• 25 اپریل, 2024

چھٹا سبب عملی اصلاح میں روک کا یہ ہے کہ انسان اپنی مستقل نگرانی نہیں رکھتا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
بیوی بچوں کی وجہ سے عملی اصلاح میں روک کی بے شمار مثالیں ہیں۔ کئی اعمال ایسے ہیں جو انسان کی کمزوری ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ بیوی بچوں کے لاڈ یا ضروریات اُن کے آڑے آ جاتی ہیں۔ ان کی محبت اُس کو نیک عمل سے روک لیتی ہے۔ بچوں کے حق میں جھوٹی گواہیاں، بچوں کے لاڈ کی وجہ سے دی جاتی ہیں۔ غریب ممالک میں یا تیسری دنیا کے ممالک میں تو یہ بیماری عام ہے کہ افسران رشوت لیتے ہیں۔ صرف اپنے لئے نہیں لیتے بلکہ بچوں کے لئے، جائیدادیں بنانے کے لئے، بچوں کے لئے جائیدادیں بنا کر چھوڑ جانے کے لئے وہ رشوت لیتے ہیں یا اُنہیں تعلیم دلوانے کے لئے، مہنگے سکولوں میں پڑھوانے کے لئے رشوت لی جاتی ہے۔

پس انسانی اعمال کی درستی میں جذبات اور جذبات کو اُبھارنے والے رشتے روک بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی درستی اس صورت میں ممکن ہے جب خدا تعالیٰ کی محبت ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ اس محبت کی شدت کے مقابلے میں بیوی بچوں کی محبت اور اُن کے لئے پیدا ہونے والے جذبات معمولی حیثیت اختیار کر لیں۔ اور انسان اس کے اثرات سے بالکل آزاد ہو جائے۔ اگر یہ نہیں تو عملی اصلاح بہت مشکل ہے۔

چھٹا سبب عملی اصلاح میں روک کا یہ ہے کہ انسان اپنی مستقل نگرانی نہیں رکھتا۔ یعنی عمل کا خیال ہر وقت رکھنا پڑتا ہے تبھی عملی اصلاح ہو سکتی ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ380 خطبہ جمعہ 12؍جون 1936ء)

ہر کام کرتے وقت یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس کام کے نتائج نیک ہیں یا نہیں۔ اس کام کو کرنے کی مجھے اجازت ہے یا نہیں۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس بات پر عمل کر رہاہوں یا نہیں کہ قرآنِ کریم کے جو سات سو حکم ہیں اُن پر عمل کرو۔ کہیں میں ان سے دُور تو نہیں جا رہا۔ مثلاً دیانت سے کام کرنا ایک اہم حکم ہے۔ ایک دکاندار کو بھی یہ حکم ہے، ایک کام کرنے والے مزدور کو بھی یہ حکم ہے اور اپنے دائرے میں ہر ایک کو یہ حکم ہے کہ دیانتدار بنو۔ ایک دکاندار ہے، اُس کے سامنے دیانت سے چلنے کا حکم کئی بار آتا ہے۔ ایک انجان گاہک آتا ہے تو اُسے وہ یا کم معیار کی چیز دیتا ہے، یا قیمت زیادہ وصول کرتا ہے، یا اُس مقررہ قیمت پر کم وزن کی چیز دیتا ہے۔ یہ بیماری جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا، ان ملکوں میں تو کم ہے لیکن غریب ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ پس گاہک کو چیز دیتے ہوئے کوئی تو یہ سوچتا ہے کہ اس گاہک کی کم علمی کی وجہ سے میں فائدہ اُٹھاؤں۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر میں وزن میں اتنی کمی ہر گاہک کے سودے میں کروں تو شام تک میں اتنا بچا لوں گا۔ بعض دفعہ گاہک کی سخت ضرورت اور مجبوری دیکھ کر اصل منافع سے کئی گنا زیادہ منافع کما لیا جاتا ہے۔ یہ تو ویسے بھی تجارت کے جو اخلاق ہیں اُن کے خلاف ہے لیکن اسلام تو اس کو سختی سے منع کرتا ہے۔ منافع کے ضمن میں یہ بھی کہوں گا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ربوہ جو آباد ہوا ہے تو وہاں کے دکانداروں کو یہ نصیحت کی تھی کہ تم منافع کم لو تو تمہارے پاس گاہک زیادہ آئیں گے۔ لیکن میرے پاس بعض شکایات ایسی آ رہی ہیں یا آتی رہتی ہیں کہ ربوہ میں دوکاندار اتنا منافع کمانے لگ گئے ہیں کہ لوگ چنیوٹ جا کر سودا خریدنے لگ گئے ہیں۔ یعنی اپنوں کے بجائے غیروں کے پاس احمدیوں کا روپیہ جانے لگ گیا ہے اور اس کے ذمہ دار ربوہ کے احمدی دکاندار ہیں۔ پس اس لحاظ سے بھی ہمارے احمدی دکاندار سوچیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔ یہ جہاں بھی ہوں، صرف ربوہ کی بات نہیں ہے۔ جہاں بھی دکاندارہو، ایک احمدی دکاندار کا معیار ہمیشہ اچھا ہونا چاہئے، اُن کا وزن پورا ہونا چاہئے، کسی چیز میں نقص کی صورت میں گاہک کے علم میں وہ نقص لانا ضروری ہونا چاہئے۔ منافع مناسب اور کم ہونا چاہئے۔ اس سے ان شاء اللّٰہ تعالیٰ تجارت میں برکت پڑتی ہے، کمی نہیں آتی۔ اسی طرح ہر میدان کے احمدی کو اپنی دیانت کا حسن ظاہر کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر وقت اس حکم کی جگالی کرنے کی ضرورت ہے جو ابھی پڑھا ہے، تبھی عملی اصلاح ممکن ہو گی۔ ہر وقت دہراتے رہنا پڑے گا کہ میری عملی اصلاح کے لئے مَیں نے یہ یہ کام کرنے ہیں۔ اسی طرح دوسری برائیاں ہیں، مثلاً جھوٹ ہے۔ ہر بات کہتے وقت یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ میری بات میں کوئی غلط بیانی نہ ہو۔

پھر اس کی دکانداروں کی لاپرواہی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک دکاندار نماز کا وقت آتا ہے تو نماز کے لئے چلا جاتا ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ میں دکان کھلی رکھوں تا کہ اس عرصے میں جتنے گاہک آئیں وہ میرے پاس آئیں۔ پس ایک طرف تو نیک اعمال کا خیال رکھنے والے نماز کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف پیسہ کمانے کا سوچنے والے اس سے بے پرواہ اپنے دنیاوی فائدے دیکھنے کے لئے منافع بنانے کی سوچ رہے ہوتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہر کام کرنے سے پہلے نیک اعمال کی اصلاح کو سوچیں، اُن کی نظر دنیاوی فائدے کی طرف ہوتی ہے اور وہ اُس کے متعلق سوچتے ہیں۔ ربوہ کے دکانداروں کے بارے میں پھر میں کہوں گا کہ ایک دفعہ ایک شکایت آئی تھی کہ نماز کے وقت میں دکانیں بندنہیں کرتے۔ تو اب بہرحال اُن کی رپورٹ آئی ہے کہ سب نے یہی کہا ہے کہ اب ہم ان شاء اللّٰہ تعالیٰ آئندہ کرتے رہیں گے۔ خدا کرے کہ یہ لوگ اس پر عمل کرنے والے بھی ہوں۔ اسی طرح قادیان کے دکاندار ہیں اور آجکل تو قادیان میں جلسے کی وجہ سے گہما گہمی ہے، اُنہیں بھی اس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ گاہک باہر سے آئے ہوئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے فرائض جو ہیں اُن کو بھول جائیں۔ وہاں اُن کو نمازوں کے اوقات میں اپنی دکانیں یا اپنے سٹال جو ہیں وہ بہرحال بند کرنے چاہئیں اور دنیا میں ہر جگہ ہر احمدی کو یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو فرائض ہیں، اُن کی ادائیگی کے لئے اُن کو بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ اعمال پر بار بار توجہ دینے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی تیز رفتار گھوڑے پر سوار چلا جا رہا ہو لیکن بے احتیاطی سے اگر بیٹھے گا تو گھوڑا اُسے نیچے گرا دے گا۔ پس مومن کو بھی ہر وقت اپنے اعمال پر نگاہ رکھنی پڑے گی اور رکھنی چاہئے۔ لمحہ بھر کے لئے اگربے احتیاطی ہو جائے تو مومن کا جو معیار ہے اُس سے وہ گر جائے گا اور اس کے اعمال کی اصلاح بھی نہیں ہو گی۔

(خطبہ جمعہ 20؍دسمبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 نومبر 2022