• 26 اپریل, 2024

فقہی کارنر

تعدد ازدواج

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہئے۔ مثلاً پارچہ جات، خرچ خوراک، معاشرت حتیٰ کہ مباشرت میں بھی مساوات برتے۔ یہ حقوق اس قدم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوہ رہنا پسند کرے۔ خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی اُن کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے۔ ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے، تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار درجہ بہتر ہے۔ تعداد ازدواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لئے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچارہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لئے دوسری شادی کر لے لیکن بیوی کے حقوق تلف نہ کرے۔ تو رات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اُس کی دلداری زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت حصہ اُس نے اس کے ساتھ گزارا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواجِ ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اُس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر اُن اپنی ضرورتوں کی قر بانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے …..

خدا تعالیٰ کے قانون کو اس منشاء کے بر خلاف ہر گز نہ برتنا چاہئے اور نہ اُس سے ایسا فائدہ اُٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے۔ یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے خدا تعالیٰ بار بار فر ماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقوی ٰہو۔ اگر شریعت کو سپر بنا کر شہوات کی اتباع کے لئے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوگا کہ دوسری قو میں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں۔ زنا کا نام ہی گناہ نہیں بلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے۔ دنیا وی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہو نا چاہئے، تا کہ: فَلْیَضْحَکُوْ ا قَلِیْلًا وَ لْیَبْکُوْ ا کَثِیْرًا۔ (التوبہ: 82) یعنی ہنسو تھوڑا اور روؤ بہت کا مصداق بنو۔ لیکن جس شخص کی دنیا وی تمتع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اُس کو رقت اور رونا کب نصیب ہوگا۔ اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشاء سے دور جا پڑتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اگرچہ بعض اشیاء جائز تو کردی ہیں مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمرہی اس میں بسر کی جاوے۔ خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے: یَبِیْتُوْ نَ لِرَ بِّھِمْ سُجَّدٍ ا وَّ قیَا مًا (الفرقان: 65) کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں۔ اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا۔ وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لئے شریک پیدا کرتا ہے۔

آ نحضرت ﷺ کی نو بیویاں تھیں اور باوجود اُن کے پھر بھی آپ ؐساری ساری رات خدا کی عبادت میں گزارتے تھے۔ ایک رات آپؐ کی باری حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس تھی، کچھ حصہ رات کا گزر گیا تو عائشہؓ کی آنکھ کھلی۔ دیکھا کہ آپؐ موجود نہیں، اُسے شبہ ہوا کہ شائد آپؐ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہونگے۔ اُس نے اُٹھ کر ہر ایک کے گھر میں تلاش کیا مگر آپؐ نہ ملے۔ آخر دیکھا کہ آپؐ قبرستان میں سجدہ میں رو رہے ہیں۔ اب دیکھو کہ آپؐ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھوڑ کر مُردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپؐ کی بیویاں حظّ نفس یا اتباع کی بنا ء پر ہو سکتی ہیں؟ غرض کہ خوب یاد رکھو کہ خدا کا اصل منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آ ویں اور تقویٰ کی تکمیل کے لئے اگر ضرورت حقہ پیش آ وے تو بیوی کر لو۔

(البدر 8 جولائی 1904ء صفحہ 2)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ یوکے)

پچھلا پڑھیں

جلسہ یومِ مصلح موعود (جماعت احمدیہ سری لنکا)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مارچ 2022