• 23 اپریل, 2024

حجرِ اسود کی فضیلت

خانہ کعبہ کے جنوب مشرقی کونہ کے پاس ایک سیاہ رنگ کا پتھر ہے۔ جسے حجراسود کہا جاتا ہے۔یہ متبرک پتھر غالباً شہاب ثاقب کا ایک ٹکڑا تھا جو کہ مکہ کے قریب ابوقیس نامی پہاڑ پر گرا۔ تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیمؑ اس مبارک پتھر کو اٹھا لائے اور ’’کونے کے پتھر‘‘ کی تمثیل اور عظیم یادگار کے طور پر اسے اس دیوار میں نصب کر دیا۔ خانہ کعبہ کا طواف کرنے والے کو حکم ہے کہ وہ اس مبارک پتھر کو بوسہ دے۔ یہ پتھر شعائر اللہ میں سے ہے۔ اور اللہ کے قادر مطلق ہونے اور صادق الوعد ہونے کی خاص نشانی ہے۔ جس سے پیار ہو اس کی خاص اشیاء بھی پیاری لگتی ہیں۔ یہی فلسفہ حجر اسود کو چومنے کا ہے، ورنہ پتھر اپنی ذات میں نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔

ایک روایت کے مطابق یہ پتھر جنت سے لا کر جبرائیل امین علیہ السلام نے حضرت ابراہیمؑ کو دیا جسے آپؑ نے خانہ کعبہ کے مشرقی رکن(کنارے) پر نصب فرمایا۔اس پتھر کو حفاظت کے لئے خاص چاندی کے حلقے میں رکھا گیا ہے۔جس سے اس کی شکل مثل انڈے کے نظر آتی ہے۔ابتدا میں پتھر صرف ایک ہی ٹکڑا تھا،محض حادثات میں ٹوٹ گیا اور اس کے مختلف سائز کے آٹھ ٹکڑے ہو گئے۔سب سے بڑا ٹکڑا کھجور کے بقدر ہے۔

حجر اسود کی تاریخ میں سب سے زیادہ افسوس ناک واقعہ قرامطہ کا پیش آیا،قرامطہ نے حجر اسود کو یہاں سے لے جا کر غائب کر دیا اور 22برس یہ پتھر خانہ کعبہ سے غائب رہا۔ پھر 339ھ میں یہ اپنی جگہ واپس لایا گیا۔

(مکہ مکرمہ ماضی و حال کے آئینہ میں۔ص52)

حجر اسود کو سب سے پہلے چاندی کے حلقے میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے رکھوایا تھا۔اس حلقہ کی آخری مرتبہ ترمیم و اصلاح کا کام شاہ فہد کے دور میں 1422ھ میں انجام پایا۔

حدیث میں ذکر ہے کہ حجر اسود جب نازل ہوا تو سفید رنگ کا تھا جس کو لوگوں کے گناہوں نے سیاہ کر دیا۔

(ترمذی کتاب السجح باب ماجاء فی فضل الحجر الاسود)

اس مبارک پتھر کا آنحضرتﷺ اور آپؐ کے پیش رو انبیاء کرامؑ نے بوسہ لیا۔ طواف کرنے والے کے لئے یہ مسنون ہے کہ وہ پتھر کا بوسہ لے یا بھیڑ کے وقت کے وقت اس کا اسقلام کرے (یعنی ہاتھ یا لکڑی سے اس کی طرف اشارہ کر کے چومے)اگر اس پر بھی قدرت نہ ہوتو اشارہ کہتا ہوا طواف کرتا۔حجر اسود کے فضائل کا ذکر احادیث میں موجود ہے جن میں سے بعض کا ذیل میں ذکر ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی روایت ہے کہ میں نے رسول کریمؐ کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ رکن (رکن ایمانی) اور مقام (مقام ابراہیم) جنت کے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان کے نور کو ختم فرما دیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کا نور ختم نہ فرماتا تو یہ مشرق و مغرب کے درمیان سب کو روشن کر دیتے۔

(ترمذی کتاب الحج)

حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا بلاشبہ ان دونوں یعنی (حجراسود اور رکن ایمانی) کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے۔

(ترمذی کتاب الحج باب ماجاء فی اسلام الرکنین)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بیماری کے یہ دن جلد دور ہوں اور ہر مسلمان کو نبی اکرمﷺ سے منسلک مبارک مقامات کی زیارت اور وہاں مقبول عبادات کی توفیق حاصل ہو۔ آمین

٭…٭…٭

(شفقت احمد قمر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 29 جولائی 2020ء