خدا نے چلایا۔ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا۔

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 265 حاشیہ نمبر1)

تلاوت آیات، قرآن کا علم و حکمت اور تزکیہ نفوس

جس پائے کی تعلیم و تربیت کی نبی کو ضرورت ہوتی ہے وہ معلم و مربی واحد خدا ہی خاص تائید و نصرت سے عطا فرماتا ہے۔ سورۃ الجمعہ میں مذکور آخرین میں حضرت رسول کریمﷺ کی بعثت ثانیہ میں وہی فرائض آپ علیہ السلام کو ادا کرنے تھے جو رسول اکرمﷺ نے ادا کیے ہیں۔ سوائے اس فرق کے کہ آپ علیہ السلام کوقرآن مجید اور محمد رسول اللہﷺ کا کامل متبع رہنا ہے اور آپؐ کی شریعت پر عمل کرنا ہے۔ چنانچہ آپ کو الہام ہوا: ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ ٭ وَاِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۳﴾ وَّاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۴﴾ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۵﴾

(الجمعہ: 3-5)

ترجمہ: وہی ہے جس نے امی لوگوں ميں انہيں ميں سے ايک عظيم رسول مبعوث کيا۔ وہ ان پر اس کی آيات کي تلاوت کرتا ہے اور انہيں پاک کرتا ہے اور انہيں کتاب کی اور حکمت کی تعليم ديتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ يقيناً کھلی کھلی گمراہي ميں تھے اور انہی ميں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کيا ہے) جو ابھی ان سے نہيں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحب حکمت ہے۔ يہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔

آنحضورﷺ نے آپ علیہ السلام کے صاحب حکمت ہونے کی پیشگوئی بھی فرمائی کہ: ’’امام مہدی حکم و عدل ہوگا‘‘

(مسند احمد جلد2صفحہ156)

آپؑ کا ہر کلام وحیٴ الٰہی کے تحت تھا

اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام میں آنحضورﷺ کی تمام خصوصیات کا عکس رکھ دیا۔ آپ علیہ السلام بھی خدا کے بلائے بولتے تھے۔ حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام کو الہام ہوا :

وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی۔ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی۔ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی

ترجمہ: یہ اپنی طرف سے نہیں بولتا۔ بلکہ جو کچھ تم سنتے ہو۔ یہ خدا کی وحی ہے۔ یہ خدا کے قریب ہوا۔ یعنی اوپر کی طرف گیا اور پھر نیچے کی طرف تبلیغ حق کے لئے جھکا۔ اس لئے یہ دوقوسوں کے وسط میں آگیا۔

(اربعین نمبر 3، روحانی خزائن جلد17 صفحہ426)

آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ميں اپنی طرف سے کچھ نہيں کہتا بلکہ قرآن اور حديث کے مطابق اور اس الہام کے مطابق کہتا ہوں جو خد اتعالیٰ نے مجھے کہا۔ جو آنے والا تھا وہ ميں ہی ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ492)

آپؑ مزید فرماتے ہیں:
’’اس عاجز کو اپنے ذاتی تجربہ سے یہ معلوم ہے کہ روح القدس کی قدسیّت ہر وقت اور ہر دم اور ہر لحظہ بلا فصل ملہم کے تمام قویٰ میں کام کرتی رہتی ہے اور وہ بغیر روح القدس اور اس کی تاثیر قدسیّت کے ایک دم بھی اپنے تئیں ناپاکی سے بچا نہیں سکتا اور انوار دائمی اور استقامت دائمی اور محبت دائمی اور عصمت دائمی اور برکات دائمی کا بھی سبب ہوتا ہے کہ روح القدس ہمیشہ اور ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ93)

کشفی طور پر رجس سے پاک فرمایا

رسول کریمﷺ کی طرح آپ علیہ السلام کو بھی کشفی حالت میں رجس سے پاک کیا گیا۔ فرماتے ہیں: ’’میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیر علی ہے۔ اس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک دی اور ہر ایک بیماری اور کوتاہ بینی کا مادّہ نکال دیا ہے اور ایک مصفّا نور جو آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہو اتھا اس کو ایک چمکتے ہو ئے ستارہ کی طرح بنا دیاہے اور یہ عمل کرکے پھر وہ شخص غائب ہو گیا اور میں اس کشفی حالت سے بیدار ی کی طرف منتقل ہو گیا۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ351-352)

فطری وقدرتی دینی رجحان اور تعلیم

آپ علیہ السلام کی فطری نیکی کی مثال میں آپ سے منسوب وہ دعا کی درخواست ہے جو نہایت چھوٹی عمر میں اپنی ہم سن لڑکی کو کیا کرتے تھے کہ’’نامرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے‘‘ ’’اس فقرہ سے جو نہایت بچپن کی عمر کا ہے پتہ چلتا ہے کہ نہایت پچپن کی عمر سے آپ کے دل میں کیسے جذبات موجزن تھے اور آپ کی خواہشات کا مرکز کس طرح خدا ہی خدا ہو رہا تھا اور ساتھ ہی اس ذہانت کا پتہ چلتا ہے جو بچپن کی عمر سے آپ کے اندر پیدا ہوگئی تھی کیونکہ اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آپ تمام خواہشات کو پورا کرنے والا خدا تعالیٰ کو ہی سمجھتے تھے اور عبادت کی توفیق کا دینا بھی اسی پر موقوف جانتے تھے۔ نماز پڑھنے کی خواہش کرنا اور اس خواہش کو پورا کرنے والا خدا تعالیٰ کو ہی جاننا اور پھر اس گھر میں پرورش پا کر جس کے چھوٹے بڑے دنیا کو ہی اپنا خدا سمجھ رہے تھے، ایک ایسی بات ہے جو سوائے کسی ایسے دل کے جو دنیا کی ملونی سے ہر طرح پاک ہو اور دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دینے کے لیے خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو، نہیں نکل سکتی۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ صفحہ9)

بچے کی تعلیم کا زمانہ آیا تو چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح و مہدی بنانا تھا اس لئے،اگرچہ اس زمانے میں تعلیم عام نہ تھی، آپ کے والد محترم کے دل میں آپ کو تعلیم دلانے کا خاص شوق پیدا کر دیا۔ چنانچہ اپنے تفکرات اور اقتصادی مشکلات کے باوجود آپؑ کی تعلیم میں گہری دلچسپی لی۔ امّی نبی ہونے کا اعزاز صرف آنحضورﷺ کے ساتھ خاص ہے باقی انبیاء کو کچھ نہ کچھ دنیاوی تعلیم حاصل کرنا پڑی۔

اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلّم میرے لیے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا اور جب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خداتعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے۔ وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحوان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا اور ان آخرالذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ179-181 حاشیہ)

مطالعہ کے لئے آپؑ کے موضوعات کےچناؤ، سنجیدگی اور متانت کے بارے میں کئی روایات ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپؑ کو خاص مقصد کے لئے تیار کر رہاتھا۔ سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں سنجیدگی کا عالم دیکھئے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’میں سولہ سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا ہوں اور ان کے اعتراضوں پر غور کرتا رہا ہوں۔ میں نے اپنی جگہ ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے۔ جو عیسائی آنحضرتﷺ پر کرتے ہیں۔ ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ گواہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہم کس کو شہادت میں پیش کر سکتے ہیں۔ کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے۔ سولہ یا سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا رہا ہوں۔ مگر ایک طرْفۃ الْعیْن کے لیے بھی ان اعتراضوں نے میرے دل کو مذبذب یا متأثر نہیں کیا اور یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے میں جوں جوں ان کےاعتراضوں کو پڑھتا جاتا تھا۔ اسی قدر ان اعتراضوں کی ذلت میرے دل میں سماتی جاتی تھی اور رسول کریمﷺ کی عظمت اور محبت سے دل عطر کے شیشہ کی طرح نظر آتا۔‘‘

(حیات احمد جلد اول صفحہ398-399)

اللہ پاک نے معجزانہ طور پر عربی زبان کا علم اور فصاحت عطا فرمائی

آپ علیہ السلام کو دینی کتب پڑھنے کے لئے انگریزی اور عبرانی سیکھنے کا خیال آیا جو زیادہ دیر نہ چلا لیکن عربی کیسے سیکھی؟ اس کے لئے پہلے ایک حدیث پڑھئے رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا۔ ’’اَلْمَہْدِیُّ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ یُصْلِحُہُ اللّٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ‘‘ کہ مہدی ہم میں سے اور ہمارے اہل بیت سے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا۔ ایک دوسری سند کے ساتھ یہ الفاظ آئے ہیں کہ اَلْمَہْدِیُّ یُصْلِحُہُ اللّٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ وَّاحِدَۃٍ کہ مہدی کو اللہ تعالیٰ ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا۔

(سُنَن ابنِ مَاجَہ کِتَابُ الْفِتَن بَاب43 خُرُوْجِ الْمَہْدِیِّ، حدیث نمبر4085)

1893ء میں ہندوستان کے بعض علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی دانی پر اعتراض کیا اور حضور علیہ السلام کو علوم عربیہ سے بے بہرہ قرار دیا۔ مخالف علماء کی اس کیفیت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس معاملہ میں اللہ تعا لیٰ سے دعا کی اور مدد طلب فرمائی۔ اس دعا کو اللہ تعا لیٰ نے اس رنگ میں قبول فرمایا کہ ایک ہی رات میں عربی زبان کے 40 ہزار مادے آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھائے گئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عربی زبان کا علم دیئے جانے کے بعد حضور علیہ السلام نے عرب و عجم کے علماء کے کبر کو تو ڑنے کے لئے اور اہل عرب پر حجت قائم کرنے کے لئے فصیح و بلیغ عربی زبان میں کم و بیش 24کتب بھی تحریر فرمائیں جن میں ہزارو ں روپیہ کے انعامی چیلنج بھی دیئے لیکن کسی کو مقابلہ کی جرأت نہ ہو سکی۔

(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد13 صفحہ496)

نیز حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں: ’’قلت جہد اور معمولی جستجو کے باوجود عربی زبان میں میرا کمال حاصل کرنا میرے رب کی طرف سے واضح نشان ہے تاکہ وہ لوگوں پر میرا علم اور ادب ظاہر فرمائے پس مخالفین کے گروہ میں کوئی ہے جو اس امر میں میرے ساتھ مقابلہ کرسکے اور اس معمولی کوشش کے باوجود مجھے چالیس ہزار عربی لغات سکھائے گئے ہیں اور مجھے علوم ادبیہ میں کامل وسعت عطا کی گئی ہے‘‘

(ترجمہ از مکتوب احمد، روحانی خزائن جلد11 صفحہ234)

’’ہمارا تو دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ437)

آپؑ کا منظوم کلام تین زبانوں میں ملتا ہے۔ جو بے مثال ہے۔ تقریر بھی اعلیٰ تھی۔ اللہ تعالیٰ کی سند ہے۔

’’در کلامے تو چیزےاست کہ شعراء را در آں دخلے نیست‘‘

(تذکرہ صفحہ 805)

تیرے کلام میں ایک ایسی چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں۔

عربی میں آپ علیہ السلام نے ایک خطبہ بھی فی البدیہہ ارشاد فرمایا کہ:
’’خدا نے مجھے بھی یہی حکم دیا ہے۔ آج صبح کے وقت الہام ہوا ہے کہ مجمع میں عربی میں تقریر کرو۔ تمہیں قوت دی گئی ہے۔ میں کو ئی اور مجمع سمجھتا تھا، شاید یہی مجمع ہو اور نیز الہام ہو اہے کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے۔‘‘

اس خطبہ کا ذکر کرتے ہو ئے فرماتے ہیں۔ ’’تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی، ایسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے، کو ئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے۔ جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام ’’خطبہ الہامیہ‘‘ رکھا گیا ہے، لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دو سو کے قریب ہوگی۔ سبحان اللہ! اس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھایا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا۔ خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا… یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ375۔ 376 نشان نمبر 165)

تفسیر نویسی میں بھی آپ علیہ السلام نے چیلنج دیئے کوئی مقابل نہ آیا

امروز قوم من نشناسد مقام من
روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم

’’آج میری قوم نے میرے مقام کو نہیں پہچانا لیکن وہ دن آتا ہے کہ میرے مبارک اور خوش بخت زمانہ کو یاد کر کے لو گ رویا کریں گے۔‘‘

(امة الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

چوہدری خالد سیف اللہ خان مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اکتوبر 2022