تحریکات خلفائے احمدیت بابت حفظِ قرآن کریم
تدبر و حفظ قرآن کی تحریک
قسط 2
ایک بار حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اپنے بعض خدام کو یہ کام سپرد فرمایا کہ وہ قرآن مجید کے اسماء، افعال اور حروف کی فہرستیں تیار کریں۔ اس طریق سے خدام میں قرآن مجید کی خدمت اور اس پر غوروفکر کی عادت پیدا کرنا مقصود تھا۔
مولوی ارجمند خانصاحب کا بیان ہے کہ اس تحریک کے سلسلہ میں میرے حصہ میں اٹھا رہواں پارہ آیا جو میں نے پیش کر دیا۔ایک بار آپ نے 12 دوستوں کو تحریک فرمائی کہ اڑھائی اڑھائی پارے یاد کرلیں۔ اس طرح سب مل کر حافظ قرآن بن جائیں۔
(تشحیذ الاذہان مارچ1912ء جلد7 صفحہ101)
اسکیم حفظِ قرآن
تعلیم القرآن کی ہی ذیلی سکیم حفظ قرآن ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے 7 دسمبر1917ء کو وقف زندگی کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
’’جو لوگ اپنے بچوں کو وقف کرنا چاہیں وہ پہلے قرآن کریم حفظ کرائیں۔ کیونکہ مبلغ کے لئے حافظ قرآن ہونا نہایت مفید ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں۔ اگر بچوں کو قرآن حفظ کرانا چاہیں تو تعلیم میں حرج ہوتا ہے۔ لیکن جب بچوں کو دین کے لئے وقف کرنا ہے تو کیوں نہ دین کے لئے جو مفید ترین چیز ہے وہ سکھالی جائے۔ جب قرآن کریم حفظ ہو جائے گا تو اور تعلیم بھی ہو سکے گی۔ میرا تو ابھی ایک بچہ پڑھنے کے قابل ہوا ہے اور میں نے تو اس کو قرآن شریف حفظ کرانا شروع کرا دیا ہے۔ ایسے بچوں کا تو جب انتظام ہوگا اس وقت ہوگا اور جو بڑی عمر کے ہیں وہ آہستہ آہستہ قرآن حفظ کر لیں گے۔‘‘
(الفضل 22 دسمبر 1917ء۔ خطبات محمود جلد5 صفحہ612)
اپریل، مئی 1922ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت میں حفظ قرآن کی تحریک فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ کم ازکم تیس آدمی قرآن کریم کا ایک ایک پارہ حفظ کریں جس پر کئی لَبَّیْک کہا۔
(الفضل4 مئی 1922ء صفحہ1)
24؍اپریل 1944ء کو دعویٰ مصلح موعود کے بعد حضورؓ نے پھر حفاظ پیدا کرنے کی تحریک فرمائی۔
(الفضل 26 جولائی 1944ء صفحہ4,3)
حضرت مصلح موعودؓ نے 29 ؍اپریل 1946ء کو تحریک فرمائی کہ قرآن کریم کا چرچا اور اس کی برکات کو عام کرنے کے لئے ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں۔ چنانچہ فرمایا:
’’صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں۔ اسی طرح جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے ان کو ترجمہ پڑھا دیں اگر صبح و شام و ہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی ان سے کام لیا جاسکے گا۔ بہرحال قرآن کریم کا چرچا عام کرنے کے لئے ہمیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے۔ انجمن کو چاہئے کہ وہ انہیں اتنا کافی گزارہ دے کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کرسکیں۔ پہلے دو چار آدمی رکھ لئے جائیں پھر رفتہ رفتہ اس تعداد کو بڑھایا جائے‘‘۔
(الفضل 26؍اگست1960ء صفحہ4)
چنانچہ حضورؓ کی توجہ اور ہدایات کے تابع جماعت میں حفظ قرآن کی سکیم کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ تاریخی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1920ء سے قبل قادیان میں حافظ کلاس کا آغاز ہوچکا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اسی کلاس سے قرآن حفظ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ کلاس احمد نگر، پھر مسجد مبارک ربوہ اور جون 1969ء سے جامعہ احمدیہ کے کوارٹر اور کچھ دیر مسجد حسن اقبال جامعہ میں جاری رہی۔ 1976ء میں باقاعدہ مدرسۃ الحفظ قائم کیا گیا۔ 2000ء میں مدرسۃ الحفظ کو موجودہ نئی عمارت میں منتقل کیا گیا۔
(الفضل 11؍اپریل 2001ء)
مدرسۃ الحفظ سے سینکڑوں بچے اب تک قرآن حفظ کرچکے ہیں۔
اسی طرح بچیوں کے لئے 17 مارچ 1993ء سے عائشہ دینیات اکیڈمی قائم کی گئی ہے جس سے سینکڑوں بچیاں قرآن حفظ کرچکی ہیں۔
2 ستمبر 2000ء کو برطانیہ میں مدرسہ حفظ قرآن عمل میں آیا جس میں ٹیلی فون اور جز وقتی کلاسوں کے ذریعہ بچوں کو قرآن حفظ کروایا جاتا ہے۔ اس کا نام اَلْحَافِظُوْن رکھا گیا ہے۔
یکم مارچ 2005ء کو غانا میں جامعہ احمدیہ کے ساتھ مدرسۃ الحفظ کا قیام عمل میں آیا۔
(الفضل 13 مئی 2006ء)
حفظِ قرآن کی تحریک
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اپنی خلافت کے آغاز میں جہاں قرآن کریم پڑھنے پڑھانے اور اس پر غوروتدبر کرنے کی تلقین فرمائی، تعلیم القرآن کے لئے وقف عارضی کی تحریک فرمائی۔ وہاں قرآن کریم کو حفظ کرنے کے سلسلہ میں حضورؒ نے خدام کو ارشاد فرمایا کہ وہ قرآن مجید کا ایک ایک پارہ حفظ کریں جب ایک پارہ حفظ ہو جائے تو دوسرا پارہ حفظ کیا جائے اس سکیم سے حضورؒ کا مقصد قرآن مجید کے زیادہ سے زیادہ حفاظ تیار کرنا تھا۔ چنانچہ خدام الاحمدیہ نے اس تحریک پر کماحقہٗ عمل کرنے کی کوشش کی اور خدام کو ایک ایک پارہ حفظ کرنے کی سکیم تیار کی بعد میں اس کا جائزہ بھی لیا جاتارہا اور ان خدام کے نام جنہوں نے ایک ایک پارہ حفظ کرلیا تھا۔ حضورؒ کی خدمت میں بغرض دعا بھجوائے گئے۔
(الفضل خلیفہ ثالث نمبر)
سورۃالبقرہ کی 17 آیات یاد کرنے
اور سمجھنے کی تحریک
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے 12 ستمبر 1969ء کو کراچی میں خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا:
میرے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا کی گئی ہے کہ قرآن کریم کی سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیتیں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے۔ ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئیں اور ان کے معانی بھی آنے چاہئیں اور جس حد تک ممکن ہو ان کی تفسیر بھی آنی چاہئے اور پھر ہمیشہ دماغ میں وہ مستحضر بھی رہنی چاہئے۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ستر، اسی صفحات کا ایک رسالہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اولؓ اور حضرت مصلح موعودؓ کی تفاسیر کے متعلقہ اقتباسات پر مشتمل ہوگا، شائع بھی کر دیں گے۔ مجھے آپ کی سعادت مندی اورجذبہ اخلاص اور اس رحمت کو دیکھ کر جو ہر آن اللہ تعالیٰ آپ پر نازل کررہا ہے امید ہے کہ آپ میری روح کی گہرائی سے پیدا ہونے والے اس مطالبہ پر لَبَّیْک کہتے ہوئے ان آیات کو زبانی یاد کرنے کا اہتمام کریں گے۔ مرد بھی یاد کریں گے عورتیں بھی یاد کریں گی۔ چھوٹے بڑے سب ان سترہ آیات کو ازبرکرلیں گے۔ پھر تین مہینے کے ایک وسیع منصوبہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہم ہر ایک کے سامنے ان آیات کی تفسیر بھی لے آئیں گے۔
(خطبات ناصر جلد2 صفحہ851)
حضور نے متعدد بار ان آیات کی تفسیر بھی بیان فرمائی اور جماعت کے کثیر احباب نے اس تحریک پر لَبَّیْک کہا۔
منتخب حصوں کے حفظ کی تحریک
ایک تحریک حضور انور نے یہ فرمائی کہ قرآن مجید کی چھوٹی سورتیں اور بعض آیات حفظ کی جائیں۔
حضور انورکو قرآن مجید کے مختلف مضامین پر مبنی آیات کے حفظ کا بہت خیال تھا اور خود بھی خلافت سے قبل بھی اور بعد میں بے انتہا مصروفیات کے باوجود بھی اس کا تعہد فرماتے رہے اور نمازوں میں بدل بدل کر مختلف حصوں کی تلاوت فرماتے۔ ان منتخب حصوں کو حفظ کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’بچوں کو خصوصیت سے اور بڑوں کو بھی وہ آیتیں یاد کرلینی چاہئیں۔ جن کی نمازوں میں میں تلاوت کرتا ہوں اور اکثر میں فجر، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں بدل بدل کر تلاوت کرتا ہوں۔ یہ آیتیں جو میں نے چنی ہیں کسی مقصد کے لئے چنی ہیں۔ اگر ان کا ترجمہ آتا ہو تو اس کا دل پر اثر پڑے گا۔ اگر مطلب نہ آتا ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔
(الفضل انٹرنیشنل لندن7 جون 1996ء)
باقی آئندہ ان شاءاللہ
(ذیشان محمود۔ مبلغ سلسلہ سیرالیون)