• 11 جولائی, 2025

لندن میں کسر صلیب کانفرنس میں شرکت، قبولیت دعا کا ایمان افروز واقعہ

مکرم اعجاز احمد صاحب حال مقیم مانچسٹر یوکے، ضلع لاہور سے تعلق رکھتے ہیں ، جب آپ قائد خدام الاحمدیہ ضلع لاہور تھے،تب میں ان کی مجلس عاملہ میں نائب معتمد ضلع ہوا کرتا تھا، مجھے یاد ہے کہ لاہور میں قیام کے دوران آپ کو متعدد تاریخی مواقع پر خدمت کی سعادت ملتی رہی تھی، جرمنی کے ایک جلسہ سالانہ پر آپ سے طویل عرصہ بعد جب ملاقات ہوئی تو لاہور کی بہت سے باتیں ہوئی تھیں اور اس وقت بھی ان سے یہی استدعا کی تھی کہ آپ اپنی یاداشتوں کو کہیں شائع کرائیں تاکہ احباب جماعت بھی مستفید ہوسکیں اور محفوظ بھی ہو جائیں گی اور میں ان یاداشتوں کی ڈرافٹنگ اور کمپوزنگ میں مدد کردوں گا۔ محترم اعجازاحمد نے از راہِ شفقت یہ سلسلہ شروع کیا تو یہ دوسرا مضمون ہے جو اعجاز احمد کی یاداشتوں پر مشتمل ہے۔لندن میں منعقدہ صلیب کانفرنس میں شرکت بارے آپ نے ایک سچے واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے زیرو وسائل کے باوجود معجزانہ رنگ میں حضور کی مسلسل دعاؤں کے نتیجہ میں تاریخی کانفرنس میں شرکت کی توفیق دی۔

مکرم اعجاز احمد لکھتے ہیں کہ ایک دن خاکسار مکرم چوہدری فتح محمد نائب امیر لاہور کے پاس کسی کام سے گیا تو انہوں نے ذکر کیا کہ حضرت صاحب لندن میں کسر صلیب کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں، غالباً جون کے شروع میں ، لہٰذا جو احباب اپنے اخراجات پر جانا چاہیں جاسکتے ہیں اور ویزے بھی خود لگوانے ہوں گے۔چند دنوں بعد ان احباب کی درخواستیں آنا شروع ہو گئیں جو کانفرنس میں جانا چاہتے تھے،ان میں زیادہ تر کاروباری افراد تھے یا پھر وکیل ۔ تقریبا مارچ کے درمیان میں خاکسار(اعجاز احمد) کچھ درخواستیں لے کر امیر صاحب کے پاس گیا کہ ان میں سے جن کو اجازت ہے وہ تیاری شروع کرسکیں ۔ اس موقع پر چوہدری صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے درخواست دی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں،کیونکہ ایک تو میرے مالی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں اور دوسرا ویزہ لگنے کی شرائط بہت سخت ہیں جن کو پورا کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے،ایمبیسی والے بنک بیلینس،پراپرٹی کے کاغذات سمیت بہت کچھ مانگتے ہیں جو کہ میرے لئے ممکن ہی نہیں ہے ۔ امیر صاحب نے کہا کہ تم حضور کو خط لکھ کر اپنی خواہش کا اظہار کردو ۔ دو ہفتوں بعد حضور کا مجھے جواب ملا کہ ’’آپ دعائیں کریں خدا تعالیٰ ضرور مدد کرے گا۔‘‘ خاکسار نے وہ خط مکرم امیر صاحب کو دیا تو انہوں نے کہا کہ تم ویزہ کے لئے درخواست جمع کرادو، اگر ویزہ لگ گیا تو اخراجات کا بعد میں دیکھ لیں گے ۔ پھر میں نے ویزہ فارم منگوایا اور اس میں مانگے گئے کوائف میں سے کسی ایک کا جواب مثبت میں میرے پاس نہیں تھا، ماسوائے ایک سرکاری نوکری کے خط کے جس میں تنخواہ 450 روپے ماہانہ تھی، میں نے نام پتہ، تاریخ پیدائش وغیرہ لکھ کر فارم ایمبیسی بھیج دیا، 30اپریل تک مجھے کوئی کال وصول نہیں ہوئی، میں نے کسی کو نہیں بتایا تھا چونکہ ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ ان کوائف پر تم کو ویزہ نہیں مل سکے گا۔ لوگ تیاری کر رہے تھے اور میں مایوس بیٹھا تھا ۔ ایسے میں مجھے ایک دن اچانک ایمبیسی سے انٹرویو کال آگئی، میں خوش ہونے کی بجائے مایوس ہوگیا اور سوچا کہ انٹرویو کے لئے نہ ہی جاؤں تو بہتر ہے، اس دوران میں ہر ہفتہ حضور کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھتا رہتا تھا اور ہمیشہ یہی جواب آتا کہ دعائیں اور کوشش جاری رکھیں خدا تعالیٰ ضرور مدد کرےگا ۔ ایک دن میں نے چاروں خطوط سامنے رکھے تو ایک لفظ تواتر کے ساتھ لکھا تھا ’’دعائیں کریں اور کوشش جاری رکھیں، خداتعالیٰ ضرور مدد فرمائے گا‘‘ اس نے مجھے بہت حوصلہ دیا اور میں خاموشی سے کسی کو بتائے بغیرانٹرویو دینے اسلام آباد چلا گیا، یہی سوچ رکھا تھا کہ ویزہ لگا تو بتادوں گا ورنہ خاموش رہوں گا۔ جب اسلام آباد ایمبیسی میں پہنچا تو وہاں بہت لمبی لائن لگی ہوئی تھی، میری باری تین بجے کے قریب آئی میں دعائیں کرتا ہواندر گیا تو ایک عورت اکیلی بیٹھی ہوئی تھی، اس نے مجھے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی، میرے پاس بنک بیلنس، پراپرٹی سے متعلق سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا میں نے اسے صرف یہ کہا کہ میری سرکاری نوکری ہے، بیوی بچے میرے یہاں پاکستان میں ہیں،میری جماعت کے خلیفہ لندن میں ایک مذہبی کانفرنس کے لئے جارہے ہیں اور میرا مقصد بھی اس کسر صلیب کانفرنس میں شرکت کرنا اور آپ کے ملک کی سیر کرنا ہے، مجھے صرف دو ہفتوں کا ویزہ چاہیئے، اگر مناسب سمجھیں تو دے دیں ورنہ میرا پاسپورٹ واپس کردیں ۔ اس عورت نے اسی وقت میرا پاسپورٹ اور کاغذات مجھے واپس کردیئے اور میں خاموشی سے دروازے کھول کر باہر نکل گیا، باہر نکلتے ہی اچانک ایک آواز پیچھے سے آئی میں نے مڑ کر دیکھا تو وہی عورت تھی اس بغیر کچھ کہے میرا پاسپورٹ مجھ سے لیا اور چھ ماہ کا ویزہ لگا کر پاسپورٹ مجھے واپس کردیا۔ میں نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا، واپس ہوٹل میں آکر شکرانے کے نفل ادا کئے اور رات کو واپس لاہور پہنچ گیا ۔؂

غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
اے میرے فلسفیو! زور دعا تو دیکھو

اگلے دن میں مکرم چوہدری حمید نصراللہ خان امیر صاحب سے ملنے ان کے گھر گیا تو مجھ سے پوچھا کہ کل کہاں غائب رہے تھے ؟ میں نے کہا کہ میں ویزہ لگوانے گیا تھا اور لگ گیا ہے، وہاں بیٹھے کسی کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ میرا ویزہ لگ گیا ہے، سب مزاق سمجھ رہے تھے، میں نے پاسپورٹ نکال کر سب کو ویزہ دکھایا سبھی حیران رہ گئے تھے کیونکہ امیر لوگوں کے ویزوں کی درخواستیں مسترد ہوگئیں تھی ۔ میں نے سب کو بتایا کہ میں نے اس دوران حضور کی خدمت میں چار خطوط لکھے تھے اور چاروں کے جواب میں حضور نے یہی لکھا تھا کہ ’’دعائیں کریں اور کوشش جاری رکھیں خدا تعالیٰ ضرور مدد کرے گا‘‘ میں نے کہا کہ یہ ہوئی خدائی مدد ۔ اس کے بعد ٹکٹ وغیرہ کا مسئلہ تھا،اس موقع پر مکرم محمود احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو بھی بتادیا تھا کہ میں کانفرنس میں شرکت کرنا چاہتا ہوں ،مکرم امیر صاحب نے مکرم محمود احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور دیگر احباب سے مشورہ کے بعد مجھے مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کا نمائندہ بنا کر لےجانے کی اجازت دےدی اوریوں میرا یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا تھا اور پھر مجھے نمائندہ خدام الاحمدیہ لاہور بنا کر کانفرنس میں بھیجا گیا تھا ۔ اس طرح مجھے وفد کے ساتھ لندن جانے اور کسر صلیب کانفرنس میں شریک ہونے کا موقع ملا تھا۔ اس کسر صلیب کانفرنس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد نے بھی خطاب کیا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے یہ کسر صلیب کانفرنس بہت کامیاب رہی تھی جس میں تمام مذاہب کے نمائندگان نے شرکت کی تھی ۔ کانفرنس میں حضور کے علاوہ حضرت سر محمد ظفراللہ خان صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد، محترم شیخ عبدالقادر محقق اور ڈاکٹر پروفیسر عبد السلام سمیت لاہور کے بہت سے احباب نے اس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔

(منور علی شاہد۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 29 ۔اپریل2020ء