• 6 مئی, 2024

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 37)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 37

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں

•نماز نماز بھی ہو۔ نماز سے پیشتر ایمان شرط ہے ایک ہند و اگر نماز پڑھے گا تو اسے کیا فائدہ ہوگا جس کا ایمان قوی ہو گاوہ دیکھے گا کہ نماز میں کیسی لذت ہے اور اس سے اوّل معرفت ہے جو خدا کے فضل سے آتی ہے اور کچھ اس کی طینت سے آتی ہے جو محمود فطرت والے مناسب حال اس کے فضل کے ہوتے ہیں اور اس کے اہل ہوتے ہیں انہی پر فضل ہوا کرتا ہے ہاں یہ بھی لازم ہے کہ جیسے دنیا کی راہ میں کوشش کرتا ہے ویسے ہی خدا کی راہ میں بھی کرے۔ پنجابی میں ایک مثل ہے ‘‘جو منگے سومر رہے مرے سومنگن جا۔’’

•لوگ کہتے ہیں کہ دعا کرو۔ دعا کرنا تو مرنا ہوتا ہے اس (پنجابی مصرعہ) کے یہی معنے ہیں کہ جس پر نہایت درجہ کا اضطراب ہوتا ہے وہ د عا کرتا ہے دعا میں ایک موت ہے اور اس کا بڑا اثر یہی ہوتا ہے کہ انسان ایک طرح سے مر جاتا ہے مثلاً ایک انسان ایک قطرہ پانی کا پی کر اگر دعویٰ کرے کہ میری پیاس بجھ گئی ہے یا اسے بڑی پیاس تھی تو وہ جھوٹا ہے ہاں اگر پیالہ بھر کر پیوے تو اس کی بات کی تصدیق ہوگی۔ پوری سوزش اور گدازش کے ساتھ ایک رنگ میں جب دعا کی جاتی ہے حتی کہ روح گداز ہوکر آستانہ الٰہی پر گر پڑتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے۔ اورالٰہی سنّت یہی ہے کہ جب ایسی دعا ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ یا تو اسے قبول کرتا ہے اور یا جواب دیتا ہے۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 6 ایڈیشن 2016ء)

•نماز پڑ ھو،تدبرسے پڑھو اور ادعیہ ماثورہ کے بعد اپنی زبان میں دعا مانگنی مطلق حرام نہیں ہے جب گدازش ہوتو سمجھو کہ مجھے موقعہ دیاگیا ہے اس وقت کثرت سے مانگو کہ اس نکتہ تک پہنچو کہ جس سے رقّت پیدا ہو جاوہے۔ یہ بات اختیاری نہیں ہوتی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ترشحات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کو چہ میں اوّل انسان کو تکلیف ہوتی ہے مگر ایک دفعہ چاشنی معلوم ہوگی تو پھر سمجھے گا جب اجنبیت جاتی رہے گی اور نظارہ قدرت الٰہی دیکھ لیوے گا تو پھر پیچھا نہ چھوڑے گا۔ قاعدہ کی بات ہے کہ تجربہ میں جب ایک دفعہ ایک بات تھوڑی سی آجاو ے تو تحقیقات کی طرف انسان کی طبیعت میلان کرتی ہے اصل میں سب لذات خدا کی محبت میں ہیں۔ ملعون لوگ (یعنی جو خدا سے دور ہیں) جو زندگی بسر کرتے ہیں وہ کیا زندگی ہے۔ بادشاہ اور سلاطین کی کیا زندگیاں ہیں مثل بہائم کے ہیں۔ جب انسان مومن ہوتا ہے تو خود ان سے نفرت کرتا ہے۔

•دہلی کے جلسے میں جو لوگ بڑے شوق سے جاتے ہیں سوائے اس کے کہ وہاں بعض مسخ شدہ شکلوں کو دیکھیں اور کیا دیکھیں گے یہ لوگ ایسے دور دراز خیالا ت میں آ کر پڑے ہیں کہ جب فرشتے آکر جان نکا لیں گے تو اس وقت ان کو حسرت ہوگی۔

•ایمان لانے اور خدا کی عظمت کے دل میں ہونے کی اوّل نشانی یہ ہے کہ انسان ان تمام کو مثل کیڑوں کے خیال کر ے ان کو دیکھ کر دل میں نہ تر سے کہ یہ فاخرہ لباس پہن کر گھوڑوں پر سوار ہیں۔

•درحقیقت ان لوگوں کی قسمت بد اور کتوں کی سی زندگی ہے (کہ مردار دنیا پر دانت مار ر ہے ہیں)۔انسان کو اگر دیکھنے کی آرزو ہو تو ان کو دیکھے جومنقطعین ہیں اور خدا کی طرف آ گئے ہیں اور خدا ان کو زندہ کرتا ہے ان کی زیارت سے مصائب دور ہوتے ہیں جو شخص رحمت والے کے پاس آوے گا تو وہ رحمت کے قریب تر ہوگا اور جوایک لعنتی کےپاس جاوے گا وہ لعنت کے قریب تر ہو گا۔ دنیا میں یہی بات غور کے قابل ہےخدا تعالیٰ فرماتا ہے کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبۃ: 119) یعنی اے بندوتمهارا بچاؤ اسی میں ہے کہ صادقوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ7-8 ایڈیشن 2016ء)

•جو لوگ نری بیعت کر کے چاہتے ہیں کہ خدا کی گرفت سے بچ جائیں۔ وہ غلطی کرتے ہیں۔ ان کونفس نے دھوکا دیا ہے۔ دیکھو طبیب جس وزن تک مریض کو دوا پلانی چاہتا ہے۔ اگر وہ اس حد تک نہ پیو ے توشفا کی امید رکھنی فضول ہے۔ مثلاً وہ چاہتا ہے کہ دس تولہ استعمال کرے اور یہ صرف ایک ہی قطرہ کافی سمجھتا ہے یہ نہیں ہوسکتا پس اس حدتک صفائی کرو۔ اور تقویٰ اختیار کرو جو خدا کے غضب سے بچانے والا ہوتا ہے۔ الله تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر رحم کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا۔ تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔ انسان جب متقی ہوتا ہے تو الله تعالیٰ اس کے اور اس کے غیر میں فرقان رکھ دیتا ہے اور پھر اس کو ہرتنگی سے نجا ت دیتا ہےنہ صرف نجات بلکہ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق: 4)۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ25 ایڈیشن 2016ء)

نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟

•آپ یہ خیال نہ کریں کہ ہم کب بُتوں کی پرستش کرتے ہیں۔ ہم بھی تو اللہ تعالےٰ ہی کی عبادت کرتے ہیں۔ یاد رکھو یہ تو ادنیٰ درجہ کی بات ہے کہ انسان بتوں کی پرستش نہ کرے۔ ہندو لوگ جن کو حقائق کی کوئی خبر نہیں اب بُتوں کی پرستش چھوڑ رہے ہیں معبود کا مفہوم اسی حد تک نہیں کہ انسان پرستی یا بُت پرستی تک ہو۔ اور بھی معبود ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ہوائے نفس اور ہوس بھی معبود ہیں جو شخص نفس پرستی کرتا ہے یا اپنی ہوا و ہوس کی اطاعت کر رہا ہے اور اس کے لئے مر رہا ہے وہ بھی بُت پرست اور مشرک ہے۔ یہ لا نفی جنس ہی نہیں کرتا بلکہ ہر قسم کے معبودوں کی نفی کرتا ہے خواہ وہ انفسی ہوں یا آفاقی۔ خواہ وہ دل میں چھپے ہوئے بُت ہیں یا ظاہری بُت ہیں۔ مثلاً ایک شخص بالکل اسباب ہی پر توکل کرتا ہے تو یہ بھی ایک قسم کا بُت ہے۔ اس قسم کی بُت پرستی تپ دق کی طرح ہوتی ہے جو اندر ہی اندر ہلاک کر دیتا ہے۔ موٹی قسم کے بُت تو جھٹ پٹ پہچانے جاتے ہیں اور اُن سے مخلصی حاصل کرنا بھی سہل ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ لاکھوں ہزاروں انسان اُن سے الگ ہو گئے اور ہو رہے ہیں۔ یہ ملک جو ہندوؤں سے بھرا ہوا تھا کیا سب مسلمان ان میں سے ہی نہیں ہوئے؟ پھر انہوں نے بُت پرستی کو چھوڑا یا نہیں؟ اور خود ہندوؤں میں بھی ایسے فرقے نکلتے آتے ہیں جو اب بُت پرستی نہیں کرتے۔ لیکن یہانتک ہی بُت پرستی کا مفہوم نہیں ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ موٹی بُت پرستی چھوڑ دی ہے مگر ابھی تو ہزاروں بُت انسان بغل میں لئے پھرتا ہے اور وہ لوگ بھی جو فلسفی اور منطقی کہلاتے ہیں۔ وہ بھی ان کو اندر سے نہیں نکال سکتے۔

•اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے سوا یہ کیڑے اندر سے نکل نہیں سکتے یہ بہت ہی باریک کیڑے ہیں اور سب سے زیادہ ضرر اور نقصان ان کا ہی ہے۔ جو لوگ جذبات نفسانی سے متاثر ہو کر اللہ تعالیٰ کے حقوق اور حدود سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اور اس طرح پر حقوق العباد کو بھی تلف کرتے ہیں وہ ایسے نہیں کہ پڑھے لکھے نہیں بلکہ ان میں ہزاروں کو مولوی فاضل اور عالم پاؤگے اور بہت ہوں گے جو فقیہہ اور صوفی کہلاتے ہوں گے مگر باوجود ان باتوں کے وہ بھی ان امراض میں مبتلا نکلیں گےان بُتوں سے پرہیز کرنا ہی تو بہادری ہے اور اُن کو شناخت کرنا ہی کمال دانائی اور دانشمندی ہے۔ یہی بُت ہیں جن کی وجہ سے آپس میں نفاق پڑتا ہے۔ اور ہزاروں کُشت و خُون ہو جاتے ہیں۔ ایک بھائی دوسرے کا حق مارتا ہے اور اسی طرح ہزاروں ہزار بدیاں اُن کے سبب سے ہوتی ہیں۔ ہر روز اور ہر آن ہوتی ہیں اور اسباب پر اس قدر بھروسہ کیا گیا ہے کہ خدا تعالےٰ کو محض ایک عضو معطل قرار دے رکھا ہے۔ بہت ہی کم لوگ ہیں جنہوں نے توحید کے اصل مفہوم کو سمجھا ہے۔ اور اگر انہیں کہا جاوے تو جھٹ کہہ دیتے ہیں کیا ہم مسلمان نہیں اور کلمہ نہیں پرھتے؟ مگر افسوس تو یہ ہے کہ انہوں نے اتنا ہی سمجھ لیا ہے کہ بس کلمہ منہ سے پڑھ دیا اور یہ کافی ہے۔

•میں یقیناً کہتا ہوں کہ اگر انسان کلمہ طیّبہ کی حقیقت سے واقف ہو جاوے اور عملی طور پر اس پرکاربند ہو جاوے تو وہ بہت بڑی ترقی کر سکتا ہے اور خدا تعالےٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ یہ امر خوب سمجھ لو کہ میں جو اس مقام پر کھڑا ہوں۔ میں معمولی واعظ کی حیثیت سے نہیں کھڑا ہوں اور کوئی کہانی سُنانے کے لئے نہیں کھڑا ہوں بلکہ میں تو ادائے شہادت کے لئے کھڑا ہوں میں نے وہ پیغام جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے، پہنچا دینا ہے۔ اس امر کی مجھے پروا نہیں کہ کوئی اسے سُنتا ہے یا نہیں سُنتا اور مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ اس کا جواب تم خود دو گے۔ میں نے فرض ادا کرنا ہے۔ میں جانتا ہوں بہت سے لوگ میری جماعت میں داخل تو ہیں اور وہ توحید کا اقرار بھی کرتے ہیں مگر میں افسوس سے کہتا ہوں کہ وہ مانتے نہیں۔ جو شخص اپنے بھائی کا حق مارتا ہے یا خیانت کرتا ہے یا دوسری قسم کی بدیوں سے باز نہیں آتا۔ میں یقین نہیں کرتا کہ وہ توحید کا ماننے والا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ اس کو پاتے ہی انسان میں ایک خارق عادت تبدیلی ہو جاتی ہے۔ اس میں بغض، کینہ، حسد، ریا وغیرہ کے بُت نہیں رہتے اور خدا تعا لیٰ سے اس کا قرب ہوتا ہے۔ یہ تبدیلی اسی وقت ہوتی ہے اور اسی وقت وہ سچا موحّد بنتا ہے۔ جب یہ اندرُونی بُت تکبّر، خود پسندی، ریاکاری، کینہ و عداوت، حسد و بخل، نفاق و بد عہدی وغیرہ کے دُور ہو جاویں۔ جب تک یہ بُت اندر ہی ہیں۔ اس وقت تک لَا الٰہ اِلَّا اللّٰہ کہنے میں کیونکر سچا ٹھہر سکتا ہے؟ کیونکہ اس میں توکل کی نفی مقصود ہے۔ پس یہ پکّی بات ہے کہ صرف مُنہ سے کہہ دینا کہ خدا کو وحدہٗ لا شریک مانتا ہوں کوئی نفع نہیں دے سکتا۔ ابھی مُنہ سے کلمہ پڑھتا ہے اور ابھی کوئی امر ذرا مخالف مزاج ہوا اور غصّہ اور غضب کو خدا بنا لیا۔

•میں بار بار کہتا ہوں کہ اس امر کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک یہ مخفی معبود موجود ہوں ہر گز توقع نہ کرو کہ تم اس مقام کو حاصل کر لوگے جو ایک سچے موحّد کو ملتا ہے جیسے جب تک چُوہے زمین میں ہیں مت خیال کرو کہ طاعون سے محفوظ ہو۔ اسی طرح پر جب تک یہ چُوہے اندر ہیں اس وقت تک ایمان خطرہ میں ہے۔ جو کچھ میں کہتاہوں اس کو خوب غور سے سُنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے قدم اُٹھاؤ۔ میں نہیں جانتا کہ اس مجمع میں جو لوگ موجود ہیں آئندہ ان میں سے کون ہوگا اور کون نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے تکلیف اُٹھا کر اس وقت کچھ کہنا ضروری سمجھا ہے تا میں اپنا فرض ادا کر دوں
•پس کلمہ کے متعلق خلاصہ تقریر کا یہی ہے کہ اللہ تعالےٰ ہی تمہارا معبود اور محبوب اور مقصود ہو۔ اور یہ مقام اسی وقت ملے گا جب ہر قسم کی اندرونی بدیوں سے پاک ہو جاؤ گے اور اُن بُتوں کو جو تمہارے دل میں ہیں نکال دو گے۔

(ملفوظات جلد نہم صفحہ104-108 ایڈیشن 1984ء)

بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

•میں تو ہمیشہ دعا کرتا ہوں مگر تم لوگوں کو بھی چاہئے کہ ہمیشہ دعا میں لگے رہو نمازیں پڑھو اور توبہ کرتے رہو۔ جب یہ حالت ہو گی تو الله تعالیٰ حفاظت کرے گا اور اگر سارے گھر میں ایک شخص بھی ایسا ہوگا تو الله تعالیٰ اس کے باعث سے دوسروں کی بھی حفاظت کرے گا۔ کوئی بَلا اوردکھ الله تعالیٰ کے ار ادہ کے سوا نہیں آتا اور وہ اس وقت آتا ہے جب الله تعالیٰ کی نافرمانی اور مخالفت کی جاوے۔ ایسے وقت پر عام ایمان کام نہیں آتا بلکہ خاص ایمان کام آتا ہے۔ جو لوگ عام ایمان رکھتے ہیں وہ ان بلاؤں سے حصہ لیتے ہیں اور الله تعالیٰ ان کی پروا نہیں کرتامگر جو خاص ایمان رکھتے ہیں الله تعالیٰ ان کی طرف رجوع کرتا ہے اور آپ ان کی حفاظت کرتا ہے مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ۔ بہت سے لوگ ہیں جو زبان سے لَا الٰہ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار کرتے ہیں اور اپنے اسلام اور ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر وہ الله تعالیٰ کے لیے دکھ نہیں اٹھاتے۔ کوئی دکھ یا تکلیف یا مقدمہ آ جاوے تو فوراً خدا کو چھوڑ نے کوطیار ہو جاتے ہیں اور اس کی نافرمانی کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوئی پروا نہیں کرتا مگر جو خاص ایمان رکھتا ہو اور ہر حال میں خدا کے ساتھ ہو اوردکھ اٹھانے کو طیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس سے دکھ اٹھا لیتا ہے اور دومصیبتیں اس پرجمع نہیں کرتا۔ د کھ کا اصل علاج دکھ ہی ہے اورمومن پر دو بلائیں جمع نہیں کی جاتیں۔

•ایک وہ دکھ ہے جو انسان خدا کے لیے اپنے نفس پر قبول کرتا ہے اور ایک وہ بلائے ناگہانی، اس بَلا سے خدا بچا لیتا ہے۔پس یہ دن ایسے ہیں کہ بہت توبہ کرو۔ اگر چہ ہر شخص کو وحی یا الہام نہ ہومگر دل گواہی دے دیتا ہے کہ خدا اسے ہلاک نہ کرے گا۔ دنیا میں دو دوستوں کے تعلقات ہوتے ہیں۔ایک دوست دوسرے دوست کا مرتبہ شناخت کر لیتا ہے کیونکہ جیسا وہ اس کے ساتھ ہے ویسا ہی وہ بھی اس کے ساتھ ہو گا۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ محبت کے عوض میں محبت اورد غا کے عوض میں دغا۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ میں اگر کوئی حصہ کھوٹ کا ہوگا تو اسی قدر ادھر سے بھی ہوگا۔ مگر جو اپنا دل خداسے صاف رکھے اور دیکھے کہ کوئی فرق خدا سے نہیں ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس سے کوئی فرق نہ رکھے گا۔ انسان کا اپنا دل اس کے لیے آئینہ ہے وہ اس میں سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ پس سچا طریق دُکھ سے بچنے کا یہی ہے کہ سچے دل سے اپنے گناہوں کی معافی چا ہو اور وفاداری اور اخلاص کا تعلق دکھاؤ اوراس راہِ بیعت کو جو تم نے قبول کی ہے سب پر مقدم کرو کیونکہ اس کی بابت تم پوچھے جاؤ گے۔ جب اس قد راخلاص تم کومیسر آ جاوے توممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ تم کو ضائع کرے۔ ایسا شخص سارے گھر کو بچالےگا۔ اصل یہی ہےاس کو مت بھولو۔ نری زبان میں برکت نہیں ہوتی کہ بہت سی باتیں کر لیں۔ اصل برکت دل میں ہوتی ہے اور وہی برکت کی جڑ ہے۔ زبان سے تو کروڑ ہا مسلمان کہلاتے ہیں جن لوگوں کے دل خدا کے ساتھ مستحکم ہیں اور وہ اس کی طرف وفا سے آتے ہیں خدا بھی ان کی طرف وفا سے پیش آتا ہے اور مصیبت اوربلا کے وقت ان کو الگ کر دیتا ہے۔ یاد رکھو یہ طاعون خود بخود نہیں آئی بلکہ اس کواللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے جو اپنے وقت پرآئی ہے اب جوکھوٹ اور بیوفائی کا حصہ رکھتا ہے وہ بلا اوروبا سے بھی حصہ لے گا مگر جو ایسا حصہ نہیں رکھتا خدا اسے محفوظ رکھے گا۔

•مَیں اگر کسی کے لیے دعا کروں اور خدا کے ساتھ اس کامعاملہ صاف نہیں ہے وہ اس سے سچا تعلق نہیں رکھتا تو میری د عا اس کو کیا فائدہ دے گی۔ لیکن اگر وہ صاف دل ہے اور کوئی کھوٹ نہیں رکھتا تو مَیری دعا اس کے لیے نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ہوگی۔

•زمینداروں کو دیکھا جاتا ہے و ہ دو دو پیسے کی خاطر خدا کو چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ خدا انصاف اور ہمدردی چاہتا ہے اور وہ پسند کرتا ہے کہ لوگ فسق، فحشاء اور بے حیائی سے باز آویں جوایسی حالت پیدا کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کے ساتھ ہوتے ہیں، مگر جب دل میں تقویٰ نہ ہواور کچھ حصہ شیطان کا بھی ہوتوخدا شراکت پسند نہیں کرتا اور وہ سب چھوڑ کر شیطان کا کردیتا ہے کیونکہ اس کی غیرت شرکت پسند نہیں کرتی۔ پس جو بچنا چاہتا ہے اس کو ضروری ہے کہ وہ اکیلا خدا کا ہو مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ خداتعالیٰ نے کبھی کسی صادق سے بےوفائی نہیں کی ہے۔ ساری دنیا بھی اگر اس کی دشمن ہو اور اس سے عداوت کرے تو اُس کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتی۔ خدا بڑی طاقت ہے اور قدرت والا ہے اور انسان ایمان کی قوت کے ساتھ اس کی حفاظت کے نیچے آتا اور اس کی قدرتوں اور طاقتوں کے عجائبات د یکھتا ہے پھر اس پر کوئی ذلّت نہ آوے گی۔ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ زبر دست پربھی زبردست ہے بلکہ اپنے امر پر بھی غالب ہے سچے دل سے نمازیں پڑھو اور دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے سب رشتہ داروں اور عزیزوں کویہی تعلیم دو پُورے طور پر خدا کی طرف ہوکر کوئی نقصان نہیں اُٹھاتا۔ نقصان کی اصل جڑ گُناہ ہے۔

•ساری عزتیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ دیکھو بہت سے ابرار اخیار دنیا میں گذرے ہیں۔ اگر وہ دنیادار ہوتے تو ان کے گذارے ادنیٰ درجہ کے ہوتے اور کوئی ان کو پوچھتا بھی نہیں۔ مگر وہ خدا کے لیے ہوئے اور ساری دنیا کو ان کی طرف کھینچ لایا۔ خدا تعالیٰ پر سچا یقین رکھو اور بدظنی نہ کرو۔ جب اِس کی بدبختی سے خدا پر بد ظنی ہوتی ہے تو پھر نہ نماز درست ہوتی ہے نہ روزہ نہ صدقات۔ بدظنی ایمان کے درخت کو نشو ونما ہونے نہیں دیتی بلکہ ایمان کا درخت یقین سے بڑھتا ہے۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ179-181 ایڈیشن 2016ء)

(ترتیب و کمپوزنگ: خاقان احمد صائم و فضلِ عمر شاہد۔ لٹویا)

پچھلا پڑھیں

جلسہ یومِ مصلح موعود (جماعت احمدیہ سری لنکا)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مارچ 2022