• 3 مئی, 2024

ایک حقیقی احمدی کا معیار

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

آپ (حضرت مسیح موعودؑ) ایک حقیقی احمدی کا معیار بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’لازم ہے کہ انسان ایسی حالت بنائے رکھے کہ فرشتے بھی اس سے مصافحہ کریں۔ ہماری بیعت سے تو یہ رنگ آنا چاہئے‘‘۔ اگر بیعت کی ہے تو یہ رنگ پیدا ہونا چاہئے ہر احمدی میں ’’کہ خداتعالیٰ کی ہیبت اور جلال دل پر طاری رہے جس سے گناہ دور ہوں‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ397 ایڈیشن 2003ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’اگر دنیا داروں کی طرح رہو گے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں کہ تم نے میرے ہاتھ پر توبہ کی۔ میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کو چاہتا ہے تا کہ تم نئی زندگی میں ایک اور پیدائش حاصل کرو‘‘۔ فرمایا ’’اگر بیعت دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں۔ میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے۔ پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے، غفور و رحیم خدا اُس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے۔ تب فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ194 ایڈیشن 2003ء)

پس یہ توبہ کے معیار اور پاک تبدیلی ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’اس سلسلہ میں داخل ہو کر تمہار وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ جو کچھ تم پہلے تھے، وہ نہ رہو‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ195 ایڈیشن 2003ء)

پھرآپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’بیعت کی حقیقت سے پوری طرح واقفیت حاصل کرنی چاہئے اور اس پر کاربند ہونا چاہئے۔ اور بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوفِ خدا اپنے دل میں پیدا کرے۔ اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کر کے دکھاوے۔ اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ بیعت پھر اس کے واسطے اور بھی باعثِ عذاب ہو گی کیونکہ معاہدہ کر کے جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر نافرمانی کرنا سخت خطرناک ہے‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ604۔ 605 ایڈیشن 2003ء)

پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’بیعت کرنے سے مطلب بیعت کی حقیقت سے آگاہ ہونا ہے۔ ایک شخص نے رُو برو ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی۔ اصل غرض اور غایت کو نہ سمجھا یا پروا نہ کی تو اُس کی بیعت بے فائدہ ہے‘‘۔ ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کر لی لیکن غرض نہیں سمجھی تو بے فائدہ بیعت ہے ’’اور اس کی اس بیعت کی خدا کے سامنے کچھ حقیقت نہیں ہے۔ مگر دوسرا شخص ہزار کوس سے بیٹھا بیٹھا صدقِ دل سے بیعت کی حقیقت اور غرض و غایت کو مان کر بیعت کرتا ہے’’۔ ایک دوسرا شخص ہے جس نے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت تو نہیں کی، ہزاروں میل دور بیٹھا ہوا ہے لیکن بیعت کی غرض و غایت کو سمجھا ہے، ’’اور پھر اس اقرار کے اوپر کاربند ہو کر اپنی عملی اصلاح کرتا ہے، وہ اُس رُوبرو بیعت کر کے بیعت کی حقیقت پر نہ چلنے والے سے ہزار درجہ بہتر ہے‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ457 ایڈیشن 2003ء)

(خطبہ جمعہ 11؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ایک صالح بچے کا خواب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اگست 2022