• 3 مئی, 2024

ماہِ صفر المظفر

اسلامی سال کا دوسرا قمری مہینہ
ماہِ صفر المظفر

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مہینوں کی تعداد بارہ بیان فرمائی ہے۔

اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ اَرۡبَعَۃٌ حُرُمٌ

(التوبہ: 36)

ترجمہ: یقیناً اللہ کے نزدیک، جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، اللہ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہی ہے۔ اُن میں سے چار حرمت والے ہیں۔ اس آیت کی روشنی میں اسلامی قمری کیلنڈر ہو یا شمسی، بکرمی ہو یا چینی اور ان میں چاہے مہینہ محرم ہو یا صفر، جنوری ہو یا فروری، چیت ہو یا بیساکھ، نام مختلف ہو سکتے ہیں لیکن تعداد مہینوں کی بارہ ہی ہے۔

اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّمَا النَّسِیۡٓءُ زِیَادَۃٌ فِی الۡکُفۡرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُحِلُّوۡنَہٗ عَامًا وَّیُحَرِّمُوۡنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِـُٔوۡا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَیُحِلُّوۡا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ؕ زُیِّنَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ اَعۡمَالِہِمۡ ؕ وَاللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ

(التوبہ: 37)

یقیناً نسیٔ کفر میں ایک اضافہ ہے اِس سے اُن لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا گمراہ کر دیا جاتا ہے کسى سال تو وہ اُسے جائز قرار دیتے ہیں اور کسى سال اُسے حرام قرار دیتے ہیں تاکہ اس کى گنتى پورى رکھیں جسے اللہ نے حُرمت والا قرار دیا ہے، تاکہ وہ اُسے جائز بنا دیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے ان کے لئے ان کے اعمال کى برائى خوبصورت کر کے دکھائى گئى ہے اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن جریر حضرت ابن عباسؓ کی روایت بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’نسیٔ یہ ہے کہ جنادة بن عوف بن امیہ کنانی جس کی کنیت ابو ثمامہ تھی وہ ہر سال موسم حج میں آتا اور اعلان کرتا کہ غور سے سنو کہ ابو ثمامہ پر نہ کوئی عیب لگایا جاتا ہے اور نہ وہ کسی کو جوابدہ ہے۔ پس اس سال صفر کا مہینہ حلال ہوگا۔ پس وہ لوگوں کے لیے صفر کو حلال قرار دے دیتا۔ اسی طرح وہ ایک سال صفر کو حرمت والا قرار دے دیتا اور اور ایک سال محرم کو حرمت والا قرار دے دیتا (اور لوگ اس کے مطابق عمل کیا کرتے تھے)۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِنَّمَا النَّسِیۡٓءُ زِیَادَۃٌ فِی الۡکُفۡرِ۔ ۔ ۔ ‘‘

(تفسير ابن كثير جزء4 صفحہ151)

دوسری روایت مجاہد سے ہے کہ ’’بنی کنانہ کا ایک آدمی ہر سال اپنے گدھے پر سوار ہوکر آتا اور کہتا: اے لوگو! یقیناً نہ میں عیب دار ہوں اور نہ جوابدہ اور نہ ہی میری بات کو ٹالا جاتا ہے۔ یقیناً ہم نے اس سال محرم کو حرمت والا قرار دیا اور صفر کو مؤخر کردیا۔ پھر اگلے سال وہ آتا اور اسی طرح کی بات کرتا اور کہتا کہ یقیناً ہم نے صفر کو حرمت والا قرار دیا اور محرم کو مؤخر کردیا۔ اسی بارہ میں یہ قول ہے کہ لِیُوَاطِـُٔوۡا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ تاکہ اس کى گنتى پورى رکھیں جسے اللہ نے حُرمت والا قرار دیا ہے یعنی حرمت والے چار مہینے (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب)۔ فَیُحِلُّوۡا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ سے مراد ہے کہ وہ حرمت والے مہینے کو مؤخر کردیا کرتے تھے۔‘‘

(تفسير ابن كثير جزء4 صفحہ151)

علامہ جلال الدین سیوطیؒ اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ابن درید نے ’’الجمھرة‘‘ میں کہا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ماہ محرم کا نام ’’محرم‘‘ معروف نہ تھا بلکہ اسے اور صفر کو ’’الصفرین‘‘ کہا جاتا تھا۔ ان صفرین میں سے صفر اول (یعنی ماہ محرم) حرمت والے مہینوں میں سے تھا اور اہل عرب کبھی اس (حرمت والے مہینہ) کو حرمت والا قرار دے دیتے تھے اور کبھی اس میں قتال کر لیا کرتے تھے اور کبھی اس کی جگہ صفر ثانی (یعنی ماہ صفر) حرمت والا قرار دے دیتے تھے۔ میں (علامہ سیوطی) اس بارہ میں کہتا ہوں کہ یہ بڑا لطیف نکتہ ہے جسے میں نے ’’الجمھرة‘‘ کے علاوہ اور کہیں نہیں دیکھا کہ اہل عرب ربیع الاول، ربیع الثانی، جمادی الاول اور جمادی الثانی کی طرح صفر الاول اور صفر الثانی پکارتے تھے لیکن جب اسلام آیا تو اس نے اس نسیٔ کی اس رسم کو باطل قرار دیا۔ اور رسول اللہﷺ نے (صفر اول کو) ’’شَهْرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّم‘‘ کا نام عطا فرمایا جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ ’’شَهْرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّم‘‘

(المزهر في علوم اللغة و أنواعها جزء1 صفحہ239)

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:
’’نسیٔ یہ تھی کہ کسی سال وہ محرم کو حلال کردیتے تاکہ لوٹ مار میں آسانی ہوجائے اور پھر صفر کو محرم بناتے۔ اس طرح سب مہینوں کو بدل کر تیرہ مہینوں کا سال کردیتے۔ پھر تغیر کرکرکے سال کو اپنی حالت پر لاتے۔‘‘

(تفسیر صغیر سورة توبہ آیت 37 صفحہ238 حاشیہ)

صفر کی وجہ تسمیہ اور دیگر نام

صَفر کا لفظ ’’صِفر‘‘ یعنی ص بالکسرہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی خالی ہونے کے ہیں۔ جبکہ صَفَر (ص بالفتح) کے معنی ’’بھوک‘‘، ’’پیٹ کے کیڑے‘‘، ’’پیٹ کی ایسی بیماری جس کی وجہ سے چہرہ زرد پڑجائے‘‘ وغیرہ کے ہیں۔ ماہ صفر محرم کے بعد آنے والا مہینہ ہے جس میں اہل مکہ کے سفر پر جانے کی وجہ سے گھر خالی ہو جاتے تھے۔

ماہ صفر کی وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف آراء ہیں۔ علامہ مسعودی اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ماہ صفر میں یمن میں بازار لگتے تھے جو ’’الصفریة‘‘ کے نام سے موسوم تھے۔ وہ اس مہینہ میں خوب کھاتے پیتے تھے ان کا اعتقاد تھا کہ جو اس سے روگردانی کرے گا وہ بھوکا ہلاک ہوگا۔ ۔ ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مہینہ کا نام ’’صفر‘‘ اس لیے بھی ہے کہ لوگوں کے جنگ پر چلے جانے کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہوجاتے تھے۔‘‘

(مروج الذهب و معادن الجوهر جزء2 صفحہ188)

علامہ سخاوی نے اپنی تصنیف ’’اَلْمَشْهُوْرُ فِي أَسْمَآءِ الْأَيَّامِ وَالشُّهُوْرِ‘‘ میں اس کی یہی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس مہینہ میں لوگ جنگوں اور (تجارتی) سفروں کے لیے نکل پڑتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہوجاتے ہیں۔‘‘

(تفسیر ابن کثیر جزء4 صفحہ146)

ایک قول اس بارہ میں علامہ مرزوقی (متوفی:421ھ) یہ بیان کرتے ہیں کہ اس مہینے میں اہل عرب کے ہاں دودھ کی قلت ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے ان کے برتن خالی ہو جاتے تھے اس لیے بھی وہ اسے صفر کہتے ہیں۔

(الازمنة و الامکنة جزء1 صفحہ205)

صفر کے معنی زرد رنگ کے بھی ہیں۔ اس لیے بعض کے نزدیک ماہ صفر کا نام خزاں کے موسم میں رکھا گیا جب درختوں کے پتے زرد ہوتے ہیں۔

ماہ صفر کو زمانہ جاہلیت میں ’’صفر الثانی‘‘، ’’ناجر‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔

(الازمنة و الامکنة جزء1 صفحہ207)

ناجر کے معنیٰ شدت گرمی کے کیے جاتے ہیں چاہے وہ جنگ کی حرارت ہو یا لوہے کی گرمی ہو۔

صفر الخیر یا صفر

موجودہ دور میں اکثر لوگ صفر کو ’’صفر الخیر‘‘ یا ’’صفر المظفر‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ماہ صفر کا یہ نام رسول اللہﷺ، خلفائے راشدین و صحابہ کرامؓ سے ثابت شدہ نہیں۔ البتہ بعض لوگ نیک شگون کے طور پر اسے صفر المظفر یا صفر الخیر کے نام سے پکارتے ہیں تاکہ اس سے بدشگونی کا تأثر ختم ہو۔

ایام و ماہ و سال کے متعلق عقیدۂ بدشگونی
اور اس کا استیصال

اللہ تعالیٰ قرآن کریم ٍمیں فرماتا ہے:

وَجَعَلۡنَا الَّیۡلَ وَالنَّہَارَ اٰیَتَیۡنِ فَمَحَوۡنَاۤ اٰیَۃَ الَّیۡلِ وَجَعَلۡنَاۤ اٰیَۃَ النَّہَارِ مُبۡصِرَۃً لِّتَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَلِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَالۡحِسَابَ

(بنی اسرائیل: 13)

اور ہم نے رات اور دن کے دو نشان بنائے ہیں پس ہم رات کے نشان کو مٹا دیتے ہیں اور دن کے نشان کو روشنى عطا کرنے والا بنا دیتے ہیں تاکہ تم اپنے ربّ کے فضل کى تلاش کرو اور تاکہ تم سالوں کى گنتى اور حساب سیکھ سکو۔

رات دن، غروب شمس، طلوع سحر یہ سب اللہ کی نشانیوں میں سے ہے اور اللہ کے فضل کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ رات دن کے ادلنے بدلنے سے ہفتے بنتے ہیں، ہفتوں سے مہینے اور مہینوں سے سال بنتے ہیں اور ان سالوں کا مجموعہ صدیاں اور یہ سارے ماہ و سال اور صدیاں زمانہ کہلاتے ہیں۔

حدیث قدسی میں زمانہ کو برا کہنے کی ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يُؤْذِيْنِيْ ابْنُ اٰدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ

(بخاری کتاب تفسیر القرآن بَابُ وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ)

آدمی مجھ کو ستاتا ہے۔ زمانہ کو بُرا کہتا ہے میں زمانہ کا مالک ہوں، (زمانہ کیا کر سکتا ہے)۔ سب کام میرے ہاتھ میں ہیں میں ہی رات اور دن پلٹ پلٹ کر لاتا ہوں۔

علامہ ابن حجر اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ:
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کہا کرتے تھے کہ رات اور دن نے ہمیں ہلاک کیا اور یہی ہمیں مارتے ہیں اور زندہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: وَقَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَنَحۡیَا وَمَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ وَمَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ ۚ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ (الجاثيہ: 25) اور وہ کہتے ہیں یہ (زندگى) ہمارى دنیا کى زندگى کے سوا کچھ نہیں ہم مرتے بھى ہیں اور زندہ بھى ہوتے ہیں اور زمانہ کے سوا اور کوئى نہیں جو ہمیں ہلاک کرتا ہو حالانکہ ان کو اس بارہ میں کچھ بھى علم نہیں وہ تو محض خیالى باتیں کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نےفرمایا کہ وہ زمانہ کو برا کہتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آدمی مجھ کوستاتا ہے۔۔۔‘‘

(فتح الباری جزء 8 صفحہ575)

رسول اللہﷺ نے بھی نحوست بدشگونی کی ممانعت فرمائی ہے۔

(بخاری کتاب الطب باب الجذام)

پس کسی خوش قسمتی، بدشگونی و نحوست کا انحصار سورج، چاند اور ستاروں کی گردش یا ایام ، ماہ اور سال پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور انسان کے اپنے اعمال پر منحصرہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:

وَکُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیۡ عُنُقِہٖ ؕ وَنُخۡرِجُ لَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلۡقٰہُ مَنۡشُوۡرًا

(بنی اسرائیل: 14)

اور ہر انسان کا اعمال نامہ ہم نے اُس کى گردن سے چمٹا دیا ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے لئے اُسے ایک ایسى کتاب کى صورت میں نکالیں گے جسے وہ کھلى ہوئى پائے گا۔

اس لیے کسی دن یا مہینہ یا سال کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ اپنے اعمال پر نظر رکھنی چاہئے اور تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ پس جو بھلائی، خوش قسمی انسان کو پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی نقصان دہ بات ہو وہ انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ۫ وَمَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ

(النساء: 80)

جو بھلائى تجھے پہنچے تو وہ اللہ ہى کى طرف سے ہوتى ہے اور جو ضرر رساں بات تجھے پہنچے تو وہ تیرے اپنے نفس کى طرف سے ہوتى ہے۔

ماہ صفر کے متعلق بدشگونی کا اعتقاد اور اس کا ردّ

ماہ صفر کو زمانہ جاہلیت میں بدشگونی کے طور پر سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس میں وہ جنگیں لڑا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں ان کے گھر خالی اور تباہ و برباد ہو جاتے تھے۔ اس لیے وہ اسے بدشگون کے طور پر منحوس تصور کرتے تھے حالانکہ جنگیں اور قتل و غارت اور اس کے نتیجہ میں تباہی و بربادی تو ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ تھی جو وہ رسم نسئ کی وجہ سے اس مہینہ میں کیا کرتے تھے۔

زمانہ فیج اعوج میں بھی ماہ صفر کے بارہ میں قسما قسم کی بدشگونیوں اور توہمات پیدا ہوئے۔ مثلاً شادی بیاہ نہ کرنا، لڑکی کی رخصتی نہ کرنا، نیا کاروبار شروع نہ کرنا، سفر نہ کرنا وغیرہ۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک بعض لوگوں میں جاری ہے کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ماہ صفر میں ایسے کاموں کا آغاز برکت سے خالی ہوگا۔

رسول اللہﷺ نے زمانہ جاہلیت کی رسوم اور توہمات و بدشگونیوں کا خاتمہ فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرةؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ

(صحيح البخاري کتاب الطب باب الجذام)

یعنی ہر بیماری اپنی ذات میں متعدی نہیں ہوتی (جب تک مسبب الاسباب خدا کا اذن نہ ہو) اور بدشگونی، ھامة اور صفر کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود جذام کے بیمار سے تم ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔

اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لَا عَدْوَى، وَلَا غُوْلَ، وَلَا صَفَرَ

(مسلم کتاب السلام بَابُ لَا عَدْوَى، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَ)

عدویٰ، غول (بھوت پریت) اور صَفر کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

ان روایات میں ’’صَفر‘‘ سے علماء نے کئی مفاہیم مراد لیے ہیں۔ بعض شارحین نے اس سے مراد پیٹ کی ایک متعدی بیماری لی ہے جس سے پیٹ میں بڑے کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں۔ جس کی تردید رسول اللہﷺ نے ’’لَا صَفْرَ‘‘ کہہ کر فرمائی کہ یہ بیماری اللہ کے اذن کے بغیر کسی دوسرے کو نہیں لگ سکتی۔

دوسرا گروہِ علماء اس سے مراد صفر کا مہینہ لیتے ہوئے اس حدیث کی شرح میں دو باتیں بیان کرتے ہیں۔ پہلی یہ کہ اس ماہ صفر کو زمانہ جاہلیت میں منحوس سمجھا جاتا تھا جس کی رسول اللہﷺ نے تردید فرمائی۔ جیسا کہ سنن ابو داؤد میں محمد بن راشد کا قول درج ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے اور صفر پیٹ کی ایسی بیماری کو کہتے تھے جو متعدی ہو۔ رسول اللہﷺ نے (ان باتوں کی نفی کرتے ہوئے) فرمایا: ’’لَا صَفْرَ‘‘

(سنن ابوداؤد کتاب الطب باب فی الطیرة)

دوسری تشریح یہ بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے اس ارشاد سے رسم نسئ کی تردید فرمائی۔ چنانچہ اشہب بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام مالکؒ سے اس بارہ میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ صفر کو (قتل و غارت اور جنگوں کے لیے) حلال قرار دے دیتے تھے۔ ایک سال وہ اسے حلال قرار دیتے تو دوسرے سال حرام۔ رسول اللہﷺ نے اس رسم نسئ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ’’لَا صَفْرَ‘‘

(سنن ابوداؤد کتاب الطب باب فی الطیرة)

علامہ ابن رجب حنبلی (متوفی:795ھ) ماہ صفر سے بدشگونی لینے کو غلط قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’بہت سے جہلاء ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس مہینہ میں سفر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ صفر کو منحوس گرداننا بدشگونی کی ایک قسم ہے جس سے منع کیا گیا ہے اسی طرح دنوں میں سے کسی دن کو نحس قرار دینا بھی درست نہیں جیسا کہ بدھ کے دن کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔‘‘

(لطائف المعارف جزء1 صفحہ74)

موضوع روایت

اب یہاں ایک یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے ماہ صَفر کی نحوست کی ممانعت فرمادی تو اس بارہ میں توہمات کہاں سے پیدا ہو گئے۔ اس بارہ میں تحقیق سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ علمائے فن حدیث کے نزدیک ایک موضوع روایت ہے:

مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرٍ، بَشَّرْتُهٗ بِدُخُوْلِ الْجَنَّةِ کہ جس نے مجھے ماہ صفر کے گزرنے کی خوشخبری سنائی میں اسے جنت میں داخل ہونے کی بشارت دوں گا۔

اس روایت کو علامہ رضی الدین صغانی (متوفی:650ھ) نے ’’الموضوعات‘‘ میں، علامہ محمد طاہر فتنی (متوفی:986ھ) نے ’’تذکرة الموضوعات‘‘ میں احادیث موضوعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ملا علی قاری (متوفی:1014ھ) نے اس حدیث کو درج کر کے تحریر کیا ہے: لَا أَصْلَ لَهُ یعنی اس کی کوئی اصل نہیں۔

(الاسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة جزء1 صفحہ337)

توکل الٰہی کی ضرورت

دوسرا اہم محرک ان ساری بدعات و توہمات کا خدا تعالیٰ پر کامل توکل نہ ہونا ہے۔ ایک حقیقی مسلمان کو اپنے اللہ پر کامل بھروسہ ہونا چاہئے کہ کوئی بھی کام اللہ کے اذن کے بغیر ممکن نہیں اور وہی خیر کا منبع ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

قُلۡ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَعۡصِمُکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ اِنۡ اَرَادَ بِکُمۡ سُوۡٓءًا اَوۡ اَرَادَ بِکُمۡ رَحۡمَۃً ؕ وَلَا یَجِدُوۡنَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیۡرًا

(الأحزاب: 18)

تُو پوچھ کہ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکتا ہے اگر وہ تمہیں کوئى تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرے یا تمہارے حق میں رحمت کا فیصلہ کرے اور وہ اپنے لئے اللہ کے سوا نہ کوئى سرپرست پائیں گے اور نہ کوئى مددگار۔

ایک موقع پر رسول اللہﷺ نے تین دفعہ بدشگونی کو شرک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں مگر اسے وہم ہو ہی جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی وجہ سے اسے دور کر دیتا ہے۔

(سنن ابو داؤد کتاب الطب باب فی الطیرة)

اسی لیے رسول اللہﷺ نے ہر فرض نماز کے بعد ہمیں یہ دعا کرنے کا اسوہ عطا فرمایا:

’’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهٗ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ، اَللّٰهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ‘‘

(صحیح بخاری کتاب الاذان باب الذکر بعد الصلاة)

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کی تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر بات پر بڑا ہی قادر ہے۔ اے اللہ کوئی روکنے والا نہیں جو تو دے اور کوئی دینے والا نہیں جو تو روک دے۔ کسی صاحب حیثیت (مال، حسب و نسب وغیرہ) کو اس کی حیثیت تیرے مقابل پر فائدہ نہیں دے گی۔

ماہ صفر کی فضیلت کا بیان

ماہ صفر کی کوئی خاص فضیلت روایات سے ثابت نہیں۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ نےاس مہینہ میں معمول کی عبادات ہی بجا لائیں اور کسی خاص عبادت کا ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی اس مہینہ کو مصائب و ابتلاء کا مہینہ قرار دیتے ہوئے کوئی خاص دعا سکھائی گئی۔ چنانچہ علامہ احمد بن عبداللہ السلمی تحریر کرتے ہیں:
اس (ماہ صفر) کی فضیلت میں نبی کریمﷺ سے کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں۔ علامہ صدیق حسن خان صاحب نے کہا کہ ’’میں ماہ صفر کی فضیلت کی کسی صحیح حدیث سے واقف نہیں اور نہ ہی اس کی مذمت والی کوئی صحیح حدیث ثابت شدہ ہے۔‘‘

(بدع و اخطاء تتعلق بالایام والشھور صفحہ251 مطبع دارالقاسم)

ماہ صفر کے تاریخی اہم واقعات

عہد نبویؐ اور عہد خلفائے راشدین میں ماہ صفر میں جو اہم واقعات رونما ہوئے وہ یہ ہیں: 2 ہجری میں غزوہ ابواء و غزوہ ودان، 4 ہجری میں واقعہ رجیع اور واقعہ بئر معونہ، 12 ہجری میں جنگ مذار، جنگ الیس اور جنگ ولجہ، 16 ہجری میں فتح مدائن اور 37 ہجری میں جنگ صفین ماہ صفر میں ہی وقوع پذیر ہوئی۔ ماہ صفر 99 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیزؓ خلیفہ منتخب ہوئے۔

(ابوفاضل بشارت)

پچھلا پڑھیں

ایک صالح بچے کا خواب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اگست 2022