• 15 مئی, 2024

اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے

اتوار (موٴرخہ 26؍جون 2022ء) سڈنی آسٹریلیاکے خدام بیت الہدیٰ میں جمع ہوئے جہاں انہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ورچوئل ملاقات کا شرف نصیب ہوا ان خدام نے مختلف سوالات کے ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سےجو رہنمائی حاصل کی اس کی تفصیل ذیل میں ہے۔ یہ روزنامہ الفضل آن لائن کی 30؍ستمبر 2022ء کی اشاعت میں بھی شامل ہوچکے ہیں۔

سوال: پیارے حضور سوشل میڈیا پر اس طرف بڑھتا ہو ارجحان نظر آرہا ہے کہ ایسے احمدی جن کے چھوٹے بچے ہیں وہ اپنے گھروں کو رمضان کیلئے سجاتے ہیں۔ جیسے نماز پڑھنے کی جگہ کو سجانا اور اس کے نیچے تحائف رکھنا اور عید کے انتظار میں بچوں کے لیے کیلنڈر کی اس طرز پر تیاری کرنا جیسے عیسائیت میں کیلنڈر تیار کیا جاتا ہے۔پیارے حضورہم اپنے بچوں کو ایسے کاموں سے کیسے روک سکتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’دیکھیں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے عمل کے پیچھے کیا نیت ہے؟ اگر تو وہ رمضان میں اپنے گھروں کو اس لئے سجاتے ہیں تا کہ اپنے بچوں کو رمضان کی اہمیت سمجھا سکیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔اگر تو انہوں نے اپنے کیلنڈر رمضان کے روزوں کو گننے کیلئے یعنی پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا اور پانچواں روزہ وغیرہ بنائے ہیں۔ بچوں کو بتانے کی خاطر کہ پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا روزہ ہے اور 29 یا 30 دنوں بعد ہم عید منائیں گے جو بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ تب بچے عید کی اہمیت کے بارہ میں پوچھیں گے۔ تو پھر آپ ان کو بتا سکتے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہمیں نماز عید میں شامل ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ ایسی عورتیں جن کو مسجد میں نماز کی ادئیگی کے لئے جانے کی اجازت نہیں بھی ہے۔ تو ان کو بھی مسجد میں عید کا خطبہ سننے کیلئے جانا چاہیے۔ بلکہ نماز گاہ کے باہر بھی بیٹھا جا سکتا ہے تاہم یہ ہر ایک پر فرض اور لازم ہے اور جب وہ دنوں کو گن رہے ہوں تو آپ ان کو بتا سکتے ہیں کہ روزہ کیا ہے اور اسلام میں 30 روزے کیوں رکھے جاتے ہیں؟ اور روزہ کیا ہے؟ اور یہ سابقہ انبیاء کی تمام امتوں پر ان کے اپنے دور میں فرض تھے جیسا کہ قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے۔مگر ان کا روزہ رکھنے کا طریق مختلف تھا۔اگر تو یہ نیت ہے کہ رمضان اور عید سے متعارف کروایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔البتہ اگر صرف نقل کرنا مقصود ہے کہ چونکہ عیسائی ایسا کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے اور آپ (بچوں) کو روزے کا پس منظر نہیں بتاتے، روزوں اور عید کی اہمیت نہیں بتاتے تو پھریہ غلط ہے۔تو اس میں ایک لطیف فرق ہے۔ہم ایسا نہیں کہہ سکتے کہ ایک شخص نے اس نیت سےایسا کیا ہے۔اگر تو وہ شخص کہتا ہے کہ میری نیت نیک تھی تو ہمیں یہ کہنے کا حق نہیں کہ ’’نہیں تم غلط ہو، میں جانتا ہوں کہ تمہاری نیت نیک نہیں ہے۔‘‘ آپ اور ہم توخدا نہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ کٹر نہ بنیں۔‘‘

سوال: پیارے حضور کرونا وائرس کی وبا اس غرض کے لیے بھی تھی کہ لوگ اپنے خالق حقیقی کے قریب ہوں۔ تو پیارے حضور آپ کو لگتا ہے کہ ہماری اصلاح ہوئی ہے۔ اگر نہیں۔ تو مستقبل میں اس سے بھی بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’آپ کو کوئی خواب آئی ہے؟ کوئی الہام ہوا ہے کہ کرونا کی وبا اس لیے تھی کہ خالق حقیقی کے قریب ہوں؟‘‘ خادم نے جواب دیا: ’’نہیں حضور!‘‘ حضور نے فرمایا ’’مجھے تو نہیں پتہ۔ہاں۔ کوئی بھی بیماری آتی ہے، کوئی بھی وبا پھیلتی ہے کوئی بھی مشکل آتی ہے، کوئی بھی تکلیف آتی ہے تو جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے لوگ ہیں۔ان کو یہ احساس پیدا ہو تا ہے کہ ہاں، یہ چیزیں آئی ہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہوں، اپنے خالق کے قریب ہوں اس کے آگے جھکیں اور ان تکلیفوں، ان دکھوں، ان پریشانیوں سے بچنے کے لیے دعا کریں۔تو یہ عمومی چیز ہے۔اسی طرح کرونا بھی آیا اور یہ pandemic تھا۔ یہ پوری دنیا میں پھیل گیا اور اس سے جو نیک لوگ تھے، جن کی فطرت نیک تھی، جو مذہبی رجحان اور خیالات رکھنے والے تھےان کا جھکاؤ اللہ تعالیٰ کی طرف ہوا۔جو نہیں تھے ان کانہیں ہوا۔بعض اللہ کی طرف توجہ نہ رکھنے والے بھی اللہ کی طرف جھکے۔مغربی ملکوں میں بھی، غیر مسلموں میں بھی، لیکن بہت سارے ایسے ہیں جنہوں نے کہا یہ تو بیماری ہے۔آئی اور گزر گئی۔یا ابھی بھی آ رہی ہے تو گزر جائے گی۔ تو ہم اس کو flue کی طرح لیتے ہیں۔جس طرح flue ہوا تھا۔ اس سے لوگ مرتے تھے توہم بھی مر جائیں گے۔جب ایک دن مرنا ہی ہے۔ان کو پرواہ ہی نہیں ہے۔ان کی کیا اصلاح ہونی ہے۔اصلاح تواسی کی ہوتی ہے جو خدا پر یقین رکھتا ہے۔یا کچھ نہ کچھ خوف خدا دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔یا جس کی کوئی فطرت نیک ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔باقی آزمائشیں تو آتی رہیں گی، زلزلے بھی آئیں گے، بیماریاں بھی آئیں گی، طوفان بھی آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ٰاسی طرح لوگوں کو احساس دلاتا رہتا ہے۔ ابھی جو پچھلے دنوں میں اتنے بڑے سیلاب آتے رہے۔ ہسٹری میں کئی decades تک آسٹریلیا میں نہیں آئے؟اس میں نقصان ہوا۔کبھی drought آتا ہے تو جنگلوں میں آگ لگ جاتی ہےتووہ بھی تو تباہی ہے۔امریکا میں آجکل ایسی گرمی پھیلی ہوئی ہے کہ آگیں لگ رہی ہیں۔آسٹریلیا میں بھی آگیں لگ جاتی ہیں۔ پہلے آگ سے سب کچھ جل گیا پھر بارش ہوئی توسیلاب میں سب کچھ بہہ گیا۔تو یہ بھی تو آفات ہی تھیں۔ ہر ملک میں اللہ تعالیٰ دکھانے کے لیے آفات بھیجتا رہتا ہے۔اس کے باوجود کچھ خیال نہ آئے تو کرونا سے کیا ان پر اثر ہونا ہے؟ کرونا کا تو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کون مرا اور کون نہیں مرا۔ کتنے کیس ہوئے ہیں آپ کے ہاں آسٹریلیا میں؟ 2 ملین، 4 ملین؟ کتنے مرے ان میں سے؟ 2 ہزار، 4 ہزار، 10 ہزار؟ یہاں کرونا سے ایک آدمی فوت ہوتا ہے تواتنا اس کا شور مچاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ 10 ہزار فوت ہو گئے۔خوف زیادہ پھیلا دیا۔تو جن کو دوسری باتوں سے خوف پید انہیں ہونا ان کو کرونا سے کیا خوف پیدا ہو نا ہے؟ ہاں اللہ تعالیٰ آزماتا ضرور رہتا ہے ان چیزوں سے۔ ہر آفت جو آتی ہے اس پر استغفار کرنا چاہیے اور اللہ کی پناہ میں آنا چاہیے۔چاہے بارش آرہی ہو۔تو یہ نہیں کہنا کہ ہاں ہاں بارش آگئی بڑا فائدہ ہو گا۔بارشیں بھی طوفان بن جاتی ہیں۔ ’’کبھی ہو کر وہ پانی ان پر اک طوفان لاتی ہے‘‘۔ تو آگ بھی، پانی بھی، ہوا بھی، آندھیاں بھی، طوفان بھی یہ ساری چیزیں جو حضرت مسیح موعودؑ نےنظم میں بیان کی ہیں، اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو بیان کیا ہے۔ ہمیں ان چیزوں سے بچنا چاہیے اور لوگوں کو بتا نا چاہیے کہ یہ اصلاح کے لیے آتی ہیں۔ اپنی اصلاح کرو۔لوگوں کو احساس ہو نہ ہو تبلیغ کے میدان کھولنے کے لیے ہمیں موقعہ اٹھانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تو چپیڑیں ماری جارہا ہے لیکن اگر ان کو احساس ہی نہ ہو، کسی شاعر نے کہا ہے کہ؎

احساس مر نہ جائےتو کسی انسان کے لیے
کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی

باقی ایسے بے شرم ہوتے ہیں کہ جو ماریں کھانے کے بعد بھی کہتے ہیں، ’’اچھا۔مار پڑی تھی مجھے؟‘‘ منہ سوجھا ہوتا ہے اور پوچھ دوسروں سے رہے ہوتے ہیں کہ ’’مار پڑی ہے مجھے، میرا منہ سوجھ گیا؟ تو جو ایسے ڈھیٹ انسان ہوں ان کی آپ نے کیا اصلاح کرنی ہے؟ یا اسے کیا احساس ہو نا ہے؟ ہاں۔جب ایسے کام ہوتے ہیں تو یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان کو بتائیں کہ یہ جو ہوا، یہ اس لیے ہو اکہ ہم اللہ سے دور جا رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں، تا کہ ہم ان آفتوں سے بچ کر رہیں اور اس طرح ہم قریب آئیں گے۔اگر ایک نیک آدمی طاعون کی وجہ سے فوت ہوتا ہے۔تو وہ شہید بن جاتا ہے اور اگر ایک بد آدمی فوت ہوتا ہے تو وہ جہنمی بن جاتا ہے تو یہ چیزیں ہمیں موقعہ دے رہی ہیں کہ ہم تبلیغ کے میدان مزید کھولیں۔

پچھلا پڑھیں

جنت کی کہانی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2022