• 26 اپریل, 2024

مکرم ملک انصارالحق شہید اور 28مئی کی چند یادیں

کرونا وباء نے جہاں دنیا کا نظام بالکل مکمل طور پر بدل کےرکھ دیا ہے لیکن ایک بات جو وہ نہ بدل سکا وہ تو ہمارے پیارے امام کی شہداء کے بچوں سے بے حد محبت اور شفقت ہے جو آج بھی پہلے ہی کی طرح جاری و ساری ہے۔

چند دن پہلےعیدالفطر کےموقع پر پیارے حضور کی طرف سےمسلسل دس سالوں سے شہداء کے بچوں کو بھجوائی جانے والی عیدی کا نقدتحفہ ملا تو دل میں خواہش ہوئی کہ 28 مئی 2010ء کے بارے میں اپنی کچھ یادوں کوتحریرکرنے کی کوشش کروں۔

ٹھیک دس سال قبل 28 مئی کے ہی روز میرے اباجان مسجد دارالذکر لاہور میں شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔یہاں ٹورنٹو میں تقریباً فجر کا وقت تھا جب ہماری لاہور کی دو مساجد پر حملہ شروع ہوا۔ اور دنیا بھر کے میڈیا پر اس حملے کی خبر بریکنگ نیوز کے طور پر اسی وقت آنی شروع ہوگئی۔باقی فیمیلیز کی طرح ہماری فیمیلی میں بھی تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی اور ہم سب رشتے داروں نے ایک دوسرے کو فون کرنےشروع کردیئے۔جب یہ حملہ ختم ہوا تو ہم سب دعاؤں کے ساتھ اپنے اباجان کی تلاش میں لگ گئے۔ اس وقت ایک عجیب سی بے یقینی کی کیفیت تھی۔ہر کوئی اپنے پیاروں کو تلاش کررہا تھا۔اور لاہور کے مختلف ہسپتالوں کے چکر لگا رہا تھا۔اس وقت کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہوا؟ مختلف ہسپتالوں میں زخمیوں کی فہرست چیک کی جارہی تھی۔ساتھ ساتھ ہی شہید ہوجانے والوں کی میتوں کی شناخت کا مشکل ترین کام بھی ہورہا تھا۔چند تو شناخت کے قابل بھی نہ تھیں۔اس سارے عرصے میں ہمیں بار بار امید پیدا بھی ہوتی تھی کہ شائد ہمارے والد زخمیوں میں ہوں لیکن بار بار یہ امید ٹوٹ بھی جاتی تھی۔یہاں تک کہ میری فیملی کے کچھ افراد نے ایک مردہ خانے میں پڑی ہوئی میتوں میں سے ایک کی بطور اباجان کے شناخت کرلی۔اِ نَّا لِلّٰہ وَاِنّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ۔ مجھے پاکستانی وقت کے مطابق تقریباً رات بارہ بجے جبکہ یہاں ٹورنٹو میں دوپہر کے تین بج رہے تھے انکی شہادت کی کنفرم اطلاع ملی۔میرا پاکستانی پاسپورٹ جو کہ میرے کینیڈا کی امیگریشن کے وقت 2005 میں لاہور سے بنا تھا وہ پانچ سال کی مدت کے بعد اپریل 2010 میں Expire ہوچکاتھا۔جسکی اس وقت فوری تجدید ممکن نہ تھی۔خوش قسمتی سے سانحہ 28 مئی سے ایک ہی ہفتہ پہلے 21 مئی کو میری کینیڈین سیٹیزنشپ کی oath ceremony ہوچکی تھی۔ جبکہ میری دونوں بیٹیوں آنسہ اور عائشہ جن کی عمریں اس وقت تین اور چار سال تھیں انکے بھی کینیڈین پاسپورٹ ابھی تک نہیں بنے تھے۔اس پریشانی کے عالم میں ہم فورا گھرسے سیدھا پاسپورٹ آفس Yonge & Sheppard پہنچے جبکہ ہمارے پاس پاسپورٹ کی Application بھی نہیں تھی۔اس وقت شام کے سواچار بج چکے تھے اور پاسپورٹ آفس بند ہونے میں صرف 45 منٹ باقی تھے۔پاسپورٹ آفس کے ہال میں اس وقت بہت لوگ تھے۔خیر جب دروازے پر موجود سیکیورٹی گارڈ کو اس سانحہ لاہور اور میرے اباجان کی شہادت کا بتایا گیا تو اس نے کمال ہمدردی سے ہمیں ایک ایسا ٹکٹ نمبر ایشو کیا جو صرف چند سیکنڈز کے بعد ہی وہاں پر لگی ہوئی LCD سکرین پر Flash کرنے لگ گیا یعنی ہماری بغیر کسی انتظار کے کاؤنٹر پر فوری باری آگئی۔جب ہم اس کاؤنٹر نمبر 17 پر پہنچے تو اس وقت 4بجکر20منٹ ہو چکےتھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت تک دنیا کے تمام بڑے Media Outlets پر لاہور سانحہ کی Breaking News بار بار آ چکی تھی(CNN, BBC,CBC) اور اتفاق سے کاؤنٹر نمبر 17 پر موجود خاتون بھی یہ خبر سن چکی تھی۔اس خاتون نے ہمیں 3 Applications لاکر دیں اور ہمیں اسی کاؤنٹر پر ہی کھڑے کھڑے ہی فل کرنے میں بہت مدد کی۔جب سب کچھ مکمل ہوا تو اس وقت تک 4:50 ہو چکے تھے اور ہمیں اپنے مینیجر سے ملنے کے بعد یہ خوشخبری سنائی کہ ہمارے تینوں پاسپورٹ ابھی فوری مشین سے تیار کیے جائیں گے اور اگرچہ پاسپورٹ آفس 5 بجے بند ہورہا ہے لیکن ہمارے تینوں پاسپورٹ کی تیاری تک ان کے اسٹاف کے کچھ افراد کام کرتے رہیں گے۔اور بغیر ہمارے کسی مطالبے کے ان تینوں کینیڈین پاسپورٹس کی ارجنٹ فیس معاف کردی گئی ہے اور ہمیں کہا گیا کہ ہم پاسپورٹ آفس سے باہر انتظار کریں۔تقریباً ایک گھنٹے انتظار کے بعد شام چھ بجے ہمارے تینوں کینیڈین پاسپورٹ باہر لاکر ہمیں دیئے گئے۔

چونکہ وہ پاسپورٹ ابھی ابھی تازہ مشین سے تیار ہوکر باہر نکلے تھے تو وہ بے حد گرم تھے۔

ہم آج بھی اس گمنام سیکیورٹی گارڈ۔اس کاؤنٹر نمبر 17 پر کام کرنے والی فرشتہ صفت اور ہمارے تصور سے بھی زیادہ ہمدرد خاتون اور پاسپورٹ آفس کی برانچ مینیجر کے احسانات کو یاد کرتے رہتے ہیں۔اللہ تعالی ان تینوں انسان نماء فرشتوں کو زندگی کی ہر خوشی عطاکرے۔ آمین

پاسپورٹ کے حصول کے بعد جب ہم گھر واپس پہنچے تو ایک طرف تو افسوس کے لئے ہمارے گھر پر آنے والوں کا نہ ختم ہونے والا تانتا بندھا ہوا ہے جن سب سے ملنا بھی ضروری تھا اور دوسری طرف ہمیں اندازہ ہوا کہ ابھی تو ایک اور رکاوٹ بھی باقی ہے۔چونکہ ہم تینوں کے پاس نادرا کا بدقسمتی سے Overseas Pakistani ID Card اس وقت تک نہ تھا تو ہمیں ان تینوں کینیڈین پاسپورٹ پر اب پاکستان کا Visitor VISA بھی لازمی تھا۔شام کے سات بج چکے تھے۔اور پاکستان کی ایمبیسی تو دو گھنٹے پہلے ہی پانچ بجے بند ہوچکی تھی اور اب اس نے دو دن کے بعد سوموار کو کھلنا تھا۔ اور PIA کی اگلی Direct Flight ✈️ نے اتوار کو ٹورنٹو سے پاکستان کے لئے روانہ ہونا تھا۔خیر پریشانی کے اس عالم میں اللہ کا نام لےکر پاکستان کے سفیر سے Ottawa میں رابطہ کرکے ساری صورتحال بتا کر contact نمبر چھوڑ دیا گیا اور اللہ سے کسی معجزہ کا انتظار کرنے لگے تقریباً رات دس بجے ہمیں کال آئی کہ ان شاءاللہ کل بروز ہفتہ 29 مئی 2010 کو پاکستان کا کونسلیٹ آفس ٹورنٹو صبح دس بجے سے بارہ بجے صرف دو گھنٹوں کے لئے کھولا جائے گا۔ہم اگلی صبح ساڑھے نو بجے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔خیر تھوڑی دیر میں ہی انکے اسٹاف کے دو افراد پہنچ گئے اور اللہ کے فضل سے ہمارے تینوں پاسپورٹ پر پاکستان کے ویزے لگ گئے۔الحمدللّٰہ رب العٰلمین۔اتوار 30 مئی کی PIA کی فلائیٹ کی ٹکٹیں بھی خرید لی گئی اور ہم اللہ کے فضل سے پاکستان روانہ ہوگئے۔اور میری فیمیلی کے باقی سارے افراد میرے پاکستان پہنچنے پر ہی میرے شہید والد کے جنازے اور تدفین کا انتظام پہلے سے ہی کررہے تھے۔اٹھارہ سال کی چھوٹی عمر میں ہی میری شادی 2003 میں ہوئی تھی اور اس سانحہ لاہور کے روز میں بمشکل 25 سال کی تھی اور دو بچوں کی ماں بھی تھی۔25 سالہ انسان کے اعصاب عام طور پر ابھی اتنے قوی اور مضبوط نہیں ہوتے اور یہ میرا شادی کے باعث کینیڈا آنے کےبعد پاکستان کا پہلا سفر بھی تھا۔میرا پاکستان کا وہ سفر خاصا مشکل اور طویل ثابت ہوا جبکہ میرے شوہر محترم حافظ انس ملک صاحب بھی اس سفر میں میرے ساتھ کسی مجبوری کے باعث نہ جاسکے تھے۔جب میں اپنے شہید والد کا چہرہ دیکھنے کی شدید خواہش لیکر پاکستان ائیرپورٹ سے اپنی دونوں بچوں کے ساتھ باہر نکلی تب مجھے پتہ چلا کہ میرے اباجان کی تدفین اس وقت سے آٹھ گھنٹے پہلے ہی ہوچکی تھی جبکہ میری فلائیٹ شائد یورپ کے اوپر ہوگی۔تب ہی مجھے پتہ چلا کہ میرے شہید والد کا جسم گولیوں سے چھلنی تھا اور لاہور کے سروسز ہسپتال اور پھر جماعت کے تمام ڈاکٹروں کی رائے میں ان کی فوری تدفین کی ضرورت تھی ورنہ اس بات کا شدید خدشہ تھا کہ ان کی باڈی خدانخواستہ انکے جسم کے اندر موجود گولیوں کی وجہ سے کہیں پھٹ نہ جائے۔یہی میرے اللہ کی مرضی تھی۔میں اپنے خاندان میں اکیلی تھی جو باوجود فوری پاکستان جانے کے اپنے والد کا چہرہ نہ دیکھ سکی۔اگرمیں کسی بھی مجبوری کے باعث پاکستان نہ جاسکی ہوتی تب تو اور بات ہوتی۔سانحہ لاہور کے چند روز بعد ہی حضور انور کا بہت ہی پیارا اور یادگار فون ہماری فیملی کو آیا جس میں حضور نے ازراہ شفقت ہماری والدہ کے علاوہ ہم سب بہن بھائیوں سے بڑی تفصیل سے بات کی اور ہماری اس غم کی کیفیت کو ایک ناقابل بیان خوشی اور ایک بہت بڑے اعزاز میں بدل دیا۔پھر اس بے حد محبت بھرے فون کے بعد ہمارے گھر کے ہر فرد کو حضور کا محبت بھرا دو صفحات پر مشتمل تعزیت کا خط بھی ملا جو ہمارے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔اللہ تعالی پیارے حضور کو صحت و سلامتی کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے۔آمین ۔اللہ کے فضل سے تقریباً ایک سال اپنی والدہ کے پاس رہنے کا پاکستان میں موقع مل گیا اور میں اگلے سال مارچ 2011ء میں کینیڈا واپس آئی۔سانحہ لاہور میں اس روز میرے اباجان کے علاوہ ہمارے خاندان میں تین اور شہادتیں بھی ہوئیں تھیں۔ان میں پہلے میری والدہ کے فرسٹ کزن خالہ زاد بھائی۔دوسرےمیرے سسر جو کہ میرے خالوجان بھی تھے مرحوم انکل ملک منور جاوید انچارج دارالضیافت ربوہ کے فرسٹ کزن پھوپھو زاد بھائی اور تیسرے میری ایک دوسرے خالو جان مرحوم کی ہمشیرہ کے اکلوتے بیٹے یعنی ان کے بیس سالہ نوجوان ہونہار بھانجے جو میڈیکل کے پہلے سال کے ایک ذہین طالب علم تھے۔ شامل ہیں۔

آخرمیں قرآن کریم کی اس عظیم الشان آیت پر اپنی یادوں کو ختم کرتی ہوں جو ہمارے پیارے امام حضرت خلیفتہ المسیح الرابع (رحمہ اللہ) نے اپنی بہت ہی پیاری شریک حیات حضرت سیدہ آصفہ بیگم مرحومہ کی رمضان کے آخری جمعہ کی صبح کی وفات کے چند گھنٹوں کے بعد اسی روز دوپہر کو اپنے خطبہ جمعتہ الوداع کے آغاز میں پڑھی تھی۔

کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿ۚۖ۲۷﴾وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ ﴿ۚ۲۸﴾

(الرحمٰن:28-27)

ترجمہ: ہر چیز جو اس پر ہے فانی ہے۔مگر تیرے ربّ کا جاہ و حشم باقی رہے گا جو صاحبِ جلال و اِکرام ہے۔

(ثوبیہ انس۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ29۔مئی2020ء