• 18 مئی, 2024

قرآن کریم میں مذکور حضرت ابراہیمؑ کی شاندار خوبیاں (قسط اول)

قرآن کریم میں مذکور
حضرت ابراہیمؑ کی شاندار خوبیاں
قسط اول

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت آنحضرتﷺ سے تقریباً 2,500 سال قبل اور آج سے تقریباً 4,000 سال پہلے ہوئی۔ آپؑ عراق میں قیام پذیر رہے مگر آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہجرت بھی کی۔ متعدد بار مکہ بھی تشریف لے گئے جہاں آپؑ نے حضرت اسماعیلؑ کو وَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ میں چھوڑا جن کی ذریت سے آنحضرت ﷺ کی پیدائش ہوئی۔ آپؑ کو ابو الانبیاء کہا جاتا ہے اور خلیل اللہ بھی یعنی اللہ کا دوست۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کیا کہ إِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا (البقرہ: 125) میں یقیناً تجھے لوگوں کے لئے ایک عظیم امام بنانے والا ہوں۔

اسی وعدہ کے موافق دنیا کے کثیر حصہ میں آپؑ امام اور مقتدی سمجھے جاتے ہیں اور بڑے ادب و احترام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک ایسا وجود بنا دیا کہ آج تک لوگ ان کے افعال و اقوال کی اقتداء کر رہے ہیں جس کا مثالی اور دائمی نمونہ مسلمان ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حکم دیتا ہے کہ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيْمَ حَنِيْفًا (النحل: 124) ابراہیمِ حنیف کی ملت کی پیروی کر۔

وہ ملت ابراہیم کیا ہے جس کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپؑ کی اعلیٰ صفات ہیں۔ آپؑ کے اوصاف کریمہ ہیں۔ قرآن کریم نے حضرت ابراہیمؑ کو قابل آفریں پیش کیا ہے اور عمداً حکم بھی دیا ہے کہ ان صفات عالیہ کو اپنانے کی کوشش کرو۔ اسی کی وضاحت قرآن کریم نے ایک اور جگہ بھی کی ہے۔ آپؑ کے روحانی مقام و مرتبہ کی شناخت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرتﷺ کے علاوہ صرف آپؑ کے بارے میں فرمایا کہ: قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيْمَ (الممتحنہ: 5) یقیناً تمہارے لئے ابراہیم میں ایک اسوۂ حسنہ ہے۔

آپؑ کے قابل تقلید اخلاق اور اسوۂ حسنہ کا ذکر قرآن کریم نے بہت سے مقامات پر کیا ہے۔ اس مضمون میں آپؑ کی چند صفات کا ذکر از روئے قرآن کریم پیش خدمت ہے۔

خاص طرز کلام، تبلیغی مساعی
اور قیام توحید کے لئے تڑپ

ابراہیم کا لفظ أَبْرَمَ سے ہے یعنی بات کو پکا کرنے والا۔ لغت سے معلوم ہوتا ہے کہ أَبْرَامَ کے معنی ایسی عمدہ بات کرنے والے اور ایسی اچھی بحث کرنے والے کے ہیں جو دوسرے کو اپنا ما فی الضمیر اچھی طرح سمجھا دے اور اسے ساکت کر دے۔ یہ لفظ عبرانی زبان میں آتا ہے اور بائیبل میں بھی استعمال ہوا ہے۔

چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں یہ بحث کی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام اللہ تعالیٰ نے ان کے باپ سے ابراہیم رکھوایا جس میں ایک پیشگوئی مخفی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو بڑی اچھی بحث کرنے کی توفیق دے گا اور صداقت کے اظہار کے لئے یہ اپنے مد مقابل کے سامنے اس عمدگی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرے گا کہ وہ ساکت اور لا جواب رہ جائے گا۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ264-265)

قرآن کریم نے بہت سے مقامات پر حضرت ابراہیمؑ کی توحید کے قیام کے حوالے سے مساعی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ آپؑ کی بعثت کا مقصد فی ذاتہ توحید کا قیام ہی تھا۔ اس لئے آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ:
رَبِّ هَبْ لِيْ حُكْمًا (الشعراء: 84) اے میرے رب! مجھے حکمت عطا کر۔

اللہ تعالیٰ نے ہر داعی الی اللہ کے لئے بھی حضرت ابراہیمؑ کا نمونہ پیش کرتے ہوئے اسی دعا کا کرنا ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے کہ ادْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ (النحل: 126) کہ حکمت سے اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ۔

پس قرآن کریم میں جو حضرت ابراہیمؑ کا طرز کلام بیان ہوا ہے وہ اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو یہ خاص صفت عطا کی تھی کہ لوگ آپؑ کے سامنے مبہوت رہ جاتے تھے۔ اس کی سب سے صریح مثال سورۃ البقرۃ میں بیان کی گئی ہے۔ فرمایا:

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡ حَآجَّ اِبۡرٰہٖمَ فِیۡ رَبِّہٖۤ اَنۡ اٰتٰٮہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ ۘ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَیُمِیۡتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحۡیٖ وَاُمِیۡتُ ؕ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمۡسِ مِنَ الۡمَشۡرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الۡمَغۡرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ

(البقرہ: 259)

یعنی کیا تُو نے اس شخص پر غور کیا جس نے ابراہیم سے اس کے ربّ کے بارہ میں اس بِرتے پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے بادشاہت عطا کی تھی۔ جب ابراہیم نے کہا میرا ربّ وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ اس نے کہا میں (بھی) زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا یقیناً اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے تُو اسے مغرب سے لے آ، تو وہ جس نے کفر کیا تھا مبہوت ہو گیا اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

پس آپؑ نے بادشاہِ وقت کے سامنے بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان بیان کرنے سے گریز نہ کیا۔ آپؑ کی تبلیغ کے ذریعہ سے ہی حضرت لوطؑ نہ صرف ایمان لائے بلکہ نبوت کا مقام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ آپؑ کے بیٹے حضرت اسماعیل اور اسحاق اور پوتے یعقوب علیہم السلام بھی مختلف علاقوں میں مقیم تھے جہاں وہ پیغام توحید کے لئے کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ آپؑ تبلیغ میں نہایت دور اندیش تھے۔ حضرت اسحاقؑ کو آپؑ نے ایک آباد ملک میں بھیجا کہ وہاں تبلیغ کریں اور حضرت اسماعیلؑ کو آپؑ نے مکہ میں چھوڑ دیا تاکہ جب وہ جگہ آباد ہو تو وہاں اُس وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کو آپؑ کی لانگ ٹرم پالیسی قرار دیا ہے۔

(تفسیر کبیر جلد7 صفحہ193)

حضرت ابراہیمؑ نے اپنے چچا کی قوم کو بے حد درجہ تبلیغ کی اور ان کو توحید الٰہی پر گامزن کرنے کی پوری کوشش کی۔ قرآن کریم جہاں آپؑ کے طرز کلام کا خاص ذکر کرتا ہے وہاں آپ کے عقلی و علمی دلائل بھی پیش کرتا ہے۔ مثلاً جب اپنی قوم کو تبلیغ کرتے تو وہ اعراض کیا کرتے۔ ایک بار آپؑ نے ان سے کہا کہ میں تمہارے بتوں کے ساتھ کچھ تدبیر کروں گا۔ پھر آپؑ اپنے چچا کے بت کدہ گئے اور سارے بت توڑ دئیے سوائے سب سے بڑے بت کے جس کو آپؑ نے بڑی حکمت سے چھوڑ دیا۔ جب لوگوں کو پتا چلا تو ان کا ذہن فوراً حضرت ابراہیمؑ کی طرف گیا۔ چنانچہ فرمایا:

قَالُوۡۤا ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَا یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ ﴿ؕ۶۳﴾ قَالَ بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا فَسۡـَٔلُوۡہُمۡ اِنۡ کَانُوۡا یَنۡطِقُوۡنَ ﴿۶۴﴾

(الانبیاء: 63-64)

یعنی انہوں نے کہا کیا تو نے ہمارے معبودوں سے یہ کچھ کیا ہے؟ اے ابراہیم! حضرت ابراہیمؑ نے کہا بلکہ ان کے اس سردار نے یہ کام کیا ہے۔ پس ان سے پوچھ لو اگر وہ بول سکتے ہیں۔

یہاں آپ کا طرز استدلال خاص تعریف کے لائق ہے۔ معترضین آپؑ کو یہاں جھوٹ کا مرتکب سمجھتے ہیں مگر یہ ناممکن ہے کیونکہ آپؑ نے پہلے بتصریح اعلان کر دیا تھا کہ میں تمہارے بتوں سے کچھ کروں گا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے فرما دیا کہ: وَلَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ رُشۡدَہٗ مِنۡ قَبۡلُ وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیۡنَ ﴿۵۲﴾ (الانبیاء: 52) یعنی یقیناً ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے اس کی رشد عطا کی تھی اور ہم اس کے بارہ میں خوب علم رکھتے تھے۔

پس مضمون کے سیاق و سباق سے بھی واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی بات کو ایک نہایت اعلیٰ منطقی دلیل کے طور پر استعمال کیا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اس عظمت سے مذکورہ بالا تعریف بیان نہ کرتا۔

یہاں ایک ناممکن بات کو بظاہر ممکن پیش کر کے ایک حتمی اور کلمہ شکن دلیل پیش کی گئی ہے۔ چنانچہ اس مؤثر دلیل کا یہ نتیجہ نکلا کہ انہوں نے نہ مانا کہ ان بتوں کو سب سے بڑے بت نے مارا ہے۔ ان کا اس بات کو ناممکن سمجھنا ان کے اس عقیدہ کو جھوٹا ثابت کرتا تھا۔ چنانچہ اگلی آیات میں فرمایا:
فَرَجَعُوۡۤا اِلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ فَقَالُوۡۤا اِنَّکُمۡ اَنۡتُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿ۙ۶۵﴾ ثُمَّ نُکِسُوۡا عَلٰی رُءُوۡسِہِمۡ ۚ لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا ہٰۤؤُلَآءِ یَنۡطِقُوۡنَ ﴿۶۶﴾ (الانبیاء: 65-66) ترجمہ: پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف چلے گئے اور کہا کہ یقیناً تم ہی ظالم ہو۔ پس وہ سربگریباں کر دیئے گئے (اور بولے) تُو یقیناً جانتا ہے کہ یہ کلام نہیں کرتے۔

آپؑ کی بات اس لئے بھی بہت مؤثر تھی کہ آپؑ جو بھی دعویٰ کرتے اسے اپنے عملی نمونہ سے ثابت کرتے۔ چنانچہ آپؑ نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اِنَّ الَّذِیۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لَکُمۡ رِزۡقًا فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰہِ الرِّزۡقَ (العنکبوت: 18) کہ (حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا) وہ لوگ جن کی تم اللہ کی بجائے عبادت کرتے ہو تمہارے لئے کسی رزق کی ملکیت نہیں رکھتے۔ پس اللہ کے حضور ہی رزق چاہو۔

اس کا عملی نمونہ آپؑ نے خود دکھایا جب آپؑ نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک ایسی جگہ چھوڑا جہاں کھانے پینے کا سامان مہیا نہ تھا۔ آپؑ نے صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ تو ہی ان کو رزق دے۔ اس طرح آپؑ نے خود اللہ تعالیٰ کو رزق کا مالک ثابت کر دیا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت ابراہیم کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جس میں آپؑ نے باقاعدہ بیٹھ کر ہستی باری تعالیٰ کے حق میں دلائل سوچے۔ پہلے فرمایا:
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً ۚ اِنِّیۡۤ اَرٰٮکَ وَقَوۡمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۷۵﴾ (الانعام: 75) کہ اور یاد کر جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تو بتوں کو بطور معبود پکڑ بیٹھا ہے؟ یقیناً میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی کھلی گمراہی میں پاتا ہوں۔

یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ حضرت ابراہیمؑ پہلے سے ہی اپنے چچا سے بحث کیا کرتے تھے اور شرک سے متنفر تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: وَكَذَلِكَ نُرِيْ إِبْرَاهِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ (الانعام: 76) اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت (کی حقیقت) دکھاتے رہے تا کہ وہ (مزید) یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے۔

یہاں بھی مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عرفان کی بارش کی، ان کو آفاقی حکمتیں سکھائیں۔ چنانچہ فرمایا کہ ان کی آفاقی حکمتوں کو پانے کا انداز یہ تھا کہ ابراہیمؑ بسا اوقات اپنے رب کی ذات میں مگن ہو کر دشمن کے دلائل پر غور کیا کرتے تھے اور سوچا کرتے تھے کہ منکرین توحید کو ہدایت کیسے دی جائے اور کون سے دلائل پیش کیے جائیں۔

(خطبہ جمعہ 3؍جون 1983ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد2 صفحہ308-309)

پھر آپؑ نے مضبوط دلائل سوچے اور ستاروں، چاند، سورج کو معبودان باطلہ ثابت کیا۔ پھر آپؑ نے اس دلیل کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے فرمایا: إِنِّيْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيْفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (الانعام: 80) یعنی میں تو یقیناً اپنی توجہ کو اس کی طرف ہمیشہ مائل رہتے ہوئے پھیر چکا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور جو ہر چیز کا مالک ہے اور ستاروں اور چاند اور سورج سے ارفع اور ان کا خالق ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

یہ آیت اللہ تعالیٰ کی توحید کے حق میں ایک ایسی مضبوط دلیل ہے کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے تا قیامت مسلمانوں کے لئے لازم کر دیا کہ ہر روز کم از کم پانچ بار اس دعا سے نماز شروع کریں۔

توکل علی اللہ اور استقامت کی اعلیٰ مثالیں

قرآن کریم نے آپؑ کے آزمائشوں کا اور ان آزمائشوں میں آپؑ کی ثابت قدمی کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے۔ بلکہ آپؑ کی ثابت قدمی کی بناء پر ہی آج مسلمان حج کرتے ہیں اور آپؑ کی قربانی نہ صرف یاد کی جاتی ہے بلکہ آپؑ کی اتباع میں اللہ تعالیٰ نے اسلام میں ہمیشہ کے لئے صاحب استطاعت مسلمانوں کو عید الاضحی کے موقعہ پر قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔

آپ علیہ السلام کے ابتلاؤں کا قرآن کریم ایسے ذکر کرتا ہے: وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيْمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ (البقرہ: 125) کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے بعض کلمات سے آزمایا اور اس نے ان سب کو پورا کر دیا۔

قرآن کریم نے جگہ جگہ ان ابتلاؤں کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، آپؑ کو تبلیغی مساعی کے دوران بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آپؑ کی قوم جب آپؑ سے بحث کر رہی تھی کہ آپؑ نے ان کے بتوں کو معبودان باطلہ ثابت کر دیا تو آپؑ کی قوم نے کہا:
ابْنُوْا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوْهُ فِي الْجَحِيْمِ (الصافات: 98) اس کے لئے ایک چِتا بناؤ، پھر اسے بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دو۔

پس آپؑ کے لئے آگ جلائی گئی اور آپؑ کو اس میں پھینک دیا گیا۔ مگر آپؑ ہر ابتلا کے وقت اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رکھتے۔ جب آپؑ کو آگ میں پھینکا گیا تو بشری تقاضا یہ تھا کہ آپ منت سماجت کرتے مگر آپ کے لب پر یہ الفاظ تھے کہ: حَسْبِيَ اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ (صحیح بخاری کتاب التفسیر باب13 حدیث نمبر 4564)۔ اللہ تعالیٰ میرے لئے کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔

آپؑ کی عمر زیادہ ہو چکی تھی اور آپؑ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ پس آپ نے دعا کی: رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصَّالِحِيْنَ (الصافات: 101) اے اللہ مجھے ایک پاک بیٹا عطا کر۔ آپؑ کی دعا کے باعث اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ایک حلیم بیٹا عطا کیا۔ مگر وہ پیدا ہوا تو آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے اذن اور الٰہی اشاروں کے مطابق اپنی اہلیہ اور بیٹے کو ایک بے آب و دانہ ریگستان میں چھوڑ دیا۔ آپؑ نے بغیر کسی احتجاج کے اس حکم کی تعمیل کی اور بڑی استقامت دکھاتے ہوئے دعا کی: رَبَّنَا إِنِّيْ أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيْمُواْ الصَّلاَةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْ إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ (ابراہیم: 38) اے ہمارے رب! یقیناً میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں تیرے معزز گھر کے پاس آباد کر دیا ہے۔ اے ہمارے رب! تا کہ وہ نماز قائم کریں۔ پس لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں میں سے رزق عطا کر تا کہ وہ شکر کریں۔

یہ دعا در اصل آپؑ کے کامل توکل کا ہی نتیجہ تھا۔ کیونکہ یہ بظاہر خلاف عقل ہے کہ ایسی بنجر زمین میں غذا مہیا ہو۔ مگر آپؑ نیر الہام تھے۔ آپؑ نے ان کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کیا اور یہ کامل توکل دکھایا کہ وہ آپؑ کی دعا سن لے گا۔

پھر جب آپؑ کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو آپؑ نے کہا: يَا بُنَيَّ إِنِّيْ أَرَى فِيْ الْمَنَامِ أَنِّيْ أَذْبَحُكَ (الصافات: 103) اے میرے پیارے بیٹے! میں نے ایک خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ حضرت ابراہیم کا ایک ہی بیٹا تھا جو معجزانہ حالات میں پیدا ہوا مگر اللہ تعالیٰ کے حکم کی مکمل پیروی کرنے کو تیار ہو گئے۔ بچہ راضی ہو گیا تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ: وَتَلَّهُ لِلْجَبِيْنِ وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِيْنُ (الصافات: 104-107) اور اس نے اسے پیشانی کے بل لٹا دیا۔ تب ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراہیم! یقیناً تو اپنی رؤیا پوری کر چکا ہے (جب تو نے اپنے بچہ کو بیابان زمین میں چھوڑا تھا)۔ یقیناً اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلا کھلا ابتلا تھا۔

آپ پر ابتلاؤں کا ایک دور آیا اور اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے ابتلاؤں میں ڈالا کہ تصور سے بالا ہے۔ مگر آپؑ نے استقامت کی اعلیٰ مثالیں دکھائیں جو تا قیامت قرآن کریم میں مذکور رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ضائع ہر گز نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان ابتلاؤں کی باعث فرمایا: إِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا (البقرہ: 125)

میں یقیناً تجھے لوگوں کے لئے ایک عظیم امام بنانے والا ہوں۔

آپؑ کے انہی امتحانوں میں سے نہایت عمدگی سے گزرنے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ  آیت مذکورہ بالا کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ:
’’اے ابراہیم! تو اپنی قوم کے لئے نبی تھا مگر چونکہ تو آزمائشوں میں ثابت قدم نکلا ہے اور تُو نے بڑی دلیری سے میرے حکم کو مانتے ہوئے اپنی بیوی اور بچے کو ایک ایسے جنگل میں جا کر بسا دیا ہے جہاں پانی کا ایک قطرہ اور گھاس کی ایک پتی تک نہ تھی اور تُو نے اپنی اور اپنے خاندان کی موت قبول کر لی ہے اس لئے میں بھی تجھے یہ انعام بخشوں گا کہ تیرا یہ واقعہ ساری دنیا کے لوگوں کے لئے قیامت تک بطور نمونہ قائم رہے گا اور جب بھی دنیا کو آزمائشوں اور امتحانوں میں ثابت قدم رہنے کا درس دیا جائے گا تو اس وقت تیرے اس واقعہ کو نمونہ کے طور پر پیش کیا جائے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ160)

آپؑ کا مذکورہ بالا ابتلاؤں میں ثابت قدمی دکھانے کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’دیکھو! حضرت ابراہیم پر کیسا بڑا ابتلا آیا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں چُھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے اور اس چُھری کو اپنے بیٹے کی گردن پر اپنی طرف سے پھیر دیا مگر آگے بکرا تھا۔ ابراہیم امتحان میں پاس ہوا اور خدا تعالیٰ نے بیٹے کو بھی بچا لیا۔ تب خدا تعالیٰ ابراہیم پر خوش ہوا کہ اس نے اپنی طرف سے کوئی فرق نہ رکھا۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ بیٹا بچ گیا ورنہ ابراہیم نے اس کو ذبح کر دیا تھا۔ اس واسطے اس کو صادق کا خطاب ملا اور توریت میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم تو آسمان کے ستاروں کی طرف نظر کر کیا تو ان کو گن سکتا ہے۔ اسی طرح تیری اولاد بھی نہ گنی جائے گی۔ تھوڑے سے وقت کی تکلیف تھی وہ تو گزر گئی۔ اس کے نتیجہ میں کس قدر انعام ملا۔ آج تمام سادات اور قریش اور یہود اور دیگر اقوام اپنے آپؑ کو ابراہیم کا فرزند کہتے ہیں۔ گھڑی دو گھڑی کی بات تھی وہ تو ختم ہو گئی اور اتنا بڑا انعام ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ416تا417 اڈیشن 1988ء)

نصرت الٰہی

اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ہر گز بے یار و مدد گار نہ چھوڑا۔ مثلاً جہاں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ طرز کلام کا ذکر ہوا ہے وہاں نصرت الٰہی کا بھی عظیم الشان ثبوت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بڑی حکمت سے حضرت ابراہیمؑ کی نمرود سے بحث کا واقعہ بیان کرنے سے پہلے یہ وعدہ کیا ہے: اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ (البقرہ: 258) اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے۔ وہ ان کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔

پس اس آیت کے بعد حضرت ابراہیم کی نمرود سے بحث کا واقعہ لا کر اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کا ثبوت بھی فراہم کر دیا کہ جب بھی میرے لوگ کسی مشکل میں ہوتے ہیں تو میں ضرور ان کے ساتھ ہوتا ہوں۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ594)

اسی نصرت الٰہی کا ثبوت ہمیں حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کے بیشتر مواقعے پر بھی نظر آتا ہے۔ ایک دفعہ مخالفین نے آپؑ کو آگ میں ڈال دیا۔ مگر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اس وقت ہم نے کہا کہ: يَا نَارُ كُوْنِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيْمَ (الانبیاء: 70) اے آگ! تو ٹھنڈی پڑ جا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر۔

اس آگ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ایک اور موقعے پر حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کا ایک واقعہ بیان فرمایا:
’’جب دھرم پال کا یہ اعتراض آیا کہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ ٹھنڈی ہوئی تھی تو دوسروں کے لئے کیوں نہ ہوئی اور اس پر حضرت خلیفہ اول کا جواب سنایا گیا کہ اس جگہ ’’نار‘‘ سے ظاہری آگ مراد نہیں بلکہ مخالفت کی آگ مراد ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا اس تاویل کی کیا ضرورت ہے؟ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کہا ہے۔ اگر لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کس طرح ٹھنڈی ہوئی تو وہ مجھے آگ میں ڈال کر دیکھ لیں کہ آیا میں اس آگ میں سے سلامتی کے ساتھ نکل آتا ہوں یا نہیں؟‘‘

(خطبہ جمعہ 16؍جنوری 1959ء مطبوعہ خطبات محمود جلد39 صفحہ318-319)

پھر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقعے پر مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’يَا نَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا کے ایک یہ بھی معنی ہیں کہ ابراہیم ایسے مقام پر کھڑا ہوا تھا کہ ہم نے فیصلہ کر دیا تھا کہ ہماری راہ میں اس کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ اس کا ایمان اتنا مضبوط ہے کہ جو بھی تکلیف کوئی مخالف پہنچائے گا اسے خوشی سے قبول کرے گا اور خوش ہو گا کہ اسے خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنے کا ایک اَور موقع میسر آ گیا۔ ایسے لوگوں کے لئے دوزخ ناممکن ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جس کو تکلیف میں راحت محسوس ہونے لگ جائے اُس کو دشمن کیا تکلیف پہنچائیں گے۔ اگر خدا تعالیٰ جنت میں ڈالے گا تو وہ اس کے لئے جنت ہو گی اور اگر دشمن اسے دوزخ میں ڈالیں گے تو وہ بھی اس کے لئے جنت ہو گی۔ اگر وہ اسے کوئی دکھ دیں گے تو وہ اس کے لئے راحت کا موجب ہو گا۔ ایسے لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے جب آئے گی جنت ہی آئے گی اور لوگوں کی طرف سے جو دکھ ہوں گے وہ جنت ہی پیدا کریں گے۔ یہی لوگ ہیں جن کے ماتھوں پر فتح سوار ہوتی ہے اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوتے ہیں‘‘

(خطبہ جمعہ 28 ستمبر 1945ء مطبوعہ خطبات محمود جلد26 صفحہ388-389)

ان ابتلاؤں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت سے آپؑ کو بچائے رکھا اور قدم قدم پر آپؑ کی حمایت کی۔ آپؑ کی زندگی میں نصرت الٰہی کے نظارے بھی آپؑ کی قرب الٰہی کا کامل ثبوت ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ انہی نظاروں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ابراہیم علیہ السلام چونکہ صادق اور خدا تعالیٰ کا وفا دار بندہ تھا اس لئے ہر ایک ابتلا کے وقت خدا نے اس کی مدد کی جبکہ وہ ظلم سے آگ میں ڈالا گیا خدا نے آگ کو اس کے لئے سرد کر دیا اور جب ایک بد کردار بادشاہ ان کی بیوی سے بد ارادہ رکھتا تھا تو خدا نے اس کے ان ہاتھوں پر بلا نازل کی جن کے ذریعہ سے وہ اپنے پلید ارادہ کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ پھر جبکہ ابراہیم نے خدا کے حکم سے اپنے پیارے بیٹے کو جو اسماعیل تھا ایسی پہاڑیوں میں ڈال دیا جن میں نہ پانی نہ دانہ تھا تو خدا نے غیب سے اس کے لئے پانی اور سامانِ خوراک پیدا کر دیا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ52)

اوصاف کریمہ

حضرت ابراہیمؑ کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیۡفًا ؕ وَلَمۡ یَکُ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ (النحل: 121) یقیناً ابراہیم (فی ذاتہ) ایک امت تھا جو ہمیشہ اللہ کا فرمانبردار، اسی کی طرف جھکا رہنے والا تھا اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھا۔

اس آیت میں آپؑ کی صفات کا خاص ذکر ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں 6 صفات کا ذکر کیا ہے:
حضرت ابراہیمؑ معلم الخیر تھے۔ یعنی دنیا کو نیکی کی تعلیم دیتے تھے۔ وہ جامع الخیر تھے۔ آپؑ کو امّت کا لقب دے کر بتا دیا کہ سب قسم کے اخلاق فاضلہ آپؑ میں پائے جاتے تھے۔

نہایت اعلیٰ فطرت رکھتے تھے جو زبردست نمو کی قوتیں پوشیدہ رکھتی تھی جس سے امتوں کا پیدا ہونا ممکن تھا۔

وہ قانت تھے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے اور دعائیں کرنے والے تھے۔

وہ حنیف تھے۔ یعنی زبردست قوۃ مقادمت رکھتے تھے اور کبھی حق کے راستہ سے دوسری طرف مائل نہ ہوتے تھے۔

وہ مشرک نہ تھے اور توحید پر کامل طور پر قائم تھے۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد4 صفحہ267)

پھر اللہ تعالیٰ اگلی آیت میں فرماتا ہے کہ: شَاكِرًا لِّأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ (النحل: 122) اس کی (یعنی اللہ تعالیٰ کی) نعمتوں کا شکر کرنے والا تھا۔ اس (اللہ) نے اسے چن لیا اور اسے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دی۔ حضرت ابراہیمؑ شکر گزار تھے۔ اپنی خوبیوں کو اپنی طرف ہر گز منسوب نہ کرتے تھے بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعما سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں چن لیا اور ہدایت کی اعلیٰ راہیں انہیں دکھا دیں۔ ان آیات میں مسلمانوں کو حضرت ابراہیمؑ کے اوصاف کریمہ اپنانے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ابراہیمؑ کی طرح بننا۔ جو اوصاف ان کے ہیں، وہ اپنے اندر پیدا کرنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جو سلوک ہم نے ابراہیمؑ کے ساتھ کیا تھا وہی تمہارے ساتھ کریں گے۔

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ269)

وہ سلوک کیا تھا؟ اگلی آیت میں بیان فرمایا: وَآتَيْنَاهُ فِي الْدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِيْنَ (النحل: 123) ہم نے اسے دنیا میں حسنہ عطا کی اور آخرت میں وہ یقیناً صالحین میں سے ہو گا۔

آپؑ کی زندگی میں ہی آپؑ کے تخم سے تین انبیاء کی ولادت ہوئی۔ خدا تعالیٰ نے انہیں دو بیٹے دئیے۔ دونوں پاک ذات تھے اور دونوں نبی بنے۔ آپؑ کے پوتے اور پڑ پوتے بھی نبی کے مقام پر فائز ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ آنحضرتﷺ کو بھی آپؑ ہی کی نسل میں سے مبعوث کرے گا۔ اس طرح آپ نے دنیا میں بہت اجر پایا۔

(تفسیر کبیر جلد7 صفحہ572)

آخر کار اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيْمَ حَنِيْفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (النحل: 124) پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ تُو ابراہیمِ حنیف کی ملت کی پیروی کر اور وہ مشرکین میں سے نہ تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے لفظ ابراہیم کے وصفی معنی ایمانداروں اور مقدسوں کا باپ بتائے ہیں۔

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ335)

پس یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں فرمایا کہ ان اوصاف کریمہ کی پیروی کرتے رہنا اور تمہیں بھی یہی انعامات نصیب ہوں گے۔

کامل فرمانبرداری

قرآن کریم نے حضرت ابراہیمؑ کی سچی اور کامل فرمانبرداری کی بھی تعریف کی ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ: إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ (البقرہ: 132) جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم سے کہا کہ فرمانبردار بن جا۔ تو (بے ساختہ) اس نے کہا میں تو تمام جہانوں کے رب کے لئے فرمانبردار ہو چکا ہوں۔

اس فرمانبرداری کا یہ درجہ تھا کہ گویا حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا میرا جسم اور میری روح اور میرے خیالات اور میرے ارادے سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی جان وقف کر رکھی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت ابراہیمؑ کی فرمانبرداری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ابراہیم علیہ الصلوٰۃ السلام کی اولاد بھی دیکھو کس قدر کثرت سے ہوئی کہ کوئی گن نہیں سکتا۔ مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا خیال اَور طرف تھا بلکہ ہر حال میں خدا ہی کی طرف رجوع تھا۔ اصل اسلام اسی کا نام ہے جو ابراہیم کو بھی کہا کہ أَسْلِمْ جب ایسے رنگ میں ہو جاوے تو وہ شیطان اور جذباتِ نفس سے الگ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ خدا کی راہ میں جان تک کے دینے میں بھی دریغ نہ کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ601 ایڈیشن 1988ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے حضرت ابراہیمؑ کی کامل فرمانبرداری کے اجر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایک وسطی راہ اختیار کرنا جس میں افراط تفریط نہ ہو ابراہیمی ملت ہے مومن کو یہی راہ اختیار کرنا چاہیے اور میں خدا کی قسم کھا کر شہادت دیتا ہوں کہ ابراہیمؑ کی چال اختیار کرنے سے نہ تو غریب الوطنی ستاتی ہے نہ کوئی اور حاجت۔ نہ انسان دنیا میں ذلیل ہوتا ہے نہ آخرت میں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِيْنَ (البقرہ: 131) وہ دنیا میں بھی برگزیدہ لوگوں سے تھا اور آخرت میں بھی۔

ابراہیمؑ نے جن باتوں سے یہ انعام پایا کہ دنیا و آخرت میں برگزیدہ اور اعلیٰ درجہ کا معزّز انسان ہوا وہ بہت لمبی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ایک ہی لفظ میں سب کو بیان کر دیا کہ: إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ (البقرہ: 132)‘‘

(حقائق الفرقان جلد1 صفحہ241-242)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’صالحین بھی ہزاروں درجے کے ہیں اور شہداء بھی ہزاروں درجے کے ہیں اور صدیق بھی ہزاروں درجے کے ہیں اور نبی بھی ہزاروں درجے کے ہیں مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام صرف نبی نہیں بلکہ ابوالانبیاء ہو جاتے ہیں اور خدا انہیں کہتا ہے أَسْلِمْ اور ابراہیم کہتا ہے أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ پس اس جگہ أَسْلِمْ سے مراد مسلمان ہونا نہیں بلکہ أَسْلِمْ سے مراد کامل فرمانبردار ہونا ہے۔ گویا خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اے ابراہیم تو ہمارا کامل فرمانبردار ہو جا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا خدایا میں ہو گیا۔ یہ أَسْلِم والا مقام وہی ہے جب نفس کے اندر جذبات پیدا ہوتے ہیں وہ خدا کے لئے قُربان ہو جاتے ہیں اس کے اندر سے کوئی آواز نہیں اُٹھتی۔ سب آوازوں کا اُٹھنا بند ہو جاتا ہے اور انسان اپنے رب کا کامل فرمانبردار ہو جاتا ہے۔ یہ مقام کوئی معمولی مقام نہیں ہے…‘‘

(خطبہ جمعہ 8؍ستمبر 1939ء مطبوعہ خطبات محمود جلد20 صفحہ381)

(باقی 31؍اکتوبر کو ان شاءاللّٰہ)

(جاذب محمود۔ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

جنت کی کہانی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2022