عالمی دنوں کی اہمیت پر بھی قارئین سے قلم اُٹھانے کی درخواست ہے۔ ایڈیٹر
عالمی سطح پر بہت سےدن منائے جاتے ہیں انہی میں سے ایک عالمی یوم امن بھی ہے جو ہر سال 21/ستمبر کو منایا جاتا ہے- اور اس سال یہ ایسے وقت پر منایا جارہا ہے جب متواتر کئی دہائیوں سے جاری افغانستان جنگ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے- اور بظاہر یہ ایک تاثر آرہاہے کہ شائید افغانستان میں امن قائم ہونے کے راستے ہموار ہوجائیں؛ ہماری نیک تمنائیں افغانستان کے مظلوم لوگوں کے ساتھ ہیں۔ اسکے علاوہ بھی اس وقت دنیا میں بہت سے تنازعے جاری ہیں جیسے یمن، سوڈان، شام وغیرہ اور بعض تنازعے مثلا فلسطین، کشمیر جیسے مسائل تو پچاس سال سے بھی زائد عرصہ سے چلے آرہے ہیں
اکثر اوقات جب بڑی طاقتوں کی طرف سے کسی جنگ کا آغاز کیا جاتا ہے تو اسے “ جنگ برائے امن” کا نام دیا جاتا ہے لیکن شاذ ہی ایسی کسی جنگ کے نتیجے میں دوبارہ ان علاقوں کو امن کی طرف واپس آتے دیکھا گیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدیوں سے امن، انسان کا خواب ہی ہے
دوسری جنگ عظیم اپنی تباہ کاریوں کے انمٹ نقوش چھوڑتی 1945ء میں اپنے اختتام کو پہنچی- یہی وہ وقت تھا جب انسان نے دنیا میں امن کی ضرورت کو بہت شدت سے محسوس کیا اور جیسا کہ کسی دانشور نے کہا تھا کہ ہم نے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنا سیکھ لیا ہے اور مچھلی کی طرح پانی میں تیرنا بھی سیکھ لیا ہے اب وقت ہے کہ ہم انسانوں کی طرح زمین پررہنا بھی سیکھ لیں ۔ لہذا معصوم لوگوں پر ایٹم بم کا ہولناک تجربہ کرنے کے بعد،اور قریبا اسی ملین لوگوں کی جانیں ضائع ہو جانے کے بعد ، اقوام عالم نے امن کے بارے میں غوروفکر کرناشروع کیا – اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا قیام، امن کی ان کو ششوں کی طرف ایک احسن قدم تھا-انسان کی ان کوششوں کا یہ مثبت نتیجہ تو دیکھنے میں آیا کہ اب تک تیسری عالمی جنگ کسی حد تک ملتوی ہوتی رہی لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سی چھوٹی جنگوں کاآغاز ہوگیا
امن کی تلاش یقینا ایک سعی لا حاصل ہرگز نہیں، اس کو حاصل کرنے کا بہت ہی سادا اور عام فہم اصول عدل کے نام سے جانا جاتا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں نظام عدل پر سختی سے عمل درآمد کروایا جاتا ہے لیکن خدا معلوم کہ جب یہی ترقی یافتہ قومیں کسی دوسری قوم کے بارے میں فیصلے کرتی ہیں تو اس اصول کو غیر ضروری چیز کی طرح با لا ئے طاق کیوں رکھ دیا جاتا ہے
اسلام نے قرآن کی صورت میں نسل انسانی کو درپیش تمام اہم مسائل کا حل دنیا کے سامنے رکھا ہے اور دنیا میں امن قائم کرنے کے سنہری اصول بھی بیان فرمائے ہیں- اور اس بات سے سختی سےمنع فرمایا گیا ہے کہ محض دشمنی کی بنا پر کسی دوسری قوم سے ناانصافی کا معاملہ کیا جائے- چنانچہ اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتا ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ
یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔ (5:9)
اسی طرح اللہ تعالی نے ایک دوسری جگہ اس بات سے بھی منع فرمایا ہے کہ جو دوسری قوموں کے لوگ قتال پر آمادہ نہیں ہیں، ان سے لڑائی کی جائے- بلکہ ان کے ساتھ انصاف اور نیکی کے ساتھ معاملہ کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے
لَا یَنۡہٰٮکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ
یعنی اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم اُن سے نیکی کرو اور اُن سے انصاف کے ساتھ پیش آؤ۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔ (60:9)
پھر قرآن کریم نے تمام اہل کتاب کو ایک خدا کے نام پر اکٹھے ہونے کی دعوت دی ہےکیونکہ ایک خدا کا تصور تمام الہی مذاہب کے ماننے والوں میں پایا جاتا ہے- یہ ایسی آفاقی تعلیم ہے جو باہمی اختلافا ت کم کرنے میں بہت مددگار بن سکتی ہے- اگر انسان آپس میں موجود اختلافات بھلا کر مشترک باتوں پر اکٹھے ہوجائیں تو یہ امن قائم کرنے کی طرف نہایت مثبت قدم ثابت ہو سکتاہے اللہ تعالی فرماتا ہے
قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ
کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی چیز کو اُس کا شریک ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ نہیں بنائے گا۔ پس اگر وہ پھر جائیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ یقینا ہم مسلمان ہیں۔ (3:65)
انصاف اور امن ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں – ظلم اور ناانصافی معاشرے میں بدامنی اور بے چینی پیدا کرتے ہیں اگر دنیا میں امن قائم کرنا ہمارا مقصد ہے تو اس اصول کو پس پشت پھینک کر ہم یہ مقصد کبھی حا صل نہیں کرسکتےلہذا ہمیں اس کی سمت میں قدم بڑھانا ہوگا
ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک شخص گلی سے گزر رہا تھا اس نے دیکھا کہ اسکا ہمسایہ اپنے گھر کےسامنے کھڑا کچھ ڈھونڈ رہا ہے پو چھنے پر پتہ چلا کہ اس کی سوئی گم ہو گئی ہے وہ شخص بھی اپنے ہمسائے کی مدد کے لئیے اس کی تلا ش میں شامل ہوگیا لیکن کافی دیر تک ڈھونڈنے پر بھی اس کی گمشدہ سوئی نہ ملی تب اس نے اپنے ہمسائے سے پوچھا کہ آپ کی سوئی کہاں گم ہوئی تھی تو اس نے بتایا کہ وہ اندر میرے گھر میں گم ہوئی تھی وہ شخص بہت سٹپٹایا کہنے لگا پھر یہاں کیوں ڈھونڈرہے ہو ؟اندر جا کر ڈھونڈو ! تو اس کے ہمسائےنے جواب دیا اندر کیسے ڈھونڈوں وہاں تو اندھیرا ہے
تو جناب یقینا دنیا کوامن نصیب ہوگا بس یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم اسے غلط جگہ پر تو تلاش نہیں کر رہے؟ کیا ہماری سمت درست ہے؟
مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے
ستاروں سے بھرے اس آسماں کی وسعتوں میں
مجھے اپناستار ڈھونڈنا ہے
سناہے گمشدہ چیزیں
جہاں پر کھوئی جاتی ہیں
وہیں سے مل بھی جاتی ہیں
مجھے اپناستارا ڈھونڈنا ہے
(ریحانہ صدیقہ بھٹی)