• 19 اپریل, 2024

لائیکا LAIKA

لائیکا ایک آوارہ کتیا تھی جسے تجرباتی طور پر خلائی سفر کے لیے بھیجا گیا۔ روسی زبان میں بھونکنے کو لائیکا کہا جاتا ہے،اس مناسبت سے اسے لائیکا نام دیا گیا۔ لائیکا پہلا جانور نہیں تھا جسے خلاء میں بھیجا گیا ہو۔ اس سے پہلے ایک درجن کتے، مکھیاں، ڈریگن فلائی، چوہے اور ایلبرٹ نامی بندر بھی 1948ء میں لائیکا سے پہلے خلاء میں بھیجے جا چکے تھے۔ لیکن وہ زمین کے مدار کے اندر یعنی Sub-orbital ’’سب آربٹل‘‘ مشن تھے۔ Sub-orbital مشن زمین سے محض 100 کلومیٹر کی بلندی تک ہی جاتے ہیں اس لیے انہیں مکمل خلائی مشن نہیں کہا جا سکتا۔

لائیکا اور اس کا مشن اس حوالہ اہم تھے کہ یہ پہلا مکمل خلائی مشن تھا اور لائیکا یہ مشن کرنے والا پہلا جانور تھی۔ گویہ منفرد مشن تھا لیکن جیسا سمجھا جاتا ہے لائیکا خلاء میں جانے والی خوش نصیب جانور ہرگز نہیں تھی۔ 1950ء سے پہلے انسانوں کو خلاء میں بھیجنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ خلائی مشن میں کوئی انسان زندہ رہ پائے گا یا نہیں اس بات کا پتہ لگانے کے لیے مختلف جانوروں کو خلاء میں بھیجا جاتا تھا۔ 1957ء میں روس کے شہر ماسکو کی سڑکوں پر گھومتی ہوئی لائیکا ایک تین سال کی آوارہ کتیا تھی۔ تب لائیکا کو معلوم نہیں تھا کہ وہ انسانی خلاء مہم میں تاریخ کا ایک اہم باب بننے جا رہی ہے۔ اسی دوران سویت اسپیس پروگرام کے تحت دنیا کے پہلے اسپیس سیٹلائیٹ اسپوٹنک ون کو کامیابی کے ساتھ لانچ کر دیا گیا تھا۔ اس میں کوئی بھی جاندار نہیں تھا۔ چنانچہ اس سے اگلے مشن اسپوٹنک ٹو کے لیے لائیکا کو خلاء میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ بہت عجلت میں کیا گیا تھا اور جس ایئر کرافٹ میں لائیکا کو بھیجا جانا تھا اس کی تیاری کے لیے صرف چار ہفتوں کا وقت تھا۔ مناسب تحقیق کے بغیر اسپوتنک ون سے حاصل ہونے والی معلومات اور ڈیٹا کے ساتھ اسپوٹنک ٹو کو کافی جلدی میں لانچ کیا گیا تاکہ سات نومبر 1957 ءکو روس کے عظیم «بالشویک انقلاب» کی 40 ویں سالگرہ مشن کی کامیابی کے ساتھ دھوم دھام سے منائی جا سکے۔

یہی عجلت معصوم لائیکا کے درد ناک انجام کی وجہ بنی۔ اس اسپیس کرافٹ کا نام اسپوٹنک ٹو تھا اور اسے خاص طور پر ایک کتے کو خلاء میں لے جانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے، اور آکسیجن بنانے والے یونٹ اور ٹھنڈا رکھنے والا نظام نصب تھا۔ سات دن تک زندہ رہنے کے لیے اس میں لائیکا کے لیے کھانا رکھا گیا تھا اور فضلہ جمع کرنے کے لیے ایک بیگ بھی نصب تھا۔ یہ کیبن اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں گھومنے پھرنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ یہ صرف 28 دنوں میں تیار کیا گیا تھا۔ اب ایک کتے کو ڈھونڈنا تھا جسے اس مشن پر بھیجا جا سکتا۔ سویت اسپیس کے سائنسدانوں نے جان بوجھ کر ایک آوارہ کتے کا انتخاب کیا کیونکہ وہ پالتو جانوروں کی نسبت زیادہ سخت جان ہوتے ہیں اور مشکل حالات کا مقابلہ زیادہ اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں۔ نر کتے کے بجائے مادہ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ جسامت میں نر سے چھوٹی اور وزن میں ہلکی ہوتی ہیں، نیز انہیں سدھانا آسان ہوتا ہے۔ ایسا جانور خلائی مشن کے لیے زیادہ سازگار تھا۔ خلاء میں بھیجنے سے قبل لائیکا کو خاص تربیت دی گئی تاکہ وہ ایسے ماحول میں وقت گزارنے کے قابل ہو جہاں کشش ثقل صفر ہوتی ہے۔ اسپوٹنک ٹو ائیر کرافٹ میں لائیکا کے لیے بنایا گیا کیبن کافی چھوٹا تھا اس لیے لائیکا کو ایک اور اسی طرح کے کیبن میں بیس دن تک رکھا گیا۔ تاکہ جب اسے اسپوٹنک ٹو کے کیبن میں بٹھایا جائے تو اسے کوئی مشکل نا ہو۔ لائیکا نے کامیابی سےتمام تربیتی مراحل طے کر لیے تھے۔

اُس دور میں مشن کو خلاء میں بھیجنے کی ٹیکنالوجی تو موجود تھی لیکن واپسی کا کوئی ذریعہ ابھی وجود میں نہیں آیا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ لائیکا اپنے پہلے اور آخری سفر پر روانہ ہو رہی تھی۔ اس یک طرفہ سفر پر روانہ کرنے سے قبل مشن میں شامل ایک سائنسدان لائیکا کو اپنے ساتھ باہر لے کر گئے اور زندگی کے اُن آخری ایام میں اپنے بچوں سے ملوایا اور کھیلنے کودنے کا موقع دیا۔خلاء میں بھیجنے سے قبل لائیکا کو ایک زنجیر سے باندھ کر اسپوٹنک ٹو کے کیبن میں بٹھا دیا گیا۔ لائیکا تین دن تک اسی حالت میں رہی تاکہ وہ اس حالت سے اچھی طرح مطابقت حاصل کر لے۔ 3 نومبر 1957ء کو لانچ والے دن لائیکا کو خاص طور پر بنایا گیا اسپیس سوٹ پہنایا گیا جس میں مختلف سینسر نصب تھے۔ ان سینسرز کی مدد سے اس کے سانس اور دل کی دھڑکن کو براہراست دیکھا جاسکتا تھا۔ اسپوٹنک ٹو کو کامیابی سے لانچ کر دیا گیا۔ ابتدائی چند منٹوں میں شدید دباؤ اور شور کے باعث لائیکا کے دل کی دھڑکن معمول سے تین گنا اور سانس کی رفتارچار گنا تک بڑھ چکی تھی۔اس کے باوجود لائیکا نے خود کو سنبھالنے رکھا اور دو ہزار میل کے فاصلہ تک زمین کے مدار میں پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ پہلے چند گھنٹوں تک سب کچھ معمول کے مطابق تھا لیکن اچانک اسپوٹنک ٹو کے کولنگ سسٹم نے کام کرنا چھوڑ دیا۔

چار ہفتوں کا وقت ایک اسپیس کرافٹ کو بنانے کے لیے کافی نہیں تھا۔ عجلت میں بنائے گئےاسپیس ایئر کرافٹ میں کئی خامیاں تھیں۔ کولنگ سسٹم کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے لائیکا کے کیبن کا ٹمپریچر بڑھنے لگا اور اس کے دل کی دھڑکن معمول کی دھڑکن یعنی 103 فی منٹ سے بڑھ کر 240 فی منٹ ہو گئی۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گرمی کے باعث لائیکا کتنی تکلیف میں ہوگی۔ لائیکا تین گھنٹے تک لگاتار زندگی موت کی کشمکش میں رہی۔ حدت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور کیبن کا درجہ حرارت 90 ڈگری تک پہنچ گیا تھا۔ 5 گھنٹوں بعد سوٹ میں لگے سینسرز سے سگنل آنا بند ہو گئے اور اسی کے ساتھ لائیکا جان کی بازی ہار گئی۔ اس کے باوجود اسپوٹنک ٹو 162 دن تک مری ہوئی لائیکا کے ساتھ خلاء میں گردش کرتا رہا اور 2570 بار زمین کے گرد چکر لگائے۔ بالآخر 14 اپریل 1958ء میں اسپوٹنک ٹو زمین کے مدار میں داخل ہوتے ہی جل کر راکھ ہو گیا اور لائیکا کی باقیات کبھی دریافت نہ ہوسکیں۔

2008ء میں حکومت روس نے لائیکا کے اعزاز میں ایک مجسمہ بنایا اور اسے اس جگہ نصب کیا جہاں لائیکا کو خلائی مشن کے لیے تربیت دی گئی تھی۔ اس مجسمہ میں ایک راکٹ کے اوپر لائیکا کو کھڑے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

50ءکے عشرے میں جانوروں کی حقوق کی تنظیمیں نہیں تھیں۔ اس کے باوجود لائیکا کو خلاء میں بھیجنے کے خلاف شدید منفی عالمی ردعمل سامنے آیا۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ لائیکا کی بحفاظت واپسی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور معصوم جانور کو خود کش مشن پر خلاء میں بھیجا گیا۔خلائی تسخیر کے باب میں لائیکا کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس نے 2000 میل زمین سے دور خلاء میں وقت گزارا جس کی بدولت مستقبل میں انسانوں کو خلاء میں بھیجنے کا راستہ آسان ہوا۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

احکام خداوندی (قسط نمبر10)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 ستمبر 2021