سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے ماہ دسمبر کو ہجری شمسی کیلنڈر میں فتح کا نام دیا کیونکہ فتح مکہ نے اسلامی تاریخ میں انمٹ نقوش ماہ دسمبر میں رقم کئے اور آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کے شان کریمانہ کے بعض ایسے پہلو عام ہوئے جو اس سے قبل یا تو دیکھے نہ گئے تھے یا بہت کم جلوہ گر ہوئے تھے اور اس موقع پر ایسی روشن رنگ میں وا ہوئے کہ انبیاء کی سیرت کے کہکہشاں پر سب سے بلند و اعلیٰ چمکنے لگے اور کوئی نبی اور رسول آپ کے عالی مقام کو نہ چھو سکا۔
حدیبیہ کی صلح کو قریباً پونے دو سال گزر رہے تھے کہ قریش مکہ نے مسلمانوں کی ترقی سے حسد کرتے ہوئے مسلمانوں کے حلیف قبیلہ خزاعہ پر قریش مکہ کے حلیف قبیلہ بنو بکر نے حملہ کر دیا۔ رؤسائے مکہ نے بنو بکر کو روکنے کی بجائے در پردہ ان کی نہ صرف حمایت کی بلکہ مدد بھی کی۔ چنانچہ خزاعہ کا ایک وفد بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا اور تمام حالات عرض کئے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنا ایک قاصد قریش کے پاس بھیجا کہ آپ نے صلح حدیبیہ کی شرائط کی پابندی نہیں کی لہٰذا درج ذیل تین شرائط میں سے ایک شرط منظور کریں۔
1۔ خون بہا ادا کریں۔
2۔ بنو بکر کی حمایت سے الگ ہو جائیں۔
3۔ یا معاہدہ حدیبیہ کے ٹوٹ جانے کا اعلان کریں۔
قریش نے تیسری شرط پر حامی بھری۔ مگر جلد وہ اس کے نقصانات بھانپ گئے اور ایک وفد آنحضور ﷺ کی خدمت میں معاہدہ کی تجدید کی غرض سے حاضر ہوا۔ مگر آنحضور ﷺ نے اس کو نامنظور فرمایا اور مکہ پر چڑھائی کی تیاری شروع کر دی۔ اپنے حلیف قبائل کو بھی ساتھ ملانے کا آغاز ہوا کہ ایک مسلمان حاطب بن ابی بلتعہؓ نے آنحضور ﷺ کی تیاری کی خبر مکہ عزیز و اقارب کو دینے کے لئے ایک قاصد کو روانہ کردیا جس راز کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے خود آنحضور ﷺ کو کردی اور حاطبؓ کا قاصد پکڑا گیا۔
آخر آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ 10 ہزار قدسیوں کے ساتھ 10 رمضان المبارک 8ھ کو مکہ کو روانہ ہوئے اور یوں دوہزار سال پیشتر کے وہ الفاظ پورے ہوئے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے سنائے گئے تھے کہ’’ وہ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آتا ہے‘‘۔ یہ 10 ہزار خدا کے پاک اور برگزیدہ لوگ تھے۔ جو جنگ کی غرض سے نہیں بلکہ تسبیح و تقدیس کے لئے اکٹھے ہوئے تھے۔ مکہ کے قریب ایک منزل ’’مہرالظہران‘‘ میں ڈیرے ڈال کر آگ کے الاؤ روشن کئے تا دشمنوں کو آمد کی اطلاع بھی ہو اور طاقت کا اندازہ بھی ہو جائے۔ مگر آنحضور ﷺ نے صحابہ کو یہ تاکید فرمائی تھی کہ اس مہم جوئی میں ایک قطرہ بھی خون انسان کا نہ گرے۔
چنانچہ اس موقع پر قریش مکہ میں سے سب سے پہلے دشمن اسلام ابوسفیان کو لایا گیا۔ مگر باوجود اس کی شدید مخالفت کے آنحضور ﷺ نے ان کو معاف کر دیا۔ آنحضور ﷺ کی اس صلہ رحمی کے پیش نظر جب وہ مکہ واپس پہنچے تو آنحضور ﷺ کا یہ پیغام پہنچا دیا کہ جو شخص میرے (ابوسفیان) کے گھر داخل ہو جائے گا اسے امن دیا جائے گا۔ جو شخص کعبہ میں داخل ہو جائے گا وہ امن میں ہوگا۔ مسلمان ہو جانے والے شخص کو امن دیا جائے گا۔
اور جب لشکر اسلامی، مکہ میں مختلف جہات سے داخل ہوا۔ تو ایک حصہ کی کمانڈ حضرت سعد بن عبادہؓ کر رہے تھے۔ جب وہ مسلمانوں کو لئے آگے بڑھ رہے تھے تو ابوسفیان کو دیکھ کر بلند آواز سے کہا ’’ اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃِ اَلْیَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْکَعْبَۃُ ‘‘ کہ آج جنگ کا دن ہے آج مکہ کے لئے امن نہیں۔ آنحضور ﷺ نے یہ سن کر فوراً ان کے ہاتھ سے کمان لے کر ان کے بیٹے قیس کو دے دی۔ دوسری طرف بالائی حصہ سے حضرت خالد بن ولیدؓ داخل ہوئے۔ یہ حصہ سخت ترین دشمنوں کا حصہ تھا۔ جو خزاعہ پر حملہ آور رہ چکے ہیں۔ ان لوگوں نے باوجود امن کے اعلان کے حضرت خالدؓ کی فوج پر تیر برسائے۔ آپ کو مجبوراً حملہ کرنا پڑا۔ جس کے پیش نظر 28 کفار مارے گئے اور 2 مسلمان بھی شہید ہوئے۔
اس اثناء میں آنحضور ﷺ بھی مکہ میں داخل ہو چکے تھے۔ آپؐ نے سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہو کر قُلْ جَاء الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلْ کا اعلان کرتے ہوئے بتوں کو توڑنا شروع کیا اور پھر مقام ابراہیم پر 2 رکعت نماز پڑھی اور خانہ کعبہ کے چابی بردار عثمان بن طلحہ کو بلوا کر خانہ کعبہ کھول کر 2 نفل ادا فرمائے اور چابی دوبارہ عثمان کو واپس کرکے فرمایا کہ یہ چابی ہمیشہ کے لئے تمہارے پاس اور تمہاری نسل میں رہے گی۔ اس وسعت اخلاق کو دیکھ عثمان مسلمان ہو گیا۔
اس کے بعد ایک عام خطبہ بعنوان توحید الٰہی اور نسل انسانی کی وحدت پر دیا اور قریش کے بھی خواص کو جمع کرکے الگ سے خطاب فرمایا۔ اس وقت مکہ فتح ہوچکا تھا اور تمام مکہ بحیثیت ایک مجرم کے حاضر تھا۔ کیا کیا دکھ تھے جو اس قوم کی طرف سے آپؐ اور آپؐ کے ماننے والوں کو نہ مل چکے تھے۔ کس طرح پر یہ سرزمین آپ کے خون کی پیاسی رہی تھی۔ کس طرح اس کے باشندوں نے تمام اخلاقی اور قومی قوانین کو توڑ کر ایک ایک مسلمان کو ان مظالم کا تختہ مشق بنایا تھا۔ جن کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے۔ آنحضور ﷺ مدینہ کو ہجرت کر جانے کے بعد آپؐ کا تعاقب کیا اور بار بار فوج کشی کرکے مدینہ کو تباہ کرنا چاہا۔ ایسے میں ان ظالم دشمنوں کے لئے فتح مکہ کے وقت جو نرم سے نرم سزا تجویز ہوسکتی تھی کہ کچھ سرغنوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائے، کچھ شریروں کو تہہ تیغ کرکے ہمیشہ کے لئے ان کی شرارتوں کا خاتمہ کر دیا جائے۔ ان میں سے اکثر کو جیل بھیج کر ان کی قوت و شوکت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے توڑ دیا جائے۔ مگر اس رحم دل نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان مجرموں کو اکٹھا کرکے پوچھا کہ تم اپنی کرتوتوں سے واقف ہو مجھ سے کس قسم کے سلوک کی امید رکھتے ہو تو انہوں نے جواب دیا اَخٌ کَرِیْمٌ وَ اِبْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ کہ آپ کریم بھائی اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔ اس پر جو معاملہ رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ان سے کیا وہ ان کی توقع سے کہیں بڑھ کر تھا۔ آپؐ نے فرمایا لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کہ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں۔ تمہیں معاف کیا جاتا ہے۔ کیا وسعت حوصلہ تھا اور کیا کھلے دل کے اعلیٰ ظرف کی مثال تھی۔ آپؐ نے نہ صرف معاف نہیں فرمایا بلکہ اعلان کیا کہ مہاجرین کی جائیدادیں جو کافروں کے قبضہ میں تھی ان کو واپس نہیں مانگا جائے گا۔ بلکہ مہاجرین کو ہی اپنے حقوق چھوڑنے کی تلقین فرمائی۔ ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اس موقع پر بھی شرارتوں سے بعض نہ آیا بلکہ دو مسلمانوں کو قتل کرکے خوفزدہ ہو کر کہیں بھاگ گیا۔ اس کی بیوی نہایت پریشانی کے عالم میں بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر اپنے خاوند کے لئے معافی کی خواستگار ہوئی۔ آپؐ نے عکرمہ کو بھی معاف فرمادیا۔ آپ نے حضرت حمزہؓ کا جگر چبانے والے ہندہ کو بھی معاف کر دیا۔ مدینہ جاتے ہوئے آپؐ کی بیٹی پر پتھر برسانے والے ہبار کو بھی معاف کر دیا۔ یہ تھا عفو، اس عظیم سید البشر، فخر نوع انسانیت کا جس نے رحمۃ للعالمین کا لقب پایا۔
اس عفو کا نتیجہ کیا تھا؟ یہ تمام قریش مکہ حالت کفر میں ہی رہے۔ ان کو اسلام لانے کے لئے مجبور نہ کیا گیا۔ مگر اس عفو نے تمام دلوں کو فتح کرلیا۔ ابوسفیان مسلمان ہوگئے۔ عکرمہ ایمان لے آئے۔ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ آپ کوہ صفا پر جلوہ افروز تھے۔ مردوں نے سرور عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ پھر عورتوں نے اسلام کو سینے سے لگایا اورکسی ایک شخص پر بھی اسلام کے قبولیت کے حوالہ سے جبر نہ ہوا۔ بعضوں کے دلوں میں تعرض تھا۔ وہ فوری ایمان نہ لائے بلکہ کچھ عرصہ کے بعد ایمان لائے مگر ان کو معاشرہ میں رہنے کے لئے تمام حقوق دیئے گئے۔
ایک مستشرق سر ولیم میور نے لکھا کہ
گو شہر مکہ نے خوشی سے آپ کی حکومت کو قبول کرلیا تھا مگر تمام باشندوں نے اب تک نیا مذہب قبول نہ کیا تھا اور نہ آپ کا پیغمبر ہونا تسلیم کیا تھا۔ شاید آپ وہی راہ اختیار کرنا چاہتے تھے جو مدینہ میں اختیار کی تھی اور ان کی تبدیلی مذہب میں جبر کو دخل دیئے بغیر تدریج کو کام میں لانا چاہتے تھے۔
(تلخیص از سیرت خیرالبشر از حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ)
لیا ظلم کا عفو سے انتقام
علیک الصلوٰۃ علیک السلام
سیرت کا مضمون عمل کی دعوت دیتا ہے۔
اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کے حسین و دلکش واقعات اور آپؐ کا اسوہ حسنہ صرف پڑھنے اور سننے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
آنحضرت ﷺ نے عفو، رحم اور شفقت کا جو سلوک فرمایا اور اس کے پاک نمونے قائم فرمائے ان کا ذکر تو بہت ہی طویل ہے۔ یعنی ایک مجلس میں تو کیا سینکڑوں مجالس میں بھی اس ذکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ حضور اکرم ﷺ کی سیرت کا ایک عظیم الشان پہلو یہ ہے کہ وہ دُور سے بھی حسین نظر آتی ہے اور قریب سے بھی حسین نظر آتی ہے اور قریب جا کر حسن کے نئے نئے پہلو سامنے آنے لگتے ہیں۔ جس طرح باغ کو آپ بھی ایک نظر سے دیکھتے ہیں۔ آپ کو بڑا حسین نظر آتا ہے۔ لیکن جب تتلیاں پھولوں کا رس چوستی ہیں تو ان کو پھول کا ایک اور حسن نظر آنے لگتا ہے۔ گویا کسی چیز کو قریب سے دیکھیں تو اس کے حسن کی تفاصیل نظر آتی ہیں۔ پس کامل حسن جو ظاہری بھی ہو اور باطنی بھی ہو اس کی ایک خصوصی علامت یہ بھی ہے کہ وہ دور سے بھی اچھا دکھائی دیتا ہے اور قریب سے بھی۔ بلکہ جتنا قریب آئیں اس کا حسن زیادہ جاذب نظر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس لئے آنحضرت ﷺ کی سیرت کا اس پہلو سے بھی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
’’ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات پر بھی آپ غور کریں تو ان کے اندر بھی آپؐ کی سیرت طیبہ کے بہت عظیم الشان پہلو دکھائی دیتے ہیں۔لیکن جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ جب سیرت کے مضمون کو ہم سنتے ہیں تو اس طرح نہیں سنتے جس طرح سننے کا حق ہوتا ہے۔ آپ ایک کھلاڑی کی کھیل کا باہر بیٹھے نظارہ کرتے ہیں۔ مثلاً کرکٹ کی بہت اچھی کھیل ہورہی ہے، آپ باہر بیٹھے دیکھ رہے ہیں اور بڑا لطف اٹھا رہے ہیں۔ کھیل کے بعد گھر کو رخصت ہوتے ہیں۔ آپ کو بلّا پکڑنا بھی نہیں آتا۔ کوئی آپ کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم اتنی تعریفیں کررہے تھے، اب بلّا تو پکڑ کے دکھاؤ۔ آپ کہیں گے تم پاگل ہوگئے ہو۔ بلّے کا مجھ سے کیا تعلق، میں تو نظارہ کررہا تھا۔ مجھے لطف اٹھانے کا حق ہے۔ ہاںمجھے کھیل سے کوئی واقفیت نہیں۔ لیکن سیرت کے مضمون میں کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا۔ سیرت کا مضمون اور وہ بھی اس سیرت طیبہ کا مضمون جو اسوہ حسنہ بن گئی ہو۔ اس میں یہ جواب قابل قبول ہی نہیں ہے۔ یہ جواب بلکہ عقل کے خلاف ہے۔ جب اسوہ کو سامنے رکھ کر آپ کے اس کے حسن کا مطالعہ کرتے ہیں یا حسن کا ذکر کرتے ہیں تو لازماً اس کو اختیار کرنے کی پابندی آپ پر عائد ہوجاتی ہے۔ حسب توفیق جتنا بھی اختیار کرسکیں اختیار کریں۔ یعنی اپنی اپنی حیثیت اور توفیق کے مطابق لازماً اس طرف قدم آگے بڑھانے پڑیں گے‘‘
جماعت احمدیہ کو ایک پیاری نصیحت
موجودہ دور میں جماعت احمدیہ کے خلاف جو طوفان امڈ آیا ہے اور بڑی بڑی طاقتیں اسلام کو کمزور کرنے کے لئے خود مسلمانوں ہی کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کررہی ہیں اور آج جماعت احمدیہ پاکستان میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں شدید مظالم سے دوچار ہے۔ مظلومیت کے اس دور میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جماعت احمدیہ کو اس حسین انتقام اور اُس عظیم اسوہ حسنہ کی طرف متوجہ فرمایا ہے جو سیدنا و مولانا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ذریعہ فتح مکہ کے موقعہ پر ظاہر ہوا۔
چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’ تبلیغ کے ذریعہ ہم نے اپنا انتقام لینا ہے۔ ہمارا ایک سر کاٹا جاتا ہے تو ان کا سر کاٹ کر نہیں، اُن کے سر کو قبول کرکے، محبت کے ساتھ ان کی تعداد اپنا کر اس میں کمی پیدا کرنی ہے۔ ایک احمدی کو یہ قتل کے ذریعہ کم کرتے ہیں تو آپ ہزار غیراحمدیوں کو احمدی بنا کر ان میں کمی پیدا کریں۔ یہ انتقام ہے آپ کا … یہ وہ انتقام ہے جو ہم نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے سیکھا ہے۔ یہ وہ انتقام ہے جو آنحضور ﷺ نے ابوجہل سے لیا تھا اس کے بیٹے (عکرمہؓ بن ابوجہل) کو اپنا بیٹا بنالیا۔ جو ولید سے لیا، اس کے بیٹے (خالد بن ولیدؓ) کو اپنا بیٹا بنالیا تھا۔ ایک جگہ نہیں، دو جگہ نہیں، سینکڑوں دشمنوں سے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے عفو کے ذریعہ انتقام لیا اور اُن کی نسلیں محمد ﷺ کی طرف منسوب ہوگئیں اور آپؐ پر درود بھیجنے لگیں۔ اس سے زیادہ عظیم الشان انتقام سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ انتقام بھی ہے اور بھلائی بھی ہے اور احسان بھی ہے۔ ایسا حسین امتزاج انتقام اور احسان کا کوئی دنیا کی قوم مثال پیش تو کرکے دکھائے۔ آنحضرت ﷺ کو جب غلبہ نصیب ہوا تب بھی یہ احسان کا طریق جاری تھا۔ محض یہ مجبوری کا احسان نہیں تھا‘‘
(بدر 3 اکتوبر 1985ء)
(فرخ شاد)