• 20 جولائی, 2025

نبی کریم ﷺ کے بعض رؤیا اور تعبیر نبوی (قسط نمبر2و آخر)

نبی کریم ﷺ کے بعض رؤیا اور تعبیر نبوی
نبی کریم ﷺ کے قرآن و احادیث میں مذکور رؤیا اور کشفی واقعات
قسط نمبر2و آخر

(تسلسل کے لىے دىکھىں شمارہ 23 اکتوبر2021ء)

دوسرى رواىت مىں ہے کہ حضرت برىدہ ؓ بىان فرماتے تھے کہ اىک دن صبح کے وقت رسول اللہ ؐ نے حضرت بلالؓ کو طلب فرماىا اور فرماىا: کس عمل کے ذرىعہ تم نے جنت مىں مجھ سے پىش روى اختىار کى ہے ؟ کىونکہ مىں جب بھى جنت مىں داخل ہوا ہو ں تو تمہارے قدموں کى چاپ اپنے آگے سنى ہے۔ حضرت بلالؓ نے عرض کىا ىا رسول اللہ ؐ! مىں نے جب بھى اذان دى ہے تو اس کے بعد دو رکعت نماز ضرور پڑھى ہے۔ اور جب بھى مىرا وضو ٹوٹا ہے تو مىں نے اسى وقت وضو کر لىا ہے اور مىں نے اللہ کے لئے دو رکعت نمازپڑھنى ضرورى سمجھى ہے۔ (ىہ سن کر رسول اللہ ؐ نے) فرماىا اسى وجہ سے تم اس عظىم درجہ کو پہنچے ہو۔

 (مشکوٰۃ المصابىح باب التطوع حدىث: 1250 بحوالہ ترمذى)

رؤىا نمبر 17: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں جنت مىں حضرت حارثہ بن نعمانؓ کى تلاوت قرآن سننا

ام المومنىن حضرت عائشہؓ بىان فرماتى تھىں کہ رسول اللہ ؐ نے فرماىاکہ مىں جنت مىں داخل ہوا تو مىں نے وہاں قرآن پڑھنے کى آواز سنى۔ مىں نے پوچھا کہ ىہ کون شخص ہے؟ تو (فرشتوں نے) بتاىا کہ ىہ حارثہ بن نعمانؓ ہىں۔ (پھر نبى کرىم ؐ نے فرماىا) نىکى کرنے کا ثواب اسى طرح ہے، نىکى کرنے کا ثواب اسى طرح ہے، وہ اپنى ماں کے ساتھ سب سے بڑھ کر نىک سلوک کىا کرتا تھا۔

(مشکوٰۃ المصابىح با ب البر والصلۃ حدىث 4707)

رؤىا نمبر18: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں حضرت ابوطلحہ ؓ کى بىوى حضرت رمىصاء ؓ کو جنت مىں دىکھنا

حضرت جابر بن عبد اللہؓ بىان فرماتے تھے کہ نبى کرىم ؐ نے فرماىا: مىں (خواب مىں) جنت مىں داخل ہوا تو وہاں مىں نے ابو طلحہؓ کى بىوى رمىصاء کو دىکھا۔

(صحىح بخارى کتاب الانبىاء باب مناقب عمر)

نوٹ: حضرت رمىصاء ؓ بنت ملحان بن خالد حضرت ابو طلحہؓ زىد بن سہل انصارى کى زوجہ تھىں جو خادم رسول ؐ حضرت انسؓ بن مالک کى والدہ کے شوہر تھے۔ حضرت رمىصاء ؓ اسلام سے قبل مالک بن نضر کى زوجىت مىں تھىں۔ حضرت انس ؓ انہى سے پىدا ہوئے۔ مالک بن نضر بحالت کفر قتل کر دئىے گئے۔ان کے قتل کے بعد حضرت رمىصاء مسلمان ہو گئىں۔ حضرت ابو طلحہ نے ان کو شادى کا پىغام دىا، انہوں نے ابھى اسلام قبول نہىں کىا تھا۔ حضرت رمىصاء ؓ نے ان کے کفر کى وجہ سے رشتہ سے انکار کر دىا اور ان کو اسلام کى دعوت دى۔ ابو طلحہؓ نے اسلام قبول کر لىا تو حضرت رمىصاءؓ نے ان سے کہا کہ اب مىں تم سے شادى کرتى ہو ں اور مىرا حق مہر تمہارا قبول اسلام ہى ہو گا اور کچھ نہ لو ں گى۔ حضرت رمىصاء ؓ نبى کرىم ؐ کى رضاعى خالہ تھىں اور حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ کى بہن تھىں جن کا ذکر رؤىا نمبر 5 مىں گزر چکا ہے۔

(بحوالہ مشکوٰۃ المصابىح اسماء الرجال)

رؤىا نمبر 19: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں مسواک کرتے ہوئے دىکھنا

حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ بىان فرماتے تھے کہ نبى کرىم ؐ نے فرماىاکہ: مىں نے خواب مىں دىکھا کہ مىں مسواک کر رہا ہوں۔ (اسى اثناء مىں) دو آدمى مىرے پاس آئے۔ اىک اُن مىں سے بڑا تھا اور اىک چھوٹا۔ مىں نے چھوٹے آدمى کو مسواک دىنا چاہى تو مجھے کہا گىا کہ بڑے کو دو۔ تو مىں نے وہ مسواک بڑے کو دے دى۔

 (صحىح بخارى کتاب الوضوء باب دفع السواک الى الاکبر۔ صحىح مسلم۔ مشکوٰۃ المصابىح باب السواک حدىث نمبر: 354۔ صحىح مسلم حدىث نمبر: 5648)

رؤىا نمبر 20: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں حوض کوثر دىکھنا

حضرت انس ؓ بن مالک فرماتے تھے کہ نبى کرىم ؐ نے فرماىا کہ مىں جنت مىں چل رہا تھا کہ مىں اىک نہر پر پہنچا۔ اس کے دونوں کنارو ں پر کھو کھلے موتىوں کے گنبد بنے ہو ئے تھے۔ مىں نے جبرئىل ؑ سے پوچھا کہ ىہ کىا ہے؟ تو جبرئىل ؑ نے بتاىا کہ ىہ کوثر ہے جو آپؐ کے رب نے آپ ؐ کو دىا ہے۔ مىں نے دىکھا کہ اس کى مٹى ىا اس کى خوشبو مشک جىسى تھى۔

(صحىح بخارى کتاب الرقاق باب فى الحوض)

رؤىا نمبر 21: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں فرشتوں کو دىکھنا جنہو ں نے آپؐ کى مثال بىان کى

حضرت جابر ؓ فرماتے ہىں کہ فرشتے نبى کرىم ؐ کے پاس اس وقت آئے جبکہ آپ ؐ سوئے ہو ئے تھے۔ فرشتوں نے آپس مىں کہا تمہارے اس صاحب (ىعنى نبى کرىم ؐ) کے متعلق اىک مثال ہے اس کو ان کے سامنے بىان کرو۔ دوسرے فرشتوں نے کہا وہ تو سوئے ہوئے ہىں۔ ان مىں سے بعض نے کہا بے شک آنکھىں سو رہى ہىں لىکن دل تو جاگتا ہے۔ پھر اس نے کہا ان کى مثال اس شخص کى سى ہے جس نے اىک گھر بناىا اور لوگوں کے کھانا کھانے کے لئے دسترخوان چنااور پھر لوگوں کو بلانے کے لئے آدمى بھىجا۔ لہذا جس نے بلانے والے کى بات کو مان لىا وہ گھر مىں داخل ہو گا اور کھانا کھائے گا۔ اور جس نے بلانے والے کى بات کو قبول نہ کىا وہ نہ گھر مىں داخل ہو گا نہ کھانا کھائے گا۔ ىہ سن کر فرشتوں نے کہا اس (مثال) کى ان کے لئے وضاحت کردو تا کہ ىہ سمجھ جائىں۔ بعض فرشتوں نے کہا کہ ىہ تو سوئے ہوئے ہىں۔دوسروں نے کہا کہ بے شک آنکھىں سو رہى ہىں لىکن دل تو جاگتا ہے۔ پھر فرشتوں نے کہا گھر سے مراد جنت ہے اور بلانے والے سے مراد محمد ؐہىں۔ جس نے محمد ؐ کى فرمانبردارى کى اس نے اللہ کى اطاعت کى اور جس نے محمد ؐ کى نافرمانى کى اس نے اللہ کى نافرمانى کى۔ اور محمدؐ لوگوں کے ساتھ فرق کرنے والے ہىں۔

(صحىح بخارى کتاب الاعتصام بالکتاب، باب الاقتداء بالسنن)

حضرت جابرؓ کى دوسرى رواىت مىں ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ اىک دن رسول اللہ ؐ ہمارے پاس تشرىف لائے اور فرماىا مىں نے خواب مىں دىکھا کہ جبرئىل مىرے سر کے پاس اور مىکائىل مىرے قدموں کى طرف ہىں۔ ان مىں سے اىک نے کہا ان کے لئے مثال بىان کرو۔ فرشتہ نے کہا اپنے کانو ں کى سماعت سے سنو اور دل سے سمجھو۔ آپؐ اور آپؐ کى امت کى مثال اىک بادشاہ کى سى ہے جس نے اىک ڈىرہ بناىا اور اس مىں اىک گھر بناىااور اس گھر مىں اىک دسترخوان لگواىا۔ پھر اىک شخص کو بھىجا کہ لوگوں کو کھانے کى طرف دعوت دے۔ ان (لوگوں) مىں سے کچھ نے تو اس بلانے والے کى آواز کا جواب دىا اور کچھ نے نہ دىا۔ پس وہ بادشاہ تو اللہ ہے، ڈىرہ سے مراد اسلام ہے، گھر سے مراد جنت ہے اور اے محمدؐ آپ بلانے والے ہىں۔جس نے آپ ؐ کى دعوت قبول کى وہ اسلام مىں داخل ہو گىا، جو اسلام مىں داخل ہوا وہ جنت مىں داخل ہو گىا اور وہ کچھ کھاىا جو اس مىں تھا۔

(مشکوٰۃ المصابىح باب الاعتصام بالکتاب، حدىث نمبر: 153۔ مستدرک للحاکم۔ دلائل النبوۃ از امام ابى بکر احمد بن حسىن البىہقى(اردو ترجمہ) باب:37، حدىث: 3 و 4، جلد:اول صفحہ: 282، دار ا لاشاعت کراچى، پاکستان مئى 2009ء)

رؤىا نمبر 22: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں لىلۃ القدر دىکھنا

حضرت ابو سعىد خدرىؓ سے رواىت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے رمضان کے پہلے عشرہ مىں اعتکاف فرماىاپھر آپ نے اىک ترکى خىمہ کے اندر درمىانى عشرہ مىں اعتکاف فرماىا۔ اس کے بعد آپؐ نے اپنا سرمبارک (خىمہ سے) باہر نکال کر فرماىاکہ مىں نے شب قدر کو تلاش کرنے کے لئے پہلے عشرہ مىں اعتکاف کىا، پھر مىں نے درمىانى عشرہ مىں اعتکاف کىا، اس کے بعد مىرے پاس فرشتہ آىا اور اس نے مجھے بتاىا کہ شب قدر رمضان کے آخرى عشرہ مىں آتى ہے۔ لہٰذا جو شخص مىرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے اسے چاہىئے کہ وہ آخرى عشرہ مىں اعتکاف کرے۔ اور مجھے خواب مىں شب قدر کو متعىن کر کے بتاىا گىا مگر بعد مىں اسے مىرے ذہن سے محو کر دىا گىا۔ اور مىں نے خواب مىں اپنے آپ کو دىکھا کہ مىں اس کى صبح (ىعنى لىلۃ القدر کى صبح) کىچڑ مىں سجدہ کر رہا ہو ں۔ اور چونکہ مىں ىہ بھول گىا ہوں کہ وہ کون سى رات تھى، لہٰذا اسے (رمضان کے) آخرى عشرہ مىں تلاش کرو۔ نىز لىلۃ القدر کو طاق راتوں مىں تلاش کرو۔ راوى کہتے ہىں کہ (جس رات کو نبى کرىم ؐ نے خواب دىکھا تھا) اس رات مىں بارش ہو ئى تھى۔ اور چونکہ مسجد کى چھت کھجور کى شاخوں کى بنى ہو ئى تھى اس لئے مسجد ٹپکى۔ چنانچہ مىرى آنکھوں نے دىکھا کہ اکىسوىں شب کى صبح کو آنحضرت ؐ کى پىشانى پر پانى اور مٹى کا نشان تھا۔

(مشکوٰۃ المصابىح کتاب الصوم باب لىلۃ القدر،حدىث نمبر: 1985 بحوالہ صحىح مسلم۔صحىح بخارى کتاب الصىام باب التماس لىلۃ القدر)

رؤىا نمبر 23: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں بنى امىہ کى حکومت دىکھنا

حضرت ابو ہرىرہؓ سے رواىت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرماىاکہ مىں نے خواب مىں دىکھا کہ بنى الحکم بن ابى العاص مىرے منبر پر بندروں کى طرح اچھل کود رہے ہىں۔

مشہور تابعى سعىد بن مسىّب ؒ ىہ رواىت بىان کرتے تھے کہ نبى کرىمؐ نے خواب مىں بنى امىہ کو اپنے منبر پر دىکھا تو ىہ بات آنحضرت ؐ کو برى لگى۔ لہٰذاان کى طرف وحى کى گئى کہ سوائے اس کے نہىں کہ ىہ دنىا ہے جو ان کو دى گئى ہے۔ لہٰذاآپؐ کى آنکھىں ٹھنڈى ہو گئىں۔

 (دلائل النبوۃ از امام ابى بکر احمد بن حسىن البىہقى (اردو ترجمہ) باب:202، حدىث: 1 و 3، جلد:3 صفحہ: 320-321، دار ا لاشاعت کراچى، پاکستان مئى 2009ء)

رؤىا نمبر24: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں سىاہ اور سفىد بکرى دىکھنا

حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ سے رواىت ہے کہ نبى کرىم ؐ نے فرماىا کہ مىں نے (خواب مىں) سىاہ بکرىوں کى اىک بہت بڑى تعداد دىکھى جس مىں سفىد بکرىوں کى اىک کثىر تعداد داخل ہو گئى ہے۔ آپؐ سے عرض کىا گىا کہ ىا رسول اللہ ؐ! آپ ؐ نے اس کى کىا تعبىر لى ہے؟ فرماىا اہل عجم تمہارے ساتھ تمہارے دىن اور تمہارى نسلوں مىں شامل ہو جائىں گے۔

(المستدرک للحاکم جلد:4 صفحہ:437)

حضرت ابو اىوبؓ سے رواىت ہے کہ نبى کرىم ؐ نے فرماىاکہ مىں نے خواب مىں دىکھا کہ گوىا کہ سىاہ بکرى مىرے پىچھے چل رہى ہے اس کے پىچھے سفىد بکرى آگئى ہے حتى کہ اس کى سىاہى نظر نہىں آرہى۔ (ىہ سن کر) حضرت ابوبکرؓ نے عرض کىا ىا رسول اللہ ؐ! ىہ عرب ہىں جو آپؐ کے پىچھے چل رہے ہىں پھر عجم ہىں جو اس کے پىچھے ہوں گے۔ حتى کہ وہ عرب ان مىں نظر نہىں آرہے۔ (ىہ سن کر) نبى کرىم ؐ نے فرماىا کہ جى ہاں! اىسے ہى اس کى تعبىر فرشتہ نے صبح کے وقت دى تھى۔

(دلائل النبوۃ از امام ابى بکر احمد بن حسىن البىہقى(اردو ترجمہ) باب:139، حدىث : 35،جلد:3 صفحہ: 218، دار ا لاشاعت کراچى، پاکستان مئى 2009ء)

رؤىا نمبر 25: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں دشمن اسلام ابو جہل کوبىعت کرتے ہوئے اور اسلام قبول کرتے ہوئے دىکھنا

ام المومنىن حضرت عائشہؓ سے رواىت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرماىاکہ مىں نے خواب مىں دىکھا کہ ابو جہل مىرے پاس آىا ہے اور اس نے آکرمىرى بىعت کى ہے۔ جب حضرت خالد بن ولىد ؓ نے اسلام قبول کىا تو رسول اللہ ؐ سے عرض کىا گىاکہ اللہ تعا لىٰ نے آپؐ کى رؤىا سچى کر دکھائى ہے کہ خالد ؓ نے اسلام قبول کر لىا ہے۔ (ىہ سن کر) رسول اللہ ؐ نے فرماىاکہ شاىد کوئى اَور ہو۔ ىہاں تک کہ حضرت عکرمہ ؓ بن ابى جہل مسلمان ہو گئے۔

(المستدرک للحاکم باب رؤىا رسول اللّٰہ ؐ عکرمۃ)

رؤىا نمبر 26: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں روشنى کا ستون دىکھنا

حضرت عمر ؓ سے رواىت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرماىا کہ مىں نے اپنے سر کے نىچے سے نور کا اىک ستون اٹھتے ہو ئے دىکھا ہے جو شام مىں جاکر ٹھہر گىا ہے۔

(مشکوٰۃ المصابىح باب ذکر الىمن والشام حدىث:6018)

حضرت ابو قلابہؓ سے رواىت ہے رسول اللہ ؐ نے فرماىاکہ مىں نے خواب دىکھا جىسے کہ اىک سونے والا خواب دىکھتا ہے اور مىں نے دىکھا کہ فرشتے اىک کتاب کا ستون اٹھائے لئے جا رہے ہىں اور انہو ں نے اسے لے جا کر شام مىں رکھ دىا ہے۔ اس کى مىں نے ىہ تاوىل کى ہے کہ جب فتنے ظاہر ہو ں گے تو اىمان شام مىں ہو گا۔

(دلائل النبوۃ از امام ابى بکر احمد بن حسىن البىہقى(اردو ترجمہ) باب:180، حدىث نمبر : 4 تا 7،جلد:3 صفحہ: 285، دار ا لاشاعت کراچى، پاکستان مئى 2009 ء)

رؤىا نمبر 27: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں اپنے نواسے حضرت حسىن ؓ کا مقتل دىکھنا

ام المومنىن حضرت ام سلمہ ؓ سے رواىت ہے کہ اىک دن رسول اللہؐ سونے کے لئے لىٹے تو (فوراً) بىدار ہو گئے اور کچھ پرىشان تھے۔ پھر لىٹ گئے اور سو گئے۔ پھر جاگے توحىران و پرىشان تھے مگر پہلى بار سے کم پرىشان تھے۔ پھر لىٹ گئے اور پھر جاگے تو آپؐ کے ہاتھ مىں سرخ رنگ کى مٹى تھى جسے الٹ پلٹ رہے تھے۔ مىں نے عرض کىا ىا رسول اللہ ؐ ىہ کىسى مٹى ہے؟ آپؐ نے فرماىا مجھے جبرئىل ؑ نے خبر دى ہے کہ ىہ (ىعنى حسىن) سرزمىن عراق مىں قتل کىا جائے گا۔ مىں نے جبرئىل ؑ سے کہا کہ مجھے اس سرزمىن کى مٹى دکھائىں جہاں وہ قتل ہو گا۔ پس ىہ وہى مٹى ہے۔

(دلائل النبوۃ از امام ابى بکر احمد بن حسىن البىہقى(اردو ترجمہ) باب:188، حدىث نمبر: 4,3,1، جلد:3 صفحہ:298، دار ا لاشاعت کراچى، پاکستان مئى 2009 ء۔ المستدرک للحاکم باب رؤىا قارورۃ دم الحسىن و تربتہ۔)

اىک رواىت مىں ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ مکہ مىں دوپہر کے وقت سوئے ہو ئے تھے کہ فورا ً بىدار ہو گئے اور اِنَّا لِلَّہِ وَاِنَّآاِلَىْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھا۔ گھر والوں نے پوچھا کہ ىہ کىو ں پڑھ رہے ہىں؟ فرماىاکہ مىں نے رسول اللہ ؐ کو خواب مىں دىکھا کہ آپؐ کے بال بکھرے ہو ئے ہىں اور آپؐ کے ہاتھ مىں اىک بوتل ہے جس مىں خون ہے۔ رسول اللہ ؐ نے فرماىاکہ اس مىں حسىنؓ اور اس کے ساتھىوں کا خون ہے جو مىں صبح سے اکٹھا کر رہا ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرماىاکہ اس خواب نے مجھے بتا دىا ہے کہ حسىنؓ شہىد ہو گئے ہىں۔ ابن عباسؓ بىان فرماتے تھے کہ اس وقت کو شمار کىا تو اسى دن اور اسى وقت حضرت حسىن شہىد ہو ئے تھے۔ امام ابن کثىرؒ نے ’البداىہ والنہاىہ‘ مىں اس حدىث کو صحىح السند اور قوى حدىث قرار دىا ہے۔

(دلائل النبوۃ از امام ابى بکر احمد بن حسىن البىہقى(اردو ترجمہ) باب:188، حدىث نمبر: 6، جلد:3 صفحہ: 300، دار ا لاشاعت کراچى، پاکستان مئى 2009ء)

رؤىا نمبر 28: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں ورقہ بن نوفل کو سفىد لباس مىں دىکھنا

ام المومنىن حضرت عائشہ ؓ فرماتى ہىں کہ رسول اللہ ؐ سے ورقہ بن نوفل کے انجام کے بارہ مىں پوچھا گىا، حضرت خدىجہ ؓ نے عرض کىا کہ ورقہ نے آپ ؐ کى تصدىق کى تھى اور آپؐ کے ظہور سے پہلے وہ فوت ہو گئے تھے (ىعنى اگر وہ آپ ؐ کے ظہور تک زندہ رہتے تو آپؐ کى تصدىق کرتے)۔ رسول اللہ ؐ نے فرماىا کہ مىں نے انہىں خواب مىں سفىد کپڑے پہنے ہو ئے دىکھا ہے،اگر وہ دوزخىوں مىں سے ہو تے تو ان پر اس کے سوا کوئى اور لباس ہوتا۔

(جامع ترمذى باب ما جاء فى رؤىا النبى ؐحدىث نمبر:2284 و 2288۔ مشکوٰۃ المصابىح کتاب الرؤىا حدىث نمبر: 4416)

رؤىا نمبر 29: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں تلوار ہلاتے دىکھنا

حضرت ابو موسىٰ ؓ سے رواىت ہے کہ نبى کرىم ؐ نے فرماىاکہ مىں نے خواب مىں دىکھا کہ مىں نے اىک تلوار ہلائى ہے اور وہ درمىان مىں سے ٹوٹ گئى ہے۔ اس کى تعبىر احد کى جنگ مىں مسلمانوں کے نقصان کى صورت مىں سامنے آئى۔ پھر مىں نے اس تلوار کو دوبارہ ہلاىا تو وہ پہلے سے بھى اچھى شکل مىں ہو گئى۔ اس کى تعبىر (احد مىں) مسلمانوں کى فتح اور ان کے اجتماع و اتفاق کى صورت مىں سامنے آئى۔

(صحىح بخارى کتاب الرؤىا باب اذا ھز سىفاً)

رؤىا نمبر 30: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں حضرت ابراہىم ؑ کو دىکھنا

حضرت سمرۃ بىان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ نے فرماىاکہ رات (خواب مىں) مىرے پاس دو فرشتے آئے جو مجھے اىک لمبے قد والے آدمى کے پاس لے گئے۔ وہ اتنے لمبے تھے کہ مىں ان کا سر نہىں دىکھ پاتا تھا۔ اور ىہ ابراہىم ؑ تھے۔

(صحىح بخارى کتاب الانبىاء باب قول اللہ تعا لىٰ واتخذ اللہ ابراہىم خلىلا)

رؤىا نمبر 31: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں حضرت موسىٰ ؑ کى امت کو دىکھنا

حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ بىان فرماتے تھے کہ اىک دن نبى کرىمؐ ہمارے پاس تشرىف لائے اور فرماىاکہ مىرے سامنے تمام امتىں لائى گئىں۔ اور مىں نے دىکھا کہ اىک بہت بڑى جماعت افق پر محىط ہے پھر مجھے بتاىا گىا کہ ىہ موسىٰ ؑ ہىں اپنى قوم کے ساتھ۔

(صحىح بخارى کتاب الانبىاء باب وفات موسىٰ)

رؤىا نمبر32: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں شاہ حبشہ اصحمہ نجاشى کى وفات کى اطلاع پانا

امام بىہقى ؒ نے ىہ رواىت درج کى ہے کہ جب نبى کرىم ؐنے حضرت اُم سلمہؓ سے نکاح فرماىا تو فرماىا تھا کہ مىں نے نجاشى کے پاس کئى اوقىہ کستورى اور پوشاک کا ہدىہ بھىجا تھا۔ مىں دىکھتا ہوں کہ اس کا انتقال ہو گىا ہے۔ اور مىں دىکھتا ہوں کہ وہ ہدىہ عنقرىب مجھے واپس لوٹا دىا جائے گا۔ اگر وہ مجھ پر لوٹا دىا گىا تو مىں اس کو تم لوگوں (ازواج مطہرات) مىں تقسىم کردوں گا۔

(دلائل النبوۃ از امام ابى بکر احمد بن حسىن البىہقى(اردو ترجمہ) باب:155، حدىث: 6،جلد:دوم، صفحہ: 531، دار ا لاشاعت کراچى، پاکستان مئى 2009ء)

امام بخارى ؒ نے اپنى صحىح مىں صرف اتنى ہى رواىت درج کى ہے کہ جس دن شاہ نجاشى کى وفات ہوئى تو رسول اللہ ؐ نے اسى دن اس کى وفات کى خبر دى تھى۔ پھر آپؐ عىد گاہ کى طرف گئے، صحابہؓ نے صفىں بنائىں اور آپؐ نے (نماز جنازہ مىں) چار تکبىرات کہىں۔

(صحىح بخارى کتاب الجنائز باب الرجل ىنعىٰ، باب الصفوف على الجنازۃ، باب التکبىر على الجنازۃ اربعاً)

رؤىا نمبر 33: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں قبل از وقت روزہ افطار کرنے والوں کا انجام دىکھنا

حضرت ابو امامہ باہلىؓ بىان فرماتے تھے کہ مىں نے رسول اللہ ؐ کو ىہ فرماتے ہو ئے سنا کہ مىں سوىا ہوا تھا کہ دو آدمى مىرے پاس آئے اور مىرے دونوں پہلوؤں مىں بىٹھ گئے۔ پھر وہ مجھے لے کر اىک پہاڑ کى طرف آئے اور کہا آپؐ اس پر چڑھ جائىں۔ مىں نے کہا مىں اىسا نہىں کر سکتا۔ انہوں نے کہا ہم آپ کے لئے اسے آسان کر دىں گے۔ پھر مىں اس پہاڑ پر چڑھا تو مىں نے خود کو پہاڑ پر پاىا۔ ىہاں بہت سى آوازوں کا شور تھا۔ مىں نے پوچھا ىہ کس قسم کى آوازىں ہىں؟ انہوں نے بتاىا کہ ىہ اہل جہنم کے شورو غل کى آوازىں ہىں۔ پھر مىں ان کے ساتھ آگے گىا تو وہاں کچھ لوگ نظر آئے جو اپنى اىڑىوں کے بل(الٹے) لٹکے ہو ئے تھے۔ اوران کى باچھىں (کلّے) چىرے ہوئے تھے اور ان سے خون بہہ رہا تھا۔ مىں نے پوچھا ىہ کون ہىں؟ انہوں نے جواب دىا کہ ىہ وہ لوگ ہىں جو روزے کا وقت ختم ہونے سے پہلے افطارى کر لىا کرتے تھے۔

(الترغىب والترھىب لامام حافظ زکى الدىن المنذرى المتو فى656 ہجرى، کتاب الصوم باب الترھىب من افطار شىئ من رمضان من غىر عذر، حدىث نمبر: 2مجموعى حدىث نمبر: 1510)

رؤىا نمبر 34: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں اپنے امتىوں کے سولہ نىک اعمال کى جزا دىکھنا

امام سخاوى ؒ (المتوفى 904 ہجرى) نے اپنى تصنىف ’القول البدىع فى الصلوٰۃ على الحبىب الشفىع ؐ‘ مىں اور امام قىم الجوزى ؒ نے اپنى مشہور کتاب ’الروح‘ مىں نبى کرىم ؐ کے اىک رؤىا کا ذکر اس طرح کىا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہىں کہ عذاب قبر سے بچانے کے بارہ مىں تشنگى بجھانے والى اىک حدىث آئى ہے جسے ابو موسىٰ مدىنىؒ اپنى کتاب ‘الترغىب والترہىب’مىں عذاب قبر کى وضاحت کے لئے لائے ہىں۔فرج بن فضالہ ہلال ابو جبلہ وہ سعىد بن مسىّب ؒ سے اور وہ عبد الرحمن بن سمرۃ ؓ سے رواىت کرتے ہىں کہ ہم مدىنے کے اىک چبوترے پر جمع تھے کہ رحمۃ للعالمىن ؐ ہمارے پاس تشرىف لائے اور کھڑے ہو کر فرماىاکہ کل رات مىں نے اىک عجىب خواب دىکھا۔ مىں نے اپنے اىک اُمتى کو دىکھا کہ ملک الموت اس کى روح قبض کرنے کے لئے اس کے پاس پہنچتے ہىں مگر ماں باپ کى اطاعت آکر ملک الموت کو اس سے جدا کر دىتى ہے۔ اىک امتى کو دىکھا کہ شىطانو ں نے اسے بوکھلاہٹ کا شکار کر رکھا ہے لىکن اللہ کا ذکر آکر تمام شىطان اس سے بھگا دىتا ہے۔ اىک امتى کو دىکھا کہ اسے عذاب کے فرشتو ں نے وحشى بنا رکھا ہے لىکن نماز آکر اسے ان کے ہاتھوں سے چھڑالىتى ہے۔ اىک امتى کو دىکھا جو پىاس سے بے چىن تھا، جس حوض کے پاس جاتا دھکے دے دىا جاتا ہے اور بھگا دىا جاتا ہے مگر رمضان کے روزے آکر اسے خوب سىراب ہو کر پانى پلاتے ہىں۔ مىں نے دىکھا کہ انبىاء ؑ اپنے اپنے حلقے باند ھ کر بىٹھے ہو ئے ہىں۔اور اىک امتى کو دىکھا کہ وہ جس حلقے مىں جاتا ہے تو اسے دھتکار دىا جاتا ہے لىکن اس کا غسل جنابت اس کا ہاتھ پکڑ کر مىرے پاس لاکر بٹھا دىتا ہے۔ اىک امتى کو دىکھا کہ اس کے چارو ں طرف اوپر اور نىچے اندھىرا ہى اندھىرا ہے وہ اس مىں حىران وپرىشان ہے لىکن اس کا حج اور عمرہ آکر اسے اندھىرے سے نکال کر روشنى مىں پہنچا دىتا ہے۔ اىک امتى کو دىکھا کہ وہ آگ کے شعلوں اور انگاروں سے بچنا چاہ رہا ہے، اتنے مىں اس کا صدقہ آکر اس کے اور آگ کے درمىان کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کے سر پر ساىہ بھى کر دىتا ہے۔ اىک امتى کو دىکھا کہ وہ مومنوں سے بات کرنا چاہتا ہے لىکن کوئى اس سے بات نہىں کرتا مگر اس کى صلہ رحمى آکر کہتى ہے: مسلمانو! ىہ صلہ رحمى مىں پىش پىش رہتا تھااس سے بولو۔ اىک امتى کو دىکھا کہ اسے جہنم کے فرشتوں نے پرىشان کر رکھا ہے لىکن امر بالمعروف اور نہى عن المنکر آکر اسے ان کے ہاتھوں سے چھڑا لىتا ہے اور رحمت کے فرشتو ں مىں داخل کر دىتا ہے۔ اىک امتى کو دىکھا کہ وہ دو زانو بىٹھا ہے اور اس کے اور اللہ تعا لىٰ کے درمىان پردہ لٹکا ہے۔لىکن اس کا حسن خلق آتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اللہ تعا لىٰ کے پاس لے جاتا ہے۔ اىک امتى کو دىکھا کہ اس کا اعمال نامہ اس کے بائىں طرف سے جاتا ہے لىکن اس کے پاس خوف الٰہى آکر اس کا ا عمال نامہ لے کر دائىں طرف رکھ دىتا ہے۔ اىک امتى کو دىکھا کہ اس کى تول ہلکى ہو گئى ہے لىکن اس کے پاس بچپن مىں مر جانے والے بچے آتے ہى اور اس کا وزن بھارى کر دىتے ہىں۔ اىک امتى کو دىکھا کہ وہ جہنم کے کنارے کھڑا ہے لىکن اس کے پاس اللہ تعا لىٰ سے امىد آتى ہے اور اسے وہاں سے ہٹا لىتى ہے اور وہ چلا جاتا ہے۔ اىک امتى کو دىکھا کہ وہ آگ مىں گر گىا ہے لىکن آنسو کا وہ قطرہ آتا ہے جو اللہ تعا لىٰ کے خوف سے گرا تھا اور اسے جہنم سے نکال لىتا ہے۔ اىک امتى کو دىکھا کہ پل صراط پر کھڑا ہوا اس طرح کانپ رہا ہے جىسے آندھى مىں کھجور کا تنا ہلتا ہے لىکن اس کا اللہ تعا لىٰ کے ساتھ حسن خىال (ىعنى اللہ تعالىٰ کے بارہ مىں نىک گمان رکھنا) آکر اس کى کپکپاہٹ کو دور کر دىتا ہے۔ اىک امتى کو دىکھا کہ وہ پل صراط پر گھسٹ رہا ہے، کبھى گھسٹتا ہے اور کبھى لٹک جاتا ہے لىکن اس کى نماز آکر اسے اس کے پىرو ں پر کھڑا کر دىتى ہے اور اسے بچالىتى ہے۔ اور اىک امتى کو دىکھا کہ جنت کے دروازوں پر پہنچ جاتا ہے مگر دروازے بند ہو جاتے ہىں لىکن کلمہ تو حىد آکر دروازے کھلوا کر اسے جنت مىں داخل کرا دىتا ہے۔

حافظ ابو موسىٰ فرماتے ہىں کہ ىہ حدىث اعلىٰ درجہ کى حسن ہے۔ امام قىم ؒ اس حدىث کو درج کر کے لکھتے ہىں کہ مىں نے شىخ الاسلام (امام ابن تىمىہ ؒ) سے اس حدىث کى بڑائى سنى آپ نے فرماىا سنت کے اصول اس کى گواہى دىتے ہىں اور ىہ بہترىن احادىث مىں سے ہے۔

(کتاب الروح از امام ابن قىم ؒ اردو ترجمہ، شائع کردہ دوست اىسوسى اىٹس لاہور پاکستان صفحہ: 131-130)

(نوٹ از مرتب: امام قىم ؒ نے اس مذکورہ بالا حدىث کو امام ابو موسىٰ مدىنى ؒکى کتاب ‘الترغىب والترہىب’ کے حوالہ سے درج کىا ہے۔ ‘الترغىب والترہىب’کے نام سے اَور بھى بہت سى کتابىں لکھى گئى ہىں سب سے مشہور اور مروّج کتاب امام حافظ زکى الدىن المنذرىؒ المتو فى656 ہجرى کى ہے باقى کتب معدوم ہو چکى ہىں۔)

اس حدىث کو امام طبرانى نے الکبىر مىں، الدىلمى نے مسند الفردوس مىں اور امام سخاوى ؒ (المتوفى 904 ہجرى) نے اپنى تصنىف ’القول البدىع فى الصلوٰۃ على الحبىب الشفىع ؐ‘ مىں درج کىا ہے۔ امام سخاوىؒ ىہ حدىث نقل کرتے ہوئے لکھتے ہىں کہ ىہ حدىث ابو موسىٰ المدىنى نے بھى ’الترغىب‘ مىں ذکر کى ہے اور فرماىا ہے کہ ىہ حدىث انتہائى حسن ہے۔ وہ مزىد لکھتے ہىں کہ اس حدىث کے بارہ مىں عارف شىخ ابو ثابت محمد بن مالک الدىلمى اپنى کتاب ’اصول مذاہب العرفاء باللّٰہ‘ مىں لکھتے ہىں کہ اہل حدىث کے نزدىک اگر چہ ىہ حدىث غرىب ہے مگر اس کا معنى صحىح ہے اس مىں کسى قسم کا شک و شبہہ نہىں ہے۔ اور اس حدىث کے بہت سے واقعات اور احوال اىسے ہىں کہ کشف کے ذرىعہ ان کى صحت کا قطعى علم حاصل ہوا ہے۔

(القول البدىع فى الصلوٰۃ على الحبىب الشفىع ؐ از امام محمد بن عبد الرحمن السخاوى ؒ المتوفى 904 ہجرى، باب الثانى فى ثواب الصلوٰۃ علىٰ رسول اللہ ؐ حدىث نمبر:25، صفحہ: 267-265، شائع کردہ مؤسسۃ الرّىّان المدىنہ المنورہ 2002ء)

رؤىا نمبر 35: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں خزانوں اور فتنوں کو دىکھنا

ام المؤمنىن حضرت ام سلمہؓ بىان فرماتى تھىں کہ اىک رات رسول اللہ ؐ گھبرائے ہو ئے بىدار ہوئے اور فرماىا کہ اللہ کى ذات پاک ہے اللہ تعالىٰ نے کىا خزانے نازل کئے ہىں اور کتنے فتنے نازل کئے گئے ہىں۔ ان حجرہ والىوں (ازواج النبى ؐ) کو کون بىدار کرے گا؟ آپؐ کى مراد ازواج مطہرات سے تھى کہ تا کہ وہ نماز پڑھىں۔ دنىا مىں بہت سى کپڑے پہننے والىاں ہىں جو آخرت مىں ننگى ہوں گى۔

(صحىح بخارى کتاب الفتن باب لا ىاتى زمان الا الذى بعدہ شر منہ)

رؤىا نمبر 36: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں عربوں کى تباہى کا نظارہ دىکھنا

ام المؤمنىن حضرت زىنب بنت جحش ؓ بىان فرماتى تھىں کہ اىک رات رسول اللہ ؐ نىند سے بىدار ہوئے تو آپؐ کا چہرہ سرخ تھا اور فرما رہے تھے اللہ کے سوا کو ئى معبود نہىں، ہلاکت اور بربادى ہو عرب کے لئے اس شر اور برائى کى وجہ سے جو قرىب آچکى ہے۔ آج ىاجوج ماجوج کى دىوار سے اتنا سا سوراخ کھل گىا ہے۔ آپؐ نے (وضاحت کے لئے) اپنى دو انگلىوں اور ان سے ملتى ہوئى انگلى کا حلقہ بناىا۔ مىں نے عرض کى، اے اللہ کے رسولؐ! کىا ہم ہلاک ہو جائىں گے جبکہ ہم مىں نىک لو گ بھى موجود ہىں؟ آپؐ نے فرماىاکہ ہاں اس صورت مىں جب برائى بڑھ جائے گى (تو اىسا بھى ہو جائے گا)۔

(صحىح بخارى کتاب الفتن باب قول النبى ؐ وىل للعرب۔ کتاب الانبىاء باب قصۃ ىاجوج وماجوج۔ جامع ترمذى کتاب الفتن۔ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن)

رؤىا نمبر 37: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں خانہ کعبہ کى تباہى کا نظارہ دىکھنا

حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ بىان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ نے فرماىاکہ وہ منظر مىرى نظروں کے سامنے ہے کہ اىک حبشى چرى ہوئى رانوں والا کعبہ کا اىک اىک پتھر اکھاڑ رہا ہے۔ رواہ البخارى۔

(تفسىر مظہرى اردو، از قاضى محمد ثناء اللہ مجددى پانى پتى، متوفى: 1225 ہجرى، جلدہشتم، صفحہ: 65، مطبوعہ دارالاشاعت کراچى 1999ئ، قاضى محمد ثناء اللہ مجددىؒ پانى پتى ہندوستان کے مشہور ولى حضرت مرزا مظہر جان جاناں،متوفى: 1195 ہجرى، کے خلىفہ تھے)

(نوٹ: مذکورہ بالا رواىت تفسىر مظہرى مىں صحىح بخارى کے حوالہ سے درج کى گئى ہے لىکن راقم کو ىہ رواىت صحىح بخارى مىں نہىں مل سکى۔)

رؤىا نمبر 38: نبى کرىم ؐ کا خواب مىں ابو جہل کے لئے جنت مىں کھجور کا خوشہ دىکھنا

اُم المومنىن حضرت ام سلمہؓ نبى کرىم ؐ سے رواىت کرتے ہو ئے بىان فرماتى تھىں کہ مىں نے خواب مىں ابو جہل کے لئے جنت مىں کھجور کے درخت دىکھے ہىں۔ جب عکرمہ ؓ اسلام لائے تو نبى کرىم ؐ نے فرماىا کہ ىہ تمہارے خواب کى تعبىر ہے۔

(مشکوۃ المصابىح، اکمال فى اسماء الرجال تذکرہ عکرمہ ؓ بن ابى جہل)

ىہ خواب ابو جہل کے بىٹے حضرت عکرمہ ؓکے قبول اسلام سے پورا ہوا۔ اس تعلق مىں سىدنا حضرت مسىح موعود علىہ السلام تحرىر فرماتے ہىں کہ آپؐ نے ىہ بھى فرماىاکہ ابو جہل کے لئے مجھے بہشتى خوشہ انگور دىا گىا مگر اس پىشگوئى کا مصداق عکرمہؓ نکلا۔ جب تک خدا تعا لىٰ نے تمام مراتب کسى پىشگو ئى کے آپؐ پر نہ کھولے تب تک آپؐ نے اس کى کسى شق خاص کا کبھى دعوىٰ نہ کىا۔

(ازالہ اوہام حصہ اول، روحانى خزائن جلد3 صفحہ310)

رؤىا نمبر 39: نبى کرىم ؐ کو اىک فرشتہ کا وادى عقىق مىں نماز پڑھنے کا حکم دىنا

حضرت عمر ؓ بىان فرماتے تھے کہ مجھ سے نبى کرىم ؐ نے فرماىاکہ اىک رات مىرے پاس مىرے رب کى طرف سے آنے والا آىا، آپ ؐ اس وقت وادى عقىق مىں تھے۔ اور اس نے مجھے کہا کہ اس مبارک وادى مىں نماز پڑھىئے اور کہىئے کہ مىں عمرہ اور حج کى نىت کرتا ہو ں۔

(صحىح بخارى کتاب الاعتصام بالکتاب، باب ما ذکر النبى ؐ و حض على اتفاق)

رؤىا نمبر 40: نبى کرىم ؐ سے خواب مىں اىک فرشتہ کا آپ ؐ اور آپ ؐ کى امت کى مثال بىان کرنا

حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے رواىت ہے کہ رسول اللہ ؐ پوچھا کرتے تھے کہ کسى نے کوئى خواب دىکھا ہے؟ اگر کسى نے کوئى خواب دىکھا ہو تا تو وہ اس کو بىان کر دىتا۔ اىک دفعہ صبح کے وقت نبى کرىم ؐ نے اپنا خواب صحابہؓ سے بىان کرتے ہوئے فرماىا کہ گزشتہ رات مىرے پاس دو فرشتے آئے، اىک مىرے سر کے پاس اور دوسرا مىرے قدموں کى جانب بىٹھ گىا۔جو فرشتہ مىرے قدموں کے پاس تھا اُس نے اُس فرشتے سے کہا جومىرے سر کے قرىب تھا کہ اِن کى اور اِن کى امت کى کوئى مثال بىان کرىں۔ اس نے کہا کہ ان کى اور ان کى امت کى مثال ىہ ہے کہ جىسے کچھ مسافر اپنى منزل کے بالکل قرىب اىک جنگل کے آغاز مىں ہوں۔ ان کے پاس اتنا زادراہ نہ ہو جس سے وہ اس جنگل کو عبور کر سکىں اور نہ ہى وہ وہاں سے واپس جاسکتے ہو ں۔ وہ ابھى اس مخمصہ مىں ہو ں کہ ان کے پاس اىک آدمى آئے وہ قىمتى جبہ زىب تن کئے ہوئے ہو، بالوں مىں کنگھى کى ہو ئى ہو اور وہ ان سے کہے اگر مىں تمہىں پھلدار باغ اور بھرے ہوئے چشموں تک پہنچا دوں (تو کىا ) تم مىرے پىچھے چلوگے؟ وہ لوگ کہىں گے جى بالکل۔ وہ ان کو ساتھ لے کر چل پڑے اور ان کو پھلدار باغات اور پانى سے بھرے حوضوں تک پہنچا دے، وہ وہاں سے خوب سىر ہو کر کھائىں اور پئىں۔ وہ آدمى ان سے کہے کہ کىا تم سے مىرى ملاقات تمہارى کسمپرسى کے عالم مىں نہىں ہو ئى؟ اور مىں نے تمہىں کہا تھا کہ اگر مىں تمہىں پھلدار باغات تک اور پانى سے بھرے چشموں تک لے جاؤں تو کىا تم مىرے ساتھ چلو گے؟ تم نے کہا تھا جى بالکل چلىں گے۔ اس نے کہا تمہارے اگلے زمانے مىں اس سے بھى زىادہ پھلدار باغات ہىں اور اس سے بھى زىادہ پانى سے بھرے چشمے ہىں، اس لئے تم مىرے پىچھے چلو۔ تب اىک جماعت نے کہا اللہ کى قسم ىہ سچ کہہ رہا ہے، ہم ضرور اس کے پىچھے چلىں گے۔ اور اىک جماعت نے کہا ہم تو انہىں باغات پر راضى ہىں ہم تو ىہىں رہىں گے۔

(المستدرک للحاکم، کتاب تعبىر الرؤىا حدىث نمبر:8200۔ مسند احمدبن حنبل۔ الطبرانى الکبىر)

ىہ حدىث نقل کر کے امام حاکم لکھتے ہىں کہ ىہ حدىث امام بخارىؒ اور امام مسلم ؒکے معىار کے مطابق صحىح ہے لىکن شىخىن ؒنے اس کو نقل نہىں کىا ہے۔

4: نبى کریم ؐ کے بعض کشفى واقعات

نبى کرىم ؐ کے بعض کشفى واقعات کے ذکر سے قبل کشف کا مفہوم سمجھ لىنا ضرورى ہے۔ سىدنا حضرت مسىح موعود علىہ السلام کشف کى وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہىں ’’جب سماع کے ذرىعہ کوئى خبر دى جا تى ہے تو اسے وحى کہتے ہىں اور جب رؤىت کے ذرىعہ سے کچھ بتلاىا جاوے تو اسے کشف کہتے ہىں۔ اسى طرح مىں نے دىکھا ہے کہ بعض وقت اىک اىسا امر ظاہر ہو تا ہے کہ اس کا تعلق صرف قوت شامہ سے ہو تا ہے مگر اس کا نام نہىں رکھ سکتے جىسے ىوسف ؑ کى نسبت حضرت ىعقوب ؑ کو خوشبو آئى تھى اِنِّىْ لَاَجِدُ رِىْحَ ىُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ اور کبھى اىک امر اىسا ہو تا ہے کہ جسم اسے محسوس کرتا ہے گوىا کہ حواس خمسہ کے ذرىعہ سے اللہ تعالىٰ اپنى باتىں اظہار کرتا ہے۔‘‘

(تفسىر حضرت مسىح موعود ؑ جلد: 4 صفحہ: 115)

حضرت مسىح موعود علىہ السلام مزىد فرماتے ہىں ’’کشف کىا ہے ىہ رؤىا کا اىک اعلىٰ مقام اور مرتبہ ہے۔اس کى ابتدائى حالت کہ جس مىں غَىبت کى حس ہو تى ہے صرف اس کو خواب (رؤىا) کہتے ہىں جسم بالکل معطل بىکار ہو تا ہے اور حواس کا ظاہرى فعل بالکل ساکت ہو تا ہے۔ لىکن کشف مىں دوسرے حواس کى غَىبت نہىں ہو تى۔ بىدارى کے عالم مىں انسان وہ کچھ دىکھتا ہے جو کہ وہ نىند کى حالت مىں حواس کے معطل ہو نے کے عالم مىں دىکھتا تھا۔ کشف اسے کہتے ہىں کہ انسان پر بىدارى کے عالم مىں اىک اىسى ربودگى طارى ہو کہ وہ سب کچھ جانتا بھى ہو اور حواس خمسہ اس کے کام بھى کر رہے ہو ں اور اىک اىسى ہوا چلے کہ نئے حواس اسے مل جاوىں جن سے وہ عالم غىب کے نظارے دىکھ لے۔ وہ حواس مختلف طور سے ملتے ہىں، کبھى بصر مىں، کبھى شامہ (سونگھنے) مىں، کبھى سمع مىں۔ شامہ مىں اسى طرح جىسے کہ حضرت ىوسفؑ کے والد نے کہا اِنِّىْ لَاَجِدُ رِىْحَ ىُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ (کہ مجھے ىوسف کى خوشبو آتى ہے اگر تم ىہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گىا)، اس سے مراد وہى نئے حواس ہىں جو کہ ىعقوب ؑ کو اس وقت حاصل ہو ئے اور انہو ں نے معلوم کىا کہ ىوسف ؑ زندہ موجود ہے اور ملنے والا ہے۔ اس خوشبو کو دوسرے پاس والے نہ سونگھ سکے کىونکہ ان کو وہ حواس نہ ملے تھے جو کہ ىعقوب ؑ کو ملے، جىسے گڑ سے شکر بنتى ہے اور شکر سے کھانڈ اور کھانڈ سے اور دوسرى شىرىنىاں لطىف در لطىف بنتى ہىں اىسے ہى رؤىا کى حالت ترقى کرتى کرتى کشف کا رنگ اختىار کرتى ہے اور جب وہ بہت صفائى پر آجاوے تو اس کا نام کشف ہوتاہے۔‘‘

(تفسىر حضرت مسىح موعود ؑ جلد: 4 صفحہ 115۔ 116)

حضرت مسىح موعود علىہ السلام اىک اَور مقام پر مزىد فرماتے ہىں ’’وحى کئى قسم کى ہے۔ عادت اللہ ہے کہ جب وہ سماع پر موقوف ہو تو اسے وحى کہتے ہىں۔ رؤىت کے متعلق ہو تو اس کو کشف کہتے ہىں۔ اىک قوت شامہ سے ہو تى ہے جىسے اِنِّىْ لَاَجِدُ رِىْحَ ىُوْسُفَ۔ کبھى قوت حاسہ سے بھى ہو تى ہے۔ غرض تمام حواس خمسہ سے وحى ہو تى ہے اور ملہم کو قبل از وقت بذرىہ وحى ان باتوں کى اطلاع دى جاتى ہے۔ مثنوى رومى مىں اىک حکاىت لکھى ہے کہ اىک دفعہ چند قىدى آ نحضرت ؐ کے پاس پا بجولاں آئے ان قىدىوں نے خىال کىا کہ آنحضرت ؐ اس حالت مىں دىکھ کر بہت خوش ہوں گے۔ آپؐ نے فرماىا کہ نہىں ىہ خىال تمہارا غلط ہے جس وقت تم لوگ گھوڑوں پر سوار اور ناز و نعمت مىں بآرام چلتے تھے مىں تو اس وقت تمہىں پا بہ زنجىر دىکھ رہا تھا اب مجھے تمہارے دىکھنے کى کىا خوشى ہے؟ پھر مطلب ىہ کہ الہام کے ساتھ عموماً کشوف بھى ہوا کرتے ہىں۔‘‘

(تفسىر حضرت مسىح موعود ؑ جلد:4 صفحہ:119۔ 120)

1: نبى کرىم ؐکا کشفاً جنت اور جہنم کو دىکھنا

حضرت عمرانؓ سے مروى ہے کہ نبى کرىم ؐ نے فرماىا کہ مىں نے جنت مىں جھانک کر دىکھا تو وہاں کے رہنے والے اکثر غرىب لوگ تھے۔ اور مىں نے جہنم مىں جھانک کر دىکھا تو ان مىں اکثر عورتىں تھىں۔

(صحىح بخارى کتاب الرقاق با ب صفۃ الجنۃ والنار)

حضرت اسامہؓ سے مروى ہے کہ نبى کرىم ؐ نے فرماىا مىں جنت کے دروازہ پر کھڑا ہوا تو کىا دىکھتا ہو ں کہ اس مىں داخل ہو نے والے اکثر مسکىن و محتاج اور محنت مزدورى کرنے والے لوگ تھے۔ اہل جہنم کے سوا جنہىں جہنم مىں لے جانے کا حکم دىا گىا تھا۔ اور مىں نے جہنم کے دروازہ پر کھڑے ہو کر دىکھا کہ اس مىں داخل ہونے والى اکثر عورتىں تھىں۔

(صحىح بخارى کتاب الرقاق با ب صفۃ الجنۃ والنار)

حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے رواىت ہے کہ ىہ واقعہ اس وقت پىش آىا تھا جب مدىنہ مىں اىک دن سورج کو گرہن لگا اور نبى کرىم ؐ نے نماز خسوف با جماعت پڑھائى تھى۔ جب آپؐ نماز سے فارغ ہو ئے تو نبى کرىمؐ نے فرماىاکہ سورج اور چاند اللہ کى نشانىو ں مىں سے دو نشانىاں ہىں، ان مىں گرہن کسى کى موت ىا کسى کى حىات کى وجہ سے نہىں ہوتا اس لئے جب تم گرہن دىکھو تو اللہ کو ىاد کرو۔ صحابہ ؓ نے عرض کىا ىا رسول اللہ ؐ! ہم نے آپ کو دىکھا کہ آپ ؐ نے اپنى جگہ سے بڑھ کر کوئى چىز لى ہے اور پھر ہم نے دىکھا کہ آپ پىچھے ہٹ گئے۔ (اس پر) آپ ؐ نے فرماىاکہ مجھے جنت دکھلائى گئى (ىا مىں نے جنت دىکھى تھى)۔ مىں نے اس کا خوشہ توڑنے کے لئے ہاتھ بڑھاىا تھا۔ اور اگر مىں اسے توڑ لىتا تو تم رہتى دنىا تک اسے کھاتے رہتے۔ اور مجھے دوزخ دکھلائى گئى۔ آج کا اس سے زىادہ ہىبتناک منظر مىں نے کبھى نہىں دىکھا تھا۔ مىں نے دىکھا کہ اس مىں عورتوں کى تعداد زىادہ ہے صحابہؓ نے عرض کىا ىا رسول اللہؐ! اىسا کىوں ہے تو آپؐ نے فرماىا کىونکہ وہ کفر کرتى ہىں۔ آپؐ سے پوچھا گىا کہ کىا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتى ہىں؟ آپ ؐ نے فرماىا نہىں وہ (اپنے) شوہر کے ساتھ کفر کرتى ہىں۔ اور (اس کا) احسان نہىں مانتىں۔

(صحىح بخارى کتاب الاىمان باب کفران العشىر، کتاب النکاح باب کفران العشىر)

 2:نبى کرىم ؐ کا کشفاً نماز کے دوران جنت و جہنم کا نظارہ فرمانا

حضرت انسؓ بىان فرماتے تھے کہ اىک دن رسول اللہ ؐ نے ہمىں نماز پڑھائى پھر منبر پر چڑھے اور اپنے ہاتھ سے مسجد کے قبلہ کى طرف اشارہ کىا اور فرماىاکہ اس وقت جب مىں نے تمہىں نماز پڑھائى تو مجھے جنت اور دوزخ متمثل صورت مىں اس دىوار پر دکھائى گئىں۔

(صحىح بخارى کتاب العلم باب من اجاب الفتىا۔ کتاب الوضوء باب من لم ىتوضا۔ کتاب الرقاق با ب القصد والمداومۃ)

3: نبى کرىم ؐ کا کشفاً قبروں مىں مدفون دو افراد کو ملنے والے عذاب کا نظارہ فرمانا

حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے رواىت ہے کہ اىک مرتبہ نبى کرىم ؐ مکہ ىا مدىنہ کے اىک باغ مىں تشرىف لے گئے۔ وہاں آپ ؐ نے دو شخصوں کى آواز سنى جنہىں ان کى قبرو ں مىں عذاب دىا جارہا تھا۔ تو آپؐ نے فرماىا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسى بہت بڑے گناہ کى وجہ سے نہىں بلکہ ان مىں سے اىک شخص پىشاب سے بچنے کا اہتمام نہىں کرتا تھا۔ اور دوسرا شخص چغل خور تھا۔ پھر آپ ؐ نے کھجور کى اىک ٹہنى منگوائى اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کىا اور اىک اىک ٹکڑا اُن کى قبروں پر لگا دىا۔ لوگوں نے آپؐ سے پوچھا کہ ىا رسول اللہ ؐ ىہ آپؐ نے کس لئے کىا ہے؟ آپؐ نے فرماىا تاکہ جب تک ىہ ٹہنىاں خشک ہو ں ان پر سے عذاب کم کردىا جائے۔

(صحىح بخارى کتاب الوضوء باب من الکبائر، باب ما جاء فى غسل البول، کتاب الجنائز باب الجرىد على القبر)

4: نبى کرىم ؐکا کشفاً بىت المقدس کو دىکھنا

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بىان فرماتے تھے کہ انہو ں نے رسول اللہ ؐ کو ىہ فرماتے ہو ئے سنا کہ جب قرىش نے مجھے جھٹلاىا (واقعہ معراج کے سلسلہ مىں) تو مىں حجر مىں کھڑا ہو گىا اور اللہ تعا لىٰ نے بىت المقدس کو مىرے سامنے ظاہر کردىا اور مىں اس کى تمام جزئىات اسے دىکھ دىکھ کر قرىش کو بتانے لگا۔

(صحىح بخارى کتاب الانبىاء باب: حدىث الاسرائ)

5: نبى کرىم ؐکا سفر طائف کے دوران کشفاً جبرىل ؑ اور دو فرشتوں کو دىکھنا

ام المومنىن حضرت عائشہؓ بىان فرماتى تھىں کہ اىک دفعہ انہو ں نے نبى کرىم ؐ سے ىہ پوچھا تھا کہ کىا آپؐ پر کوئى دن احد کے دن سے بھى زىادہ سخت گزرا ہے؟ توآپ ؐ نے فرماىاکہ تمہارى قوم کى طرف سے مىں نے کتنى ہى مصىبتىں اٹھائى ہىں لىکن اس سارے دور مىں ىوم عقبہ کا واقعہ مجھ پر سب سے زىادہ سخت تھا۔ ىہ وہ موقعہ ہے جب مىں نے (طائف کے سردار) ابن عبد ىا لىل بن عبد کلال کى پناہ کے لئے اپنے آپ کو پىش کىا تھا۔ لىکن اس نے مىرے مطالبہ کو رد کر دىا تھا۔ مىں وہاں سے انتہائى رنجىدہ اور ملول واپس ہوا۔ پھر جب مىں قرن الثعالب پہنچا تب مىرا غم کچھ ہلکا ہوا۔ مىں نے اپنا سر اٹھاىا تو مىں نے دىکھا کہ اىک بادل ہے جس نے مجھ پر ساىا کىا ہوا ہے۔ مىں نے دىکھا کہ جبرىل ؑ اس مىں موجود ہىں انہوں نے مجھے آواز دى اور کہا کہ اللہ تعالىٰ آپؐ کے بارہ مىں آپؐ کى قوم کى باتىں سن چکا ہے اور جو انہوں نے رد کر دىا ہے وہ بھى۔ اللہ تعالىٰ نے آپؐ کے پاس پہاڑوں کے فرشتے کو بھىجا ہے آپ ان (طائف والوں) کے بارہ مىں جو چاہىں اس کا حکم دىجئے۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دى، مجھے سلام کىا اور کہا اے محمدؐ! پھر انہوں نے مجھے وہى بات کہى جو جبرىل ؑ نے کہى تھى۔ اگر آپؐ چاہىں تو اخشبىن (مکہ کے دو پہاڑ) ان پر لاد کر گرا دوں؟ نبى کرىم ؐ نے فرماىاکہ مجھے تو اس بات کى امىد ہے کہ اللہ تعالىٰ ان کى صلب سے اىسى اولاد پىدا کرے گا جو صرف اللہ کى عبادت کرىں گے اور کسى کو اس کا شرىک نہىں ٹھہرائىں گے۔

(صحىح بخارى کتاب بدء الخلق باب اذا قال احدکم آمىن)

(نوٹ از مرتب: مذکورہ بالا حدىث مىں اخشبىن کا لفظ آىا ہے اس سے مراد مکہ کے دو پہاڑ ہىں؛ جبل ابو قبىس اور قىقعان ىا جبل احمر)

6: نبى کرىم ؐکے پاس مسجد مىں جبرىل ؑ کا تشرىف لانا اور دىن کى بنىادى باتىں سکھلانا

کتب حدىث مىں حدىث جبرىل ؑ کو اصول دىن کے بىان مىں بنىادى حىثىت حا صل ہے۔ ىہ حدىث صحىح بخارى اور صحىح مسلم دونوں کتب حدىث مىں موجود ہے اور صاحب مشکوٰۃ نے اس حدىث کو اپنے اس مجموعہ حدىث کى سب سے پہلى کتاب، کتاب الاىمان مىں سب سے پہلے اسى حدىث کو درج فرماىا ہے۔ اس حدىث مىں حضرت جبرىلؑ نے صحابہؓ رسول ؐ کى موجودگى مىں رسول اللہ ؐ سے چار سوال پو چھے تھے۔ اول ىہ کہ مجھے اسلام کے بارہ مىں خبر دىجئے، دوم ىہ کہ مجھے اىمان کے بارہ مىں خبر دىں، تىسرے ىہ کہ مجھے احسان کے بارہ مىں بتا ئىں اور چہا رم ىہ کہ قىامت کے متعلق مجھے بتا ئىے۔ جب رسول اللہ ؐ نے ان با تو ں کا جواب بتا دىا تو آپ ؐ نے صحا بہؓ سے مخاطب ہو کر فرماىا کہ ىہ جبرىل ؑ تھے جو تمہار پا س تمہا را دىن سکھا نے آئے تھے۔

حضرت عمر ابن الخطاب ؓ بىان فرماتے تھے کہ اىک دن ہم (صحابہؓ) رسول اللہ ؐ کى مجلس مىں بىٹھے ہو ئے تھے کہ اچانک اىک شخص ہمارے درمىان آىا جس کا لباس نہاىت صاف ستھرے اور سفىد کپڑوں پر مشتمل تھا اور جس کے بال نہاىت سىاہ (اور چمکدار) تھے۔ اس شخص پر نہ تو سفر کى کوئى علامت تھى اور نہ ہم سے کوئى اسے پہچانتا تھا۔ وہ شخص نبى کرىم ؐ کے اتنے قرىب آکر بىٹھا کہ آپ ؐکےگھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا لىے اور پھر اس نے اپنے دو نو ں ہاتھ اپنى را نوں پر رکھ لئے۔ اس کے بعد اس نے عرض کىا اے محمد ؐ ! مجھ کو اسلام کى حقىقت سے آگاہ فرمائىں۔ نبى کرىم ؐ نے فرماىا: اسلام ىہ ہے کہ تم اس بات کى گواہى دو کہ اللہ کے سوا کوئى معبود نہىں اور محمد ؐ اللہ کے رسول ہىں۔ اور ىہ کہ تو نماز پڑھے، زکوٰۃ دے، رمضان کے روزے رکھے اور اگر تجھے سفر کى طاقت ہو تو بىت اللہ کا حج کرے۔ اس پر اس شخص نے کہا آپ ؐ بالکل ٹھىک کہتے ہىں۔ (حضرت عمر ؓ کہتے ہىں کہ) ہمىں تعجب ہوا کہ ىہ شخص خود ہى پوچھتا بھى ہے اور خود ہى تصدىق بھى کرتا ہے۔ اس کے بعد اس نے کہا اىمان کے متعلق کچھ بتائىں۔ آپ ؐ نے فرماىا کہ اىمان ىہ ہے کہ تو اللہ کو اىک مانے اور اس کے فرشتو ں اس کى کتابو ں، اس کے رسولوں، ىوم آخرت اور قدر خىر اور قدر شر پر ىقىن رکھے۔ اس پر اس نےکہا آپؐ ٹھىک کہتے ہىں۔ پھر اس نے کہا مجھے احسان کے متعلق کچھ بتائىں۔ اس پر آپ ؐ نے فرماىا کہ احسان ىہ ہے کہ تو اللہ کى عبادت اس طرح کرے کہ گو ىا تو اللہ تعالىٰ کو دىکھ رہا ہے۔ اور اگر تجھے ىہ درجہ حاصل نہىں تو کم از کم ىہ خىال رکھو کہ وہ تمہىں دىکھ رہا ہے۔ پھر اس نے کہا مجھے قىامت کى گھڑى کے متعلق کچھ بتائىں۔ آپ ؐ نے فرماىاکہ جواب دىنے والاسوال کرنے والے سے زىادہ نہىں جانتا۔ اس کے بعد اس نے کہا مجھے اس کى علامات ہى بتا دىں۔ آپ ؐ نے فرماىاکہ آثار قىامت مىں سے اىک ىہ ہے کہ لونڈى اپنے مالک کو جنے گى۔ اور تو ننگے پاؤں والے، ننگے جسم والے بھوک کے مارے بکرىاں چرانے والے لوگوں کو بڑى بڑى اونچى عمارتىں بناتے دىکھے گا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہىں کہ اس کے بعد وہ شخص چلا گىا، مىں کچھ دىر اسى تعجب مىں رہا کہ نبى کرىم ؐ نے خود ہى مجھ سے پوچھا کہ اے عمر ! تمہىں معلوم ہے کہ ىہ پوچھنے والا کون تھا؟ مىں نےعرض کىا اللہ اور اس کے رسول ہى بہتر جانتے ہىں۔ آپ ؐ نے فرماىا ىہ جبرئىل تھے جو تم لوگوں کو تمہارا دىن سکھانے آئے تھے۔

صحىح بخارى کى رواىت مىں آخرى بات ىہ درج ہے کہ اس کے بعد وہ شخص واپس چلا گىا۔ تو آپ ؐ نے (صحابہؓ سے ) فرماىا اسے واپس لاؤ۔ تو صحابہ ؓ نے وہاں کسى کو نہ پاىا۔ تب آپ ؐ نے فرماىا ىہ جبرئىل تھے جو لوگوں کو ان کا دىن سکھانے آئے تھے۔

(جامع ترمذى کتاب الا ىمان باب فى وصف جبرىل النبى ؐ۔ صحىح بخارى کتاب الاىمان باب سؤال جبرىل النبى ؐ۔ صحىح مسلم کتاب الاىمان۔ سنن نسائى کتاب الاىمان و شرائعہ)

7: نبى کرىم ؐکا حضرت جبرىل ؑ کو زمىن و آسمان کے درمىان کرسى پر بىٹھے ہوئے دىکھنا

حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ انصارى بىان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ نے فرماىا کہ مىں اىک بار جا رہا تھا کہ اچانک مىں نے آسمان سے اىک آواز سنى مىں نے آنکھ اٹھائى تو دىکھا کہ وہى فرشتہ ہے جو حراء مىں مىرے پاس آىا تھا زمىن و آسمان کے درمىان اىک کرسى پر بىٹھا ہے۔ (ىہ دىکھ کر) مجھ پر اىک دہشت طارى ہو گئى اور مىں (گھر واپس) لوٹ آىا اور مىں نے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو اور انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دىا۔ اور پھر اللہ تعالىٰ نے (ىہ آىتىں ) نازل فرمائىں ىٰآ ىُّہَا الْمُدَّثِّرُ …..۔

(صحىح بخارى کتاب الوحى باب کىف کان بدء الوحى، کتاب التفسىرباب و ثىابک فطہر، باب وربک فکبر، باب قولہ والرجز فاہجر)

8: نبى کرىم ؐکا غزوہ احزاب (خندق) مىں اىک چٹان پر تىن ضربات کے وقت فتوحات اسلامىہ کے تىن کشفى نظارے دىکھنا

غزوہ احزاب ىا جنگ خندق شوال 5 ہجرى مىں پىش آىا تھا۔ اس جنگ کے لئے عرب کے سب قبائل اکٹھے ہو کر اسلام کے خلاف صف آراء ہوئے تھے۔ اس موقعہ پر اس لشکر عظىم کا مقابلہ کرنے کے لئے نبى کرىم ؐ کے صحابى حضرت سلمان الفارسى ؓ نے جنگى حکمت عملى کے لئے اور دفاعى نکتہ نگاہ سے خندق کھودنے کى تجوىز دى جو قبول ہوئى۔ اور اسلامى لشکر نے رسول اللہ ؐ کى رہنمائى مىں ىہ خندق کھودى۔ حضرت ابو سکىنہ ؓ سے رواىت ہے کہ جب نبى کرىم ؐ نے خندق کھودنے کا حکم فرماىا تو سامنے اىک بہت بڑا پتھر حائل ہو گىا، جس نے صحابہ کرام ؓ کو خندق کى کھدائى سے روک دىا۔ رسول اللہ ؐ کدال لے کر کھڑے ہوئے اور اپنى چادر خندق کى اىک جانب رکھ دى اور آپؐ نے پڑھا وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلاً لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ وَ ھُوَالسَّمِىْعُ الْعَلِىْمُ (الانعام: 116)۔ ىہ پڑھتے ہى اس پتھر کا اىک تہائى گر پڑا۔ حضرت سلمان فارسى ؓ کھڑے ہوئے دىکھ رہے تھے کہ آپ ؐ کى پہلى ہى ضرب سے اىک بجلى سى چمکى۔ پھر آپؐ نے دوسرى ضرب لگائى اور پڑھا وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلاً لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ وَ ھُوَالسَّمِىْعُ الْعَلِىْمُ (الانعام: 116)۔ ىہ پڑھتے ہى اس پتھر کا دوسرا تہائى گر پڑااور اىک بجلى سى چمکى جس کو حضرت سلمان فارسى ؓ نے دىکھا۔ پھر آپؐ نے تىسرى ضرب لگائى اور پڑھا وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلاً لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ وَ ھُوَالسَّمِىْعُ الْعَلِىْمُ (الانعام: 116)۔ ىہ پڑھتے ہى اس پتھر کاباقى تہائى ٹکڑا بھى گر پڑا۔ رسول اللہ ؐ خندق سے باہر تشرىف لے آئے، اپنى چادر لى اور بىٹھ گئے۔ حضرت سلمان ؓنے عرض کىا ىا رسول اللہ ؐ ! مىں نے دىکھا کہ آپؐ کى کو ئى ضرب اىسى نہىں تھى جس کے ساتھ بجلى چمکتى ہوئى دکھائى نہ دى ہو۔ آپؐ نے فرماىا اے سلمان کىا تم نے ىہ چمک دىکھ لى؟ حضرت سلمانؓ نے عرض کىا ىا رسول اللہ ؐ! اس ذات کى قسم جس نے آپؐ کو حق دے کر بھىجا ہے ہاں دىکھ لى۔ آپؐ نے فرماىا جب مىں نے پہلى ضرب لگائى تو مىرے لئے کسرىٰ کے شہر اور اس کا ماحول اور بہت سے شہر واضح کر دىئے گئے ىہاں تک کہ مىں نے انہىں اپنى آنکھو ں سے دىکھا۔ آپؐ کے بعض اصحاب ؓ نے آپؐ سے عرض کىا کہ ىا رسول اللہ ؐ ! اللہ سے دعا کىجئے کہ ان شہرو ں کو اللہ ہمارے ہاتھو ں فتح کرائے اور ان کى اولاد ہمارا مال غنىمت ہو ں اور ان کا شہر ہمارے ہاتھوں تباہ ہو جائے۔ چنانچہ آپؐ نے اس کى دعا فرمائى۔ پھر آپ ؐ نے فرماىا پھر مىں نے دوسرى ضرب لگائى تو مىرے لئے قىصر کے شہر اور اس کا ماحول واضح کردىا گىا ىہاں تک کہ مىں نے انہىں اپنى آنکھ سے دىکھ لىا۔صحابہؓ نے آپؐ سے عرض کىا کہ ىا رسول اللہ ؐ ! اللہ سے دعا کىجئے کہ ان شہرو ں کو اللہ ہمارے ہاتھو ں فتح کرائے اور ان کى اولاد ہمارا مال غنىمت ہو ں اور ان کا شہر ہمارے ہاتھوں تباہ ہو جائے۔ چنانچہ آپؐ نے اس کى دعا فرمائى۔ اس کے بعد پھر آپ ؐ نے فرماىا مىں نے تىسرى ضرب لگائى تو مىرے لئے حبشہ کے شہر اور اس کے آس پاس کى آبادىاں ظاہر کر دى گئىں ىہاں تک کہ مىں انہىں اپنى آنکھو ں سے دىکھا۔

(سنن نسائى کتاب الجہاد، حدىث: 3176۔ صحىح بخارى کتاب المغازى باب غزوۃ الخندق)

اىک دوسرى رواىت جو حضرت مرزا بشىر احمد ؓ نے ’سىرت خاتم النبىىن‘ مىں درج فرمائى ہے وہ ىہ ہے کہ خندق کھودتے کھودتے اىک جگہ سے اىک پتھر نکلا جو کسى طرح ٹوٹنے مىں نہ آتا تھا اور صحابہ ؓ کا ىہ حال تھا کہ وہ تىن دن کے مسلسل فاقہ سے سخت نڈھال ہو رہے تھے۔ آخر تنگ آکر وہ آنحضرت ؐ کى خدمت مىں حاضر ہو ئے اور عرض کىا کہ اىک پتھر ہے جو ٹوٹنے مىں نہىں آتا۔ اس وقت آپؐ کا بھى ىہ حال تھا کہ بھوک کى وجہ سے پىٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا مگر آپؐ فوراً وہاں تشرىف لے گئے اور اىک کدال لے کر اللہ کا نام لىتے ہو ئے اس پتھر پر مارى۔ لوہے کے لگنے سے پتھر مىں سے اىک شعلہ نکلا جس پر آپؐ نے زور کے ساتھ اللہ اکبر کہا۔ اور فرماىاکہ مجھے مملکت شام کى کنجىاں دى گئى ہىں۔ اور خدا کى قسم اس وقت شام کے سرخ محلات مىرى آنکھوں کے سامنے ہىں۔ اس ضرب سے وہ پتھر کسى قدر شکستہ ہو گىا۔ دوسرى دفعہ آپؐ نے پھر اللہ کا نام لے کر کدال چلائى اور پھر اىک شعلہ نکلا جس پر آپؐ نے پھر اللہ اکبر کہا اور فرماىا اس دفعہ مجھے فارس کى کنجىاں دى گئى ہىں اور مدائن کے سفىد محلات مجھے نظر آرہے ہىں۔ اس دفعہ پتھر کسى قدر زىادہ شکستہ ہو گىا۔ تىسرى دفعہ آپؐ نے پھر کدال مارى جس کے نتىجہ مىں پھر اىک شعلہ نکلا اور آپؐ نے پھر اللہ اکبر کہا اور فرماىااب مجھے ىمن کى کنجىاں دى گى ہىں۔ اور خدا کى قسم صنعاء کے دروازے مجھے دکھائے جارہے ہىں۔ اس دفعہ وہ پتھر بالکل شکستہ ہو کر اپنى جگہ سے گر گىا۔

(سىرت خاتم النبىىن از حضرت مرزا بشىر احمد ؓ صفحہ: 577، اىڈىشن 1996ء۔ دلائل النبوۃ از امام ابى بکر احمد بن حسىن البىہقى(اردو ترجمہ) باب:66، حدىث: 2 تا 4، جلد: دوم صفحہ: 277-274، دار الاشاعت کراچى، پاکستان مئى 2009ء)

9: نبى کرىم ؐ کا منبر بننے کے بعد کشفاً ستون سے رونے کى آواز کا سننا

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بىان فرماتے تھے کہ اىک تنا تھا جس پر نبى کرىم ؐ (خطبہ کے دوران) سہارا لىا کرتے تھے۔ جب آپ کے لئے منبر بن گىا (اور آپ نے اس پر سہارا نہ لىا) تو ہم نے اس سے قرىب الولادت اونٹنى کے سے رونے کى آواز سنى۔ پھر نبى کرىم ؐ نے منبر سے اتر کر اپنا دست مبارک اس پر رکھا۔

(صحىح بخارى کتاب الجمعہ باب الخطبۃ على المنبر)

ىہ مذکورہ رواىت حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مختلف الفاظ مىں مروى ہے۔ ىہ کشفى نظارہ صرف نبى کرىم ؐ تک محدود نہ تھا بلکہ جو صحابہ ؓ اس جمعہ پر حاضر تھے انہوں نے بھى ىہ کشفى منظر دىکھا تھا۔ اىک رواىت مىں ہے کہ اس کھجور کے تنے سے بچوں کى طرح رونے کى آواز آنے لگى۔ نبى کرىم ؐ منبر سے نىچے تشرىف لائے اور اسے اپنے آپ سے لگاىا جس طرح بچوں کو چپ کروانے کے لئے کىا جاتا ہے اسے اسى طرح چپ کراىا۔ اور پھر فرماىاکہ ىہ تنا اس لئے رو رہا تھا کہ ىہ اللہ تعالىٰ کے اس ذکر کو سنتا تھا جو اس کے قرىب ہوا کرتا تھا۔

(صحىح بخارى کتاب الانبىاء باب علامات النبوۃ فى الاسلام)

(امام ابى بکر احمد بن حسىن البىہقى ؒ نے اپنى تصنىف ’دلائل النبوۃ‘ مىں اس تعلق مىں اٹھارہ مختلف رواىات کو جمع کىا ہے۔ ملاحظہ ہو دلائل النبوۃ از امام ابى بکر احمد بن حسىن البىہقى (اردو ترجمہ) باب:110، حدىث : 1 تا 18،جلد:اول صفحہ: 585-581، دارالاشاعت کراچى، پاکستان مئى 2009ء)

10: نبى کرىم ؐ کے سامنے کشفاً آپ ؐ کى امت کے نىک وبد اعمال کا پىش کىا جانا

حضرت ابو ذر غفارىؓ سے رواىت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرماىاکہ مىرے سامنے مىرى امت کے نىک وبد اعمال پىش کئے گئے۔ مىں نے اس کے نىک اعمال مىں تو راستہ سے تکلىف دہ چىز کو دور کرنا پاىا اور برے اعمال مىں مسجد کے اندر تھوکنا دىکھا جس کو دباىا نہ گىا ہو۔

(مشکوٰۃ المصابىح کتاب الصلوٰۃ باب المساجد حدىث نمبر: 657)

حضرت انس بن مالک ؓ بىان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ نے فرماىا کہ مىرے سامنے مىرى امت کے نىک اعمال پىش کئے گئے جن پر اجر و ثواب ملتا ہے، ىہاں تک کہ وہ کوڑا کرکٹ بھى پىش کىا گىا جسے آدمى مسجد سے نکالتا ہے۔ اور مىرے سامنے مىرى امت کے گناہ بھى پىش کئے گئے تو مىں نے اس سے بڑا گناہ کوئى اور نہ دىکھا کہ قرآن کى کوئى سورت ىا قرآن کى کسى آىت کا علم کسى بندے کو دىا گىا ہو اور پھر وہ بندہ اسے بھول گىا ہو۔

(الترغىب والترھىب لامام حافظ زکى الدىن المنذرى المتوفى656 ہجرى، کتاب الصلوٰۃ باب الترغىب فى تنظىف المساجد، حدىث: 6 مجموعى حدىث نمبر: 429۔ مشکوٰۃ المصابىح کتاب الصلوٰۃ باب المساجد حدىث نمبر: 667)

11:نبى کرىم ؐ کا کشفاً اىک اىسے فرشتہ کو دىکھنا جو اس سے پہلے کبھى نازل نہ ہوا تھا

حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے رواىت ہے کہ (اىک دن) جب حضرت جبرىل ؑ نبى کرىم ؐ کے پاس بىٹھے ہو ئے تھے تو انہو ں نے اوپر کى طرف دروازہ کھلنے کى سى آواز سنى،چنانچہ انہوں نے اپنا سر اوپر اٹھا لىا اور کہا کہ ىہ آسمان کا دروازہ ہے جو آج سے پہلے کبھى نہىں کھو لا گىا۔ تب اس دروازہ سے اىک فرشتہ اترا۔ حضرت جبرئىل ؑ نے کہا کہ ىہ فرشتہ آج سے پہلے کبھى زمىن پر نہىں اترا۔ پھراس فرشتے نے ( نبى کرىم ؐ کو) سلام کىا اور کہاکہ خوشخبرى ہو کہ آپؐ کو وہ دو نور عطا کئے گئے ہىں جو آپؐ سے پہلے کسى نبى کو نہىں دىئے گئے۔ اور وہ سورۃ الفاتحہ اور سورہ بقرہ کا آخرى حصہ (دو آىات) ہىں۔ آپؐ اس کا جو حرف بھى پڑھىں گے اس کا آپؐ کو اجر وثواب ملے گا ىا آپ ؐ کى دعا قبول کى جائے گى۔

(سنن نسائى کتاب الافتتاح حدىث نمبر: 912۔ مشکوٰۃ المصابىح کتاب فضائل القرآن حدىث نمبر: 2021 بحوالہ صحىح مسلم)

12: نبى کرىم ؐ کا کشفاً بعض قبروں سے قبر والو ں کو ملنے والے عذاب کا سننا

حضرت زىد بن ثابت ؓ بىان فرماتے تھے کہ اىک دفعہ ہم رسول اللہؐ کے ساتھ بنو نجار کے اىک باغ کے پاس تھے آپ ؐ اىک خچر پر سوار تھے کہ اچانک خچر بدک گىا اور قرىب تھا کہ آپ ؐ کو گرا دے۔ وہاں پانچ چھ قبرىں تھىں۔ آپ ؐ نے فرماىاکسى کو ان قبروالو ں کا علم ہے؟ اىک شخص نے کہا مىں جانتا ہوں۔ آپؐ نے فرماىا ىہ کب مرے تھے؟ اس شخص نے بتاىا کہ ىہ (حالت) شرک مىں مرے ہىں۔ تو آپ ؐ نے فرماىاکہ ىہ امت قبروں مىں آزمائى جاتى ہے۔ اگرمجھ کو ىہ خوف نہ ہو تا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو مىں ضرور اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تم کو بھى عذاب قبر کى( اس آواز ) کو سنا دے جس کو مىں سن رہا ہو ں۔ اس کے بعد آپؐ ہمارى طرف متوجہ ہو ئے اور فرماىا آگ کے عذاب سے اللہ کى پناہ مانگو۔ صحابہؓ نے عرض کىا ہم آگ کے عذاب سے اللہ کى پناہ مانگتے ہىں! آپؐ نے فرماىا قبر کے عذاب سے اللہ کى پناہ مانگو۔ صحابہؓ نے فرماىا عذاب قبر سے ہم اللہ کى پناہ مانگتے ہىں! آپؐ نے فرماىا ظاہرى اور باطنى فتنوں سے اللہ کى پناہ مانگو۔ صحابہؓ نے فرماىا ہم ظاہرى اور باطنى فتنوں سے اللہ کى پناہ مانگتے ہىں! آپ ؐ نے فرماىا دجال کے فتنہ سے اللہ کى پناہ مانگو۔ صحابہؓ نے فرماىا ہم دجال کے فتنہ سے اللہ کى پناہ مانگتے ہىں۔

(مشکوٰۃ المصابىح باب اثبات عذاب القبرحدىث نمبر: 121)

13: نبى کرىم ؐ کے لئے حضرت سعد بن معاذ ؓ کى وفات پر بعض کشفى امور کا ظہور

حضرت جابر ؓ بىان فرماتے تھے کہ ہم حضرت سعد بن معاذ ؓ کى وفات کے بعد رسول اللہ ؐ کے ہمراہ ان کے جنازے پر گئے۔ جب آنحضرت ؐ نماز جنازہ ادا فرما چکے حضرت سعد ؓ کو قبر مىں اتار کر قبر کى مٹى برابر کر دى گئى تو رسول اللہ ؐ نے کچھ دىر تک تسبىح پڑھى اور ہم نے بھى تسبىح پڑھى۔ پھر آپ ؐ نے تکبىر کہى اور ہم نے بھى تکبىر کہى۔ (اس پر) رسو ل اللہ ؐ سے پوچھا گىا کہ آپ ؐ نے تسبىح اور تکبىر کىوں پڑھى ہے؟ آپ ؐ نے فرماىاکہ اس بندہ صالح پر اس کى قبر تنگ ہو گئى تھى پھر اللہ تعالىٰ نے (ہمارى تسبىح اور تکبىر سے) اسے کشادہ کر دىا۔

(مشکوٰۃ المصابىح باب اثبات عذاب القبرحدىث نمبر: 127)

حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ بىان فرماتے کہ رسول اللہ ؐ نے فرماىاکہ ىہ (ىعنى سعد ابن معاذ ؓ) وہ شخص ہے کہ جس کے لئے عرش نے حرکت کى اور ان کے لئے آسمان کے دروازے کھو لے گئے اور ستر ہزار فرشتے (ان کے جنازہ کے لئے) حاضر ہو ئے۔ ان کى قبر تنگ ہو گئى پھر ىہ تنگى دور ہو گئى۔

(مشکوٰۃ المصابىح باب اثبات عذاب القبرحدىث نمبر: 128)

صحىح بخارى مىں حضرت سعد بن معاذ ؓ کے مناقب کى رواىت مىں صرف اتنا ہى ذکر ہے کہ نبى کرىم ؐ نے فرماىاکہ سعد بن معاذ ؓ کى وفات پر رحمان کا عرش لرز گىا تھا۔

(صحىح بخارى کتاب الانبىاء باب مناقب سعد بن معاذ ؓ)

14: نبى کرىم ؐ کا کشفاً امت مىں برپا ہو نے والے فتنوں کو دىکھنا

حضرت اسامہ بن زىد ؓ بىان فرماتے تھے کہ نبى کرىم ؐ مدىنہ کے ٹىلو ں مىں سے اىک ٹىلے پر چڑھے اور فرماىاکہ مىں جو کچھ دىکھتا ہو ں تم بھى دىکھتے ہو؟ لو گو ں نے کہا کہ نہىں۔ پھر آپؐ نے فرماىا مىں فتنوں کو دىکھتا ہو ں کہ وہ تمہارے گھرو ں کے درمىان اس طرح گر رہے ہىں جىسے بارش برستى ہے۔

(صحىح بخارى کتاب الفتن باب قول النبى ؐ وىل للعرب)

15: نبى کرىم ؐ کے اپنے مقام سے متعلق اىک کشفى نظارہ

حضرت ابو ذر غفارىؓ بىان فرماتے تھے کہ مىں نے رسول اللہ ؐ سے ىہ عرض کىا کہ اے اللہ کے رسول ؐ آپؐ کو اپنے نبى ہو نے کا علم کىسے ہوا کہ آپ ؐ کو اپنے نبى ہو نے کا ىقىن ہو گىا؟ رسول اللہ ؐ نے فرماىاکہ اے ابو ذر مىں مکہ کى اىک وادى مىں تھا کہ دو فرشتے آئے۔ اىک زمىن پر اتر آىا اور دوسرا زمىن و آسمان کے درمىان لٹکا رہا۔ اىک نے دوسرے سے پوچھا کىا ىہ وہى ہىں؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر اس نے کہا اس کا اىک آدمى سے وزن کرو۔ مىرا اىک آدمى کے ساتھ وزن کىا گىا تو مىں بھارى رہا۔ پھر اس نے کہا ان کا دس آدمىوں کے ساتھ وزن کرو۔ مىرا دس آدمىوں کے ساتھ وزن کىا گىا تو مىں دس پر غالب رہا۔ پھر اس نے کہا سو آدمىو ں کے ساتھ ان کا وزن کرو۔ مجھے سو آدمىو ں کے ساتھ تولا گىا تو مىں ان پر بھى بھارى تھا۔ پھر اس نے کہا ان کا ہزار آدمىوں کے ساتھ وزن کرو۔ مجھے ان کے ساتھ تو لا گىا تو مىں ان پر بھى غالب آگىا اور مجھے اىسا لگتا تھا کہ ترازو ہلکا ہو نے کى وجہ سے وہ مجھ پر گر پڑىں گے۔ پھر ان (دو فرشتوں) مىں سے اىک نے اپنے دوسرے ساتھى سے کہا کہ اگر تم ان کا وزن ان کى امت کے ساتھ کرو گے تو ىہ ان پر بھى بھارى ہوں گے۔

(مشکوٰۃ المصابىح باب فضائل سىد المرسلىن ؐ حدىث: 5525)

16: نبى کرىم ؐ کے اپنے مقام سے متعلق اىک اَور کشفى نظارہ

خادم رسول ؐ حضرت انس بن مالک ؓ بىان فرماتے تھے کہ نبى کرىم ؐ نہاىت غمگىن اور زخموں کے خون مىں لتھڑے ہو ئے بىٹھے تھے، جو اہل مکہ نے پہنچائے تھے کہ اتنے مىں حضرت جبرائىل ؑ آپؐ کے پاس حاضر ہو ئے اور کہا ىا رسول اللہ ؐ ! اگر آپ ؐ پسند کرىں تو مىں آپ ؐ کو (آپؐ کا) اىک معجزہ دکھاؤں (جو آپ ؐ کى نبوت و رسالت کى علامت ہو گى اور جس سے آپ ؐ کو تسلى ہو جائے گى کہ اللہ کى راہ مىں ىہ اذىت و پرىشانى اٹھانا آپ ؐ کے مراتب و درجات کى بلندى مىں اضافہ کا باعث ہے)۔ آپ ؐ نے فرماىاکہ ہاں۔ پھر جبرئىل ؑ نے اس درخت کى طرف دىکھا جو ان کے پىچھے تھا اور پھر آپ ؐ سے فرماىا کہ اس درخت کو بلائىں۔ رسول اللہ ؐ نے اس درخت کو بلاىا تو وہ آپ ؐ کے سامنے آکر کھڑا ہو گىا۔ حضرت جبرائىل ؑ نے کہا اب اس کو واپس جانے کا حکم دىں۔ رسول اللہ ؐ نے اسے واپس جانے کا حکم د ىا تو وہ درخت واپس (اپنى جگہ) چلا گىا۔ رسو ل کرىم ؐ نے ىہ دىکھ کر فرماىا کہ مجھ کو کافى ہے، مجھ کو کافى ہے۔

(مشکوٰۃ المصابىح باب فى المعجزات، حدىث : 5670)

17:نبى کرىم ؐ کے اپنے منبر پر چڑھتے وقت جبرائىل ؑ کا ظاہر ہو نا اور آپ ؐ کا تىن بار آمىن کہنا

حضرت کعب بن عجرہ ؓ،حضرت ابو ہرىرہ ؓ اور حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ بىان فرماتے تھے کہ اىک دن رسول اللہ ؐ مسجد مىں تشرىف لائے اور اپنے منبر پر قدم رکھا۔ جب پہلا قدم رکھا تو آپؐ نے آمىن کہى، پھر دوسرا قدم رکھا تو پھر آمىن کہى اور پھر تىسرا قدم رکھا تو پھر آمىن کہى۔ آپؐ سے پوچھا گىا کہ رسول اللہ ؐ ىہ کىا تھا کہ آپ نے تىن مرتبہ آمىن کہى؟ تو آپ ؐ نے فرماىا کہ جب مىں نے (منبر کى ) پہلى سىڑھى پر قدم رکھا تو جبرائىل ؑ مىرے سامنے آئے اور کہا وہ شخص بڑاہى بد بخت ہے جس نے رمضان پاىا اور وہ گزر گىا اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے۔ تو مىں نے کہا آمىن۔ پھر جبرائىل ؑ نے کہا کہ وہ بڑاہى بد بخت ہے جس نے اپنے دونوں والدىن ىا ان مىں سے کسى اىک کو پاىا اور وہ ان کى (خدمت کے ذرىعہ) جنت مىں داخل نہ ہو سکا۔ اس پر مىں نے کہا آمىن۔ پھر جبرائىل ؑ نے کہا کہ وہ شخص بڑاہى بد بخت ہے جس کے سامنے آپؐ کا ذکر کىا گىا اور اس نے آپؐ پر درود نہ بھىجا۔ تو مىں نے کہا آمىن۔

(الادب المفرد از امام بخارىؒ، باب من ذکر عندہ النبى ؐ فلم ىصل علىہ، حدىث : 646، دارالصدىق الجبىل سعودى عرب،1421ہجرى،2000 ء۔ صحىح مسلم حدىث :2551۔مسند احمد حدىث : 8557-7451۔ ‘ القول البدىع فى الصلوٰۃ على الحبىب الشفىعؐ از امام محمد بن عبد الرحمن السخاوى ؒ، باب الثالث فى التحذىر من ترک الصلوٰۃ علىہ عند ما ىذکر، حدىث نمبر: 1-2،صفحہ : 298-292، شائع کردہ مؤسسۃ الرىان المدىنہ المنورہ 2002 ء)

18:نبى کرىم ؐ کے سامنے دىگر امتوں اور اپنى امت کا کشفاً پىش کىا جانا

حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ بىان فرماتے تھے کہ نبى کرىم ؐ نے فرماىاکہ مىرے سامنے امتىں پىش کى گئىں، کسى نبى کے ساتھ پورى امت گزرى، کسى نبى کے ساتھ چند افراد گزرے، کسى نبى کے ساتھ دس افراد گزرے، کسى نبى کے ساتھ پانچ افراد گزرے اور کوئى نبى تنہا گزرے۔ پھر مىں نے دىکھا کہ انسانوں کا اىک بہت بڑا گروہ ہے مىں نے جبرىل ؑ سے پوچھا کىا ىہ مىرى امت ہے؟ انہو ں نے کہا نہىں۔ بلکہ کہا کہ افق کى طرف نظر فرمائىں۔ تو مىں نے دىکھا کہ انسانو ں کا اىک جم غفىر ہے۔ جبرىل ؑ نے کہا کہ ىہ آپ ؐ کى امت ہے اور ىہ ستر ہزار لو گ جو ان کے آگے ہىں ىہ وہ لوگ ہىں کہ نہ جن سے حساب کتاب ہو گا اور نہ ہى ان پر کوئى عذاب ہو گا۔ مىں نے پوچھا کہ اىسا کىوں ہو گا؟ جبرىل ؑ نے بتاىا کہ اس لئے کہ ىہ وہ لوگ ہىں جو داغ نہىں لگواتے تھے، چورى نہىں کرتے تھے، شگون نہىں لىتے تھے اور صرف اپنے رب پر توکل کرتے تھے۔ (اس پر) حضرت عکاشہ بن محصن ؓ کھڑے ہو ئے اور نبى کرىم ؐسے عرض کىا کہ اللہ سے دعافرمائىں کہ وہ مجھے ان لوگو ں مىں شامل فرمائے۔ نبى کرىم ؐ نے ان کے لئے دعا فرمائى کہ اے اللہ انہىں بھى ان مىں شامل فرما لے۔ اس کے بعد اىک اور صاحب کھڑے ہو ئے اور عرض کى کہ مىرے لئے بھى اللہ سے دعا فرمائىں کہ وہ مجھے بھى ان لو گو ں مىں شامل فرمالے۔ اس پر نبى کرىم ؐ نے فرماىاکہ عکاشہ تم سے سبقت لے جا چکا ہے۔

(صحىح بخارى کتاب الرقاق، باب ىدخل الجنۃ سبعون الفا ًبغىر حساب)

نبى کرىم ؐ کے بہت سے کشفى واقعات محدثىن نے اپنى کتب مىں جمع کىے ہىں مثلاً شق صدر، درختوں کا چل کر نبى کرىم ؐ کے پاس آناکنکرىوں کا تسبىح کرنا غزوات مىں فرشتوں کا شامل ہوناوغىرہ۔ ىہ سب واقعات نبى کرىم ؐ کے معجزات کے بىان مىں اور آثار و علامات نبوت کے بىان مىں ملتے ہىں۔ امام سىوطى ؒنے الخصائص الکبرىٰ مىں، امام ابن کثىر ؒنے اپنى تارىخ مىں اور امام بىہقى ؒ نے دلائل النبوۃ مىں ان کو جمع کىاہے۔

 (حرف آخر ) رؤىا اور خواب کے مو ضوع پر قرآن و حدىث اور دىگر اسلامى کتب کے علمى ذخىرہ مىں کثىر مواد موجود ہے۔ انہى کتب کى خوشہ چىنى کرتے ہو ئے اللہ تعا لىٰ کى دى ہو ئى تو فىق سے بکھرے ہو ئے مو تىو ں کو جمع کر کے چند صفحات تقرب اِلى َاللہ کى خا طر اور ثواب اخروى کى غرض سے تحرىر کئے ہىں۔ تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنِّىْ ! اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَ عَلٰى آلِہٖ بِعَدَدِ ہَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَحُزْنِہٖ لِہٰذِہِ الْاُ مَّۃِ وَ اَنْزِلْ عَلَىْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلىَ الْاَبَدِ۔

(قمر داؤد کھوکھر۔آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

آئیوری کوسٹ ریجن بندوکو میں یوم تبلیغ اور تبلیغی بک سٹال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2021