• 4 مئی, 2024

فقہی کارنر

تعداد ازدواج، حکم نہیں بلکہ اجازت ہے

ایک شخص نے اعتراض کیا کہ اسلام میں جو چار بیویاں رکھنے کا حکم ہے یہ بہت خراب ہے ساری بد اخلاقیوں کا سر چشمہ ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:
چار بیویاں رکھنے کا حکم تو نہیں دیا بلکہ اجازت دی ہے کہ چار تک رکھ سکتا ہے اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ چار ہی کو گلے کا ڈھول بنالے۔ قرآن کا منشاء تو یہ ہے کہ چونکہ انسانی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اس واسطے ایک سے لیکر چار تک کی اجازت ہے۔ ایسے لوگ جو ایک اعتراض کو اپنی طرف سے پیش کرتے ہیں اور پھر وہ خود اسلام کا دعوی ٰبھی کرتے ہیں میں نہیں جانتا کہ ان کا ایمان کیسے قائم رہ جاتا ہے۔ وہ تو اسلام کے معترض ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک مقنن کو قانون بنانے کے وقت کن کن باتوں کا لحاظ ہوتا ہے۔ بھلا اگر کسی شخص کی ایک بیوی ہے اسے جذام ہو گیا ہے یا آتشک میں مبتلا ہے یا اندھی ہو گئی ہے یا اس قابل ہی نہیں کہ اولاد اس سے حاصل ہو سکے وغیرہ وغیرہ عوارض میں مبتلا ہو جاوے تو اس حالت میں اب اس خاوند کو کیا کرنا چاہیئے کیا اسی بیوی پر قناعت کرے؟ ایسی مشکلات کے وقت کیا تدبیر پیش کرتے ہیں۔ یا بھلا اگر وہ کسی قسم کی بدمعاشی زنا وغیرہ میں مبتلا ہو گئی تو کیا اب اس خاوند کی غیرت تقاضا کرے گی کہ اسی کو اپنی پُر عصمت بیوی کا خطاب دے رکھے؟ خدا جانے یہ اسلام پر اعتراض کرتے وقت اندھے کیوں ہو جاتے ہیں۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آ تی کہ وہ مذہب ہی کیا ہے جو انسانی ضروریات کو ہی پورا نہیں کرسکتا۔ اب ان مذ کورہ حالتوں میں عیسویت کیا تدبیر بتاتی ہے؟ قرآن شریف کی عظمت ثابت ہوتی ہے کہ انسانی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا پہلے سے ہی اس نے قانون نہ بنا دیا ہو۔ اب تو انگلستان میں بھی ایسی مشکلات کی وجہ سے کثرت ازدواج اور طلاق شروع ہوتا جاتا ہے۔ ابھی ایک لارڈ کی بابت لکھا تھا کہ اس نے دوسری بیوی کر لی ہے آ خر اسے سزا بھی ہوئی مگر وہ امریکہ میں جا بسا۔

غور سے دیکھو کہ انسان کے واسطے ایسی ضرورتیں پیش آتی ہیں یا نہیں کہ یہ ایک سے زیادہ بیویاں کر لے جب ایسی ضرورتیں ہوں اور ان کا علاج نہ ہو تو یہی نقص ہے جس کے پورا کرنے کو قرآن شریف جیسی اتم اکمل کتاب بھیجی ہے۔

(الحکم 28 فروری 1903ء صفحہ15)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

ایک صالح بچے کا خواب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اگست 2022