• 29 اپریل, 2024

صداقتِ مسیح موعودؑ کے دو عظیم الشان معیار

سیدنا وامامنا حضرت مسیح موعود مہدی معہود مرزا غلام احمدصاحب قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی اور صداقت کے ان گنت زمینی و آسمانی اور آفاقی نشان دنیا کے ہر برا عظم بلکہ ہر ملک اور ہر شہر میں پھیلے ہوئے ہیں جنہیں پاک دل، پاک نظر، پاک فطرت، نگاہِ بصیرت سے دیکھ کر آسمانی نور سے اپنے قلب و نظر کو منور کرتے ہیں اور اس ماہتاب خداوندی سے فیض یاب ہوتے ہیں جو اس تاریکی کے زمانہ کا نور ہے اور جو امن اور حلم اور سلامتی کے ساتھ دنیا کی سچے خدا کی طرف رہبری کرنے کے لئے نازل ہوا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں ہی ہوں۔ جوشخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں۔ مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا میں امن اور حلم کے ساتھ دنیا کو سچے خدا کی طرف رہبری کروں اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کردوں اور مجھے اس نے حق کے طالبوں کی تسلّی پانے کے لئے آسمانی نشان بھی عطا فرمائے ہیں۔‘‘

(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد15 صفحہ13)

ان آسمانی نشانوں میں سے دو کا ذکر کرنا مقصود ہے جس کی سچائی کو ہر موافق و مخالف خواہ وہ عرب کا رہنے والا ہو یا عجم کا۔ یورپ کا رہنے والا ہو یا ایشیاء کا امریکہ کا رہنے والا ہو یا آسٹریلیا کا، گورا ہو یا کالا، سفید ہو یا سرخ جب چاہے آزما سکتا ہے۔ وہ نشان کیا ہیں؟

حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی فرماتے ہیں:
’’سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے عہد سعادت کا ذکر ہے کہ حضور اقدسؑ احمدیہ بلڈنگس لاہور میں قیام فرما تھے۔ نماز عصر مسجد میں ادا فرما کر جب حضور باہر تشریف لائے تو حضور کی معیت میں بہت سے احباب تھے یہ عاجز بھی بارگاہ اقدس میں حاضر تھا۔ آپ جب جنوبی جانب مسجد کی دیوار کے پاس پہنچے توایک صاحب نے عرض کیا کہ حضور! مولوی ظفر علی خاں ایڈیٹر اخبار زمیندار ایک مجلس میں بطور اعتراض کے کہہ رہے تھے کہ مہدی، مسیح اور نبی، رسول ہونے کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے لیکن صداقت کے ثبوت کے لئے کوئی نشان بھی پیش نہیں کیاجاتا۔ حضور اقدس نے یہ سن کر فرمایا کہ ہماری صداقت کو معلوم کرانے کے لئے خداتعالیٰ نے ہزار ہا نشانات اور معجزات دکھائے ہیں۔ طالبان ہدایت کی تسلی کے لئے ایک عظیم الشان نشان اِنِّیْ مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ وَ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کا الہام بھی ہے یعنی یہ کہ جو شخص میری اعانت کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی اعانت کرنے والا ہو گا اور جو شخص میری اہانت کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی اہانت کرنے والا ہو گا۔ پس جو چاہے اس معیار کے رُو سے بھی میری سچائی کا کھلا کھلا نشان دیکھ لے۔

(حیات قدسی جلد3 صفحہ153)

سو ہر وہ شخص جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں بسنے والا ہو یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدق و کذب کو پرکھنے کے لئے اور معیاروں کی طرف دوڑتا ہے آپؑ کی صداقت کو جانچنے کے لئے آپؑ کی یہ وحی ہی اس کے لئے بطور معیار کافی ہے۔

اب میں آپ کے سامنے چند مختلف واقعات پیش کرتا ہوں جس سے واضح ہوجائے گا کہ آپؑ کی اعانت کرنے والے کس طرح خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوئے اور اہانت کرنے والے اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار ہوئے۔

حضرت میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل بیان کرتے ہیں:
’’ایک دفعہ جب کہ حضور ؑگورداسپور میں تھے۔ ظہر کی نماز پڑھ چکے تھے۔ گرمی کا موسم تھا اور دو بجے کا وقت میں حضور ؑکو پنکھا کر رہا تھا حضورؑ ایک کرسی پر تشریف فرما تھے۔ اس کرسی کے پیچھے کئی بنچ تھے کچھ لوگ ان پربیٹھے تھے۔ کچھ چاروں طرف کھڑے تھے حلقہ باندھے ہوئے۔ حضورؑ کی کرسی کے پاس ہی چندو لال مجسٹریٹ کی میز تھی۔ اچھی بڑی میز تھی۔ پہلے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے گواہی دی پھر حضرت صاحب سے اس نے پوچھا کہ آپ کا الہام ہے۔ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ اگر میں آپ کی توہین کروں تو ……؟ حضور نے فرمایا۔ یہ خدا کا کلام ہے خواہ آپ بھی کریں…

اس پر خواجہ کمال الدین صاحب نے کہا یہ وہ پتھر ہے جس پر گرے گا وہ بھی چکنا چور اور جو اس پر گرے گا وہ بھی چکنا چور۔‘‘

(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ122)

حضرت میاں معراج دین صاحب پہلوان بیان کرتے ہیں:
’’ایک شخص پیر بخش نام کا ہوا کرتا تھا۔ رسالہ تائید الاسلام کا ایڈیٹر تھا۔ ایک دفعہ اس نے ہماری دوکان پر کہا کہ تم کہا کرتے ہو اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ مرزا صاحب کا الہام ہے۔ میں ایک لمبے عرصہ سے توہین کر رہا ہوں۔مجھے کچھ نہیں ہوتا۔ شیخ عطاء اللہ صاحب نے ہمیں کہا کہ آج کی تاریخ نوٹ کر لو۔ یہ شخص پکڑا گیا ہے۔ بڑا امیر آدمی تھا۔ اس کا لڑکا حکومت افغانستان کی طرف سے ولایت میں ایک مشینری خریدنے گیا ہوا تھا کہ وہاں ہی مر گیا۔ جب اس کی وفات کی خبر پیر بخش کو پہنچی تو وہ خبر اس پر بجلی بن کر گری۔ چنانچہ اسے فالج ہو گیا اور اسی مرض میں مبتلا ہو کر وہ مرگیا۔‘‘

(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ253)

حضرت میاں عبدالرشید صاحب بیان کرتے ہیں:
’’ہمارے گھر کے سامنے ایک پہلوان رہا کرتا تھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں بہت گستاخیاں کیا کرتا تھا، کہا کرتا تھا کہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ آپ کے جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے۔ چند دن کی بات ہے۔ رات نہانے کے بعد گیلا کپڑا سکھانے کے لئے اس نے اپنے مکان کی دوسری منزل پر کھڑے ہو کر سامنے کے درخت پر کپڑا ڈالنا چاہا مگر پاؤں جو پھسلا تو دھڑام سے گلی کے فرش پر گرا۔ صبح جب میں دفتر جانے لگا تو پولیس پہنچ چکی تھی۔ جب چار بجے واپس آیا تو تفتیش مکمل ہونے کے بعد میرے سامنے اس کی لاش پر سے کپڑا اٹھا یا گیا یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ سخت گرمی کا موسم ہونے کی وجہ سے سارا جسم کیڑوں سے بھرا ہوا تھا۔‘‘

(لاہور تاریخ احمدیت از شیخ عبدالقادر صفحہ264-265)

دوالمیال ضلع چکوال کا ایک مشہور و معروف قصبہ ہے۔ جہاں جماعت احمدیہ کی کثیر تعداد رہائش پذیر ہے۔ جماعت احمدیہ کی خوبصورت مسجد بھی ہے اور مینارۃ المسیح کی طرز کا خوبصورت مینار بھی ہے۔

یہاں ایک مولوی محمد شاہ نام کا بوہڑ والی مسجد میں امام بن کر آیا۔ احمدیت کا سخت مخالف تھا اور غلیظ زبان استعمال کرتا تھا۔ بلکہ بڑے بڑے مخالف مولویوں کو بلا کر تقریریں کرواتا اور کہا کرتا تھا کہ میں احمدیت کے پودے کو دوالمیال سے اکھاڑ پھینکوں گا وہ مسلسل احمدیوں کے خلاف زہر اگلتا رہا۔ ایک عرصہ تک اللہ تعالیٰ نے اسے ڈھیل دی اور پھر خدا کے قہار کی تقدیر نے اُسے گھیر لیا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کا شکار ہو گیا۔ جب خدا کی پکڑ میں آیا تو پہلے اس کی بیوی نے کسی اور کے ساتھ نکاح پڑھا لیا۔ پھر اس کی بیٹی کسی کے ساتھ چلی گئی۔ اسے بوڑھ والی مسجد سے بھی نکال دیا گیا۔ وہ جو احمدیت کا پودا اکھیڑنے آیا تھا خود اس کا ستیاناس ہو گیا اور بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنے اس دنیا سے رخصت ہو گیا اور احمدیت کا پودا جو خدا کے ہاتھ کا لگا یا ہوا ہے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔

(تاریخ احمدیت چکوال صفحہ558)

محترم شیخ محمد صدیق صاحب بانی بیان کرتے ہیں کہ چنیوٹ کے ایک شیخ صاحب جو بچپن میں عرب چلے گئے تھے اور جوانی میں وطن واپس لوٹے وہ دارجیلنگ (جو مغربی بنگال میں کوہ ہمالیہ کا ایک خوبصورت اور صحت افزاء مقام ہے) اپنے عزیزوں سے ملنے آئے اور ان عزیزوں کی ایک لڑکی شیخ صاحب کو پسند آگئی۔ انہوں نے سوچا کیوں نہ شادی کے لئے پیغام دے دوں۔ انہوں نے پلان بنایا کہ یہاں پر احمدیوں کے خلاف ایک پمفلٹ شائع کروں اس طرح سے میری واہ واہ ہو جائے گی تب انہوں نے ایک پمفلٹ شائع کیا اور نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ باتیں لکھیں۔ احمدی دوستوں کو بہت دکھ ہوا اور جن کے گھر وہ شیخ صاحب ٹھہرے ہوئے تھے ان سے شکایت کی لیکن شکایت کا انہوں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ احمدیوں نے اس پمفلٹ کے متعلق ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کی خدمت میں درخواست دی۔ صاحب بہادر نے یہ کہہ کر درخواست واپس کر دی کہ یہاں پر احمدیوں کی تعداد بہت کم ہے اور کسی قسم کے نقص عامہ کا خطرہ نہیں ہے۔ احمدی بیچارے کر بھی کیا کر سکتے تھے سوائے اس کے کہ اپنے مولیٰ کریم کے حضور التجا کرتے اور فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتے۔ شیخ جی کی بڑی دعوتیں ہوئیں اور عرب صاحب کے نام سے بہت مشہور ہوئے اور جہاں وہ چاہتے تھے ان کی شادی ہو گئی شادی کے بعد شیخ صاحب اپنی اہلیہ کو لے کر واپس عرب چلے گئے اور خانہ کعبہ میں اپنی بیگم صاحبہ کو لے جا کر کہنے لگے قسم کھاؤ! کہ تم پاک دامن ہو۔ یہ سن کر لڑکی کا پارہ چڑھ گیا اور دونوں میں جھگڑا ہو گیا اور لڑکی نے کہا مجھے طلاق دے کر واپس دارجیلنگ میرے ماں باپ کے پاس چھوڑ آؤ۔ شیخ جی دارجیلنگ آئے اور لڑکی کو طلاق دے کر واپس چلے گئے۔ اس سے لڑکی والوں کی بہت بدنامی ہوئی اور وہ احمدیوں کے پاس آئے اور معافی مانگنے لگے۔ شیخ جی دارجیلنگ سے بے عزت ہو کر نکالے گئے واپس چنیوٹ آ رہے تھے کہ کلکتہ میں حادثہ ہو گیا وہ ایک سڑک کراس کر رہے تھے کہ اچانک ایک طرف سے بس آ گئی اور دوسری سمت سے ٹرام آ گئی اور شیخ صاحب المعروف عرب صاحب کی ایک ٹانگ بس میں اور دوسری ٹرام میں پھنس گئی اور وہ درمیان سے چیر گئے۔ سڑک پر ان کی لاش کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں تھا۔

اللہ اللہ! دیکھا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے والے کا انجام۔

اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دکھانا
گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے

(سعادتیں، یادوں کے آئینہ میں از ضیاء الدین حمید ضیاء صفحہ53-54)

مولانا منور احمد خورشید صاحب لکھتے ہیں:
’’یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں گیمبیا کے قصبہ فرافینی میں بطور مشنری متعین تھا۔ وہاں میرے ہمسایہ میں ایک گیمبین کرایہ دار رہتے تھے۔ وہ کسٹم کے محکمہ میں آفیسر تھے ان کا نام احمدو تھا۔ روزانہ ہی آتے جاتے ان سے ملاقات ہو جاتی تھی بظاہر بڑے سلجھے ہوئے آدمی لگتے تھے بطور ہمسایہ ان کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔ جب کبھی ملاقات ہوتی بڑے تپاک سے ملتے۔ ایک روز میں کسی کام کی غرض سے ان کے پاس گیا۔ مختلف موضوعات پرباتیں ہوتی رہیں۔ اس دوران ان کے ایک مہمان نے مجھ سے جماعت کے بارہ میں کچھ سوالات کئے۔ اس پر جب میں نے اس سائل کے جوابات دینے شروع کئے تو میں نے محسوس کیا کہ احمدو کے چہرے پر ناخوشگواری کے آثار مترشح ہیں۔

تھوڑی دیر کے بعد اس احمدو نے اپنی لوکل زبان وولف میں سوال کرنے والے دوست سے بات کرنی شروع کر دی اور اسے بتایا کہ ان لوگوں سے ان مسائل پر کبھی بھی بات نہیں کرنی چاہئے یہ لوگ بڑے شاطر ہیں آپ کو بڑے آرام سے اپنی غلط بات بھی منوا لیں گے پھر اس نے اپنے ساتھی کو جماعت سے مزید متنفر کرنے کی خاطر حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اقدس کے خلاف پاکستانی مولویوں کی خود ساختہ ایک جھوٹی اور گندی سی بات بتانی شروع کی۔ مجھے اس شخص کے معاندانہ رویہ اور منافقانہ انداز سے سخت تکلیف ہوئی۔ میں وہاں سے واپس اپنے گھر آ گیا لیکن اس افسوسناک واقعہ کا میرے دل و دماغ پر بہت زیادہ گہرا اثر ہوا۔ اس واقعہ کے چند دن بعد وہ فرافینی سے اپنی فیملی کے پاس بانجو ل چلا گیا۔ اس کا طریق تھا کہ ہر مہینہ اپنی فیملی کو ملنے جایا کرتا تھا۔

اس دفعہ جب بانجول گیا تو کافی عرصہ تک وہ واپس نہ آیا۔ اس دوران اس کے باقی رفقاء کار سے ملاقات ہوتی رہی۔ تقریباً دو ماہ کے بعد واپس فرافینی آیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ تو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہے۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ گزشتہ دنوں اپنی فیملی کو ملنے بانجول گیا ہوا تھا وہاں پر مجھے بخار ہو گیا۔ ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے یہ بتایا ہے کہ مجھے ایڈز کی مہلک بیماری لگ گئی ہے جس کی وجہ سے میں بہت پریشان تھا۔ اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد واپس بانجول چلا گیا اس کے بعد کبھی واپس فرافینی نہیں آسکا اور چند ماہ کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

(ارض بلال۔ میری یادیں از منور احمد خورشید صفحہ 84-85)

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ فرماتے ہیں:
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت کی بات ہے کہ خاکسار موضع سعد اللہ پور میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل بیان کر رہا تھا کہ وہاں چوہدری فضل داد صاحب جو موضع چکریاں کے زمینداروں میں سے تھے۔ آ نکلے۔ ان کی طبیعت میں کبر اورتحکم کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے۔ تو کیا مرزا مرزا کر رہا ہے۔ مرزا کے سواتجھے کچھ سوجھتا ہی نہیں اور حضرت اقدس کی شان میں بہت سے توہین آمیز الفاظ انہوں نے استعمال کئے۔ میں نے کہا کہ آپ نے حضرت مرزا صاحب کے متعلق جو باتیں سنی ہیں وہ دشمنوں اور مخالفوں کی زبان سے سنی ہیں۔ جو حضرت مرزا صاحب سے دُور رہتے ہیں اور سوائے کورانہ تقلید کے اور کچھ نہیں جانتے۔ جس طرح یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے غلط خیالات اور تصورات کی وجہ سے انکار کیا اور آپ کی ذات والا صفات پر طرح طرح کے اعتراضات کئے اور اس میں عیوب و معائب نکا لے تا کوئی شخص آپ پر ایمان نہ لاسکے۔ یہی حالت ان مخالفین کی ہے۔ حضرت مرزا صاحب کے پاس نہ تلوار ہے کہ وہ لوگوں کو مرعوب کر کے ایمان لانے پر مجبور کریں اور نہ آپ کے پاس مال و منال ہے کہ طبع اور لالچ دیں۔ پس جوشخص آپ پر ایمان لاتا ہے وہ علم صحیح اور جوش و اخلاص اور حسن نیت سے ایسا کرتا ہے اور آپ کی جماعت کا دن بدن بڑھنا اور با وجود انتہائی مخالفت کے بڑھنا آپ کی صداقت اور منجانب اللہ ہونے کا ایک بین ثبوت ہے۔

یہ سن کر چو ہدری فضل داد صاحب نے نہایت ہی کبر سے کہا کہ ’’تمہیں مرزا کے ذریعہ سے کون سی بزرگی اور برکت ملی ہے جو ہمیں میسر نہیں اور ہم اس سے محروم ہیں‘‘

میں نے جواباً عرض کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہوں گے۔ تو وہ خدا تعالیٰ کی مقدس وحی کی روشنی میں امت کے اختلافات کا فیصلہ کریں گے اور سب فرقوں میں سے سعید روحیں اور نیک دل لوگ آپ کے فیصلہ کوقبول کر کے آپ کی معیت اختیار کریں گے۔

پس آج خدا تعالیٰ کے فضل سے مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور پر جہاں بہتر فرقے آباؤ اجداد کی کورانہ تقلید سے آسانی فیصلے کا انکار کر رہے ہیں۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے تو فیق بخشی کہ ہم نے آسمانی فیصلہ کو قبول کیا اور امام وقت کی بیعت کر کے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو مانا۔

پس ہمیں حضرت مرزا صاحب پر ایمان لا کر علم صحیح اور عقائد حقہ کی نعمت حاصل ہوئی۔ اعمال صالحہ بجالانے کی توفیق ملی۔ ہمیں آپ کے ذریعہ سے بے شمار آسمانی اور زمینی نشانات مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملا اور خدا تعالیٰ کی ہستی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر پختہ اور کامل یقین حاصل ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کر کے ہم زنده خدا کی تجلیات کے مورد اور زندہ رسول کی برکتوں کے وارث بنے۔

چوہدری فضل دادصاحب بجائے اس کے کہ میری باتوں کو سن کر کوئی استفسار کرتے۔ اپنے پہلے فقرات کو ہی دہرانے لگے۔ چوہدری اللہ داد صاحب نے بھی ان کو سمجھایا اور بے جا کلمات کے استعمال سے روکا۔ لیکن وہ باز نہ آئے اور کہنے لگے کہ یہ ’’مرزائی میرا کیا بگاڑ سکتا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ چوہدری صاحب! ہمارے مقتدا و پیشوا اور ان کی جماعت کا مقصد بگاڑنا نہیں۔ بلکہ بنانا ہے۔ پس ہماری تو یہی خواہش ہے کہ آپ کا اور آپ کے متعلقین کا بھی کچھ نہ بگڑے۔ یہ سن کر چوہدری صاحب غضب آلود لہجے میں بولے کہ ’’ہمیں تم سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی تمہارے مرزاسے کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ تو نے ہمیں کیا سمجھا ہے؟ ہم کسی کے محتاج نہیں۔‘‘

میں نے عرض کیا کہ چوہدری صاحب! انسان الله تعالیٰ کا تو ہر وقت اور ہر آن محتاج ہے۔ بلکہ عالم موجودات کا ذرہ ذرہ اس کامحتاج ہے۔ انفسی طور پر بھی اور آفاقی طور پر بھی۔ اگر اس کے قویٰ، حواس اور اعضاء میں سے کوئی جاتا رہے یا اس میں اختلال واقع ہو جائے تو انسان اس نقصان کی تلافی محض اپنے ارادہ اور طاقت سے نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ہوا، پانی، آگ وغیرہ کی ہر وقت انسان کو ضرورت ہے۔

یہ سن کر چو ہدری فضلد اد کہنے لگے۔ ’’سن او مرزائیا! میں تجھے اور تیرے مرزا کو کچھ نہیں سمجھتا۔ میری گاؤں میں بڑی جائیداد ہے اور ایک وسیع قطعہ اراضی کا مالک ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ کیا آپ کی جائیدادمصر کی مملکت سے بھی زیادہ ہے۔ کہنے لگے کہ اتنی نہ سہی۔ لیکن پھر بھی ایک گاؤں کے بہت سے حصہ کا مالک ہوں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ دنیوی حکومت کو لگان نہ دیں تو وہ آپ کو اس اراضی سے بے دخل کر سکتی ہے تو خدائے ذوالجلال کی حکومت کیا کچھ نہیں کرسکتی۔ کیا اس کے اختیار میں نہیں کہ جس کو چاہے حکومت کے تخت پر فائز کرے اور جس کو چاہے حکومت سے بے دخل کر دے۔ اس پر چوہدری صاحب کہنے لگے کہ ’’کیا تُو اور تیرا مرزا خدا ہیں۔ جو مجھے میری مملکت سے بے دخل کر دیں گے۔‘‘

میں نے عرض کیا کہ میں اور میرے پیشوا کسی کو جائیداد سے بے دخل کرنا نہیں چاہتے۔ بلکہ ہماری یہ خواہش ہے کہ دنیوی حسنات کے ساتھ اخروی بر کات بھی لوگوں کو حاصل ہوں۔ ہاں جوشخص خدا کے مقدس اور برگزیده ماموروں کی توہین کا ارتکاب کرتا ہے۔ وہ خدائی گرفت میں بھی آتا ہے اور حضرت مرزا صاحب کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کا خاص وعدہ ہے۔ کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ یعنی جو آپ کی اہانت کا ارادہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کرےگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی غیرت ہے جو وہ اپنے پاک مسیح کے لئے رکھتا ہے۔

یہ سن کر چوہدری صاحب کہنے لگے۔ کہ ’’تمہیں کچھ طاقت حاصل ہے تو میرا کچھ بگاڑ کر دکھاؤ۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ میں تو آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا لیکن اگر آپ کی یہی خواہش ہے تو اس کو پورا کرنے والی ایک ہستی ایسی ہے۔ جو اپنی حکمت اور مصلحت سے ایسا بھی کر سکتی ہے۔ اس پر چوہدری صاحب اُونچی آواز سے دشنام طرازی کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے کہ ’’اس میرزائی کا فر کو میں کیا سمجھتا ہوں اور یہ کیا چیز ہے۔‘‘ وہاں سے چلے گئے۔

اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ اس اہانت آمیز گفتگو کے چند روز بعد چوہدری صاحب مذکور لاہور گئے اور وہاں جاتے ہی ایک طوائف کے چنگل میں پھنس گئے اور اس کو طرح طرح کے سبز باغ دکھا کر اپنے گاؤں موضع چکر یاں میں لے آئے۔ وہ عورت کچھ عرصہ تک وہاں رہی اور چوہدری فضل داد کی عزت و دولت بر باد کر کے واپس لاہور چلی گئی۔

جو خطیر رقم اِدھر اُدھر سے اکٹھی کر کے چوہدری فضل داد نے اس عورت پر خرچ کی تھی اب اس کی واپسی کا تقاضا شروع ہوا اور ان کے خلاف مقدمہ کی صورت پیدا ہوگئی یہاں تک کہ اس ذلت آمیز حالت میں ان کو اپنے آبائی وطن سے روپوش ہونا پڑا اور وہ جائیداد جس پر ان کو بڑا ناز تھا کچھ اس ساحرہ نے لوٹ لی اور باقی مقدمات کی نذر ہوگئی۔ غرضیکہ وہ تھوڑے ہی عرصہ میں ہر طرح کی ذلت اور نکبت کا شکار ہو گئے۔ فَاعْتَبِرُوْا يَا اُولِي الْاَ بْصَار۔

(حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ12-15)

حضرت خلیفہ اولؓ کی عظیم الشان کرامت

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی فرماتے ہیں:
1912ء میں خاکسار خواجہ کمال الدین صاحب کے ساتھ ایک جلسہ میں شمولیت کے لئے آگرہ گیا ہوا تھا۔ اسی اثناء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی الله عنہ وارضاہٗ کی طرف سےخواجہ صاحب کے نام تار پہنچا کہ خاکسار کو فوری طور پر وہ دہلی پہنچا دیں تا کہ وہاں سے حضرت میر قاسم علی صاحبؓ کی معیت میں میں مونگھیر (صوبہ بہار) کے مناظرہ میں شرکت کر سکوں۔ اس مناظرہ کے لئے مرکز سے حضرت علامہ مولوی سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ سیدھے مونگھیر روانہ ہو چکے تھے۔ چنانچہ خاکسار حضرت میر صاحبؓ کی معیت میں مونگھیرپہنچا۔

دہلی میں حضرت میر صاحبؓ نے حضرت کا خط دکھایا جس میں ارشاد تھا کہ دعا اور استغفار کثرت کے ساتھ کرتے جانا۔ چنانچہ خاکسار سفر کے دوران میں دعاؤں اور استغفار میں مشغول رہا۔ ابھی ہم دونوں سفر میں مونگھیر سے کچھ فاصلہ پر ہی تھے کہ مجھ پر کشفی حالت طاری ہوگئی میں نے دیکھا کہ میرا ہاتھ یکدم سفید ہو گیا ہے اور میں ایک محل پر چڑھ رہا ہوں پھر وہ حالت بدل گئی۔ مونگھیر شہر اسٹیشن پر احباب پیشوائی کے لئے موجود تھے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ہندوستان کے اطراف و جوانب سے تقریباً ڈیڑھ سو غیر احمدی علماء جمع ہیں۔

شرائط مناظره

جب شرائط مناظرہ طے ہونے لگیں تو غیر احمدی علماء نے محض ضد اور شرارت سے طبعی تر تیب کو چھوڑ کر اس بات پر زور دیا کہ احمدی مناظر پہلے عربی میں وفات مسیح کے دلائل پر پرچہ لکھے اور پھر اس عربی پر چہ کو معہ اردو ترجمہ اور تشریح کے حاضرین کو سنائے اس کے بعد غیر احمدی مناظر اپنا جوابی پر چہ لکھ کر سنائے۔ ان کے شدید اصرار پر آخر ہماری طرف سے یہ کہا گیا کہ اگر آپ نے اپنی بات پربہر حال اصرار ہی کرنا ہے اور طبعی ترتیب کوملحوظ نہیں رکھنا تو کم از کم یہ کیا جائے کہ دونوں مناظر بیک وقت عربی میں اپنا اپنا پر چہ لکھیں اور مکمل ہونے پر، ایک دوسرے کو تر دید کے لئے بھی دے دیں لیکن علمائے مخالفین نے حد درجہ کی ضد دکھائی اور اس کو بھی قبول نہ کیا اور اسی بات پر اصرار کیا کہ پہلے احمدی مناظر عربی میں پرچہ لکھے اور کہا کہ اگر احمدی علماء اس شرط کو نہ مانیں گئے تو تمام شہر میں منادی کرادی جائے گی کہ احمدی لوگ فرار ہو گئے۔

ان علماء کی اس بد دیانتی اور صورت ضد سے ہمیں بہت ہی تکلیف ہوئی۔ چنانچہ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان حالات میں کیا اقدام اٹھانا چاہئے۔ بعد مشورہ یہ طے ہوا کہ ہمیں یہ شرائط جو علماء مخالفین نے صحیح اصولوں کے خلاف محض بد دیانتی سے پیش کی ہیں مان لینی چاہئے۔ تا کہ ان کوجھوٹے طور پر بھی اپنی فتح کا نقارہ بجانے کا موقع نہ مل سکے۔ مناظرہ کی صورت میں کم از کم سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اور آپ کے دعویٰ اور اس کے دلائل کے پیش کرنے کا مجھے موقع تو میسر آ جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے شرائط کے ہوتے ہوئے بھی اعلا ئے کلمۃ اللہ کی توفیق عطا فرما دے۔

احمدی مناظر کا تقرر

اب یہ سوال تھا کہ اگر عربی میں پرچہ لکھنا پڑےتو احمدیوں کی طرف سے کون مناظر پیش ہو۔ اپنے احباب کی تحریک پر میں مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہوگیا۔

جب ہم وقت مقررہ پر میدان مناظر ہ میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مخلوق کا ایک اژدھام پنڈال میں جمع ہے۔ بعض کے اندازہ میں یہ مجمع 15ہزار کے قریب تھا اور بعض کے انداز ہ میں اس سے بھی زیادہ تھا۔ انتظام کے لئے پولیس کے اعلیٰ افسران تک موجود تھے۔ مناظرہ کی کارروائی کے لئے پانچ صدر مقرر کئے گئے دو احمدیوں کی طرف سے اور دو غیراحمدیوں کی طرف سے اور پانچواں صد را یک معزز ہندو تھا۔ جو شہر کا رئیس اور آنریری مجسٹریٹ بھی تھا۔

وقت مقررہ پر صدر اعظم نے مجھے پرچہ لکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ میں نے قلم دوات لے کر پرچہ عربی میں لکھنا شروع کیا اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تو فیق سے وفات مسیح کی چار پانچ آیتوں کے ساتھ ساتھ صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل بھی لکھ دیئے۔ پھر عربی عبارت کا اردو ترجمہ اور مفہوم بھی تحریر کیا۔ وقت ختم ہونے پر خاکسار پر چہ کو سنانے کے لئے اٹھا۔ کھڑے ہوتے وقت میں نے محسوس کیا کہ کوئی چیز آسمان سے اتری ہے اور میرے وجود اور قویٰ اور حواس پر مسلط ہو گئی ہے۔ وہ روح القدس کی روحانی بجلی کا نزول تھا۔

میری آواز زیادہ بلند تھی اور نہ ہی میں خوش الحان تھا۔ لیکن اس وقت سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی برکت اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی دعا و توجہ سے مجھے آسمانی تا ئید حاصل ہوگئی۔ میری آواز اس قدر بلند ہوئی کہ سارے مجمع میں آسانی سے سنائی دینے لگی اور مجھے خوش الحانی بھی عطا کی گئی۔ یہاں تک کہ مجھے اپنی آواز سے خودلذت اور سرور محسوس ہونے لگا اور مکرم حضرت خلیل احمد صاحب نے جب اس مناظرہ کی روئیداد شائع کی تو میری آواز کولحن داؤدی کے نام سے ذکر کیا۔

علماء مخالفین کی ناپسندیدہ حرکات

چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگوں پر میرے پر چہ اور اس کے مفہوم اورتشریح کا بہت اثر ہوا۔ میں نے ابھی پر چہ کا آٹھواں حصہ ہی پڑھا ہوگا کہ علماء مخالفین نے فتنہ انگیزی شروع کر دی اور شور مچانا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ یہ اپنا اثر ڈال رہا ہے اس کو صرف پرچہ پڑھ کر اس کو ختم کرنا چاہئے۔ ان کی ان بیجا حرکات کو دیکھ کر صدر اعظم نے ان کو تقریر کے دوران میں بولنے اور شور وغل ڈالنے سے منع کیا اور مجھے اپنے بیان کو جاری رکھنے کے لئے کہا۔ لیکن جب میں کچھ حصہ اور پڑھ چکا تو پھر ان دو غیر احمدی صدروں نے شور ڈالنا شروع کر دیا اسی طرح دو تین بار میری تقریر کے دوران میں غیر احمدیوں نے بیجا شور وغل مچایا تب صدر اعظم نے بہت ہی رنجیدہ ہو کر کہا کہ اگر غیر احمدی علماء اپنے اس بے جا طریق سے باز نہ آئے تو وہ مناظرہ ختم کر دیں گے اور اپنی صدارت سے مستعفی ہوجائیں گے۔ اسی دوران میں احمدی صدر حضرت میر قاسم علی صاحبؓ نے بھی نہایت قابلیت سے نظم ونسق اور پر امن طریق اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی اور غیر احمدی صدران کی بے جا با توں کا قرار واقعی جواب دیا اور شرائط مناظرہ کی پابندی کی طرف توجہ دلاتے رہے۔ اس اثنا ءمیں آٹھ نو جوان مجمع میں سے اٹھ کر جن میں سے بعض گریجویٹ اور اچھے تعلیم یافتہ تھے مجمع میں سے اٹھ کر ہی میری میز کی طرف آگے بڑھے اور جب ان سے آگے بڑھنے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ ان پر احمدیت کی صداقت منکشف ہوگئی ہے اور وہ اپنے احمدی ہونے کا اعلان کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب امیر وفد نے ان کو وہاں پر اعلان کرنے سے منع کیا اور قیام گاہ پر حاضر ہونے کا ارشادفرمایا۔ چنانچہ وہ قیام گاہ پر آ کر مشرف با احمدیت ہوئے اور ان کی درخواست ہائے بیعت کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خدمت میں بھجوا دیا گیا۔ فالحمد للّٰه على ذالک

اس عظیم الشان کامیابی کے بعد جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہٴ حق کو حاصل ہوئی مجھے اپنے کشف کی تعبیر معلوم ہوئی اور سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی طرف سے جوخاص ارشاداس حقیر خادم اور حضرت میر قاسم علی صاحبؓ کو اس موقعہ پر مونگھیر جانے کا ہوا اس کی حقیقت کا علم ہوا۔ اس موقعہ پر غیر احمدی علماء کی طرف سے میرے مقابلہ کے لئے مولوی عبدالوہاب صاحب پروفیسر عربی کلکتہ کالج جو عربی زبان کے ایک ماہر استاد تھے کو مقرر کیا گیا تھا اور مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے جو ان دنوں وہاں پہنچے ہوئے تھے تمام علماء مخالفین کو یہ بتایا ہوا تھا کہ احمدی مناظر عربی زبان سے بالکل نابلد ہیں اور اس زبان میں تحریری یا زبانی مناظرہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اس وجہ سے ان کو یقین تھا کہ چونکہ احمدی علماء عربی میں مناظرہ کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گے ہماری فتح اور کامیابی کا ڈنکہ بجے گا۔

لیکن جب سلسلہ کی طرف سے غیر احمدی علماء کی توقعات کے عین خلاف میں نے عربی پر چہ لکھ کر پڑھنا اور سنانا شروع کر دیا تو سب علماء معاند ین حیران و ششدر رہ گئے اور نہ مولوی صاحب عبدالوہاب کو اور نہ کسی اور عالم کو مقابلہ پر آنے کی جراٴت ہوئی ہر ایک کے دل میں یہی خدشہ پیدا ہوا کہ اگر ہم سے کوئی صرفی یا نحوی غلطی ہوگئی تو سب کے سامنے سبکی ہو گی چنانچہ وہ سوائے شوروغل سے میری تقریر میں رخنہ ڈالنے کے اور کچھ نہ کر سکے۔

مولوی ابراہیم سیالکوٹی کی تذلیل

جب بڑے صدر صاحب نے جلسہ کے برخاست ہونے کا اعلان کیا تو مولوی محمد ابراہیم صاحب جو علماء مخالفین کے پیچھے تھے، ایک کرسی پر چڑھ کر نعرے بلند کرنے لگے ابھی نعرے کے پورے الفاظ ان کی زبان سے نہ نکلے تھے کہ مولوی صاحب کی کرسی ان کے اس بے ہودہ جوش کی وجہ سے الٹ پڑی اور وہ بری طرح زمین پر گرے ان کی ٹانگیں اوپر تھیں اور سر پیچھے۔ پگڑی کہیں دور گری ہوئی تھی اور اس پر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جن لوگوں کے سامنے انہوں نے یہ غلط اطلاع دی تھی کہ قادیانی علماء عربی بالکل نہیں جانتے، انہوں نے ان کی دروغ بیانی کے پیش نظر غصے کی حالت میں ان کو گھیر لیا اور مکوں اور لاتوں سے ان کی وہ درگت بنائی کہ الامان والحفیظ۔ الغرض مولوی صاحب کو اپنی كذب آفرینی اور تعلی اور شیخی کا پورا پورا بدلہ ان کے اپنے لوگوں سے مل گیا۔

الغرض اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر سلسلہ حقہ کو بہت بڑی فتح دی اس مناظرہ کی مختصر روئیداد مکرم حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری نے تحریر کر کے شائع کرا دی تھی۔ فالحمد للّٰه على ذالک

(حیات قدسی صفحہ 228-232)

مباحثہ مڈھ رانجھا

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ فرماتے ہیں:
بارگاہ خلافت سے میرے نام ارشاد پہنچا کہ آپ مڈھ رانجھا ضلع شاہ پور میں مباحثہ کے لئے پہنچ جائیں اور راستہ میں دعا اور استغفار پر خاص طور پر زور دیں۔ چنانچہ میں لاہور سے شام کو سانگلہ ہل پہنچا۔ وہاں پر حضرت حکیم محمد صالح صاحب سیال جو نہایت ہی مخلص احمدی تھے اور اس وقت سانگلہ میں اکیلے احمدی تھے کے ہاں قیام کیا۔ وہاں رات کو مجھے ایک نسخہ خواب میں بتایا گیا کہ ارزیز کا بھنگ میں کشتہ واقع جریان اور سرعت اور مقوی اور مبہی ہے (یہ نسخہ میں نے بارہا تجربہ کیا ہے اور مفید پایا ہے) مجھے اس وقت اس کی تعبیریہ معلوم ہوئی کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیحؓ نے مجھے جواستغفار اور دعا کرنے کا ارشاد فرمایا ہے اور جس کی تعمیل میں راستہ میں متعدد بار کرتا آیا ہوں اس کا روحانی فائدہ اور برکت مجھے حاصل ہو گی اور میں بفضلہ تعالیٰ اپنے حریف پر مباحثہ میں غالب آؤں گا۔

چنانچہ جب میں سانگلہ سے روانہ ہو کر دریائے چناب کو بذریعہ کشتی عبور کر کے دوسری طرف پہنچا تو شیخ مولابخش صاحب احمدی مع چند احباب کے میری انتظار میں تھے۔ وہ میری آمد سے بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقہ میں مولوی شیر عالم صاحب مشہور عالم ہیں جو خاندان مخدوماں میں سے ہیں وہ بار بار احمدیوں کو مبا حثہ کے لئے چیلنج دے چکے ہیں لیکن چونکہ اس علاقہ میں کوئی بڑا احمدی عالم نہیں اس لئے مرکز سے آپ کو بلوایا گیا ہے مناظرہ کا مقام موضع مذکور کی ایک مسجد قرار پایا جہاں پر گرد و پیش کے دیہات سے کثرت کے ساتھ لوگ جمع ہوگئے۔

شرائط مناظره

مباحثہ کی شرائط یہ قرار پائیں کہ میری طرف سے صداقت دعویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل از روئے قرآن شریف پیش کئے جاویں اور مولوی شیر عالم صاحب ان کی تغلیط از روئے قرآن شریف بیان کریں۔ طریق یہ مقرر کیا گیا کہ دونوں مناظر پہلے اپنے اپنےموضوع بحث کو اردو میں قلمبند کر لیں اور پھر حاضرین کو اردو یا پنجابی میں مناسب تشریح کے ساتھ سنادیں۔

چنانچہ ہم دونوں کی طرف سے پرچے لکھے گئے اور پولیس کی نگرانی اور انتظام کے ماتحت 9بجے صبح کارروائی شروع ہوئی۔ لوگ ہزارہا کی تعداد میں مسجد اور اس کے اردگرد جمع تھے۔ مولوی شیر عالم صاحب نے فرمایا کہ پہلے مولوی غلام رسول اپناپر چہ سنائیں گے اور ان کے بعد میں اپنا پرچہ سناؤں گا۔ ان کی غرض اپنی تقریر کو موٴ خر کرنے سے یہ تھی کہ وہ بعد میں اپنا تازه اثر قائم رکھ سکیں اور میری تقریر کے اثر کو زائل کر سکیں۔ میں ان کی اس چال کو سمجھ گیا لیکن مجبورا ًان کی یہ شرط قبول کرنی پڑی۔ میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ کے حضور خاص طور پر نصرت الٰہی کے حصول کے لئے دعا کی۔ جس کے بعد مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکینت اور اطمینان حاصل ہو گیا اور مجھے دعا کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بات خاص طور پر دل میں ڈالی گئی۔ کہ پرچہ پڑھنے سے پہلے خدا تعالیٰ کے حضور ان الفاظ میں دعا کر لی جائے کہ
’’اے ہمارے علیم و حکیم اور قادر و تصرف خدا! اگر تیرے نزدیک میرایہ پر چہ اور اس کا مضمون تیری رضا کے مطابق ہے تو مجھے اس کو سنانے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرما اور حاضرین اور سامعین کو سننے سمجھنے اور حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما اور اگر یہ پرچہ تیری رضا کے خلاف ہے تو نہ ہی مجھے اس پر چہ کے سنانے اور سمجھانے کی توفیق ملے اور نہ حاضرین کو سننے کی توفیق ملے۔‘‘

نصرت الٰہی کا کرشمہ

چنانچہ میں نے اس بات کا اعلان کیا کہ چونکہ اس بحث کا تعلق دین اور ایمان سے ہے اور یہ بہت نازک معاملہ ہے اس لئے ہم دونوں مناظروں کی طرف سے مندرجہ بالا الفاظ میں دعا کی جائے اور حاضر ین اس پر آمین کہیں۔ چنانچہ میں نے انہی الفاظ میں دعا کر کے (جس پر سب حاضرین نے آمین کہا) اپنا پر چہ مع تشریح کے پڑھنا شروع کیا۔ خدا تعالیٰ نے اس نا چیز اور حقیر کی روح القدس سے تائید فرمائی اور میرے قلب میں انشراح اور زبان میں خاص فصاحت و بلاغت بخشی اور میں نے صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل کے ساتھ وفات مسیح کے دلائل بھی کھول کر بیان کر دیئے۔ میں نے 9بجے صبح شروع کر کے ایک بجے اپنی تقریر ختم کی۔ سب حاضرین نے پوری توجہ اور دلچسپی سے میری تقریر کو سنا۔ اس کے بعد میں نے اپنی تقریر کے ختم ہونے کا اعلان کیا اور مولوی شیر عالم صاحب کو اپناپر چہ شروع کرنے کے لئے کہا۔ جب مولوی صاحب اٹھ کر پر چہ سنانے لگے تو میں نے کہا کہ میرے پر چہ سنانے سے پہلے جس طرح دعا کر لی گئی تھی۔ انہی الفاظ میں آپ بھی حاضرین سمیت دعا کریں۔

خدا تعالیٰ کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ جب مولوی صاحب نے مذکورہ بالا الفاظ میں دعا کے بعد پرچہ سنانا شروع کیا تو ابھی دو چار منٹ ہی ہوئے تھے کہ حاضرین کی ایک بڑی تعداد یہ کہہ کر اٹھ کر چلی گئی کہ مولوی شیر عالم صاحب جو باتیں بیان کر رہے ہیں یہ تو ہم نے پہلے بھی ان کے منہ سے کئی دفعہ سنی ہیں۔ کوئی نئی اور دلچسپ بات وہ پیش نہیں کر رہے۔ اس کے دو تین منٹ بعد لوگوں کی ایک اور بڑی تعداد اسی طرح اظہارنفرت کرتی ہوئی اٹھ کر چلی گئی۔ یہاں تک کہ ابھی گیا رہ منٹ ہی گزرے تھے کہ سوائے میرے اور دو اور آدمیوں کے سب سامعین مسجد سے چلے گئے اور پولیس بھی چلی گئی۔

جناب مولوی شیر عالم صاحب یہ منظر دیکھ کر حسرت بھری آواز سے کہنے لگے کہ اب تو سب جاچکے ہیں پر چہ کس کو سناؤں۔ میں نے کہا میں تو حسب وعدہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ آپ کا پورا پر چہ سننے کے لئے تیار ہوں لیکن وہ بقیہ پرچہ سنانے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ میں نے ان کو کہا کہ کیا آپ نے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کی صداقت کا تازہ نشان نہیں دیکھا کہ جب دونوں پر چوں کے سنانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی گئی تو میرا پر چہ اور تقریر جو اس کی رضا اور خوشنودی کا باعث تھی۔ اس کو سنانے اور سننے کی الله تعالیٰ نے خاص طور پرتو فیق بخشی لیکن آپ کو اپنی تقریر نہ سنانے کا موقعہ ملا اور نہ اس کو کوئی سننے کے لئے تیار ہوا۔ کیا یہ خدا تعالیٰ کے پاک مسیح موعود کی سچائی کا تازه نشان اور نصرت الٰہی کا زندہ ثبوت نہیں۔ سامعین اور حاضرین سب کے سب آپ کے ہم وطن اور دوست واحباء تھے اور میں ایک غریب الدیار اور اجنبی تھا لیکن خدا تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں کو میری طرف اور میری تقریر کی طرف خاص طور پر پھیر دیا اور آپ سے اور آپ کی تقر یر سے با وجود دیر ینہ تعلقات و قرابت کے نفرت پیدا کر دی۔

میری ان باتوں کو سن کر مولوی شیر عالم صاحب بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے لیکن قصبہ کے اندر ندامت اور شرم کی وجہ سے نہ گئے بلکہ مسجد کے جنوب کی طرف با جر ہ کے کھیت میں روپوش ہوتے ہوئے گاؤں سے چلے گئے۔

وہ دن خدا تعالیٰ کی نصرت کا عجیب دن تھا جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت، شوکت اور عظمت کا سکہ مڈھ رانجھا کے گھر گھر کے اندر بیٹھ گیا اور مولوی شیر عالم صاحب جو اپنے علم وفضل کے زعم میں احمدیوں کو للکارتے پھرتے تھے لومڑی کی طرح میدان سے بھاگ کر چھپ گئے۔ فالحمد للّٰه على ذالک۔

جب ہم مسجد سے نکل کر شیخ مولا بخش صاحب کے ڈیرے پر آئے تو وہاں پر آٹھ افراد جو اس نشان کو دیکھ چکے تھے بیعت کرنے کے لئے انتظار میں بیٹھے تھے انہوں نے بصد شوق اس نشان کا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے سلسلہ حقہ کے لئے ظاہر فرمایا تھا۔ اقرار کیا اور بیعت قبول کرنے کے لئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ وارضاہٗ کے حضور درخواستیں بھجوائیں۔

(حیات قدسی صفحہ 30-33)

(عبدالقدیر قمر)

پچھلا پڑھیں

جنت کی کہانی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2022