• 24 جولائی, 2025

حاصلِ مطالعہ (قسط نمبر 8)

حاصلِ مطالعہ
قسط نمبر 8

نیکیاں گناہوں کو مٹادیتی ہیں

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔ اے اللہ کے رسول ؐ! میں گناہ کا مرتکب ہوا ہوں اور سزا کا مستحق ہوں۔ نماز کا وقت ہو چکا تھا اس شخص نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نماز ختم ہو ئی تو اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! میں سزا کا مستحق ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے مقررہ قانون کے مطابق سزا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا:
کیا تُو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ اس نے کہا جی حضورؐ! پڑھی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس نیکی کی وجہ سے تجھے بخش دیا گیا ہے۔ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔

(بخاری، کتاب المحاربین اذا اقرب لحد)

ارشادِ مبارک

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم! مَیں ہی مسیح موعود ہوں اور میرے رب نے مجھے سلطانِ مبین عطا فرمایا ہے اور میں اپنے ربّ کی طرف سے بصیرت پر قائم ہوں۔‘‘

(الاستفتاء مع اردو ترجمہ صفحہ90 تا 92)

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب

مشہور مستشرق فلپ کے حتی لکھتے ہیں:
’’دنیا میں عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں سے تقریباً دو گنا ہے لیکن اس کے باوجود وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ تمام کتابوں کے مقابلے میں صرف قرآن کریم ہی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عبادتوں میں استعمال ہونے کے علاوہ یہ ایک ایسی کتاب بھی ہے جس کے ذریعہ ہر نوجوان مسلمان عربی سیکھتا ہے۔‘‘

(تاریخ عرب از فلپ کے حتی، آصف جاوید برائےنگارشات باب5 صفحہ35)

قبولیتِ دعا کے دو ذرائع

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:
’’ہر مخلص مومن کو چاہیے کہ یُقِیْمُو ا الصَّلوٰۃَ پر عمل کرے۔ اور خدا سے دعا کرے تا وہ تبلیغ اسلام کے لئے آسانیاں میسر فرمائے اور اسلام کے قیام کے سامان پیدا کرے۔ اور یہ دعائیں انہی لوگوں کی قبول ہوں گی جو اقامۃ الصلوٰۃ کرنے والے ہوں گے۔

جو لوگ نماز یں باقاعدہ اور بلا سخت مجبوری کے باجماعت ادا نہیں کرتے ان کی دعا کم سُنی جاتی ہے۔

اسی طرح یہ دعاانہی کی سنی جائے گی جو اخلاص سے اسلام کے لئے مالی قربانیاں کرنے والے ہوں گے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد سوئم صفحہ481)

پاکیزہ صحبت کی برکات

سیدنا حضرت مسیح موعود ؑکی خدانما مجلس اور پاکیزہ صحبت کی برکتوں نے کس طرح آپ کے خدام میں عشق قرآن اور ایثار نفس کے اوصاف نمایاں کردئیے۔ اس کا ایک نمونہ حضرت ماسٹر چوہدری محمد علی خان صاحب اشرف کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم کرم دین کے مقدمہ میں بہت سے لوگ حضرت اقدس کے ساتھ گورداسپور میں تھے۔ میرے پاس ایک بڑے سائز کا مترجم قرآن شریف تھا۔جو مہاراجہ صاحب کپورتھلہ نےاپنے ہاتھ سے دربار خاص میں مجھے انعام دیا تھا۔ کیونکہ میں نے آٹھویں جماعت خاص امتیاز سے مہاراجہ کی ریاست میں پاس کی تھی اور مجھ سے دریافت کیا گیا تھا انعام میں کیا لو گے تو میں نے قرآن مجید مترجم کے لئےعرض کیا اور وہی مجھ کو دیا گیا۔جس پر ماسوائے یونیورسٹی پنجاب کی سند کے ریاست کی طرف سے بھی مطبوعہ سند جلد قرآن کریم کے اندر کی طرف آویزاں و چسپاں تھی۔ وہ قرآن کریم چونکہ موٹے حروف میں تھا نیز مجھے انعام میں ملا ہوا تھا۔مجھے اتنا عزیز تھا کہ ہمیشہ میں اس انعامی قرآن شریف کو سفر و حضر میں اپنے ساتھ رکھتا تھا۔حضرت کے دوست احباب بھی وہاں موجود تھے۔حضرت مولوی عبدالستار صاحب کا بلی بھی تھے۔ انہوں نے اس قرآن شریف کو دیکھ کر ایسا پسند کیا کہ مجھ سے مانگنے پر مجبور ہوگئے۔ مجھے فرمایا کہ ’’چونکہ میری نظر کمزور ہے اس لئے مجھے اپنا جلی حروف والا قرآن کریم دے دو‘‘ اور مجھے چھوٹی سی عکسی حمائل اس کے بدلے میں دے دی اور قرآن مجید مجھ سے لے لیا۔

حضرت اقدس کی صحبت میں رہنے سے چھوٹے چھوٹے بچوں میں بھی ایثار کا مادہ ہوگیا تھا۔ باوجود یکہ میں طالب علم تھا اور انعامی قرآن کریم کا گرویدہ مگر میں نے ان کی درخواست کو رد کرنا مناسب نہ سمجھا اور ان سے دعائیں لیں۔

(الحکم 28 جنوری 1936ء صفحہ5)

سب نماز پر قائم ہو جائیں

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’مَیں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور مُمسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں ہیں۔ اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ یہ میری دعائیں خدا تعالیٰ قبول کرے گا اور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پیچھے مَیں ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہوں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ619)

چندہ دینے سے ایمانی طاقت حاصل ہوگی

حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں:
’’میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو بار ہا کہا ہے کہ جو شخص دینی لحاظ سے کمزور ہو وہ اگر اَور نیکیوں میں حصہ نہ لے سکے اس سے چندہ ضرور لیا جائے کیونکہ جب وہ مال خرچ کرے گا تو اس سے اس کو ایمانی طاقت حاصل ہوگی اور اس کی جرأت اور دلیری بڑھے گی اور وہ دوسری نیکیوں میں بھی حصہ لینے لگ جائے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ612)

خلافت سے فیض پانے کی شرط

سیدنا و امامنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں:
’’’تمکنت حاصل کرنے اور نظام خلافت سے فیض پانے کیلئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ نماز قائم کرو۔ کیونکہ عبادت اور نماز ہی ہےجو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہوگی ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس انعام کے بعد اگر تم میرے شکر گزار بنتے ہوئے میری عبادت کی طرف توجہ نہیں دو گے تو نافرمانوں میں سے ہوگے۔ پھر شکر گزاری نہیں نا شکرگزاری ہوگی اور نا فرمانوں کے لئے خلافت کا وعدہ نہیں ہے بلکہ مومنوں کےلئے ہے۔پس یہ انتباہ ہے ہر اُس شخص کیلئے جو اپنی نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتا کہ نظام خلافت کے فیض تم تک نہیں پہنچیں گے۔ اگر نظام خلافت سے فیض پانا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرو کہ یَعْبُدُوْنَنِیْ یعنی میری عبادت کرو۔ اس پر عمل کرنا ہوگا پس احمدی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھالینی چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا جو خلافت کی صورت میں جاری ہے تب فائدہ اٹھاسکیں گے جب اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہونگے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد5 صفحہ151)

(مولانا عطاءالمجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

پچھلا پڑھیں

احکام خداوندی (قسط نمبر10)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 ستمبر 2021