• 3 مئی, 2024

ابابیل

ابابیل اپنا گھونسلہ کنویں میں بناتی ہے۔ اس لیے اس کے پاس اپنے نومولود بچوں کو اڑنے کی تربیت دینے کے لیے کوئی دوسری جگہ نہیں ہوتی۔ بچے اگر گر پڑیں تو اس کا مطلب پانی کی دردناک موت۔ اس خطرناک جگہ پر کچی تربیت کا رسک نہیں لیا جاسکتا۔ کسی نے کبھی ابابیل کے مرے ہوئے بچوں کو کنویں کے پانی پر تیرتے نہیں دیکھا ہو گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ابابیل اپنے بچوں کی تربیت انتہائی سخت جانی سے کرتی ہے۔ اگر انڈے سے بچے نکلنے سے پہلے وہ کنویں سے دن بھر میں معمول کی 25 اڑانیں بھرتی تھی تو بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد دو گنا زائد اڑانے بھرنے لگتی ہے۔

یوں نر اور مادہ روزانہ دن بھر اڑانیں بھر کر اپنے بچوں کو عملی تربیت دیتے ہیں اور ان کا دل و دماغ اس یقین سے بھر دیتے ہیں کہ یہاں سے اڑ کر سیدھا باہر ہی جانا ہے۔

بالکل اس طرح اڑان بھرنا ہے جیسے ہم بھرتے ہیں!

ننھے بچے جن کی پیدائش کنویں میں ہوئی ہے اپنے والدین کی پر مشقت زندگی سے لمحہ لمحہ پرواز کا درس لیتے ہیں۔

جس دن بچہ پہلی اڑان بھرتا ہے وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح گھونسلے سے نکل کر سیدھا منڈیر پہ جا بیٹھتا ہے۔

ہماری اولاد ہمارے یقین کے سرمائے سے اپنا حصہ پاتی ہے۔

اگر ہم خود یقین اور عمل کی سخت کوشی سے تہی داماں ہوں گے تو اپنے بچوں کو کیا دیں گے۔

بچے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی باتیں سن کر نہیں بلکہ والدین کے عمل سے سیکھتے ہیں۔

وہ والدین پر جتنا اعتماد کرتے ہیں دنیا کے کسی کتابی ہیرو پر نہیں۔

ابل مبارکباد ہیں وہ والدین جو اپنی اولاد کے لیے آسائشیں نہیں ڈھونڈتے بلکہ انھیں زندگی گزارنے کا درس اپنی مجاھدانہ زندگی سے دیتے ہیں….. کم از کم انکوکبھی اپنے دن کی ساری روٹین ضرور دکھائیں۔ اپنے ساتھ اپنے کام پر لے کر جائیں ۔پورے دن کی مصروفیت کا انکو بھی شعور دلائیں تاکہ انکو بھی شوق پیدا ہو اور سمجھ سکیں کے ان کے پاس جو آسائشیں ہیں ان کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

ان کے رجحان اور پسند کے مطابق انکو ہر کتاب ، مشین اور ضرورت کی چیزیں ، یہاں تک کے لوگوں سے متعارف کروائیں تاکہ وہ ان سے بھی جان سکیں کے در اصل کام کیسے ہوتا ہے ۔ کبھی ہو سکے تو اپنے کسی دوست یا دیگر روابط کے کاموں سے بھی متعارف کرواتے رہیں اور ملوانے لیجاتے رہیں خاص طور پر ان کاموں سے جن میں بچوں کی دلچسپی ہو۔ کھیل بھی ایسا کھلوائیں، فلمیں موویز بھی جو ان کے آئندہ کام اور عملی زندگی میں ممد و معاون ہو ۔ ان کے دوستوں سے دوستی کریں اور دوستوں کے والدین اور دیگر جاننے والوں سے روابط بڑھائیں۔ کتاب سے خود دوستی کریں اور بچوں کو بھی ان کتابوں میں دلچسپی دلوائیں جن میں ان کا رجحان اور شوق موجود ہو ۔

بچوں کو محفوظ نہیں مضبوط بنائیں، آسانی اور آسائش ضرور دیں مگر جب وہ خود کو اس کے قابل ظاہر کر دیں تب.۔ تاکہ ان کو عزت اور اہمیت کمانے کا مطلب سمجھ آ سکے، کوئی بھی آسانی اور آسائش بغیر خود پر ضبط اور محنت کے نہیں ملتی۔ بچوں کو اس کی اہمیت کا احساس دلائیں۔ ہمیں اپنے دفاع کو مضبوط کرنا ہوتا ہے، خندق یا بیرکوں کو ہی مضبوط نہیں کرنا ہوتا نہ ہی بس ان میں چھپ کر بیٹھنا ہوتا ہے۔

ایک بحری جہاز بندرگاہ پر واقعی بہت محفوظ رہتا ہے مگر کیا وہ اسی لئے بنا ہے؟

(کاشف احمد)

پچھلا پڑھیں

اختتامی اجلاس 126واں جلسہ سالانہ قادیان

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ