• 3 مئی, 2025

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 25)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 25

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

یہ سچی بات ہے کہ توبہ اور استغفار سے گُناہ بخشے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوّٰبِیۡنَ وَیُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ

(البقرہ: 223)

سچی توبہ کرنے والا معصوم کے رنگ میں ہوتا ہے۔ پچھلے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں پھر آئندہ کے لئے خدا سے معاملہ صاف کر لے۔ اس طرح پر خدا کے اولیاء میں داخل ہوجائیگا اور پھر اس پر کوئی خوف و حزن نہ ہوگا جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ

(یونس: 63)

خدا تعالیٰ نے اُن کو اپنا ولی کہا ہے حالانکہ وہ بے نیاز ہے۔ اس کو کسی کی حاجت نہیں۔ اس لئے استغناء ایک شرط کے ساتھ ہے وَلَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ

(بنی اسرائیل: 112)

یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ تھرک کر کسی کو ولی نہیں بناتا بلکہ محض اپنے فضل اور عنایت سے اپنا مقرب بنا لیتا ہے۔ اس کو کسی کی کوئی حاجت نہیں ہے اس ولایت اور قرب کا فائدہ بھی اسی کو پہنچتا ہے۔ ہزاروں ہزار فوائد اور امور ہوتے ہیں جو اس کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں قبول کرتا ہے نہ صرف اس کی دعائیں قبول کرتا ہے بلکہ اس کے اہل وعیال۔ اس کے احباب کے لئے بھی برکات عطا کرتا ہے اور صرف یہانتک ہی نہیں بلکہ ان مقاموں میں برکت دی جاتی ہے جہاں وہ ہوتے ہیں اور اُن زمنیوں میں برکت رکھی جاتی ہے اور ان کپڑوں میں برکت دی جاتی ہے جن میں وہ ہوتے ہیں۔

اصل یہ ہے کہ ولی اللہ بننا ہی مشکل ہے بلکہ اس مقام کا سمجھنا ہی دشوار ہوتا ہے کہ یہ کس حالت میں کہا جاوے گا کہ وہ خدا کا ولی ہے۔ انسان انسان کے ساتھ ظاہرداری میں خوشامد کر سکتا ہے اور اس کو خوش کر سکتا ہے خواہ دل میں ان باتوں کا کچھ بھی اثر نہ ہو۔ ایک شخص کو خیرخواہ کہہ سکتے ہیں مگر حقیقت میں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ خیرخواہ ہے یا کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تو خوب جانتا ہے کہ اس کی اطاعت و محبت کس رنگ سے ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ فریب اور دغا نہیں ہو سکتا۔ کوئی اس کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ جب تک سچے اخلاص اور پوری وفاداری کے ساتھ یک رنگ ہو کر خدا تعالیٰ کا نہ بن جاوے کچھ فائدہ نہیں۔

یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا اجتبا اور اصطفا فطرتی جوہر سے ہوتا ہے۔ ممکن ہے گذشتہ زندگی میں وہ کوئی صغائر یا کبائر رکھتا ہو لیکن جب اللہ تعالیٰ سے اس کا سچا تعلق ہو جاوے تو وہ کل خطائیں بخش دیتا ہے اور پھر اس کو کبھی شرمندہ نہیں کرتا نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ یہ کس قدر احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ جب وہ ایک دفعہ درگزر کرتا اور عفو فرماتا ہے پھر اس کا کبھی ذکر ہی نہیں کرتا۔ اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے۔ پھر باوجود ایسے احسانوں اور فضلوں کے بھی اگر وہ منافقانہ زندگی بسر کرے تو پھر سخت بدقسمتی اور شامت ہے۔

برکات اور فیوض الٰہی کے حصول کے واسطے دل کی صفائی کی بھی بہت بڑی ضرورت ہے۔ جب تک دل صاف نہ ہو کچھ نہیں۔ چاہیئے کہ جب اللہ تعالیٰ دل پر نظر ڈالے تو اس کے کسی حصہ یا کسی گوشہ میں کوئی شعبہ نفاق کا نہ ہو۔ جب یہ حالت ہو تو پھر الٰہی نظر کے ساتھ تجلیات آتی ہیں اور معاملہ صاف ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے ایسا وفادار اور صادق ہونا چاہئے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنا صدق دکھایا یا جس طرح پر آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم نے نمونہ دکھایا۔ جب انسان اس نمونہ پر قدم مارتا ہے تو وہ بابرکت آدمی ہو جاتا ہے۔ پھر دنیا کی زندگی میں کوئی ذلّت نہیں اُٹھاتا اور نہ تنگی رزق کی مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ اس پر خدا تعالیٰ کے فضل واحسان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور مستجاب الدعوات ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کو لعنتی زندگی سے ہلاک نہیں کرتا بلکہ اس کا خاتمہ بالخیر کرتا ہے۔

مختصر یہ کہ جو خدا تعالیٰ سے سچّا اور کامل تعلق رکھتا ہو تو خدا تعالیٰ اس کی ساری مرادیں پُوری کر دیتا ہے اسے نامُراد نہیں رکھتا۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ374۔ 377، سن اشاعت 1984ء مطبوعہ لندن)

نفس کے ہم پر حقوق

پھر میں اصل مطلب کو بیان کرتا ہوں کہ اگر تم اپنی اصلاح چاہتے ہو تو یہ بھی لازمی امر ہے کہ گھر کی عورتوں کی اصلاح کرو۔

عورتوں میں بُت پرستی کی جڑ ہے کیونکہ ان کی طبائع کا مَیلان زینت پرستی کی طرف ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بُت پرستی کی ابتداء انہی سے ہوئی ہے۔ بُزدلی کا مادہ بھی ان میں زیادہ ہوتا ہے کہ ذرا سی سختی پر اپنے جیسی مخلوق کے آگے ہاتھ جوڑنے لگ جاتی ہے، اس لئے جو لوگ زن پرست ہوتے ہیں رفتہ رفتہ ان میں بھی یہ عادتیں سرایت کر جاتی ہیں۔ پس بہت ضروری ہے کہ ان کی اصلاح کی طرف متوجہ رہو۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ (النساء: 35) اور اسی لئے مرد کو عورتوں کی نسبت قویٰ زیادہ دیئے گئے ہیں۔ اس وقت جو نئی روشنی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں ان کی عقلوں پر تعجب آتا ہے۔ وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتوں کی فوجیں بنا کر جنگلوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی کہ کیا نتیجہ مساوی نکلتا ہے یا مختلف۔ ایک طرف تو اسے حمل ہے اور ایک طرف جنگ ہے وہ کیا کر سکے گی؟ غرضکہ عورتوں میں مردوں کی نسبت قویٰ کمزور ہیں اور کم بھی ہیں اس لئے مرد کو چاہئے کہ عورت کو اپنے ماتحت رکھے۔

یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں۔ لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے۔ جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔ اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے اُن کی عِفّت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں۔ لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو اُن کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔ بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے۔ پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بےاعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا۔ مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بےلگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں۔ نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے۔ دنیاوی لذّات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ پس سب سے اوّل ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو۔ اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہوسکیں تو اس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں۔ ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے۔ کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے۔ قرآن شریف نے (جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر حسبِ حال تعلیم دیتا ہے) کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے قُل لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصٰرِہِمۡ وَیَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ۚ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ (النور: 31) کہ تو ایمان والوں کو کہدے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔ یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا۔ فروج سے مراد شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اوراس میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سُنا جاوے۔ پھر یاد رکھو کہ ہزار در ہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے ﷲ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے (تعدد ازدواج اور طلاق کے مسئلہ پر غور کرو)

ہر چہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار۔

ہمیں افسوس ہے کہ آریہ صاحبان بھی بےپردگی پر زور دیتے ہیں اور قرآن شریف کے احکام کی مخالفت چاہتے ہیں حالانکہ اسلام کا یہ بڑا احسان ہندوؤں پر ہے کہ اُس نے اُن کو تہذیب سکھلائی اور اس کی تعلیم ایسی ہے جس سے مفاسد کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ مثل مشہور ہے ؎ خربستہ بہ گرچہ وزد آشنا است۔ یہی حالت مرد اور عورت کے تعلقات کی ہے کہ اگرچہ کچھ ہی کیوں نہ ہو لیکن تاہم فطری جوش اور تقاضے بعض اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جب اُن کو ذرا سی تحریک ہوئی تو جھٹ حدّ اعتدال سے اِدھر اُدھر ہو گئے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مرد اور عورت کے تعلقا ت میں حد درجہ کی آزادی وغیرہ کو ہرگز نہ دخل دیا جاوے۔ ذرا اپنے دلوں میں غور کرو کہ کیا تمہارے دل راجہ رامچندر اور کرشن وغیرہ کی طرح پاک ہوگئے ہیں؟ پھر جب وہ پاک دلی تم کو نصیب نہیں ہوئی تو بےپردگی کو رواج دے کر بکریوں کو شیروں کے آگے کیوں رکھتے ہو۔ ہٹ اور ضد اور تعصب اور چڑ وغیرہ سے تم لوگ دیدہ دانستہ اسلام کے اُن پاکیزہ اصولوں کی مخالفت کیوں کرتے ہو جن سے تمہاری عفّت برقرار رہتی ہے۔ عقل تو اس بات کا نام ہے کہ انسان کو نیک بات جہاں سے ملے وہ لے لیوے کیونکہ نیک بات کی مثال سونے اور ہیرے اور جواہر کی ہے اور یہ اشیاء خواہ کہیں ہوں۔ آخر وہ سونا وغیرہ ہی ہوں گی۔ اس لئے تم کو لازم ہے کہ اسلام کے نام سے چِڑ کر تم نیکی کو ترک نہ کرو۔ ورنہ یاد رکھو کہ اسلام کا تو کچھ حرج نہیں ہے۔ اگر اس کا ضرر ہے تو تم ہی کو ہے۔ ہاں اگر تم لوگوں کو یہ اطمینان ہے کہ سب کے سب بھگت بن گئے ہو اور نفسانی جذبات پر تم کو پُوری قدرت حاصل ہے اور قویٰ پرمیشر کی رضا اور احکام کے برخلاف بالکل حرکت نہیں کرتے تو پھر ہم تم کو منع نہیں کرتے۔ بےشک بےپردگی کو رواج دو لیکن جہانتک میرا خیال ہے ابھی تک تم کو وہ حالت نصیب نہیں اور تم میں سے جس قدر لوگ لیڈر بن کر قوم کی اصلاح کے درپے ہیں اُن کی مثال سفید قبر کی ہے جس کے اندر بجز ہڈیوں کے اَور کچھ نہیں کیونکہ ان کی صرف باتیں ہی ہیں۔ عمل وغیرہ کچھ نہیں۔

اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفسِ انسان پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچا رہے کیونکہ ابتدا میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جُھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گِرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھانے پر۔ یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے اور اس کی اصلاح کی حالتوں کے لحاظ سے اس کے چار نام مقرر کئے گئے ہیں۔ اوّل اوّل نفس زکیّہ ہوتا ہے کہ جس کو نیکی بدی کی کوئی خبر نہیں ہوتی اور یہ حالت طفلگی تک رہتی ہے۔ پھر نفس امّارہ ہوتا ہے کہ بدیوں کی طرف ہی مائل رہتا ہے اور انسان کو طرح طرح کے فسق و فجور میں مبتلا کرتا ہے اور اس کی بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ ہر وقت بدی کا ارتکاب ہو۔ کبھی چوری کرتا ہے۔ کوئی گالی دے یا ذرا خلاف مرضی کام ہو تو اُسے مارنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ اگر شہوت کی طرف غلبہ ہو تو گناہوں اور فسق و فجور کا سیلاب بہہ نکلتا ہے۔ دوسرا نفس لوّامہ ہے کہ اس میں بدیاں بالکل دُور تو نہیں ہوتیں مگر ہاں ایک پچھتاوا اور حسرت و افسوس مرتکب اپنے دل میں محسوس کرتا ہے اور جب بدی ہو جاوے تو اس کے دل میں نیکی سے اس کا معاوضہ کرنے کی خواہش ہوتی ہے اور تدبیر کرتا ہے کہ کسی طرح گناہ سے بچے۔ اور دعا میں لگتا ہے کہ زندگی پاک ہو جاوے اور ہوتے ہوتے جب یہ گُناہ سے پوتّر ہو جاتا ہے۔ تو اس کا نام مطمئنّہ ہو جاتا ہے۔ اور اس حالت میں وہ بدی کو ایسی ہی بدی سمجھتا ہے۔ جیسے کہ خدا تعالیٰ بدی کو بدی سمجھتا ہے۔ بات یہ ہے کہ دنیا اصل میں گناہ کا گھر ہے جس میں سرکشیوں میں پڑ کر انسان خدا کو بُھلا دیتا ہے۔ نفس امّارہ کی حالت میں اس کے پاؤں میں زنجیریں ہوتی ہیں اور لوّامہ میں کچھ زنجیریں پاؤں میں ہوتی ہیں اور کچھ اُتر جاتی ہیں مگر مطمئنّہ میں کوئی زنجیر باقی نہیں رہتی سب کی سب اُتر جاتی ہیں اور وہی زمانہ انسان کا خدا تعالیٰ کی طرف پکے رجوع کا ہوتا ہے اور وہی خدا تعالیٰ کے کامل بندے ہوتے ہیں جو کہ نفسِ مطمئنّہ کے ساتھ دنیا سے علیحدہ ہو ویں اور جب تک وہ اسے حاصل نہ کر لے تب تک اُسے مطلق علم نہیں ہوتا کہ جنّت میں جاوے گا یا دوزخ میں۔ پس جبکہ انسان بلا حصول نفس مطمئنّہ کے نہ پوری پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے اور نہ جنّت میں داخل ہو سکتا ہے تو اب خواہ آریہ ہوں یا عیسائی کونسی عقلمندی ہے کہ قبل اس کے کہ یہ نفس حاصل ہو وہ بھیڑیوں اور بکریوں کو اکٹھا چھوڑ دیویں۔ کیا ان کو امید ہے کہ وہ پاک اور بےشر زندگی بسر کرلیں گے۔ یہ ہے سِرّ اسلامی پردہ کا۔ اور میں نے خصوصیّت سے اُسے اُن مسلمانوں کے لئے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام اور حقیقت کی خبر نہیں اور مجھے امید ہے کہ آریہ لوگ اس سے بہت کم مستفید ہوں گے کیونکہ ان کو تو اسلام کی ہر ایک بھلی بات سے چِڑ ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ133-138، سن اشاعت 1984ء مطبوعہ لندن)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

میں صرف اس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری اس جماعت کو ایک قسم کا دھوکا لگا ہوا ہے۔ شاید اچھی طرح میری باتوں پر غور نہیں کی۔ اور وہ غلطی اور دھوکا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہماری جماعت میں سے طاعون سے فوت ہو جاوے تو اس قدر بےرحمی اور سرد مہری سے پیش آتے ہیں کہ جنازہ اُٹھانے والا بھی نہیں ملتا۔ درحقیقت جیسا کہ قاضی امیر حسین صاحب نے لکھا ہے یہ مصیبت تو ماتم سے بھی بڑھ کر ہے۔ یاد رکھو۔ تم میں اس وقت دو اخوتیں جمع ہو چکی ہیں۔ ایک تو اسلامی اخوّت اور دوسری اس سلسلہ کی اخوّت ہے۔ پھر ان دو اخوتوں کے ہوتے ہوئے گریز اور سرد مہری ہو تو یہ سخت قابل اعتراض امر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسے مسافر اپنے گھروں میں ہوتے تو وہ جو خارج از مذہب سمجھتے ہیں اور کافر کہتے ہیں اُن میں بھی اس قسم کی سرد مہری نہ ہوتی۔ لیکن یہ سرد مہری کیوں ہوتی ہے؟ دو باتوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ افراط اور تفریط کا۔ اگر افراط اور تفریط کو چھوڑ کر اعتدال سے کام لیا جاوے تو ایسی شکایت پیدا نہ ہو۔ جبکہ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ (العصر: 4) تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ (البلد: 18) کا حکم ہے تو پھر ایسے مُردوں سے گریز کیوں کیا جاوے؟ اگر کسی کے مکان کو آگ لگ جاوے اور وہ پکار فریاد کرے تو جیسے یہ گناہ ہے کہ محض اس خیال سے کہ میں نہ جل جاؤں اس مکان کو اور اس میں رہنے والوں کو جلنے دے اور جا کر آگ بجھانے میں مدد نہ دے ویسے ہی یہ بھی معصیت ہے کہ ایسی بے احتیاطی سے اس میں کود پڑے کہ خود جل جاوے۔ ایسے موقعہ پر احتیاط مناسب کے ساتھ ضروری ہے کہ آگ بجھانے میں اس کی مدد کرے۔

پس اس طریق پر یہاں بھی سلوک ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے جابجا رحم کی تعلیم دی ہے۔ یہی اخوت اسلامی کا منشا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ تمام مسلمان مومن آپس میں بھائی ہیں۔ ایسی صورت میں کہ تم میں اسلامی اخوّت قائم ہو اور پھر اس سلسلہ میں ہونے کی وجہ سے دوسری اخوت بھی ساتھ ہو۔ یہ بڑی غلطی ہوگی کہ کوئی شخص مصیبت میں گرفتار ہو اور قضا و قدر سے اُسے ماتم پیش آجاوے تو دوسرا تجہیز و تکفین میں بھی اُس کا شریک نہ ہو۔ ہرگز ہرگز اﷲ تعالیٰ کا یہ منشا نہیں ہے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم کے صحابہؓ جنگ میں شہید ہوتے یا مجروح ہو جاتے تو میں یقین نہیں رکھتا کہ صحابہ انہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہوں یا پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم اس بات پر راضی ہو جاتے کہ وہ انکو چھوڑ کر چلے جاویں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ایسی وارداتوں کے وقت ہمدردی بھی ہو سکتی ہے اور احتیاط مناسب بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ اوّل تو کتاب اﷲ سے یہ مسئلہ ملتا ہی نہیں کہ کوئی مرض لازمی طور پر دوسرے کو لگ بھی جاتی ہے۔ ہاں جس قدر تجارب سے معلوم ہوتا ہے اُس کے لئے بھی نصِّ قرآنی سے احتیاط مناسب کا پتہ لگتا ہے۔ جہاں ایسا مرکز وبا کا ہو کہ وہ شدّت سے پھیلی ہوئی ہو۔ وہاں احتیاط کرے۔ لیکن اس کے بھی یہ معنے نہیں کہ ہمدردی ہی چھوڑ دے۔ خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ منشا نہیں ہے کہ انسان ایک میّت سے اس قدر بُعد اختیار کرے کہ میّت کی ذلّت ہو اور پھر اس کے ساتھ ساری جماعت کی ذلّت ہو۔ آئندہ خوب یاد رکھو کہ ہرگز اس بات کو نہیں کرنا چاہیئے۔ جبکہ خدا تعالیٰ نے تمہیں بھائی بنا دیا ہے تو پھر نفرت اور بُعد کیوں ہے؟ اگر وہ بھی مرے گا تو اس کی بھی کوئی خبر نہ لے گا اور اس طرح پر اخوت کے حقوق تلف ہو جائیں گے۔

خدا تعالیٰ نے دو ہی قسم کے حقوق رکھے ہیں حقوق اﷲ اور حقوق العباد۔ جو شخص حقوق العباد کی پروا نہیں کرتا وہ آخر حقوق اﷲ کو بھی چھوڑ دیتا ہے کیونکہ حقوق العباد کا لحاظ رکھنا یہ بھی تو امر الٰہی ہے جو حقوق اﷲ کے نیچے ہے۔

یہ خوب یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ پر توکّل بھی کوئی چیز ہے۔ یہ مت سمجھو کہ تم نری پرہیزوں سے بچ سکتے ہو۔ جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق نہ ہو اور انسان اپنے آپ کو کارآمد انسان نہ بنا لے اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ خواہ وہ ہزار بھاگتا پھرے۔ کیا وہ لوگ جو طاعون میں مبتلا ہوتے ہیں وہ پرہیز نہیں کرتے؟ میں نے سُنا ہے کہ لاہور میں نواب صاحب کے قریب ہی ایک انگریز رہتا تھا وہ مبتلا ہو گیا۔ حالانکہ یہ لوگ تو بڑے پرہیز کرنے والے ہوتے ہیں۔ نِرا پرہیز کچھ چیز نہیں جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق نہ ہو۔ پس آئندہ کے لئے یاد رکھو کہ حقوق اخوت کو ہرگز نہ چھوڑو ورنہ حقوق اﷲ بھی نہ رہیں گے۔ خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ طاعون کا سلسلہ جو مرکز پنجاب ہو گیا ہے کب تک جاری رہے لیکن مجھے یہی بتایا گیا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ (الرعد: 12)۔ اﷲ تعالیٰ کسی حالت میں قوم میں تبدیلی نہ کرے گا جب تک لوگ دلوں کی تبدیلی نہ کریں گے۔ ان باتوں کو سُنکر یُوں تو ہر شخص جواب دینے کو تیار ہو جاتا ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں۔ استغفار بھی کرتے ہیں۔ پھر کیوں مصائب اور ابتلا آ جاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتوں کو جو سمجھ لے وہی سعید ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا منشا کچھ اور ہوتا ہے۔ سمجھا کچھ اَور جاتا ہے اور پھر اپنی عقل اور عمل کے پیمانہ سے اسے ماپا جاتا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں۔ ہر چیز جب اپنے مقررہ وزن سے کم استعمال کی جاوے تو وہ فائدہ نہیں ہوتا جو اس میں رکھا گیا ہے۔ مثلاً ایک دوائی جو تولہ کھانی چاہیئے اگر تولہ کی بجائے ایک بُوند استعمال کی جاوے تو اس سے کیا فائدہ ہوگا اور اگر روٹی کی بجائے کوئی ایک دانہ کھالے تو کیا وہ سیری کا باعث ہو سکے گا؟ اور پانی کے پیالے کی بجائے ایک قطرہ سیراب کر سکے گا؟ ہرگز نہیں۔ یہی حال اعمال کا ہے۔ جب تک وہ اپنے پیمانہ پر نہ ہوں وہ اُوپر نہیں جاتے ہیں۔ یہ سُنّت اﷲ ہے جس کو ہم بدل نہیں سکتے۔ پس یہ بالکل خطا ہے کہ اسی ایک امر کو پلّے باندھ لو کہ طاعون والے سے پرہیز کریں تو طاعون نہ ہوگا۔ پرہیز کرو جہانتک مناسب ہے لیکن اس پرہیز سے باہمی اخوّت اور ہمدردی نہ اُٹھ جاوے اور اُس کے ساتھ ہی خد اتعالیٰ کے ساتھ سچّا تعلق پیدا کرو۔ یاد رکھو کہ مُردہ کی تجہیز و تکفین میں مدد دینا اور اپنے بھائی کی ہمدردی کرنا صدقات خیرات کی طرح ہی ہے۔ یہ بھی ایک قسم کی خیرات ہے اور یہ حق حق العباد کا ہے جو فرض ہے۔ جیسے خدا تعالیٰ نے صوم و صلوٰۃ اپنے لئے فرض کیا ہے اسی طرح اس کو بھی فرض ٹھہرایا ہے کہ حقوق العباد کی حفاظت ہو۔ پس ہمارا کبھی یہ مطلب نہیں ہے کہ احتیاط کرتے کرتے اخوّت ہی کو چھوڑ دیا جاوے۔ ایک شخص مسلمان ہو اور پھر سلسلہ میں داخل ہو اور اُس کو یوں چھوڑ دیا جاوے جیسا کُتّے کو یہ بڑی غلطی ہے۔ جس زندگی میں اخوّت اور ہمدردی ہی نہ ہو وہ کیا زندگی ہے۔

پس ایسے موقعہ پر یاد رکھو کہ اگر کوئی ایسا واقعہ ہو جاوے تو ہمدردی کے حقوق فوت نہ ہونے پاویں۔ ہاں مناسب احتیاط بھی کرو۔ مثلاً ایک شخص طاعون زدہ کا لباس پہن لے یا اس کا پس خوردہ کھالے تو اندیشہ ہے کہ وہ مبتلا ہو جاوے۔ لیکن ہمدردی یہ نہیں بتاتی کہ تم ایسا کرو۔ احتیاط کی رعایت رکھ کر اس کی خبرگیری کرو اور پھر جو زیادہ وہم رکھتا ہو وہ غسل کر کے صاف کپڑے بدل لے۔ جو شخص ہمدردی کو چھوڑتا ہے وہ دین کو چھوڑتا ہے۔ قرآن شریف فرماتا ہے۔ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ (المائدہ: 33) یعنی جو شخص کسی نفس کو بلا وجہ قتل کر دیتا ہے وہ گویا ساری دنیا کو قتل کرتا ہے۔ ایسا ہی میں کہتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تو اس نے ساری دنیا کے ساتھ ہمدردی نہیں کی۔ زندگی سے اس قدر پیار نہ کرو کہ ایمان ہی جاتا رہے۔ حقوقِ اخوت کو کبھی نہ چھوڑو وہ لوگ بھی تو گزرے ہیں جو دین کے لئے شہید ہوئے ہیں۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات پر راضی ہے کہ وہ بیمار ہو اور کوئی اُسے پانی تک نہ دینے جاوے۔ خوفناک وہ بات ہوتی ہے جو تجربہ سے صحیح ثابت ہو۔ بعض مُلّاں ایسے ہیں جنہوں نے صدہا طاعون سے مَرے ہوئے مُردوں کو غُسل دیا ہے اور انہیں کچھ نہیں ہوا۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم نے اسی لئے فرمایا ہے کہ یہ غلط ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ وبائی ایام میں اتنا لحاظ کرے کہ ابتدائی حالت ہو تو وہاں سے نِکل جاوے لیکن زور شور ہو تو مت بھاگے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو کہا تھا کہ تم ابواب متفرقہ سے داخل ہونا اس لحاظ سے کہ مبادا کوئی جاسوس سمجھ کر پکڑ نہ لے۔ احتیاط تو ہوئی لیکن قضا و قدر کے معاملہ کو کوئی روک نہ سکا۔ وہ ابواب متفرقۃ سے داخل ہوئے لیکن پکڑے گئے۔ پس یاد رکھو کہ سارے فضل ایمان کے ساتھ ہیں۔ ایمان کو مضبوط کرو قطع حقوق معصیت ہے اور انسان کی زندگی ہمیشہ کے لئے نہیں ہے۔ ایسا پرہیز اور بُعد جو ظاہر ہوا ہے وہ عقل اور انصاف کی رُو سے صحیح نہیں ہے۔ ایسے امور سے اپنے آپ کو بچاؤ جو تجربہ میں مضر ثابت ہوئے ہیں۔

یہ جماعت جس کو خدا تعالیٰ نمونہ بنانا چاہتا ہے اگر اس کا بھی یہی حال ہوا کہ ان میں اخوت اور ہمدردی نہ ہو تو بڑی خرابی ہوگی۔ میں دوسرا پہلو نہ بیان کرتا لیکن مجھے چونکہ سب سے ہمدردی ہے اس لئے اسے بھی میں نے بیان کرنا ضروری سمجھا یعنی جس کے واقعہ ہو جاوے اس کے ساتھ بھی اور جو بچے ہوئے ہیں اُن کے ساتھ بھی۔

افسوس ہے میں خود نہیں آسکا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عصر کے بعد مجھے چکر آتا ہے اور مجھے خبر تک نہیں ہوئی جبتک انہوں نے نہیں لکھا۔ بہرحال باہم ہمدردی ہو اور میں دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت سے اس طاعون کو اُٹھالے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ 353۔ 349، سن اشاعت 1984ء مطبوعہ لندن)

(ترتیب و کمپوزڈ: عنبرین نعیم)

پچھلا پڑھیں

ابابیل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2021