• 18 مئی, 2024

صحابہؓ کی کچھ روایات جن میں اُن کے صبر و استقامت پر روشنی پڑتی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’جب تک استقامت نہ ہو بیعت بھی ناتمام ہے۔ انسان جب خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاتا ہے تو راستہ میں بہت سی بلاؤں اور طوفانوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جب تک اُن میں سے انسان گزر نہ لے منزل مقصود کو پہنچ نہیں سکتا‘‘۔ فرمایا کہ ’’امن کی حالت میں استقامت کا پتہ نہیں لگ سکتا کیونکہ امن اور آرام کے وقت تو ہر ایک شخص خوش رہتا ہے اور دوست بننے کو تیار ہے۔ مستقیم وہ ہے کہ سب بلاؤں کو برداشت کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ515۔ ایڈیشن 2003ء)

پھر آپ نے ایک جگہ یہ تلقین فرماتے ہوئے کہ استقامت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے فرمایا کہ:
’’درود شریف جو حصولِ استقامت کا ایک زبر دست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو۔ مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن اور احسان کو مدِّ نظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لیے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیتِ دُعا کا شیریں اور لذیذ پھل تُم کو ملے گا‘‘۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ38۔ ایڈیشن 2003ء)

پھر ایک موقع پر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’دل کی استقامت کے لئے بہت استغفار پڑھتے رہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ183۔ ایڈیشن 2003ء)

اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہؓ کی کچھ روایات جن میں اُن کے صبر و استقامت پر روشنی پڑتی ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اُن کے ساتھ کیا پیار کا سلوک ہوتا تھا؟ کس طرح اُن کی دعائیں بھی قبول ہوتی تھیں؟ اُس کے بارے میں بیان کروں گا۔

حضرت نور محمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ 7؍جنوری 1906ء کو میں مع عیال خود بلوچستان چلا گیا۔ (بلوچستان میں تھے) وہاں پہنچ کر جب میرے استاد مولوی محمد صاحب امام مسجد اہلحدیث نے سنا تو مجھ کو طلب کیا۔ (یعنی قادیان آئے تھے وہاں سے بیعت کر کے واپس گئے) اور کہا کہ مرزا صاحب کتابوں میں تو اچھا لکھتے ہیں مگر درپردہ تلقین کچھ اور کرتے ہیں۔ (یعنی لکھتے کچھ اور ہیں اور کہتے اپنے مریدوں کو کچھ اور ہیں۔) کہتے ہیں چنانچہ حضرت اقدس کے حضور خط لکھ کے عرض کیا گیا تو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے قلم سے جواب ملا کہ ہماری تلقین دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل پر کمی یا زیادتی کرنے والا لعنتی ہے۔ یہ جواب جب مولوی صاحب کو دکھایا گیا تو اُس نے اور تو کچھ نہ کہا، صرف یہ کہا کہ سناؤ تم کو بھی الہام ہوا ہے یا نہیں۔ (یعنی مذاق اُڑانا شروع کیا) تو مَیں نے کہا کہ ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اخبار میں یہ پڑھ کر کہ لوگوں کو ہمارے متعلق خدا سے پوچھنا چاہئے، تو مَیں نے دعا کی تھی اور مجھے الہام ہوا تھا کہ ‘‘صادق ہے، قبول کر لو’’۔ اس کے بعد کہتے ہیں مَیں جدھر جاتا، بازار میں چلتا، بلکہ دفتر کے اندر باہر مجھے چڑانے کے لئے لوگ آوازیں کستے اور مجھے چھیڑنے کے لئے کہ مَیں مسیح موعود کی بیعت کر کے آیا ہوں تو چپڑاسی کو کوئی افسر کہہ رہا ہے کہ حقہ موعود لے کر آؤ، بلی موعود کو مارو، کاغذ موعود لاؤ۔ اس قسم کی بیہودہ قسم کی باتیں شروع کر دیں، وغیرہ وغیرہ۔ تو کہتے ہیں کہ میری اُس وقت کی دعائیں یہ ہوتی تھیں کہ اے مولیٰ کریم! حضرت مسیح موعود کے طفیل میری فلانی دعا قبول فرما۔ اور ہر اتوار کو حضرت اقدس کے حضور عریضہ لکھ دیا کرتا۔ چنانچہ ایک دعا میری یہ تھی کہ بطفیل حضرت صاحب کوئٹہ سے ترقی پر میری تبدیلی فرما کیونکہ میرا افسر خان بہادر محمد جلال الدین سی آئی ای پولیٹیکل ایڈوائزر قلاّت تھا اور وہ بھی احمدیت کا سخت مخالف تھا تو مَیں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کے دفتر سے تبدیل فرما دے اور تبدیلی بھی ترقی کے ساتھ ہو۔ کہتے ہیں تین روز نہیں گزرے تھے کہ میں مستوفی صاحب لاڑی کا سرشتہ دار ہو کر تبدیل ہو گیا۔ وہاں پہنچتے ہی جب مَیں نے دیکھا کہ مَیں تنہا ہوں تو حضرت صاحب کے حضور روزانہ دعا کے لئے ایک کارڈ لکھنا شروع کیا۔ پھر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُس کے نتیجے میں وہاں بارہ آدمی ایک سال کے اندر اندر احمدی بنائے اور اس کثرت سے مجھ پر الہامات کا دروازہ کھلا کہ کوئی رات نہ جاتی تھی کہ کوئی نہ کوئی الہام نہ ہوتا ہو۔

روایت کے رجسٹر میں یہاں لکھنے والے نے کچھ آگے پیچھے لکھا ہوا ہے بہر حال پھر آگے روایت یہ چلتی ہے کہ شادی خان نامی ایک قصاب تھا جو احمدی ہو گیا اور وہاں ایک میاں گل صاحب بھی تھے جو بلوچوں کے سردار تھے اور اُن کو بھی جب پتہ لگا کہ شادی خان احمدی ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنے لوگوں کو کہا کہ شادی خان کا گوشت جو قصائی کی دکان سے خریدتے تھے وہ پھینک دو اور یہ احمدی ہے اس کو مارو۔ چنانچہ وحشی مسلمانوں نے ایسا ہی کیا۔ اُس کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور مقدمہ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر سبّی بلوچستان کے حضور داد رسی کی درخواست دی گئی تو مقدمہ دائر کرنے کے بعد کہتے ہیں مجھ کو الہام ہوا کہ شادی خان کا مکان بچایا جاوے گا۔ مَیں نے سب دوستوں کو اس سے اطلاع دی کہ سب مع بال بچوں کے جو تعداد میں چھتیس کَس تھے سب شادی خان کے مکان میں چلے جاؤ۔ چنانچہ سب چلے گئے۔ نتیجہ کا انتظار تھا کہ شادی خان نے آدھی رات کے وقت کہا۔ شادی خان صاحب نے بھی خواب دیکھی کہ مَیں ایک بڑے دربار میں طلب کیا گیا۔ وہاں ایک شخص بڑی شان و شوکت سے خیمہ لگائے تخت پر بیٹھاہے۔ اُس کے گرد اِس اُمّت کے اولیاء بیٹھے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دروازے پر کھڑے میرا انتظار کر رہے ہیں۔ مَیں نے جب پوچھا تو اُس وقت میرے سر سے خون بہہ رہا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ہاتھ میری ٹھوڑی پر رکھا اور دوسرے سے سر کو پکڑ کر اُس تخت کے پاس لے گئے (یہ خواب اپنی بتا رہے ہیں) اور عرض کی کہ جب میرے مریدوں کا یہ حال ہو تو مَیں کیا کروں؟تخت والے نے آواز دی کہ کوئی ہے۔ ایک بڑا جرنیل کہ تمغے اُس کے لگے ہوئے تھے حاضر ہوا۔ اُس کو حکم ہوا کہ شادی خان کے ساتھ جاؤ۔ چنانچہ مَیں آگے ہوا۔ میرے پیچھے جرنیل اور اُس کے پیچھے فوج ہے اس شہر میں داخل ہو گئی۔ (یہ انہوں نے خواب دیکھی) اس کے بعد انہوں نے کہا اب میں مقدمہ نہیں کرنا چاہتا۔ میرا بدلہ خود خدا لے گا۔ چنانچہ اس کے بعد پانی کا ایک طوفانِ عظیم آیا اور شہر کے بیرونی حصے کو غرق کر دیا صرف شادی خان کا مکان بچ گیا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد5 صفحہ77 تا 79۔ روایات از حضرت نور محمدصاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 13؍ اپریل 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

احکام خداوندی (قسط نمبر10)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 ستمبر 2021