• 4 مئی, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 8)

قرآنی انبیاء
کنعان کا چاند
قسط 8

اگر تم اپنے والد کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو تو یوسف کو راستے سے ہٹانا ہو گا۔ ایک بھائی نے کہا تو پھر ایسا کرتے ہیں اسے قتل کر دیتے ہیں۔ دوسرے بھائی نے رائے دی نہیں نہیں، اسے قتل مت کرو بلکہ کسی کنویں میں پھینک آؤ۔ تیسرے بھائی نے تجویز پیش کی۔ ایک نیک اور تقوی شعار بچے کی کہانی جس کے بھائی اسے راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔

ابا جان رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ آپ کو سناؤں ؟ ننھے یوسف نے جس کی عمر کوئی گیارہ بارہ سال کے لگ بھگ تھی اپنے والد سے پوچھا۔ ہاں ہاں ضرور سناؤ ! والد نے بڑی محبت کے ساتھ یوسف کی طرف توجہ کی اور خواب سننے گے۔ یہ کنبہ جس میں یوسف رہتے تھے ان کے والد والدہ اور گیارہ بھائیوں پر مشتمل تھا۔ یعنی کل بارہ بھائی اپنے والدین کے ساتھ اس گھر میں رہا کرتے تھے۔ ان بارہ بھائیوں میں سے دو بھائی یوسف اور ان سے چھوٹا بنیامین ایک والدہ سے تھے جب کہ باقی دس دو سری والدہ سے تھے اور یوسف اور بنیامین کے سوتیلے بھائی تھے۔ یہ گھرانہ کنعان کا ایک معروف گھرانہ تھا۔ یوسف کے والد یعقوب علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی تھے۔ آپ حضرت اسحٰق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ یوں نیکی اور تقوی آپ کو ورثے میں ملا تھا اور اس ورثے میں سے آپ کے بیٹے یوسف نے بھی حصہ پایا تھا۔ یوسف کی طبیعت اپنے باقی دس سوتیلے بھائیوں سے بالکل مختلف تھی۔ وہ دنیا دار قسم کے لوگ تھے جب کہ ان کے بر عکس یوسف کارجحان ابتداء سے ہی دینی امور کی طرف تھا۔ نیکی اور تقوی کے زیور سے مزین یوسف اپنے بھائیوں سے بہت الگ سے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے تمام بیٹوں میں یوسف سے سب سے زیادہ محبت تھی کیونکہ عام دستور کی بات ہے کہ نیک اور اچھے بچے ہمیشہ اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا ہوتے ہیں۔ سو یوسف بھی انہی بچوں میں سے ایک تھے۔ جس کی وجہ سے حضرت یعقوب علیہ السلام آپ سے بہت پیار کیا کرتے تھے۔ جسے دوسرے بھائی محسوس بھی کرتے تھے۔ بہرحال دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے کہ ایک رات یوسف نے ایک خواب دیکھا جو بظاہر بہت عجیب ساخواب تھا۔ آپ نے اپنے والد کے پاس اس خواب کاذکر کیا تو انہوں نے خواب سنانے کو کہا۔ یوسف نے بتایا کہ ابارات میں نے خواب میں گیارہ ستاروں کو دیکھا اور سورج اور چاند کو بھی دیکھا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ وہ سب کے سب میرے سامنے سجدہ کر رہے ہیں۔ حضرت یعقوب جو پہلے ہی یوسف کی نیکی کے قائل تھے اس خواب کا مطلب فورا سمجھ گئے۔ آپ کو پتہ چل گیا کہ اللہ تعالیٰ میرے اس بیٹے کو خوب ترقیات عطا فرمائے گا یہاں تک کہ بڑے بڑے وجود اس کی اطاعت کریں گے لیکن ساتھ ہی آپ کے ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ اگر یہ خواب یوسف نے اپنے بھائیوں کو سنایا تو کہیں وہ حسد کے مارے یوسف کے خلاف کوئی بری تدبیر نہ کریں۔ اس لئے انہوں نے احتیاط کرتے ہوئے یوسف سے کہا بیٹا یہ خواب تو یقینا بہت اچھا ہے لیکن اپنے بھائیوں کے سامنے اس خواب کا ذکر نہ کرنا۔ وہ پہلےہی تم سے حسد کرتے ہیں۔ اس خواب کے نتیجے میں اور بھی زیادہ تمہارے خلاف ہو جائیں گے۔ جہاں تک میں اس خواب کا مطلب سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بہت عزت دے گا۔ تمہیں ایسی باتوں کا علم بخشے گا اور تمہارے داداا سحٰق علیہ السلام اور پرداداابراہیم علیہ السلام کی طرح تمہیں بھی نبوت کی نعمت عطا کرے گا لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ احتیاط بھی کرنا ہو گی۔ اپنے سوتیلے بھائیوں سے بچ کر رہنا۔ ایسانہ ہو کہ وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچائیں۔ یہاں یہ باتیں چل رہی تھیں اور دوسری طرف سوتیلے بھائی اس فکر میں گھلے جا رہے تھے کہ نہ جانے یوسف میں کون سی ایسی بات ہے کہ ابا جان محترم اس سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ اس کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ہماری نسبت اس سے زیادہ تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ اس محبت نے ان سب کو حسد میں جلا رکھا تھا۔ وہ طرح طرح کی باتیں سوچتے کہ کس طرح یوسف سے زیادہ باپ کے پیارے بن جائیں لیکن انہیں کچھ سمجھ نہ آتا تھا۔ یہ سوچیں دن بدن گہری ہوتی چلی جارہی تھیں اور یوسف سے حسد روز بروز بڑھتا چلا جارہا تھا۔ یوسف کے سوتیلے بھائی اب سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے لگے تھے۔ ویسے تو اس مسئلے کا سیدھا سادھا اور آسان حل یہ تھا کہ وہ بھی نیک بن جاتے۔ تقوی میں ترقی کرتے تو جیسے یوسف اپنے باپ کو پیارے تھے ویسے وہ بھی پیارے ہو جاتے لیکن ان کی الٹی سوچوں میں یہ سیدھی سادی بات نہ آسکی اور وہ یہ سوچنے لگے کہ کسی طرح اگر یوسف کو راستے سے ہٹا دیا جائے تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ جب یوسف ہی باقی نہیں رہے گا تو والد کی تمام تر توجہ ہماری طرف ہو جائے گی اور ہم اپنے والد کی محبت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایک بھائی نے یہ مشورہ دیا کہ اگر تم یوسف کو قتل کردو تو یہ تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ « نہ رہے گابانس نہ بجے گی بانسری «۔ یہ بہت خطرناک فیصلہ تھا اور تمام بھائی اس پر راضی بھی نہ تھے کیونکہ انہیں یوسف سے کوئی ذاتی دشمنی تو تھی ہی نہیں کہ وہ اسے قتل کرتے۔ وہ تو صرف اپنے حسد کی وجہ سے یوسف کو راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔ اس لئے قتل کا مشورہ تمام بھائیوں نے تسلیم نہ کیا۔ تب ایک بھائی نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یوسف کو قتل کرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر تم کچھ کرناہی چاہتے ہو تو ایسا کرو کہ اسے کسی کنویں میں پھینک دو۔ کوئی آتا جا تا قافلہ اسے نکال لے گا اور اپنے ساتھ لے جائے گا۔ یوں اسے قتل بھی نہیں کرنا پڑے گا اور ہمارامسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ ٹھیک ہے ! بالکل ٹھیک ! تمام بھائی اس بات پر متفق ہو گئے کہ یوسف کو کسی کنویں میں پھینک آئیں اور لگے اس کے لئے تدبیریں کرنے۔ آخر کار ایک روز انہوں نے با قاعدہ منصوبہ بنا کر ایسا کرنے کا پختہ فیصلہ کرلیا اور اپنے والد کے پاس جاکر کہنے لگے والد محترم ! یوسف ہمارا بھائی ہے ! اگر آپ کو اس سے محبت ہے تو ہمیں بھی بھائی ہونے کے ناطے وہ پیارا ہے۔ پھر کیاوجہ سے کہ آپ ہم پر يوسف کے معاملے میں بالکل اعتبار نہیں کرتے۔ نہ اسے ہمارے ساتھ کہیں آنے جانے دیتے ہیں نہ اسے ہمارے ساتھ تعلق رکھنے دیتے ہیں۔ یہ بات تو درست نہیں ہے۔ اب ہم نے کل کے لئے ایک پروگرام بنایا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم سب بھائی مل کر سیر کے لئے جائیں۔ یوسف بھی ہمارے ساتھ ہو گا اور مزے سے سیر کرے گا۔ کھیلے گا۔ کھائے پئے گا اور شام کو ہم لوگ واپس آجائیں گے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ یہ سب یوسف سے حسد کرتے ہیں۔ انہوں نے جب اتنی محبت کا اظہار دیکھاتو فورًا سمجھ گئے کہ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔ یہ بھائی جو یوسف کے شدید مخالف رہے ہیں یکایک اتنی محبت کیسے کرنے لگے۔ آپ نے انہیں ٹالنے کے لئے کہا مجھے معلوم ہے کہ تم اس کے بھائی ہو لیکن یوسف ابھی چھوٹا ہے۔ تم جنگل میں سیر کے لئے جاؤ گے۔ کھیلو کو دوگے۔ ہو سکتا ہے تم یوسف کی حفاظت سے غافل ہو جاؤ اور کوئی درندہ اسے نقصان پہنچادے۔ اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ تم سیر کر آؤ اور یوسف کو رہنے دو۔نہیں والد محترم !! بھائیوں میں سے ایک بولا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہماری موجودگی میں کوئی درندہ اسے نقصان پہنچا دے۔ ہم اتنے سارے بھائی اس کے ساتھ ہوں گے۔ ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں ہے۔ آپ ہم پر اعتبار کریں۔ کچھ نہیں ہو گا۔ اچھا !! حضرت یعقوب نے گو یا ہار مانتے ہوئے اجازت دے دی۔ جیسے تمہاری مرضی لیکن دیکھو یوسف کا خیال رکھنا۔ اسے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ ایساہی ہو گا۔ تمام بھائیوں نے بیک زبان ہو کر کہا اور اگلے روز سیر پر جانے کی تیاری شروع کر دی یعنی یوسف کو کنویں میں پھینک کر آنے کی تیاری …۔ یوسف اس بات سے بالکل بے خبر تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ انہیں صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کے لئے جار ہے ہیں۔ لیکن مکار بھائی اپنے منصوبے پر عمل کرنے کے لئے پوری طرح تیار تھے۔ چنانچہ جنگل پہنچ کر انہوں نے ایک متروک ساکنواں دیکھا اور یوسف کو اٹھا کر اس میں پھینک دیا۔ عین اس وقت جس وقت وہ یہ کام کر رہے تھے اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو وحی کے ذریعے تسلی دی اور فرمایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے تم ضرور محفوظ رہوگے اور ایک وقت آئے گا کہ تم اپنے ان بھائیوں سے اس سلوک کے متعلق پو چھو گے۔ خدا تعالیٰ کی اس بشارت سے یوسف مطمئن ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی پناہ میں لے لیا تھا۔ پھر ڈر کیسا تھا ؟ مکار بھائی انہیں کنویں میں پھینک کر شام ڈھلے گھر واپس لوٹے اور روتے ہوئے حضرت یعقوب علیہ السلام کو بتایا کہ یوسف کو جنگل میں بھیٹریا کھا گیا ہے۔ کیا ؟ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے ؟ حضرت یعقوب علیہ السلام کی تو غم کے مارے حالت خراب ہو گئی۔ لیکن کیسے ؟ تم سب کہاں تھے ؟ اسے بھیٹریا کیسے کھا گیا ؟ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں سے پوچھا۔ ہوایوں کہ ہم جنگل میں جاکر کھیلنے کودنے میں مصروف ہو گئے۔ ایک بھائی نے جھوٹا قصہ بنا کر والد کو مطمئن کرنا چاہا۔ ہم نے آپس میں دو ڑ کا مقابلہ شروع کر دیا اور یوسف سے کہا کہ تم یہاں سامان کے پاس بیٹھ جاؤ۔ وہ سامان کے پاس بیٹھا تھا اور ہم دوڑتے ہوئے دور نکل گئے۔ اسی اثناء میں کسی طرف سے ایک بھیٹریا آیا اور یوسف کو کھا گیا۔ یہ دیکھیں اس کی قمیص ہم ساتھ لائے ہیں۔ ایک بھائی نے یوسف کی قمیص نکال کر والد کے سامنے رکھ دی۔ اس قمیص پر آتے ہوئے وہ کسی جانور کا خون لگا کر لے آئے تھے۔ یہ دیکھیں یوسف کی خون آلود قمیص ! والد محترم ہم بہت شرمندہ ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسے بھیٹریا کھا گیا ہے۔ گو ہم جانتے ہیں کہ اگر چہ ہم سچ بھی بول رہے ہوں آپ کو ہماری بات کا یقین ہر گز نہیں آئے گا۔ لڑکوں نے اپنی بات میں مزید زور پیدا کرنے کے لئے کہا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام ایک عقل مند اور ذہین انسان تھے۔ وہ اپنے بیٹوں کی باتوں کو سن کر فورا سمجھ گئے کہ معاملہ یوں نہیں ہے جیسے یہ بیان کر رہے ہیں بلکہ بات کچھ اور ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں سے بھی صاف صاف کہہ دیا کہ یہ باتیں جو تم بیان کر رہے ہو ہر گز ہر گزسچ نہیں ہیں بلکہ تمہارے دل میں شیطان نے کوئی بری بات تمہیں اچھی کر کے دکھائی ہے۔ لیکن میں تم سے کیا کہوں ؟ تم اگر اس قابل ہوتے تو ایسی حرکت کرتے ہی کیوں۔ تم نے جو کچھ بھی کیا اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ پس میں تو اللہ تعالیٰ سے ہی مدد کا طالب ہوں اور صبر کر تا ہوں۔کبھی نہ کبھی یہ بات ضرور کھل جائےگی۔ دراصل حضرت یعقوب علیہ السلام خداتعالیٰ کی بشارتوں اور خوشخبریوں کی بناء پر یہ یقین رکھتے تھے کہ یوسف ان کا بیٹا ضرو ر ایک عظیم انسان بنے گا۔ خدا تعالیٰ کے مقربین میں بلکہ اس کے انبیاء میں شامل ہو گا۔ اس وجہ سے آپ کو اس کی جدائی کاصدمہ تو تھالیکن مایوسی بہر حال نہیں تھی۔ ادھر یوسف کنویں کی تہہ میں پڑے خداتعالیٰ کی مدد کے منتظر تھے۔ خداکاکر ناکیاہوا کہ ایک قافلہ جو فلسطین سے مصر کی جانب جا رہا تھا عین اس کنویں کے پاس آکر ٹھہرا۔ قافلے والوں نے جنگل میں اس کنویں کے پاس پڑاؤ کیا اور اپنے ایک آدمی سے کہا کہ جاؤ کنویں سے پانی لے آؤ۔ وہ آدمی کنویں پر پہنچا اور پانی نکالنے کے لئے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کنویں میں ایک خوبصورت بچہ موجود ہے۔ اس نے جلدی جلدی آپ کو باہر نکالا اور قافلے والوں کو بتایا کہ مجھے کنویں میں سے ایک بچہ ملا ہے۔ قافلے کے لوگوں کا خیال تھا کہ اس بچے کو چھپالیا جائے اور اپنے ساتھ مصرلے جایا جائے کیونکہ وہاں یہ بچہ غلام کے طور پر فروخت کر کے اس کی اچھی خاصی قیمت مل سکتی تھی۔ ابھی وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ یوسف کے بھائیوں میں سے بعض جو اپنے جرم کا انجام دیکھنے کے لئے اس کنویں کے آس پاس ہی موجود تھے قافلے والوں کے پاس آ گئے اور آ کر کہا کہ اے قافلے والو ! ہم نے اپنے ایک غلام کو سزا کے طور پر کنویں میں ڈالا ہوا تھا تم نے اسے نکال کر چھپا کیوں لیا ہے۔ یہ نکمااور کام چور غلام ہے اس لئے اسے یہ سزا دی گئی تھی۔ تم اگر اسے خریدنا چاہو تو ہم تھوڑی سی قیمت کے عوض اسے بیچنے کو تیار ہیں۔ قافلے کے لوگ تو پہلے ہی اس بچے کو ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ ایک شخص ان میں سے کھڑا ہوا اور اس نے چند در ھم کے بدلے برادران یوسف سے یوسف کاسودا طے کرلیا اور یوسف کو مصر لے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ شخص جس نے آپ کو خریدا تھا مصری حکومت کا ایک سردار تھا۔ وہاں کی حکومت میں اس کے پاس اچھے عہدے تھے۔ وہ آپ کو غلام نہیں بلکہ بیٹا بنا کر اپنے گھر میں رکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ فلسطین سے اس قافلے کے ساتھ آپ مصر پہنچ گئے۔ مصری سردار آپ کو لے کر اپنے گھر پہنچا اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ لڑکا میرے ساتھ فلسطین سے آیا ہے۔ اس کی رہائش کا بندوبست کرو۔ اب یہ ہمارے ساتھ رہا کرے گا۔ ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں گے اور یہ ہمارے لئے فائدہ مند وجود بن جائےگا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشخبریوں کے مطابق اپنے بندے یوسف کو کنویں سے نکال کر مصر کے ایک معزز گھرانے میں پہنچا دیا اور آپ امن و سلامتی کے ساتھ وہاں رہنے لگے۔ دن گزرتے گئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ نیکی اور تقوی میں بھی ترقی کرتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ آپ جوانی کی عمر کو پہنچ گئے اور اللہ تعالیٰ نے خاص حکمت اور علم اور فراست آپ کو عطا کی۔ اور مصر میں ایک عزت والا ٹھکانہ آپ کو عطا کر دیا۔ انہی دنوں ایک واقعے نے اس پر سکون زندگی میں ہلچل مچادی۔ حضرت یوسف علیہ السلام جس گھر میں رہتے تھے اس کی مالکہ جو مصری سردار کی بیوی تھی۔ آپ کے حسن و جمال اور آپ کے اعلیٰ اخلاق کی بناء پر آپ کو بہت پسند کرتی تھی۔ لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ آپ ایک انتہائی نیک اور پاکباز انسان ہیں۔۔۔ اس نے آپ کو بعض برے معاملات میں الجھانا چاہا لیکن آپ نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ باوجود اس کے کہ آپ اس کے گھر میں رہتے تھے آپ نے کسی بھی قیمت پر اس کی بات نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ میری یہ تمام عزت اور تکریم اس گھرانے کی عطا کردہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے یہ تمام انتظام کیا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اس خدا کی تعلیمات کو بھول کر غلط اور برے کاموں میں پڑ جاؤں۔ آپ نے تہیہ کر لیا کہ جو بھی ہو گا میں برداشت کر لوں گا لیکن اس عورت کی بات نہیں مانوں گا۔ چنانچہ ایساہی ہوا۔ آپ نے جب اس کی بات ماننے سےانکار کیا تو وہ عورت آپ کے خلاف ہو گئی اور اس نے فیصلہ کیا کہ ہر قیمت پر آپ کو مجبور کرے گی۔ لیکن در حقیقت وہ آپ کے عزم سے واقف نہ تھی ورنہ شاید کبھی ایسا فیصلہ نہ کرتی۔ اس نے یوسف علیہ السلام کو دھمکی دی کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تمہیں قید کروا دوں گی۔ حضرت یوسف اس کی یہ بات سن کر بالکل بھی پریشان نہ ہوئے بلکہ آپ برائی کی طرف جانے سے قید کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس عورت کی یہ دھمکی سن کر آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے میرے اللہ ! یہ عورت مجھے برائی کی طرف بلا رہی ہے اور میں اس کی بات ماننے سے مسلسل انکار کر رہا ہوں۔ اب اس نے مجھے قید کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اے اللہ ! میں ان برائیوں کی نسبت قید خانے کو زیادہ پسند کر تا ہوں۔ مجھے قید قبول ہے لیکن تیری نافرمانی کرنا ہرگز ہرگز منظور نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ جو آپ کے دل کی سچائی سے واقف تھا اس نے آپ کی یہ دعا قبول کرلی اور آپ کو ایک مدت تک کے لئے قید کر دیا گیا۔ یہ قید خانہ جس میں آپ کو رکھا گیا تھا یہاں دو قیدی اور بھی تھے۔ یہ دونوں مختلف جرائم کی بناء پر یہاں سزا بھگت رہے تھے اور قید میں ساتھ رہنے کی وجہ سے دونوں حضرت یوسف علیہ السلام کی نیکی اور پاکیزگی کے قائل تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ دونوں نے مختلف خوابیں دیکھیں اور حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس اپنی خوابوں کا ذکر کر کے کہا کہ ہم آپ کو ایک نیک اور پرہیز گار انسان خیال کرتے ہیں آپ ہمیں ان خوابوں کی تعبیر بتائیں۔ حضرت یوسف نے تعبیر بتانے کی حامی بھری تو انہوں نے اپنا اپنا خواب سنانا شروع کیا۔ پہلے نے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں انگوروں کا رس نکال رہا ہوں اس کی بھلا کیا تعبیر ہو سکتی ہے؟ حضرت یوسف نے اسے بتایا کہ یہ ایک اچھی خواب ہے۔ اور تعبیراس کی یہ ہے کہ تم اس قید سے آزاد ہو جاؤ گے اور واپس جا کر اپنے آقا کی خدمت کرو گے۔ اسے انگوروں کا رس پلاؤ گے۔ پھر دوسرے شخص نے بھی اپنا خواب بیان کیا اور بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں نے اپنے سر پر روٹیاں اٹھائی ہوئی ہیں اور پرندے ان روٹیوں میں سے کھا ر ہے ہیں۔ اس کی تعبیر بھی بتا دیں۔ آپ نے اس خواب کو سن کر فرمایا یہ خواب بہت ہولناک تعبیر رکھتی ہے۔ اے خواب دیکھنے والے ! اس کی تعبیر یہ ہے کہ تمہیں صلیب دے کر مار دیا جائیگا اور تمہاری لاش کے سر سے پرندے گوشت وغیرہ کھائیں گے۔ یہ تھیں وہ تعبیریں جن کے متعلق تم مجھ سے پوچھ رہے تھے۔ آپ نے اس شخص سے جس کے متعلق آپ نے بتایا تھا کہ وہ قید سے رہا ہو جائیگا کہا کہ اے شخص ! تم جب رہا ہو کر اپنے مالک کے پاس واپس جاؤ تو اس کے پاس میراذکر ضرور کرنا۔ میرے حالات بتانا کہ کس طرح میں بغیر کسی گناہ کے جیل میں پڑا ہوا ہوں۔ اس شخص نے وعدہ کر لیا کہ ٹھیک ہے میں ایساہی کروں گا اور پھر وقت گزرتا گیا اور بالآ خر ویسا ہی ہوا جیسا حضرت یوسف علیہ السلام نے خوابوں کی روشنی میں بتایا تھا۔ ان ملزموں میں سے ایک کو صلیب دے دی گئی جب کہ دو سرا بری کر دیا گیا اور قید سے رہا ہو گیا۔ لیکن بد قسمتی سے وہ اس وعدے کو جو اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا بھول گیا اور آپ کو مزید کچھ سال بے گناہ ہونے کے باوجود اس قید میں گزارنے پڑے۔ لیکن آپ اس قید سے ناخوش نہیں تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں جو لوگ سزائیں بھگتتے ہیں خدا تعالیٰ کی محبت اور شفقت بھی ان سے الگ نہیں ہوتی۔ ایسی قید پر تو ہزاروں آزادیاں قربان کی جاسکتی ہیں۔

بادشاہ مصر کا دربار بڑی شان کے ساتھ لگا ہوا تھا تمام در باری بڑے ادب کے ساتھ بادشاہ کے سامنے موجود تھے اور بادشاہ کی باتیں سن رہے تھے۔ اچانک بادشاہ نے اپنے ایک خواب کا ذکر کیا جو حیرت انگیز تھا۔ بادشاہ نے بتایا کہ میں نے رات خواب میں سات موٹی تازی اور صحت مند گائیں دیکھی ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھارہی ہیں اس طرح میں نے خواب میں سات ترو تازہ اور سر سبراناج کی بالیاں دیکھی ہیں جن کے ساتھ کچھ اور بالیاں بھی تھیں جو خشک تھیں۔ کیا اہل دربار میں سے کوئی ہے جو مجھے اس خواب کی درست تعبیر سے آگاہ کر سکے ؟ دربار پر ایک خاموشی چھا گئی۔ یہ ایک عجیب ساخواب تھاجس کا کوئی مطلب کسی کے ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ کیا ہمارے دربار میں موجود اھل علم لوگ ہمارے اس خواب کی تعبیر بیان کرنے سے قاصر ہیں ؟ بادشاہ نے اپنی بارعب آواز میں اپنی بات کو دہرایا تو کچھ سرداروں نے ہمت کر کے کہا۔ بادشاہ سلامت ! آپ خواہ مخواہ اس خواب کو اہمیت دے رہے ہیں۔ خوابیں تو انسان دیکھتا ہی رہتا ہے۔ لیکن ضروری تو نہیں ہو تاکہ ضرور ہر خواب کا کوئی مطلب بھی ہو۔ ہماری رائے میں یہ خواب بھی ایساہی ہے۔ اس وجہ سے تمام اہل علم دانشور بھی اس کی تعبیر بتانے سے قاصر ہیں۔ بہتر ہو گا کہ ہم اس کاذکر چھوڑ دیں۔ یہ تمام باتیں جس وقت دربار میں ہو رہی تھیں اس وقت بادشاہ کا وہ ملازم بھی جو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ قید خانے میں وقت گزار چکا تھادربار میں موجود تھا۔ اس نے جب بادشاہ کا خواب سنا تو فوری طور پر اس کا خیال حضرت یوسف کی طرف گیا کیو نکہ وہ جانتا تھا کہ یوسف خواب کی بالکل صحیح تعبیر بتاتے ہیں۔ وہ فوری طور پر بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں اس خواب کی تعبیر بتا سکتا ہوں لیکن مجھے تھوڑی سی مہلت در کار ہے۔ آپ مجھے اجازت دیں میں کچھ دیر میں آتاہوں۔ چنانچہ وہ دربار سے نکل کر سید ھاقید خانے پہنچا جہاں ابھی تک حضرت یوسف علیہ السلام قید تھے۔ آپ کو دیکھتے ہی وہ شخص بولا۔ اے یوسف ! اے سچے انسان! میں ایک خواب کی تعبیر پوچھنے کے لئے تمہارے پاس آیا ہوں۔ براہ کرم مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ۔ آپ نے اسے کہا کہ اچھا خواب بتاؤ۔ میں تعبیر کر تا ہوں۔ اس نے بادشاہ کا سارا خواب کہہ سنایا کہ یوں انہوں نے سات موٹی گائیں دیکھی ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اسی طرح سات سر سبز اناج کی بالیاں اور کچھ خشک بالیاں دیکھی ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے پورا خواب سنااور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم کے مطابق اس کی تعبیر کرنا شروع کر دی۔ آپ نے اسے بتایا کہ اس خواب میں ایک بہت بڑا پیغام ہے۔ بات یہ ہے کہ تم لوگ سات سال تک خوب محنت کے ساتھ کاشتکاری کروگے۔ غلہ بھی خوب پیدا ہو گا اور خوشحالی بھی ہو گی۔ لیکن فراخی کے ان سات سالوں کے بعد سات سخت تنگی کے سال آئیں گے۔ جن میں پیداوار بہت کم ہو گی۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ تم لوگ ان پہلے سات سالوں میں جو بھی پیداوار حاصل کرو۔ ضرورت کے مطابق اسے استعمال کرو اور باقی اناج سات قحط کے سالوں کے لئے رکھ لو۔ یوں تمہارے وہ قحط والے سال بھی سکون سے گزر جائیں گے۔ اور قحط زیادہ تکلیف دہ نہیں ہو گا۔ پھران تکلیف کے سالوں کے بعد دوبارہ فراخی کے سال آ جائیں گے۔ اور معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ وہ شخص یہ عظیم الشان تعبیر سن کر دوڑ تا ہوا بادشاہ کے پاس پہنچا اور تمام واقعہ اس کے سامنے رکھ دیا۔ بادشاہ اپنی خواب کی ایسی اچھی اور فائدہ مند تعبیر سن کر حیران رہ گیا اور فوری طور پر اس نے حکم دیا کہ اس خواب کی تعبیر بیان کرنے والے شخص کو میرے پاس لایا جائے۔ اےصاحب عقل اور دانشور شخص! یقیناً آپ ہمارے بہت کام آسکتے ہیں۔ بادشاہ نے فوری طور پر یوسف علیہ السلام کو بلانے کے لئے اپنا ایک ہر کارہ قید خانے کی طرف بجھوایا اور آپ کی رہائی سے قبل تمام معاملات کی از سر نو تحقیق کروائی گئی۔ بادشاہ کے سامنے جب تمام بات کھلی تو معلوم ہو گیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام بالکل بے گناہ تھے اور تمام تر قصور مصری سردار کی بیوی کا تھا۔ اس نے خواہ مخواہ آپ کو قید خانے میں ڈلوادیا تھا۔ یوں حضرت یوسف علیہ السلام باعزت طور پر بری ہو گئے اور بادشاہ کے دربار میں عزت کے ساتھ پیش کئے گئے۔ آپ کے ساتھ گفتگو کر کے نیز آپ کی شخصیت کو دیکھ کر بادشاہ بہت متاثر ہوا اور اس نے فیصلہ کیا کہ آپ کو اپنے دربار میں کوئی عمدہ ساعہدہ عطا کرے گا۔ جب اس نے آپ سے یہ بات کی اور اپنی خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے اسے کہا کہ میں مالی امور کا کام بہتر طور پر کر سکتا ہوں اس لئے اگر آپ میرے ذمے کوئی کام لگانا چاہتے ہیں تو مجھے یہ کام دے دیں تا کہ میں اپنے فرائض اچھی طرح ادا کر سکوں۔ بادشاہ نے آپ کی بات سے اتفاق کیا اور آپ کو خزانوں کا افسر بنادیا۔ یہ ایک عظیم الشان ترقی تھی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی۔ کہاں آپ ایک کمزور بچے کی حیثیت سے اس ملک مصر میں داخل ہوئے تھے اور کہاں اب آپ یہاں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو گئے تھے۔ ہر قسم کی فراخی آپ کو حاصل ہو گئی تھی اور یہ تمام کی تمام ترقیات خداتعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان تھیں۔ اب اچھاوقت شروع ہو چکا تھا۔ آپ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بناء پر نہایت اچھی طرح اپنا کام کر رہے تھے۔ سات سال گزر گئے اور وہ قحط جس کا آپ نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر میں ذکر کیا تھا شروع ہو گیا۔ اناج کی قلت ہو گئی اور پیداوار نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ یہاں اس ملک میں تو چونکہ پہلے سے ہی انتظام کر لیا گیا تھا اس لئے کوئی دقت نہ ہوئی لیکن اردگرد کے علاقوں کے لوگ قحط کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہو گئے اور بھوکوں مرنے لگے۔ حضرت یوسف علیہ السلام خلق خدا کے ساتھ بے انتہاء ہمد ردی کرنے والے وجود تھے۔ آپؑ نے اپنے اناج کو آس پاس کے قحط زدہ لوگوں میں بھی بانٹنا شروع کر دیا اور لوگ دور دور سے اناج لینے کے لئے آپ کے پاس آنے لگے۔ اور ایک دن بہت حیران کن واقعہ ہوا۔ ہوا یوں کہ اناج لینے کے لئے آنے والے لوگوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی بھی تھے۔ ان کے علاقے میں بھی شدید قحط پڑا تھا سو وہ اپنی ضرورت کے لئے اناج لینے آئے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں دیکھاتو فوراً پہچان گئے۔ لیکن وہ آپ کو نہ پہچان سکے۔ اور آکر آپ سے درخواست کی کہ اے نیک انسان ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق کچھ اناج دے دیں۔ آپ نے انہیں اناج دیا اور باتوں باتوں میں ان سے گھر کے افراد کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم دس بھائی ہیں اور ایک ہمارا سوتیلا بھائی بنیامین بھی ہے جو چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں آیا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ آغاز میں ہم نے پڑھا تھا کہ حضرت یوسف اور بنیامین آپس میں سگے بھائی تھے۔ آپ کا دل چاہا کہ اپنے چھوٹے بھائی سے ملاقات کریں۔ چنانچہ آپ نے اپنے سوتیلے بھائیوں سے کہا۔ اے فلسطینی نوجوانو ! آئندہ جب تم اناج لینے کے لئے آؤ تو اپنے اس چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لیکر آنا ! اور دیکھو !! اگر تم اسے ساتھ نہ لائے تو میں تمہیں اناج کا ایک دانہ بھی نہیں دوں گا۔ ٹھیک ہے ناں ! بالکل ٹھیک ہے ! تمام بھائیوں نے جواب دیا اور وعدہ کیا کہ اگلی مرتبہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لیکر آئیں گے۔ گھر واپس پہنچ کر بھائیوں نے تمام ذکر اپنے والد سے کیا اور کہا کہ اگلی مرتبہ ہم بنیامین کو بھی اپنے ساتھ مصر لیکر جائیں گے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کی یہ بات سنی تو فرمایا میں کیسے بنیامین کو تمہارے ساتھ بھیج سکتا ہوں جب کہ اس سے پہلے تم یوسف کے بارے میں ایک کو تاہی کر چکے ہو۔ تمہاری غلطی کی وجہ سے یوسف کھو گیا۔ کیا میں اسی طرح اب بنیامین کو بھی کھو دوں۔ انہوں نے جوابا ًکہا ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر آپ بنیامین کو ہمارے ساتھ بھجوادیں تو ہم اس کی حفاظت کریں گے اور اگر خدا نے چاہا تو یہ باحفاظت واپس آجائے گا۔ ویسے بھی غلہ لانے کے لئے بنیامین کا جانا ضروری ہے ورنہ وہاں سے اناج ملنے کی امید نہیں ہے۔ ان کی باتوں اور حالات و واقعات کو مد نظر رکھ کر حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو لے جانے کی اجازت دے دی۔ اور بھائیوں کا یہ قافلہ مصر کی جانب روانہ ہو گیا اور یوسف کے پاس پہنچ کر انہوں نے ایک مرتبہ پھراناج کامطالبہ کیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام بنیامین کو لے کر ایک طرف ہو گئے اور اسے بتایا کہ میں تمہارا گمشدہ بھائی یوسف ہوں۔ اب تم فکر نہ کرو جلد ہی حالات اچھے ہو جائیں گے۔ ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ اناج کے بورے بھر دیے گئے اور قافلے کے چلنے کی تیاری شروع ہو گئی۔ اس اثناء میں ایک شاہی ہرکارے نے بردران یوسف کو مخاطب کر کے کہا۔ کہ اے قافلے والو ! تم چو ر ہو !! تم نے شاہی پیمانہ چرالیا ہے کیونکہ ہم اسے گم پاتے ہیں۔ یوسف کے بھائیوں کا اصرار تھا کہ انہوں نے شاہی پیمانہ نہیں چرایا جب کہ شاہی کارندوں کا کہنا تھا کہ پیمانہ تمہارے ہی سامان میں ہے۔ چنانچہ طے یہ پایا کہ تلاشی لی جائے اور جس کے پاس سے وہ پیمانہ بر آمد ہو اسے یہیں روک لیا جائے۔ ہوا دراصل یہ تھا کہ اناج ناپتے ہوئے غلطی سے وہ پیمانہ بنیامین کے بورے میں رہ گیا تھا اور کسی کو بھی اس کی خبر نہ تھی۔ بہر حال تلاشی ہوئی تو وہ پیمانہ بنیامین کے بورے میں سے نکل آیا اور قانونًا بنیامین کو مصر میں ٹھہرناپڑ گیا۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ذریعہ تھا بنیامین کو وہاںروکنے کا۔ یوں بنیامین وہیں رک گیا اور باقی بھائی روتے پیٹتے گھر واپس پہنچ گئے۔ انہیں بنیامین کے روکے جانے کا غم ہر گز نہ تھا بلکہ انہیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ پہلے ہم نے یوسف کے ساتھ بہت برا سلوک کیاتھا۔ اب بنیامین کو بھی یہاں چھوڑے جاتے ہیں۔ اپنے والد کو کیا جواب دیں گے۔ لیکن یہ کڑوا گھونٹ انہیں بھرنا پڑا اور والد کو بتانا پڑا کہ کیا واقعہ ہوا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام خداتعالیٰ کی ہر تقدیر پر راضی رہنے والے انسان تھے۔ آپ ان سب سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں جھک گئے۔ رو رو کر التجا کی کہ اے اللہ میں یوسف اور بنیامین دونوں کی گمشدگی پر تیرے حضور التجا کر تاہوں ہمارے دکھوں کے دنوں کو دور کر دے اور ہم پر رحم فرما۔ میرے دونوں گمشدہ بیٹے مجھے عطا کر دے۔ یہ دعائیں کرنے کے بعد آپ دوبارہ اپنے بیٹوں کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ جاؤ بنیامین کی رہائی کے لئے کوشش کرو۔ یقیناًکوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ چنانچہ وہ بھائی ایک مرتبہ پر حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آ پہنچے۔ ان کی منت سماجت کی اور مدد کی درخواست کی۔ اب یوسف نے یہی بہتر سمجھا کہ انہیں سب بات بتادیں تاکہ اپنے والد سے بھی مل سکیں۔ آپ نے انہیں کہا کیا تم اس حرکت کو بھول گئے ہو جو تم نے اپنے بھائی یوسف کے ساتھ کی تھی۔ یہ سنناتھا کہ بھائی ٹھٹھک کر رہ گئے۔ کیا ؟ یہ بات آپ کو کیسے پتہ ہے ؟ کہیں آپ یوسف ہی تو نہیں ہیں ؟۔ بھائیوں نے حیرانگی سے پوچھا۔ ہاں میں یوسف ہوں ! حضرت یوسف نے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا۔ لیکن پریشان مت ہو۔ تم میرے بھائی ہو میں تمہاری غلطیاں معاف کر تا ہوں۔ اب تم ایسا کرو کہ جاؤ اور والد محترم کو لیکر میرے پاس آ جاؤ۔ تاکہ ہم سب پُرسکون طور پر یہاں اکٹھے رہ سکیں۔ دو سری طرف حضرت یعقوب علیہ السلام بھی یہ محسوس کر رہے تھے کہ دعائیں قبول ہونے کا وقت آچکا ہے۔ آپ لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ بے شک تم مجھے دیوانہ کہو لیکن نہ جانے کیوں مجھے اپنے بیٹے یوسف کی خوشبو سی آرہی ہے۔ اور پھربالکل ایساہی ہوا۔ اور وہ پیغام لانے والا حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس خوشیوں بھرایہ پیغام لے کر آیا کہ یوسف نہ صرف زندہ ہے بلکہ مصر میں ایک معزز عہدے پر فائز ہے۔ آپ بھی چلیں تاکہ یوسف سے ملاقات ہو سکے۔ چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی بیوی مینی یوسف کی والدہ دونوں آپ کے پاس پہنچے اور دکھ کے دنوں کا خاتمہ ہو گیا۔ تمام لوگ بہت خوش تھے۔ اور اس خوشی میں خدا تعالیٰ کا بے انتہاء شکر کر رہے تھے۔ گیارہ بھائی اور یوسف کے والدین خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدے میں گر گئے اور تب حضرت یوسفؑ نے اپنے والد کو یاد کروایا کہ آج سے بہت سال پہلے جو میں نے خواب بیان کیا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند میرے سامنے خداتعالیٰ کے حضور سجدہ کر رہے ہیں وہ آج پورا ہو گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کے احسانات تھے کہ میں اس مقام تک پہنچا ہوں۔ یوں یہ خاندان مصرمیں رہنے لگا اور حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر میں ہی وفات پائی۔ حضرت یوسف نے وفات کے وقت وصیت کی تھی کہ آپ کو مصر میں دفن نہ کیا جائے بلکہ آپ کے آبائی ملک فلسطین میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ آپؑ کی وفات کے بعد آپ کی لاش حنوط کر کے محفوظ کر لی گئی اور جب بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں مصر سے فلسطین کی طرف ہجرت کی تو وہ جاتے ہوئے آپ کی حنوط شدہ لاش کو بھی لے گئے۔ اور وہاں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ بعض روایات کے مطابق آپ کی قبر فلسطین کے علاقے نابلس کے ایک گاؤں بلاطہ میں ہے۔

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

جلسہ یومِ مصلح موعود (جماعت احمدیہ سری لنکا)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مارچ 2022